I dont need your sermons. “آپ کو میرے پاس محبت نہیں کوئی ضرورت کھینچ کر لائی ہوگی آپ بتا دیں کہ آخر اب آپ کو کیا چاہیے؟”
علیزہ نے زارا آنٹی کو یک دم کھڑے ہوتے دیکھا۔
”مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے۔’تمہارے پاس ایسا کچھ ہے ہی نہیں جوتم مجھے دے سکو تمہیں پسند ہو یا نہ ہو مگر میں تمہیں خط بھی لکھوں گی اور فون بھی کروں گی جب میرا دل چاہے گا۔ میں تم سے ملنے بھی آیا کروں گی۔”
علیزہ نے انہیں لاؤنج سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ عمر اگلے چند منٹ خاموشی سے لاؤنج کے بند ہوتے ہوئے دروازے کو دیکھتا رہا۔ پھر علیزہ نے اسے بھی لاؤنج سے غائب ہوتے دیکھا۔
علیزہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ گئی۔ اسے عمر پر بہت ترس آرہا تھا۔
”کیا واقعی اسے زارا آنٹی کی ضرورت نہیں؟ کیا واقعی یہ ان کے بغیر رہ سکتا ہے؟ یہ زارا آنٹی کو اتنا ناپسند کیوں کرتا ہے اور نانو کہہ رہی تھیں کہ یہ ان سے بہت اٹیچ تھا۔ مگر یہ تو۔”
اس کا ذہن بہت سے سوالوں میں الجھ گیا تھا۔
پچھلے دروازے سے وہ ایک بار پھر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”تو کیا عمر سوات سے اتنی جلدی اس لیے واپس آگیا تھا کیونکہ اس نے وہاں زارا آنٹی کو دیکھ لیا تھا؟ مگر زارا آنٹی کو اس نے avoid کیوں کیا اس نے اور پھر اس طرح وہاں سے چلے آنا۔ یہ زارا آنٹی سے وہاں بھی تو یہ سب کچھ کہہ سکتا تھا۔”
کپڑے بدلتے ہوئے بھی وہ مسلسل عمر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ نانو سے دوپہر کو پڑنے والی ڈانٹ بھی بھول چکی تھی۔
رات کے کھانے کی میز پر عمر نہیں تھا۔
”وہ کہہ رہا تھا اسے بھوک نہیں ہے۔ تمہارے ساتھ برگر اور آئس کریم کھا کر آیا تھا۔”
نانو نے اس کے استفسار پر اسے بتاتے ہوئے ساتھ جیسے تصدیق چاہی۔
”ہاں برگر اور آئس کریم تو کھائی تھی۔” اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”بس اسی لیے وہ اب کھانا کھانا نہیں چاہ رہا۔”
نانو نے مزید کہا، یک دم ہی جیسے اس کا دل بھی کھانے سے اچاٹ ہوگیا۔ کچھ دیر وہ کسی نہ کسی طرح چند لقمے کھاتی رہی مگر پھر اس نے کھانا چھوڑ دیا۔
”بھوک نہیں ہے میں نے بھی برگر کھایا ہے، شاید اسی وجہ سے۔”
اس نے ڈائننگ ٹیبل سے اٹھتے ہوئے نانو کو وضاحت دی۔
اپنے کمرے کی طرف آتے ہوئے اس نے عمر کے کمرے میں تاریکی دیکھی۔
”کیا وہ اتنی جلد سونے کیلئے لیٹ گیا ہے؟” کچھ حیران ہو کر اس نے سوچا تھا۔ عام طور پر وہ رات کو بہت لیٹ سوتا تھا۔ آج روٹین میں ہونے والی یہ تبدیلی فوراً ہی اس کی نظروں میں آگئی۔ کچھ دیر وہ اس کے کمرے کے آگے کھڑی رہی پھر خاموشی سے آگے بڑھ گئی۔
٭٭٭
بیڈ پر چت لیٹے ہوئے وہ تاریکی میں کمرے کی چھت کو گھور رہا تھا۔ سوات میں ماں کو اپنی فیملی کے ساتھ دیکھنے پر جس طرح وہاں سے بھاگا تھا۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، اس کی ممی اس کے پیچھے ہی لاہور آگئی تھیں۔
پچھلے چودہ سالوں میں ایسا بہت بار ہوا تھا کہ ماں کو کہیں دیکھنے پر وہ سرپٹ وہاں سے بھاگ نکلا ہو ،اور زارا اگر اسے دیکھ لیتیں تو وہ اسی طرح اس کے پیچھے آتی تھیں اور ماں کا اپنے پیچھے آنا اس طرح آنا اسے اچھا لگتا تھا۔ شاید لاشعوری طور پر وہ آج بھی منتظر تھا کہ وہ اس کے پیچھے آئے اور پھر وہ اسی طرح ماں کا ہاتھ جھٹکے جس طرح پچھلے چودہ سالوں میں جھٹکتاآیا تھا اور ماں کے ساتھ اس طرح کرنے کے بعد ہر بار وہ ایسے ہی کمرہ بند کر کے بیٹھ جایا کرتا تھا۔
”کون کہتا ہے کہ میں عمر جہانگیر میچیور ہوچکا ہوں۔ کم از کم آج جو میں نے ممی کے ساتھ کیا اس کو دیکھنے والا کوئی بھی شخص مجھے میچیور سمجھ سکتا ہے نہ ہوش مند۔” آنکھیں بند کرتے ہوئے اس نے جیسے بے چارگی سے سوچا۔
٭٭٭