”میں اس طرح بلکہ کسی بھی طرح آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ آپ بس یہاں سے جائیں۔”
”جہانگیر نے میرے خلاف تمہاری اتنی برین واشنگ کردی ہے کہ تم۔”
اس نے ایک بار پھر غصے میں ماں کی بات کاٹی تھی
”ہاں ٹھیک ہے’ کردی ہے انہوں نے برین واشنگ پھر…؟”
زارا آنٹی زرد چہرے کے ساتھ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ ”میں تم پر اتنا حق تو رکھتی ہوں کہ کبھی کبھار تمہیں دیکھ لیا کروں، تم مجھ سے بات کرلیا کرو۔”
”آپ مجھ پر کوئی حق نہیں رکھتیں۔ آپ کی اپنی فیملی ہے، گھر ہے، بچے ہیں۔ آپ اپنی زندگی ان کے ساتھ گزاریں۔ خود بھی سکون سے رہیں اور دوسروں کو بھی سکون سے رہنے دیں اور اپنا ہر حق اس اولاد کیلئے مخصوص رکھیں جو آپ کے ساتھ ہے۔”
”میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں۔”
”تو میں کیا کروں؟”
”میں جانتی ہوں، تم مجھ سے ناراض ہو۔ بہت سی باتیں ہیں جن کی میں وضاحت کرنا چاہتی ہوں۔”
”میں آپ سے ناراض ہوں نہ ہی آپ کی وضاحتوں میں مجھے کوئی دلچسپی ہے۔ میں اپنی زندگی سے بہت خوش اور مطمئن ہوں لیکن آپ میرا سکون خراب کرنا چاہتی ہیں۔”
”تم میری اولاد ہو عمر! میں نے اتنا بہت سا عرصہ تم سے رابطہ صرف اس لیے نہیں کیا کہ میں تمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میرا خیال ہے اب تم اتنے میچور ہوچکے ہو کہ ہر چیز کو سمجھ سکو صرف مجھے مورد الزام ٹھہرانے سے حقیقت نہیں بدلے گی۔”
”میں نے آپ سے کہا ہے، مجھے آپ کی کسی وضاحت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آپ میری زندگی میں اب مداخلت نہ کریں۔” اس نے اس بار تقریباً چلاتے ہوئے کہا تھا۔
”میں تمہاری زندگی میں مداخلت کر رہی ہوں؟ میں تم سے صرف ملنے آئی ہوں۔”
”میں آپ سے ملنا نہیں چاہتا تو آپ کیوں ملنے آئی ہیں۔ آپ یہاں سے جائیں۔”
”مجھے اس گھر میں آنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ تم اگر سوات میں مجھے دیکھ کر یوں واپس یہاں بھاگ نہ آتے تو مجھے بھی یہاں نہ آنا پڑتا۔”
”کس نے کہا ہے کہ میں سوات سے بھاگ آیا ہوں اور وہ بھی آپ کو دیکھ کر… میں وہاں اپنی مرضی سے گیا تھا اور اپنی مرضی سے ہی آیا ہوں اور میں آپ سے خوفزدہ نہیں ہوں، پھر ڈر کر کیوں بھاگوں گا۔” اس نے تنک کر کہا تھا۔ ” تم مجھ سے خوف زدہ نہیں ہو لیکن جہانگیر سے خوف زدہ ہو۔ اسی لیے تم مجھے اس طرح رد کرتے ہو۔”
”اچھا ٹھیک ہے، میں پاپا سے خوفزدہ ہوں پھر جب آپ یہ بات جانتی ہیں تو اس طرح مجھے پریشان کیوں کر رہی ہیں؟”
”تم اب کوئی ننھے بچے نہیں ہو عمر! بڑے ہوچکے ہو اپنے فیصلے خود کرتے ہو تمہیں میرے بارے میں بھی فیصلہ خود کرنا چاہیے اگر جہانگیر کی دوسری شادی پر تمہیں کوئی اعتراض نہیں اور تم اس کی فیملی کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکتے ہو تو پھر میری دوسری شادی۔”
اس بار ان کے لہجے میں بے چارگی تھی مگر ان کی بے چارگی نے عمر پر کوئی اثر نہیں کیا۔ اس نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹ دی تھی۔
”مجھے آپ کی دوسری شادی پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے آپ سے اور آپ کی زندگی سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے آپ نے جو چاہا کیا آپ جو چاہیں کریں میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرا پیچھا کرنے کی کوشش نہ کریں۔”
”میں تم سے سال میں چند بار ملنا چاہتی ہوں… چند بار فون پر بات کرنا چاہتی ہوں… مجھے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں چاہیے۔”
”میں آپ کی وجہ سے زندگی میں پہلے ہی بہت اذیت اٹھا چکا ہوں، اب مزید کسی پرابلم کا سامنا کرنا نہیں چاہتا۔ میں آپ سے کوئی رابطہ نہیں رکھنا چاہتا۔ یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ لیں۔”
”تم… تم بالکل اپنے باپ کی طرح بے حس ہو، خود غرض، جس طرح وہ ہمیشہ صرف اپنے بارے میں سوچتا تھا… اس طرح تم بھی صرف اپنے بارے میں سوچتے ہو۔”
”پھر آپ میرے جیسے بے حس اور خودغرض انسان کے پاس کیوں آئی ہیں۔ کیوں بار بار فون کرتی ہیں، خط لکھتی ہیں انسان میں جو self respect (عزت نفس) ہوتی ہے وہ شاید آپ میں نہیں ہے۔ میری خامیوں کی نشان دہی کرنے کے بجائے آپ مجھے چھوڑ دیں… میں تو آپ کے پیچھے بھاگتا ہوں نہ آپ کو آپ کی خامیاں جتاتا پھرتا ہوں۔”
”تم میرے بیٹے ہو۔ میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتی۔”
”آپ مجھے بہت سال پہلے چھوڑ چکی ہیں اور اس وقت بھی میں آپ کا بیٹا ہی تھا۔”
”عمر! تمہارے دل میں میرے لیے جو شکایتیں ہیں وہ ٹھیک ہیں مگر۔”
”میرے دل میں آپ کیلئے شکایت نہیں ہے۔ میں نے صرف آپ کے جھوٹ کی نشاندہی کی ہے۔”
”چند سال بعد جب تم شادی کرو گے اور تمہارے بچے ہوں گے۔ تب تمہیں اندازہ ہوگا کہ اولاد کو چھوڑنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔”
”میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ آپ نے مجھے کوئی نیا رشتہ قائم کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ آپ نے رشتوں کو کتنا زہر آلود کردیا ہے میرے لیے آپ کو اندازہ ہی نہیں۔”
علیزہ دم بخود اس کی باتیں سن رہی تھیں۔ ایک گھنٹہ پہلے والا عمر اب کہیں غائب ہوچکا تھا وہ جو کچھ دیر پہلے اسے سمجھا رہا تھا کمپرومائز کرنے کیلئے کہہ رہا تھا۔ سب کچھ بھلا دینے کی تاکید کر رہا تھا۔ اپنے ماں باپ کے پرابلمز کو سمجھنے کی نصیحت کر رہا تھا۔ وہ اس وقت وہی سب کچھ دہرا رہا تھا جو کچھ دیر پہلے وہ روتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی فرق صرف یہ تھا کہ وہ رو نہیں رہا تھا۔
”یہ سب صرف میں نے نہیں کیا… جہانگیر نے بھی کیا ہے۔”
”but you were the root cause of everything (لیکن اس کی بنیادی وجہ آپ ہیں) آپ کو بیوی بننا نہیں آتا تھا تو آپ نے پاپا سے شادی کیوں کی اگر کرلی تھی تو رشتے کو نبھاتیں۔”
”اس سب کے باوجود جو جہانگیر میرے ساتھ کرتا رہا؟”
”عورت میں برداشت ہونی چاہیے… پاپا میں اتنی برائیاں ہوتیں تو ثمرین آنٹی کیوں اب تک ان کے ساتھ ہوتیں… آپ کی طرح انہوں نے divorce نہیں لی۔”
علیزہ نے زارا آنٹی کی آنکھوں میں آنسو نمودار ہوتے دیکھے تھے۔
”جہانگیر جانور ہے، ایک ایسا جانور جسے زندگی میں اپنے علاوہ کسی دوسرے کے احساسات کا خیال نہیں، جس کیلئے سب سے زیادہ اہم اپنی خوشی ہے۔ اپنے پیر کے نیچے آنے والے گڑھے کو پر کرنے کیلئے وہ کسی کو بھی اس میں پھینک سکتا ہے چاہے وہ کوئی بہت اپنا ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے اس شخص کو چھوڑنے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے نہ ہی کوئی پچھتاوا ہے۔ تم میری اولاد ہو، تم سے میرا رشتہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔”