زلیخا نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’لے دے کر ایک دکان چھوڑ گئے پھوپھا تمہارے لئے۔ اس کے کرائے سے بس تمہاری فیس جاتی ہے۔ باقی خرچے دادی اور ابا پورے کرتے ہیں۔ تم کچھ تو ان کا احساس کرو۔ اپنی ڈگری لو، نوکری کرو تاکہ ماما کے طعنے نہ سننے پڑیں۔‘‘
اس بات کا جواب بہ صدِ حسرت و یاس حسن نے یوں دیا کہ ،’’ نوکری؟ آہ، میں سوداگر بچہ ہوں مگر افسوس صد افسوس کہ باپ نے داغِ مفارقت دیا اور زمانہء مہاجرت مجھ کو سہنا پڑا۔‘‘
زلیخا بولی۔ ’’بس اب بند کرو مذاق۔ آئی ایم سیریس۔ اس پورا سیمسٹر تم نے کلاسز بنک کی ہیں۔ نہ پڑھنا نہ لکھنا پھر اٹینڈنس بھی شارٹ۔ کم سے کم وہ تو ٹھیک رکھتے۔ کچھ اندازہ ہے کس مشکل سے ماما اور دادی سے چھپا یا میں نے کہ تمہیں کالج والوں نے نکال دیا ہے۔ ری ایڈمیشن کا پورا دس ہزار فائن بھی میں نے بھرا۔ اپنی ٹیوشن کی ساری انکم جھونک دی ۔اور یہ اس لئے کہ تم یہ ڈرامے کرو اور چھٹیاں کرنے کے بہانے کرو؟‘‘
حسن نے گڑگڑا کر کہا۔ ’’میرا یقین کرو، میں حسن بدر الدین نہیں ہوں ۔‘‘
زلیخا چڑ کر بولی۔ ’’تو پھر کون ہو؟‘‘
حسن نے کہا۔ ’’یعنی وہ حسن بدر الدین نہیں ہوں جسے تم جانتی ہو۔‘‘
زلیخا خاموش ہوگئی۔ پھر خود کلامی کے انداز میں بولی۔ ’’ہاں تم وہ نہیں رہے جسے میں جانتی تھی۔ خوب پرپرزے نکال لئے ہیں تم نے۔ بہر حال اب بھی وقت ہے، عقل سے کام لو۔ اٹینڈنس پوری کرو۔ یہ لو کالج آگیا ہے تمہارا۔ اب اترو اور خبردار کوئی کلاس مس کی تو۔ چلو اترو۔ افوہ اترو بھی۔‘‘
یہ کہہ کر دروازے پر لگا ایک پرزہ کھینچا ، دروازہ کھلا اور زلیخا نے دھکیل کر حسن بدر الدین کو باہر نکال دیا۔ حسن حیران پریشان سڑک پر کھڑا رہ گیا اور زلیخا دجال کی سواری میں بیٹھی زن سے چلی گئی۔
اچانک وہاں ایک نوجوان آیا۔ حسن کے کندھے پر دھموکا جمایا۔ بولا’’ہاں بھئی حسن ، واٹس اپ؟‘‘
حسن نے گڑگڑا کر کہا۔ ’’اے نوجوانِ ارجمند، آقا زادوالا تبار، کبیر و خورسند، شوخ و شنگ ، رشک گلرخانِ فرنگ یہ بتا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور میں یہاں کیونکر لایا گیا ہوں۔‘‘
وہ شوخ نوجوان خوش ہوکر بولا۔ ’’ابے یار صبح صبح؟ کس سے منگوائی؟ اکیلے اکیلے چڑھا گئے، اتنا نہیں ہوا یاروں کو بھی پوچھ لیتا۔ خیر ابھی تو چل کلاس میں۔ اپنا بھی برا وقت چل رہا ہے۔ ایک مرتبہ اور ڈراپ ہوا تو ابو گھر سے نکال دیں گے۔ ابے چل نا، کھڑا کیا دیکھ رہا ہے؟‘‘
یہ کہہ کر حسن کو گھسیٹتا ہوا لے چلا اور ایک کمرے میں جا بٹھایا۔ اس کمرے میں کئی نوجوانانِ غنچہ دہان و ماہ جبیں لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ اورعجیب وضع کی پوشاکیں پہنے تھیں۔ پردے برقعے کا نام نہیں، شرم و حیا سے کام نہیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ جو ہے پری زاد ہے، عجب حسنِ خداداد ہے۔ حسن بدر الدین کا دل قدرے سنبھلا۔ یہاں تو پریوں کا دنگل تھا، جنگل میں منگل تھا۔ عمدہ عمدہ لباس زیبِ تن، ستم کا جوبن۔ سب کی سب چست و چالاک ، باہم خوش طبعی کررہی تھیں۔وہ بڑے شوق سے انہیں دیکھنے لگا۔
اتنے میں ایک مردِ پیر ادھر آنکلا۔ آتے ہی تیوری چڑھائی اور بولا۔ ’’کلاس ! بہت برا رزلٹ آیا ہے کوئز کا۔ اگر آپ لوگوں کا یہی حال رہا تو فائنلز میں کیسے پاس ہوں گے۔ اے یُو! حسن بدر الدین، تمہاری اسائنمنٹ نہیں ملی مجھے ابھی تک۔ پاور پوائنٹ پر یزنٹیشن تیار کی ہے؟ فوراً فوراً پریذنٹ کرو اور اسائنمنٹ ہینڈ اوور کرو۔ کم آن جلدی کرو ،جلدی۔‘‘
حسن بدر الدین اس وقت دل ہی دل میں شاداں و فرحاں تھا، بخت پرنازاں تھا۔ دل میں خود سے کہتا تھا جانی تم بڑے مزے میں آئے، ایک چھوڑ بیسوں خوباں پری وش سے ملاقات ہوئی۔ اللہ اللہ کہاں وہ رنج والم تھا، نصیب میں ساری خدائی کا غم تھا۔ اب اتنی ساری پریوں سے دل بہلاؤں گا، راجہ اِندر سے بڑھ جاؤں گا۔ اس خوشی میں چوُ ر تھا، مست ومخمور تھا، ڈینگ کی لینے لگا اور اس مردِ پیر سے بولا۔ ’’ارے جلدی کا کیا شور مچاتا ہے؟ ہم تو پہلے ہی سمجھے کہ تو جلد باز ہے، فسوں ساز ہے۔ شیخ سعدی کہہ گئے ہیں کہ تعجیلِ کارشیاطین بوُد۔ کارِ شیطانی چھوڑو، اس جلد بازی سے منہ موڑو۔ ٹھنڈی کرکے کھاؤ، ذرا آدمیت کو کام میں لاؤ۔‘‘
کمرے میں سناٹا چھا گیا۔
وہ نوجوانِ غنچہ دہاں جو حسن بدر الدین کو وہاں لایا تھا گھبرا کر سرگوشی میں بولا۔ ’’ابے کیا بک رہا ہے؟ یہ کھڑوس فیل کردے گا۔ ‘‘ پھر اونچی آواز میں بولا۔ ’’سر، حسن کی طبیعت بہت خراب ہے۔ سر میں چوٹ لگ گئی ہے۔ اس لیے بہکی بہکی باتیں کررہا ہے۔‘‘