الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۴

یہ کہہ کر وہ مردِ بزرگ جو اپنے تئیں ماموں کہتا تھا، سدھارا اور حسن بدر الدین دم بخود کھڑا روشنی کا کرشمہ دیکھا کیا ۔ شیشے کے ہنڈولے دیوار پر جڑے تھے جن سے روشنیاں پھوٹتی تھیں ۔ نہ شمع تھی نہ شعلہ تھا، نہ کوئی آتشیں گولا تھا۔ پھر بھی روشنی پھوٹی پڑتی تھی۔ مستعجب ہوکر دل میں سوچا کمال ہے، یا خدا یہ کیا حال ہے؟ یہ نور کا ہے سے ہویدا ہے؟ روشنی کہاں سے پیدا ہے؟ یہ وضع عقل سے بصیدہ ہے، یہ طلسم کا کارخانہ، دید ہے نہ شنید ہے۔ حسن وہیں کھڑا حیران و ششدر تھا ، بے قرار و مضطر تھا کہ ماموں نے دوبارہ کمرے میں جھانکا اور کہا۔ ’’ابھی تک کھڑے ہو؟ جاؤ سوجاؤ بیٹا۔ لائٹ آف کرتا ہوں ۔ تمہاری ممانی نے دیکھ لیا تو شور کرے گی ۔ پہلے ہی بل زیادہ آیا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر دیوار پر لگا ایک پرزہ دبایا۔ کھٹاک کی آواز آئی اور طلسمی روشنیاں گل ہوگئیں ۔ یہ جادو دیکھ کر حسن کے حواس گم ہوئے۔ لڑکھڑاتا ، ٹھوکریں کھاتا، اپنے کمرے کو سدھارااور جاکر بستر میں پڑ رہا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ رنج و الم گراں بار تھا، عالم نظروں میں تیرہ و تار تھا۔ انواع و اقسام کے الم ستہا تھا، سردھنتا تھا، تنکے چنتا تھا۔ دل میں سوچتا تھا، یا الٰہی یہ کس نئے زمانے اور مقام پر آیا ہوں ۔ حیر ت ہے کہ انسان ہوں یا جن ہوں یا سایہ ہوں۔ خدایا یہ کیا ماجرائے حیرت انگیز ہے، عجب واقعہ تعجب خیز ہے۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ خواب ہے یا عالمِ بیداری ہے۔ غفلت ہے یاہوشیاری ہے۔
آں چہ می بینم بہ بیداری است یار ب یا بہ خواب
قریب تھا کہ مارے غم کے دل بیٹھ جائے۔ نالہ فلک کی خبر لائے کہ با پ کا خیال آیا۔ غمِ دل نے سہارا پایا۔ باپ کی باتیں یاد آئیں کہ اے عزیز، دنیائے دوں کا یہی کارخانہ ہے، کہیں غم کی داستان، کہیں خوشی کا ترانہ ہے۔ حسن نے دل کو ڈھارس دی کہ اِ نَ اللہ مَعَ الصابرین و شاکرین آیا ہے، خدا نے خود فرمایا ہے۔ اب جو ہوں، جہاں ہوں باری تعالیٰ پر صابر و شاکر ہوں کہ میری زندگی کا ضرور کوئی سامان کردے گا۔ میری ہر مشکل آسان کردے گا۔ اب یہی میرا گھر ہے۔ یہی گھر والے، جہاں ایک ماموں ہے، ایک ممانی ہے۔ زلیخا ہے اور بزرگ نانی ہے۔ شاید میں یہیں رہتا تھا اور وہ پچھلی زندگی خواب تھی۔ صورتِ نقشِ برآب تھی۔ بس رونا دھونا بے کار ہے، فضول یہ سب انتشار ہے۔ وہ دنیا ہو یا یہ دنیا، سراسر فانی ہے۔ موت ایک دن ضرور آنی ہے۔
انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ صبح کی اذان کی آواز آئی۔ حسن نے اٹھ کر ارادہ کیا کہ نماز پڑھے لیکن مصیبت یہ آ پڑی کہ حوائج ضروریہ سے فراغت کہاں پائے اور پانی کہاں سے لائے ۔ باہر نکلنے کا یارا نہ تھا کہ وہاں دیو وعفریت پھرتے تھے اور کوتوال کے سپاہی بے قصور پکڑتے تھے ۔
ناچار اٹھ کر کمرے کا جائزہ لیا تو ایک دروازہ نظر آیا۔ اندر گیا تو عجیب ہی سماں پایا۔ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جس میں تام چینی کے دوبے ڈھنگے ظروف پڑے تھے ۔ اوپر ا ن ظروف کے چمکدار لوہے کی چرخیاں اور کل پرزے لگے تھے۔ ڈرتے ڈرتے حسن نے ایک چرخی گھمائی تو شراشر تیز پانی کی دھار آئی۔ حسن چکرایا کہ یہ کیا اسرار ہے نہ کنواں ہے نہ تالاب ہے۔ جاری فوراہء آب ہے۔ اس چرخی کو بند کرکے دوسری طرف نگاہ کی تو پانی کا لوٹا نظر آیا۔ دل میں کہا ، یہی ہے گوہرِ مقصود، فراغت پائی، پرزہ کھینچا۔ پانی کا تریڑہ آیا، سب کچھ بہالے گیا۔ اس کارخانہ ء طلسم پر حسن اش اش کراٹھا۔ اس کمرے میں ایک الماری نظر آئی۔ اسے کھولا تو ایک سے ایک عجیب وضع کی پوشاک پڑی پائی۔ قصہ مختصر، حمام کیا، کپڑے بدلے اور ہی صورت نکل آئی۔ آئینے میں صورت دیکھی، دل شاد ہوا، روح نے شادمانی پائی۔ غم و غصہ دور ہوگیا، رنج و الم کا فور ہوگیا۔
اپنے کمرے سے باہر نکلا تو دیکھا نانی برآمدے میں اپنے تخت پر بیٹھی قرآن پڑھتی ہے۔ اور کسی کمرے سے کھٹ پٹ کی آواز آتی ہے ۔ آواز کے گوش بہ گوش چلا تو اپنے تئیں باورچی خانے میں پایا۔ دیکھا تو زلیخا چولہے کے آگے کھڑی تھی اور توے پرروٹی پکاتی تھی۔ حسن بدر الدین حیرت سے انگشتِ بدنداں ہوا، سخت پریشاں ہوا۔
کہا۔’’یہ کیا ماجرا ہے؟ ماماؤں کنیزوں کے ہوتے تمہیں یہ کام کب روا ہے؟ تم زنِ خوبرو پر کالہ آتش دوش بدوش، اس الٹے توے سے ہم آغوش؟ عقل دنگ ہے، بھلا یہ کیا رنگ ہے؟‘‘
وہ مہ جبیں سرپکڑ کر بولی۔ ’’اف خدایا یہ کل سے کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟ ایک ابا کم تھے نستعلیق زبان بولنے کو؟ اب تم بھی شروع ہوگئے؟ پلیز حسن مجھے تنگ نہ کرو۔ بہت کام ہے۔‘‘
اتنے میں ممانی اندر آئی۔ حسن کو دیکھا تو بہت جھلائی، سخت غصے میں آئی۔ کہنے لگی ۔’’تم یہاں کھڑے کیا کرتے ہو؟ مل جائے گا ناشتہ، ایسی بھی کیا بے صبری۔ مفت خورا، جان کا عذاب۔‘‘
حسن نے دل میں کہا۔ ’’شامت آئی، قضا سر پر چلچلائی۔ معلوم ہوگیا کہ یہ خاتون نامعقول ہے۔ اس سے بات کرنا فضول ہے۔ ‘‘
یہ سوچ کر ٹھنڈے ٹھنڈے وہاں سے کھسک لیا اور نانی کے پاس جا بیٹھا۔ نانی واری صدقے گئی۔ روٹی منگا کر اپنے ہاتھ سے کھلائی۔ ماموں بھی وہاں آگیا۔ شعرو سخن کی باتیں سنایا کیا، دل کو گرمایا کیا۔ تینوں نے مل کر ناشتہ کیا۔ غرض بڑے لطف کی صحبت رہی۔
ناشتہ کرکے ماموں نے زلیخا کو آواز دی لیکن زلیخا کی بجائے ایک لڑکا کمسن بارہ برس کا سن، اندر سے نکلا اور بسور کر بولا۔ ’’ابا مجھے سکول چھوڑ دیجیے۔ آج پھر ویگن نکل گئی میری۔‘‘
ماموں نے کہا۔ ’’بیٹا ،میں تو زلیخا کو کالج لے جارہا ہوں، تم حسن بھائی کے ساتھ چلے جاؤ۔‘‘
لڑکے نے مچل کر کہا۔ ’’دیر ہوجائے گی۔ حسن بھائی کا کالج ایک طرف ہے، میرا سکول دوسری طرف۔ میں تو آ پ ہی کے ساتھ جاؤں گا۔‘‘
ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ زلیخا باہر آئی اور بولی۔’’ابا آپ مُنے کو لے جایئے۔ میں اُوبر بلوا لیتی ہوں۔ میں اور حسن چلے جائیں گے۔‘‘
غرض ماموں اور منا اُٹھے ، صحن سے ماموں نے ایک لوہے کا گھوڑا نکالا جس کے نیچے دو پہیئے لگے تھے۔ اس کا کل پرزہ گھمایا، گھوڑا جوش میں آیا۔ غرانے لگا، طیش میں تھرتھرانے لگا حسن گھبرایا، گھبرا کر چلایا، غل مچایا،
’’یا خدایا یہ کیا ستم ہے، یہ بلا کیسی نازل ہوئی؟‘‘
زلیخا نے ماتھے پر ہاتھ مارا اور بڑبڑاتی ہوئی اندر چلی۔ اس اثناء میں ماموں اور منا اس عفریتِ غضبناک پر سوار ہوئے۔ ایک شعلہ اس گھوڑے کے پچھواڑے سے نکلا، دھواں بلند ہوا اور تھرتھراتا، غراتا، اپنے سواروں کو لئے پھاٹک سے نکل گیا۔
ابھی حسن حیران و پریشان وہیں کھڑا تھا کہ ایک بغیر گھوڑے کی گاڑی، لوہے کی پچھاڑی پھاٹک کے پاس آئی اور پاں پاں چلانے لگی۔ سیٹیاں بجانے لگی۔ اس کا رنگ سفید تھا، خدا جانے اس میں کیا بھید تھا۔ زلیخا نے آکر کہا۔ ’’آگئی اوبر۔ چلو حسن۔ اچھا دادی اماں، خدا حافظ۔‘‘
یہ کہہ کر حسن کا بازو پکڑ کر کھینچا اور بولی۔ ’’اب یہاں کیوں جم کے کھڑے ہوگئے ہو، چلو بھی۔‘‘
حسن گھبرایا اور کہا۔ ’’ازبرائے خدا مجھ غریب الوطن پر رحم کھاؤ، بارے مجھے نہ ستاؤ۔ صاف صاف کہو کہ ماجرائے اصلی کیا ہے؟ مجھے کہاں لے جاتی ہو؟ کیوں مجھ الم رسیدہ پر قیامت ڈھاتی ہو؟‘‘
زلیخا یہ سن کر غصے میں آئی، ناک چڑھا کر چلائی۔ ’’بس کر دو اب یہ ڈرامہ، حسن۔ فائنل امتحان سر پر ہیں تمہارے، اور تم کالج بنک کرنے کے بہانے کررہے ہو؟ اب چلو، اُوبر کا میٹر چل رہا ہے، اتنے پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔‘‘
یہ کہہ کر حسن کا بازو پکڑ کر کھینچا۔ حسن نے جو دیکھا کہ کوئی دم میں مشکیں کس کر لے جائے گی، ذرا ترس نہ کھائے گی تو بازو چھڑایا اور اندر بھاگا۔ جو پہلا دروازہ نظر آیا ، حسن نے اندھا دھند کھولا اور خود کو اندر پہنچایا۔ اس کمرے کے بیچوں بیچ ایک مسہری رکھی تھی۔ حسن بھاگ کر اس کے نیچے چھپ گیا اور جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو پڑھنے لگا ۔ آیت الکرسی سے دل کو تقویت دینے لگا۔ ابھی پوری آیت الکرسی پڑھنے نہ پایا تھا کہ کسی نے پاؤں سے پکڑ کر باہر گھسیٹ لیا۔
دیکھا تو چار لوگ نظر پڑے۔ زلیخا، نانی ، وہ کنیزِ بے تمیز جو گھر میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ اور ایک اجنبی مرد جو قہربار نظروں حسن کو گھورتا تھا۔ آنکھیں فرطِ غیض سے شعلہ فشاں اور شرربار، بشرے سے غضب آشکار، اسی نے پاؤں سے گھسیٹ کر حسن کو مسہری سے نکالا تھا۔ باہر نکال کر پاؤں چھوڑا اور شکستہ دل ، پریشان حال، ستم رسیدہ ، الم زدہ حسن بدر الدین کے گال پر ایسا زور کا تھپڑ رسید کیا کہ پانچ انگلیاں چہرے پر نقش ہوگئیں۔
اتنے میں پوپھٹنے لگی تو شہرزاد خاموش ہورہی ۔ بادشاہ نے کہا۔ افسوس ہے کہ کہانی پوری نہ ہونے پائی اور صبح کی سفیدی نظر آئی۔ وہ بولی، اگر خدا نے چاہا تو کل پھر سنائیں گے، بادشاہ جمِ جاہ کی روح کو وجد میں لائیں گے۔ ملک شہریار نے دلاسا دیا اور وعدہ کیا کہ بخدا پوری کہانی سن لوں گا، تب کہیں کوئی حکم تیرے خلاف دوں گا۔ یہ کہہ کر جائے نماز کو بچھایا اورا طاعتِ حق بجالایا۔ 

Loading

Read Previous

بال کی کھال

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!