الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۴

پانچویں رات 

جانا حسن بدر الدین کا کالج اور ملنا چار قلندروں سے : 

پانچویں رات جب شاہ گیتی پناہ نے کارِ مملکت سے نجات پائی تو شہرزاد گلِ رخ و خوش الحان نے کہانی یوں سنائی کہ اے سلطانِ عالم، اس جوانِ سیہ بخت و تبہ روز گار نے جب حسن بد رالدین کے گال پر تھپڑ رسید کیا تو زلیخا غصے سے چلائی۔ ’’ہاتھ مت اٹھایئے بنے بھائی!‘‘
نانی نے اس شخص کو دو ہتڑرسید کیا اور غضب ناک ہوکر کہا۔ ’’ہاتھ ٹوٹیں کمبخت تیرے، یتیم بچے پر ہاتھ اٹھاتا ہے؟‘‘
ابھی وہ مرد کوئی جواب نہ دے پایا تھا کہ کھلے دروازے سے ممانی اندر آئی اور غصے سے بولی۔ ’’کمبخت کس کو کہہ رہی ہیں خالہ؟ میرا بیٹا ہے وہ ،میرا بیٹا۔ کسی کے باپ کالے کے نہیں کھاتا جو اسے گالیاں دی جائیں۔‘‘
نانی بگڑ کر بولی۔ ’’خوب جانتی ہوں میں کس کے باپ کا کھاتا ہے۔ اس کے باپ نے چھوڑا تھا تو بس تجھے چھوڑا تھا، اور تو پھوٹی کوڑی نہ دی اس نے اولاد کے لئے۔ میرے بیٹے کو لوٹ کر تو اِس کا گھر بھرتی ہے۔‘‘
ادھر تو یہ لڑائی ہوتی تھی ، اُدھر حسن بدر الدین زمین پر چپکا پڑا یہ سب باتیں سن رہا تھا، تنہائی اور خوف کے سبب سے سردُھن رہا تھا۔ وہ مردِ غنیم جو دو گھڑی پیشتر حسن کو پیٹ رہا تھا، اب مزے سے کھڑا تھا۔ نہ اپنے کئے پر پچھتاتا تھا، نہ دل میں شرماتا تھا۔ بس دونوں عورتوں کا جھگڑا دیکھتا تھا اور مسکراتا تھا۔ زلیخا نے جو اسے مسکراتے دیکھا تو ناراض ہوئی اور بولی۔ ’’بس یہ جھگڑا چاہتے تھے نا آپ بنے بھائی؟ جب آتے ہیں ، آگ لگا کر جاتے ہیں۔ اسی لئے تو بھابھی بھی آپ سے ناراض رہتی ہیں۔‘‘
یہ سن کر بنے بھائی کی مسکراہٹ غائب ہوئی۔ جھلا کر بولا۔’’یہاں اس کا کیا ذکر؟‘‘
زلیخا نے غصے سے سرجھٹکا اور حسن کا ہاتھ پکڑ کر اسے فرش سے اٹھایا اور بولی۔ ’’اب تم تو اٹھو۔ یہ جھگڑا تو لمبا چلے گا۔ چلنے کی کرو اب۔‘‘
بنے بھائی بولے۔ ’’لاتوں کا بھوت ہے۔ اے لڑکے سدھر جا ،اور ماما کو ستانا بند کر، ورنہ ایسی کُٹ چڑھاؤں گانا۔۔۔‘‘
حسن گھبرایا کہ ایک چانٹا اور آیا۔ جلدی سے چلا۔ بے چارہ بے دم تھا، زندگانی کا عالم درہم برہم تھا۔ زلیخا اور وہ کنیز جو جھاڑو دیتی تھی حسن کو دھکیلتی ٹھکیلتی باہر کو لے کر چلیں۔ زلیخا ملول ہوکر بولی۔ ’’حد کرتے ہیں ویسے بنے بھائی ۔ مارنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ وہ کنیزِ بدتمیز بولی۔ ’’تو اور کیا کرتے؟ حسن بھائی جان کی شکل فواد خان سے ملتی ہے اور حرکتیں رنویر سنگھ سے۔ بڑے ہائپر ہیں بھائی جان۔ بھلا کیا ضرورت تھی بڑی باجی کے پلنگ کے نیچے چھپنے کی؟‘‘
حسن کو دونوں پھاٹک تک لائیں اور باہر کھڑی گاڑی میں دھکیل کر بٹھادیا۔ گاڑی بان نے کچھ سحر پڑھ کر پھونکا اور گاڑی فراٹے بھرنے لگی۔ زلیخا نے اپنے کندھے سے چمڑے کا تھیلا اتارا اور بڑبڑانے لگی۔ ’’تنگ آگئی ہوں میں روز روز کے جھگڑوں سے۔ صبح صبح نازل ہوجاتے ہیں بنّے بھائی۔ خوامخواہ کا ہنگامہ کھڑا کردیا۔ ویٹنگ پہ کھڑی رہی اوبر۔ ستر روپے تو اسی کا کرایہ بن گیا ہوگا۔ میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں۔ تمہارے پاس کچھ پیسے ہوں گے حسن؟ حسن؟حسن ؟ حسن کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ ارے کیا ہورہا ہے تمہیں؟‘‘
حسن کا یہ حال کہ اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے تھا۔ آنکھیں پھٹی پڑی تھیں ۔ ہوش و حواس غائب تھے۔ جان پر بنی تھی۔ دانت بیٹھ گئے تھے، مٹھیاں بھینچ گئیں تھیں اور منہ سے گھگ گھگ گھگ کی آواز کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا۔
زلیخا چلائی ’’حسن تمہیں کیا ہوگیا؟‘‘
گاڑی بان بولا۔ ’’میڈم ان بھائی کو ہارٹ کا مسئلہ تو نہیں ہے؟گاڑی سائیڈ پہ کروں ؟‘‘
غرض راہ کے کنارے گاڑی روکی، حسن کو پانی پلایا، کان میں دم درود سنایا۔ بارے حسن کی جان میں جان آئی۔ زلیخا نے پوچھا، “کیا حال ہے؟ جینا کیوں وبال ہے؟‘‘
حسن نے رو کر کہا۔ ’’میرے باپ کی نصیحت تھی کہ سورۂ کہف پڑھا کرو۔ میں نے نہ پڑھی ۔ اب دجال کے ہتھے چڑھا ہوں، پور پور مصیبت میں پڑا ہوں۔ یہ بغیر گھوڑے کی گاڑی ہے، دجال کی سواری ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اس کی سواری پلک جھپکتے میں کوسوں دور پہنچے گی ۔اب میں سمجھا کہ آخری زمانے میں آیا ہوں۔ اب جینے سے بیزار ہوں، موت کا خواستگار ہوں۔‘‘
یہ تقریر سن کر گاڑی بان بولا۔ ’’میڈم ان بھائی کو ہارٹ کا نہیں برین کا مسئلہ ہے۔ انہیں مینٹل ہاسپٹل لے جائیں۔‘‘
زلیخا نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولی۔ ’’ بھائی، آپ گاڑی چلائیں۔‘‘
گاڑی پھر سے چلنے لگی، کوسوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کرنے لگی۔ اس سڑک پر بے شمار ایسی بغیر گھوڑے کی گاڑیاں چلتی تھیں جنہیں حسن پہلے دن عفریت سمجھا تھا۔ راہ کے کنارے اونچے اونچے مکان تھے، محل عالیشان تھے۔ حسن نے مارے خوف کے آنکھیں بند کرلیں اور کانپنے لگا۔ زلیخا نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’بند بھی کرو یہ سب۔‘‘ حسن نے التجا کی ۔ ’’خدارا مجھے بتاؤ کہ یہ کیا بات ہے؟ اس دجال کا اور تمہارا کیا ساتھ ہے؟‘‘
زلیخا نے ڈانٹ بتائی اور چشم خشم آلودہ دکھائی۔ ’’چپ کرتے ہو یا لگاؤں میں بھی ایک جھانپڑ؟‘‘ حسن کو ہوش آیا اور باآوازِ بلند یہ فقرہ سنایا کہ اللہ کریم کا ر ساز ہے، قادرِ مطلق و بندہ نواز ہے۔ جو چاہے معجزہ دکھائے، کسی کو خاطر میں نہ لائے۔ اے ظالم روسیاہ، اے کانے دجال، خدارا مجھے صرف اتنا بتادے کہ یہ گاڑی بغیر گھوڑے بیل کے کیونکر چل رہی ہے؟ سڑک کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔‘‘
یہ سن کر وہ دجال گاڑی بان ہنسا اور کہنے لگا۔’’بھائی کا ذہن بالکل بچوں والا ہے۔‘‘پھر پچکار کر کہنے لگا۔’’بھائی اس گاڑی کے اندر ایک چیز ہوتی ہے اسے انجن کہتے ہیں۔ وہ اندر ہی اندر سے زور لگاتا ہے تو یہ گاڑی چلتی ہے۔‘‘
یہ سن کر حسن سخت متعجب ہوا کہ یہ بھی ماجرائے عجیب ہے، داستانِ غریب ہے کہ اس سے پیشتر کبھی سننے میں نہیں آئی تھی نہ کسی نے تذکرے میں درج فرمائی تھی۔
زلیخا نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولی۔ ’’اچھے بھلے تھے تم سال پہلے تک۔ ٹھیک ہے روپیٹ کر پاس ہوتے تھے لیکن پاس تو ہوتے تھے۔ اب تو اس کا بھی مجھے کوئی چانس نہیں لگ رہا۔ لفنگے دوست بنالئے ہیں تم نے۔‘‘
یہ سن کر حسن کو اپنے پرانے دوستوں کی یاد آئی۔ دوستوں کی یاد کے ساتھ باپ کی صورت نظر آئی۔ آبدیدہ ہوکر کہنے لگا۔’’وہ غلطی اب تک یاد ہے، ہر دم نالہ و فریاد ہے۔ میرا باپ ذی قدر آدمی تھا،اور۔۔۔‘‘

Loading

Read Previous

بال کی کھال

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!