بہت دن نہ گزرے تھے کہ گلیوں بازاروں میں جھنڈیاں لگنے لگیں، نغمے گونجنے لگے اور تقریریں ہونے لگیں۔ روز کوئی نہ کوئی آ دھمکتا اور کبھی منت سماجت سے اور کبھی زورزبردستی سے ووٹ نامی کسی چیز کا مطالبہ کرنے لگتا۔ حسن کو سمجھ نہ آتا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ آخر ایک دن ماموں سے پوچھ لیا۔ ’’ماموں جان، یہ لوگ ووٹ کسے کہتے ہیں اور کیوں مانگتے ہیں؟ یہ قرض ہے یا تعویذ ہے کہ ہر کوئی اس کی طلب میں دیوانہ ہوا ہے؟‘‘
ماموں ہنسے اور بولے: ’’ہاں بیٹا، قرض بھی ہے اور تعویذ بھی۔ یہ وہ قرض ہے جو ہمیں چکانا ہے اور وہ تعویذ ہے جس سے حالات بدل جائیں گے۔‘‘
یہ سن کر حسن بہت خوش ہوا اور دل میں مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ بھی کہیں سے یہ ووٹ نامی تعویذ مانگ کر لائے گا اور گلے میں ڈال کر خوشی سے پھولے نہ سمائے گا۔ تقدیر سنور جائے گی، ضرور کوئی نعمتِ غیر مترقبہ ہاتھ آئے گی۔
پھر ایک دن اسے معلوم ہوا کہ اب لوگ اپنا بادشاہ خود چنتے ہیں اور اسے بادشاہ کی بجائے وزیرِاعظم کہتے ہیں اور یہ کام وہ ایک پرچی کے ذریعے کرتے ہیں۔ یہ سن کر حسن لجۂ حیرت میں غرق ہوا اور کہا: ’’یا العجب یہ کیا بوالعجبی ہے؟ کسی زمانے میں سنتے تھے کہ بادشاہ چننے کے لیے لوگوں پر ہما چھوڑا جاتا ہے، جس کے سر پر بیٹھ جائے، اسی کو بادشاہ بنا دیتے تھے۔ آج کا زمانہ تو اس سے بھی گیا گزرا ہے۔ پہلے ہُما بادشاہ چُنتا تھا، اب ہُما شُما بادشاہ چنتے ہیں۔ عجب ماجرائے تعجب خیز ہے، کون ان کے خرمنِ خرد پر آتش بیز ہے؟‘‘
اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ حسن پرچی کسے ڈالے؟ وہ تو کسی کو جانتا ہی نہ تھا کہ اسے تخت پر بٹھاتا، بادشاہ بناتا۔ اردگرد سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ نواز شریف نامی ایک بادشاہ معزول کیا گیا تھا اور اب لوگ اس کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔ حسن کو بہت ہمدردی ہوئی۔ دل میں سوچا یہ بادشاہ میری مانند ہے۔ میری طرح یہ بھی وقت کی گردش کا شکار ہوا، زمانہ در پے آزار ہوا۔ کیوں نہ اسی بے چارے کو چھینا ہوا تخت واپس دلوایا جائے۔ پھر معلوم ہوا کہ اس بادشاہ کو چوری کے الزام میں معزول کیا گیا ہے۔ حسن حیرت سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ بھلا بادشاہوں کو کب روا ہے کہ چوری کریں اور اس کارِ ذلیل میں پکڑے جائیں۔ ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ معلوم ہوا کہ ایک دوسرا شخص بھی بادشاہت کا امیدوار ہے، دھرنے دینے میں آزمودہ کار ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ شخص عمران خان نامی نہ صرف مشہورِ زمانہ کرکٹ کا کھلاڑی رہ چکا ہے بلکہ میدانِ عشق کا شا ہسواربھی ہے اور اس کے عشق ہائے نمایاں کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجتا ہے۔ یہ سن کر حسن عش عش کر اٹھا۔ بے حد خوش و محظوظ ہوا۔
الیکشن کا دن آیا تو حسن نے خود کو کمرۂ الیکشن میں پایا۔ اسے ایک کاغذ اور مہر دے کر ایک گوشۂ تنہائی میں بھیج دیا گیا۔ جوشِ الیکشن سے مغلوب ہو کر حسن نے اس پورے کاغذ پر جا بجا مہریں لگائیں اور اسے پوری طرح بھر دیا۔ افسوس کہ اسے وہ مہر واپس کرنی پڑی ورنہ حسن چاہتا تھا کہ اسے بطور نشانی ساتھ لے آئے تا کہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔
آخر وہ دن بھی آیا کہ حسن کی نوکری کا مہینہ پورا ہوا اور حسن نے اپنی پہلی تنخواہ مبلغ سات ہزار روپے نقد، نصف جس کے ساڑھے تین ہزار ہوتے ہیں، وصول پائی، حسن کی خوشی پھولے نہ سمائی۔ رقم جیب میں ڈال کر گھر کو سدھارا۔ دل میں سوچتا جاتا تھا کہ فوراً کنیز کو رقم دے کر کرن کا نمبر منگواؤں گا، اپنی معشوقۂ خوش تمثال کے دل میں جگہ پاؤں گا، لطفِ زندگانی اٹھاؤں گا۔
حسن گھر آیا تو لاؤنج میں ایک جوان مرد کو بیٹھے پایا۔ ممانی اس کے پاس بیٹھی ہنس ہنس کر باتیں کرتی تھی۔ حسن نے سلام کیا اور پاس بیٹھ گیا۔ معلوم ہوا اس شخص کا نام ارسلان ہے، ممانی کا مہمان ہے۔ اتنے میں زلیخا چائے لے کر آئی اور حسن نے دیکھا کہ ارسلان زلیخا کو میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھنے لگا۔
اتنے میں غنچۂ صبح کھلکھلایا، شہرزاد نے سکوت فرمایا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
(باقی آئندہ)