لیکن حسن کے دل میں صرف منہ بولی بہن کا خیال نہیں تھا بلکہ معشوقۂ خوش جمال بھی اس کے خیالوں اور امیدوں کا مرکز تھی۔ اس کے فراق میں آہیں بھرتا تھا، سر دھنتا تھا، تنکے چنتا تھا۔ گو دل تو چاہتا تھا کہ سیدھا اس جانِ جہاں کے گھر کو جائے اور دیدارِ یار پاکر جامے میں پھولا نہ سمائے مگر اس کے کُتے سے ڈر لگتا تھا۔ دل میں سوچتا تھا، اس سگِ پلید کو خدا جہنم میں پہنچائے، کبھی خواب میں بھی اس کی صورت نہ دکھائے، اس کے ہوتے وصال کیونکر ہوگا؟ فقط فرق ہی فراق ہوگا۔ آخر ناچار ہوکر بُندو کو فون کیا اور اس سے مشورہ طلب کیا کہ محبوب سے ملنے کی کیا صورت ہو؟
اس نے کہا: ’’بغیر نمبر لیے نہ تو تم اس سے حالِ دل کہہ سکتے ہو نہ ڈیٹ پرے جاسکتے ہو۔ بس ایک صورت ہے کہ کسی طرح اسے پیغام بھجواؤ کہ اس کے کُتے کے کاٹنے سے تم جاں بلب ہوئے تھے اور پھر امتحانوں کے صدمے کے سبب بھی مرتے مرتے بچے ہو لہٰذا آکر تمہارا حال پوچھ جائے۔ جب آئے تو اس سے فون نمبر لے لینا، اپنا دے دینا۔ بس اتنا سا کام ہے۔ اگے تیرے بھاگ لچھیئے۔‘‘
حسن کو یہ مشورہ ازبس پسند آیا۔ پہلے سوچا زلیخا سے مدد طلب کرے پھر خیال آیا وہ منع کرے گی اور سوَسوَ طرح سے ڈرائے گی۔ آخر بہت سوچ کر منّے کو بلایا اور سارا پیغام اسے رٹوایا اور حکم دیا کہ جاکر کرن کو یہ پیغام دے دے۔ منّے نے پانچ سو روپے رشوت طلب کی۔ آخر معاملہ دو سو روپے پر طے ہوا اور حسن نے وعدہ کیا کہ جب وہ آئے گی، اس کے جانے کے بعد پیسے دوں گا۔
تین چار دن تک مُنا اس کے گھر کے گرد چکر کاٹتا رہا مگر پیغام پہنچانے کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ آخر ایک دن منّا بھاگتا ہوا آیا اور حسن کو یہ خوشخبری سنائی کہ کرن کو پیغام دیا جاچکا ہے اور وہ آج شام کو چار بجے آئے گی۔
شام کو حسن نے نہادھو کر کپڑے بدلے۔ عطر لگایا اور نک سک سے تیار ہوکر معشوقۂ خوش جمال کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ چار بجے تو اٹھ کر بے تابانہ صحن میں ٹہلنے لگا کہ جونہی اس کے آنے کی چاپ پائے، فوراً دروازہ کھول دے۔ پورا ایک گھنٹہ گزر گیا۔ آخر پانچ بجے کے قریب پھاٹک کے پاس سے چوڑی کھنکنے کی آواز آئی۔ حسن نے بے تابانہ پھاٹک کا دروازہ جو کھولا تو سامنے کنیز کو کھڑا پایا۔ حسن بے حد جھلایا۔
غصے سے بولا: ’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘
اس نے سر سے پیر تک حسن کو غور سے دیکھا اور بھنویں اچکا کر بولی: ’’میں تو زلیخا باجی سے پیسے لینے آئی ہوں۔ آپ بتائیں آپ اتنی خوشبوئیں لگا کر یہاں کیوں کھڑے ہیں، بھائی جان؟‘‘
ابھی حسن کوئی جواب نہ دینے پایا تھا کہ پھر سے چوڑی کھنکنے کی آواز آئی۔ دیکھا کہ کرن چلی آتی ہے، حسن و جمال میں حوروں کو شرماتی ہے۔ حسن بے حد خوش ہوا۔ کنیز نے آنکھیں مٹکائیں اور معنی خیزی سے بولی: ’’اچھا تو یہ بات ہے۔‘‘
حسن اس معشوقہ ماہ لقا و مہر سیما کو دیکھ کر بے حد محظوظ و شاد تھا۔ روح تک مسرور ہوئی تھی، انتظار کی کلفت دور ہوئی تھی۔ چپکے سے کنیز سے بولا: “اچھا اب تم جلدی سے چلی جاؤ، بس خبردار اب یہاں نہ آنا۔‘‘
وہ مزے سے مسکرا کر بولی: ’’میں تو پیسے لینے آئی ہوں۔ لیے بغیر نہیں جاؤں گی۔‘‘
اتنے میں کرن قریب آ پہنچی۔ حسن کو دیکھ کر مسکرائی۔ حسن کو یاد آیا کہ بندو نے کہا تھا انگریزی میں حال پوچھنا اور اس کے لیے ایک جملہ بھی سکھایا تھا مگر کرن کو دیکھ کر حسن کو سب بھول گیا اور گڑبڑاہٹ میں منہ سے نکلا: ’’ہائے ہائے، ہُو آر یو؟‘‘
کنیز کھی کھی کر کے ہنسنے لگی۔ کرن بھی مسکرائی اور بولی: ’’آئم کرن۔‘‘
حسن جان گیا کہ غلط انگریزی بولی گئی، بے حد خفت ہوئی۔ اس نے جلدی سے راستہ چھوڑا تاکہ کرن اندر آجائے۔ کرن کے ساتھ ساتھ کنیزِ بد تمیز بھی بلائے بے درماں کی مانند چلی آئی۔ حسن اسے اشارے کرتا جاتا تھا کہ جس کام سے آئی ہے وہ کرے اور دفع دور ہو جائے مگر وہ ٹلتی ہی نہ تھی۔
کرن برآمدے میں بیٹھ گئی اور بصدِ ناز و دلربائی بولی: ’’آپ نے تو کہا تھا کتے کے کاٹنے سے آپ مرتے مرتے بچے تھے۔ آپ تو بالکل ٹھیک لگ رہے ہیں۔‘‘
یہ سن کر کنیز بول اٹھی: ’’لو! کتے نے کاٹا تھوڑی تھا، سونگھ کے چھوڑ دیا تھا۔ بس کچھ پنجے مارے تھے۔ ہٹے کٹے ہیں حسن بھائی تو۔‘‘