الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۴

وہ مردِ پیر دانت پیس کر بولا۔ ’’میں خوب جانتا ہوں کیسی چوٹ لگی ہے۔اچھی طرح خبر ہے مجھے بہکی بہکی باتوں کی وجہ کی۔ بچوُ، جس دن تم پکڑے گئے نا، کالج میں تمہارا آخری دن ہوگا۔‘‘ وہ نوجوان حسن کا ہاتھ دبانے لگا کہ اسے کچھ کہنے سے باز رکھے۔ لیکن حسن تو ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا، بدمست وسرشار تھا، برا بھلا کب پہچانتا تھا، کسی کا کہنا کب مانتا تھا، بولا۔ ’’ارے توُ اس دیوپلید سے ڈرتا ہے؟ اب مجھے دیکھ، میں ابھی ابھی جاتا ہوں اور اس کو سبق سکھاتا ہوں۔ یہ میرے سامنے آئے اور ذرا بھی ٹرّائے تو وہ پٹخنی دوں کہ تمام عمر نہ بھولے، ہاتھ پاؤں پھولے۔‘‘
یہ سن کر اس مردِ فرتوت نے بگڑ کر کہا۔ ’’واٹ دا ہیل؟ تمہاری رپورٹ تمہارے گھر بھیجوں گا۔ گیٹ آؤٹ آف مائے کلاس ۔۔۔ ناؤ! گیٹ آؤٹ۔‘‘
وہ کون سی زبان بولتا تھا، یہ تو حسن کو سمجھ نہ آیا مگرغصے میں کیے اس کے اشارے سے یہ ضرور معلوم ہو گیا کہ کمرے سے نکل جانے کو کہتا ہے۔ بہت بے عزتی محسوس ہوئی، ملال ہوا کہ مجھ سے یہ کیا حرکتِ ناپسندیدہ پیش آئی کہ اس مردِ بزرگ سے زبان چلائی اور ذلت اٹھائی۔ چپکے سے چلا اور وہاں سے کھسک لیا۔
باہر نکل کر ایک باغ میں جا بیٹھا اور دل میں کہنے لگا، تن بہ تقدیر ہوں، قسمت کا اسیر ہوں ۔ اب کچھ نہ بولوں گا، ایک ایک لفظ تولوں گا۔ وقت کے پھیر میں پھنسا یہاں آن پہنچا مگر باری تعالیٰ نے جان بخشی، عین احسان ہے، بندہ ضعیف البیان ہے۔
اتنے میں وہ نوجوان بھی آپہنچا۔ اس کے ساتھ چند نوجوان اور بھی تھے۔ آتے ہی ہنسنے لگے، ایک لڑکا بولا۔ ’’آج تو کمال ہی کردیا حسن نے۔ گدھا بنادیا طارق محمود کو۔ آیا تھا اسائنمنٹ لینے، حسن نے ایسا شاک دیا، بھول گیا اسائنمنٹ کو ۔‘‘
دوسرے نے کہا۔ ’’سچ سچ بتا حسن ، کتنی چڑھا کے آیا ہے؟‘‘
حسن نے کہا۔ ’’ارے یارانِ خوبرو، گلفام، نازک اندام، میں زمانِ پاستان سے یہاں آن پھنسا ہوں۔ ایک ساحرہ نے مجھے وقت کی گردش میں پھینکا اور میں یہاں آن گرا ہوں۔ خدارا میرا یقین کرو۔ ‘‘
وہ سب قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ ایک بولا۔ ’’ اس کو تو فل چڑھی ہوئی ہے۔‘‘
دوسرے نے غور سے حسن کو دیکھا اور بولا۔ ’’اوئے کیا پی کے آیا ہے؟ چرس سے تو تیری یہ حالت نہیں ہوتی۔ او تیری خیر ،کہیں ایل ایس ڈی تو نہیں لے لی؟ ابے مرجائے گا اگر اوور ڈوز ہوگئی۔‘‘
تیسرے نے کہا۔ ’’ماننا پڑے گا، بھائی میں دم ہے۔ صبح صبح دم لگا کے آگیا۔ ‘‘ یہ سن کر سب نے قہقہہ لگایا۔
پھر وہ سب مل کر گانے لگے۔’’یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں۔‘‘
کچھ دیر گانے کے بعد ایک لڑکے نے کہا۔ ’’چل اس کو کیفے لے چلیں، نشہ اتاریں اس کا۔ کوئی کلاس مس ہوگئی تو اب کی دفعہ پکا پکا ڈرا پ ہوگا۔ آخر کو اپنا یار ہے، اتنی بھلائی تو کرنی ہی چاہیے ہمیں کہ اسے کلاس میں لے جائیں۔‘‘
ان سب نے بازوؤں سے پکڑ کر اسے اٹھایااور پکڑ کر کسی باورچی کی دکان میں لے گئے جسے وہ کیفے کہتے تھے۔ وہاں جاکر حسن کو ایک ٹوٹی ہوئی کرسی میں دھکیلا اور اس سے رقم کا تقاضہ کرنے لگے تاکہ باروچی سے کچھ کھانے کو منگوائیں، خود کو لذتِ کام و دہن سے محظوظ پائیں۔ حسن بدر الدین نے کُل اَمور صاف صاف کہہ سنائے کہ میرے باپ کو ساحرہ نے بکرا بناکر عدم کو بھیجا اور مجھ کو بزورِ سحر یہاں لاپھینکا۔ رہی رقم تو وہ تو ساری زمانِ پاستان ہی میں لٹا بیٹھا تھا، اب فقیر ہوں، غربت کا اسیر ہوں۔
وہ یارانِ خوش انداز یہ سن کر کہنے لگے۔ یہ بے چارہ ٹن ہے۔ یہ کہہ کر اسے پکڑ لیا اور جیبوں کی تلاشی لینے لگے۔ وہاں درہم و دینار نہ پاکر مایوس ہوگئے، گھڑی بھر میں بے خلوص ہوگئے۔ ناراض ہوکر کچھ ایسے الفاظ حسن کی شان میں کہے جو پہلے اس نے کبھی نہ سنے تھے لیکن جن میں اس کی مرحومہ والدہ اور ناموجود ہمشیرہ کا تذکرہ تھا۔ حسن نے انہیں سمجھایا کہ خدا ان لوگوں سے خو ش ہوتا ہے جو غصے کو روکتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا اور ظاہراً کوئی وجہ بھی نہیں پاتا کہ آپ اس قدر جلد باز کیوں ہیں، میدانِ تعجیل کے یکہ تاز کیوں ہیں؟
یہ سن کر وہ پھر سے وہی واہیات نغمہ گانے لگے کہ یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں ۔ اس لہو و لعب سے فارغ ہوئے تو باورچی کو بلایا اور حکم دیا کہ کافی لاؤ۔جب کافی آئی تو حسن بدر الدین کو پلائی۔ حسن نے ایک گھونٹ بھرا ۔ چودہ طبق روشن ہوئے، کڑواہٹ نے منہ کا ذائقہ خراب کیا، بے حد و بے حساب کیا۔ غصے سے اچھل کر کھڑا ہوا اور چلایا، ’’ او لعین، پلید، ناہنجار، بدبخت، نابکار، میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ مجھے زہر پلاتے ہو؟ چاہتے ہو کہ قضا آئے اور میرا لاشہ پھڑ کتا نظر آئے؟‘‘
یہ کہہ کر وہاں سے بھاگ نکلا اور ایک سنسان کونے میں جاکر ایک درخت کے پیچھے چھپ رہا اور جنابِ باری میں دعا مانگنے لگا کہ یا خدا شرآفات سے بچا، اے ارحم الرٰحمین کرم فرما۔ اتنے میں پاس کی جھاڑی پر جو نظر پڑی تو کسی نازنین کا پلو نظر آیا۔ قریب ہوکر دیکھا تو ایک لڑکے اور لڑکی کو بیٹھا پایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لڑکے نے اس پری وش کو گلے لگایا۔ یہ دیکھ کر حسن کا دل بھر آیا۔ خود سے کہا واہ اِس زمانے میں بھی لوگ عشق کرتے ہیں، چھپ چھپ کر ملتے ہیں۔ لیکن یہاں برسرِعام اس عشق بازی کے کیا معنی؟کون ہے اس حماقت کا بانی؟
ابھی اس ادھیڑ بن میں تھا کہ وہ یارانِ عیاران جنہیں وہ کیفے میں چھوڑ آیا تھا وہاں آن پہنچے اور حسن بدر الدین کو پکڑ دھکڑ کر ڈنڈا ڈولی کرکے لے چلے اور ڈانٹا کہ چل کلاس میں ورنہ ڈراپ ہوجائے گا۔ غرض کہ سارا دن حسن کو لئے لئے پھرے، ایک کمرے سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے میں گھسیٹتے پھرے۔ حسن بدر الدین اس ماجرائے حیرت انگیز سے ازخود فراموش تھا، مصیبت کے مارے مدہوش تھا۔ سوچتا تھا خدایا یہ کیا روزِبد دکھایا۔ برا فروختہ ہوں، دل و جگر سوختہ ہوں پر اب کچھ کہنا فضول ہے ورنہ یہ لڑکے دیوانہ پاپاگل قرار دیں گے، کافی پلاکر ماردیں گے۔
قصہ مختصر حسن بدر الدین تمام دن سرجھکائے، زبان کو قفل لگائے کلاسوں میں جاتا رہا۔ بارے سہ پہر ہوئی تو اس نوجوان نے جو اسے صبح سب سے پہلے ملا تھا۔ اور جس کا نام نعیم تھا، حسن کا ہاتھ پکڑا اور اسے کالج کے دور از کار باغ میں لایا۔ حسن نے خود کو سنسان قطعے میں پایا۔ وہاں درختوں کے پیچھے ایک میلی سی دری بچھائے چار قلندر بیٹھے تھے۔ ان کے اردگرد دھواں اٹھتا تھا۔ انہوں نے حسن کو ساتھ بٹھالیا۔
نعیم نے قلندروں سے کہا۔ ’’لوآگیا اپنا ہیرو۔ اب مال نکالو، کچھ دم لگائیں ۔‘‘
ایک قلندر نے ایک کاغذ کی پڑیا کھولی۔ تمباکو کے چورے کے ساتھ کچھ ملایا اور ایک کاغذ کی نلکی میں لپیٹ کر حسن کے ہاتھ میں تھمایا۔ نلکی کے سرے پر آگ سلگائی اور حسن سے کہا۔’’لو پیو۔ فریش مال ہے۔‘‘
حسن حیران پریشان ہوا کہ اس کا کیا کرے۔ نعیم نے نلکی ہاتھ سے لے کر اس کے ہونٹوں میں دبائی اور کہا۔ ’’کش لگانا بھی بھول گیا پیارے؟‘‘
حسن حیران ہوا کہ نہ حقہ ہے نہ چلم ہے ، نہ ٹھنڈائی نہ دوائی، نہ شرباً نہ سفوفاً، کس شے کا کش لوں ؟ بے دخل وبے غش لوں؟ اتنے میں سانس جو کھینچا تو کاغذ کی نلکی سلگی اور دھواں حسن کے پھیپھڑوں میں پہنچا۔ روح نے طراوٹ پائی، نشے کی آہٹ پائی ۔ حسن بدر الدین خوش ہوا اور کش پر کش لینے لگا۔

اتنے میں گھڑ یالی نے گھڑیال پر مونگری جمائی اور مسجد سے اللہ اکبر کی آواز آئی ۔ شہرزاد نے کہا، اب سحرِ کاذب نمودار ہوئی۔ اگر خواستہ ء خدا ہے تو کل باقی حصہ سنائیں گے اور اپنے جہاں پناہ کا دل بہلائیں گے۔ 

(باقی آئندہ ) 

 

Loading

Read Previous

بال کی کھال

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!