حسن طیش میں آیا لیکن کچھ بول نہ پایا۔ دل میں سوچا، یہ کیا بات ہے؟ یہ کنیز بڑی بدذات ہے۔ اس سے پیچھا چھڑانا چاہیے، کہیں اور چلے جانا چاہیے۔ یہ سوچ کر کرن سے کہا: ’’اے سروچمنستانِ صباحت و شمشادِ گلزارِ ملاحت، بعد مدت خدا نے اس گلبدن کی صورت دکھائی ہے، دلی مراد برآئی ہے کہ یار آیا، راحت وآرام جانِ زار پایا۔ اب اس وقت سیرِ باغ کی دھن سمائی ہے، جہاں ہم ہیں، تم ہو اور گوشۂ تنہائی ہے۔ چلو گلگشتِ چمن کریں، نظارۂ سروسمن کریں۔‘‘
اس تقریرِ دلپذیر کو سن کر کرن کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ چند لمحے حیرانی و پریشانی سے حسن کو دیکھتی رہی پھر کنیز کو دیکھا اور سرگوشی میں پوچھا: ’’کیا مطلب؟‘‘
کنیز نے سرہلایا اور بولی: ’’جب سے آپ کے کتے سے لڑبھڑ کے آئے ہیں، ایسے ہی ہو گئے ہیں۔ میں نے تو کہا بھی تھا بارہ ٹیکے لگوا لیں پیٹ میں۔ نہیں مانے۔ اب دیکھو الٹ گیا نا دماغ۔‘‘
یہ سن کر کرن گھبرائی، گھبرا کر بولی: ’’ہائے اللہ! کاٹتے تو نہیں؟‘‘
وہ کنیزِبدتمیز بولی: ’’ابھی تک تو نہیں۔ لیکن کل نیند میں بھونک رہے تھے۔‘‘
یہ سن کر حسن طیش میں آیا، غرا کر چلایا: ’’یہ کیا بے ہودہ سرائی ہے؟ توُ تو بالکل سڑی سودائی ہے۔‘‘
کنیز سنی ان سنی کر کے بولی: ’’اور کل تو ایک بلی کے پیچھے بھی بھاگ پڑے۔ بڑی مشکل سے جان بچی بلی کی۔‘‘
اتنا سننا تھا کہ کرن اچھل کر کھڑی ہوئی اور گھبرا کر بولی: ’’میں چلتی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر جلدی سے پھاٹک کی طرف چلی۔ ہر چند کہ حسن نے روکنے کی بہت کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی اور تیزی سے باہر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد حسن بددماغ ہو گیا، مارے غصے کے آگ ہو گیا۔ خفا ہو کر کنیز سے کہا: ’’لاحول ولاقوۃ! میں نے تیرا کیا بگاڑا تھا کہ تو نے میرے خرمنِ عیش پر یہ بجلی گرائی؟ دل تو چاہتا ہے ابھی شمشیرِ تیز سے تیری خبر لوں، دیکھتے ہی دیکھتے دو کر دوں مگر افسوس کہ یہاں کوئی شمشیر نہیں پاتا ہوں۔ بہت تلملاتا ہوں۔‘‘
کنیز نے حسن کی بات ہنسی میں اڑائی، ذرا خاطر میں نہ لائی۔ بولی: ’’میں نے تو آپ سے کہا تھا، میرے بغیر آپ کا کام نہیں بن سکتا۔ آپ خواہ مخواہ میں مجھے ڈانٹتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے، میری خدمات حاصل کر لیں۔ بس ذرا پے منٹ اچھی کیجئے گا۔‘‘
حسن تو جلا بھنا بیٹھا ہی تھا، اس تقریر سے اور بھی برا فروختہ ہوا۔ قریب تھا کہ سخت سست سنائے کہ کنیز پھر بول اٹھی: ’’میسج پہنچانے کے دو سو روپے، ملاقات کے لیے راضی کرنے کے پانچ سو روپے اور فون نمبر لاکر دینے کے دو ہزار روپے۔‘‘
حسن حیران ہوا۔ پوچھا: ’’فون نمبر کے اتنے پیسے کیوں؟‘‘
وہ مزے سے بولی: ’’پھر اس کے بعد میری ضرورت نہیں رہ جائے گی نا۔ تو پھر بتائیں، دوں نمبر؟‘‘
حسن نے اشتیاق سے پوچھا: ’’تیرے پاس اس کا نمبر ہے؟‘‘
وہ بولی: ’’میرے پاس کیا، آدھے محلے کے پاس ہے۔ ان کے فون نمبر سے میں اب تک بارہ ہزار روپے کما چکی ہوں۔‘‘
حسن نے یہ آخری بات نہ سنی کیوں کہ وہ دل میں حساب لگانے میں مصروف تھا کہ اتنی رقم کہاں سے پیدا کرے۔ بہت ردوکد کے بعد آخر کنیز سے یہ معاملہ طے پایا کہ جونہی رقم کا انتظام ہوا، حسن کنیز کو دے دے گا اور دو ہزار روپے میں نہ صرف وہ کرن کا نمبر دے گی بلکہ اس کے سامنے حسن کی بہت تعریفیں کرے گی تاکہ اس کے دل میں حسن کے لیے محبت پیدا ہو، انتہا سے زیادہ الفت پیدا ہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*