’’الف لیلہ دو ہزار اٹھارہ داستان ‘‘
چوتھی رات
دیکھنا حسن بدر الدین کا جادو کے کرشمے اور ملنا صغیر و کبیر سے:
چوتھی رات ہوئی تو بادشاہ شہرزاد کے پاس آیا اور حکم دیا کہ کل کی کہانی کا بقیہ حصہ ہم کو سناؤ اور دو گھڑی ہمارا دل بہلاؤ۔ وہ رشکِ پری بہ صد نازِ دلبری بولی کہ بادشاہ کی خوشی ہرطرح منظور ہے۔ ہم اس میں راضی ہیں جو مرضیءحضور ہے۔ خدا جہاں پناہ کو خضروالیاس کی عمر عطا فرمائے اور دشمنوں کی ایک تدبیر نہ چلنے پائے۔
نہ کیوں ہو تیرے دستور العمل سے شادماں عالم
کرم کرنا تیری عادت، جفا سے تجھ کو بیزاری
مقابل میں ترے خواہانِ زینت ہواگر دشمن
کرے زخموں سے تیری تیغ اس کے تن پہ گلکاری
اس تقریرِ خوشامدانہ کے بعد شہرزاد یوں گلفشاں ہوئی، زمزہ سنج بیاں ہوئی کہ جب وہ مردِ مسلمان، خوش آواز و خوش الحان حسن بدر الدین کے گلے لگ کے زارزار رونے لگا، اشکوں سے منہ دھونے لگا تو حسن کا دل جو پہلے ہی رنج والم سے معمور تھا، مزید بھر آیا اور وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بہت دیر تک دونوں روتے رہے۔ جب گریہ وزاری اور آہ و بے قراری سے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا تو حسن نے پوچھا۔ ’’آپ کون ہیں اور زار زار کیوں روتے ہیں؟ کیا میری طرح آپ کے بھی نصیب سوتے ہیں؟‘‘
یہ سن کر اس مردِ خوش گلو نے سرد آہ بھری اور کہا ۔’’کیا پوچھتے ہو بیٹا۔ یہ تو وہ سوال ہے جو میں آج تک خود سے پوچھتا آیا ہوں۔ میں کون ہوں، کہاں ہوں ، جہاں ہوں وہاں کیوں ہوں۔ بلھیا کی جاناں میں کون؟‘‘
یہ تقریرِ دلپذیر سن کر حسن مزید چکرایا، کچھ سمجھ نہ پایا۔ اس مردِ مسلمان نے جو حسن کے چہرے پر ایک رنگ آتے ایک جاتے دیکھا تو ہمدردی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا۔ ’’خیر، مجھے چھوڑو اپنی سناؤ ۔ سب خیر تو ہے۔ اتنی رات گئے کیوں جاگتے ہو؟ کیا آج پھر ممانی نے کچھ کہہ دیا؟‘‘
حسن نے بصدِ عاجزی اپنا حال عرض کیا اور کہا۔ ’’ایک زنِ مکارہ کہ ساحرہ بدانجام تھی، نے میرے باپ کو بزورِ جادو بکرابنایا، ملکِ عدم کو پہنچایا۔ مجھے زمانے کی گردش میں پھینکا اور میں یہاں آن پہنچا۔ اب کیونکر یہاں سے جاؤں کہ بستہ ء تقدیر ہوں۔ سلسلہ ء قضا میں اسیر ہوں۔ یہ بڑی طویل کہانی ہے، خلاصہ یہ کہ موت کی مہمانی ہے۔‘‘
وہ مردِ بزرگ غور سے حسن کی داستان سنتا تھا، بولا ’’اچھا اچھا، کالج میں ڈرامہ کررہے ہو؟ خوب، بہت خوب ۔ اچھے ڈائیلاگ ہیں۔ کس کی تحریر ہے؟ آغا حشر؟ چلو اسی بہانے کچھ کتابیں ادب کی پڑھوگے۔ ذہن وسیع ہوگا۔ آج کل کتابوں کو کون پوچھتا ہے۔ دن بھر دکان پر بیٹھا مکھیاں مارتا ہوں اور کتابوں سے گرد جھاڑتا ہوں۔ افسوس کیسے کیسے گوہرِ نایاب گاہکوں کے انتظار میں بوسیدہ ہورہے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ مردِ پیر آبدیدہ ہوا، اپنی خوش کلامی سے حسن کا پسندیدہ ہوا۔ حسن بدر الدین کہ سودا گر بچہ تھا، دکان کا نا م سن کر کان کھڑے ہوئے، پوچھا۔ ’’کتابوں کی دکان ہے آپ کی؟‘‘
وہ بولا۔ ’’لیجیے سنیے اب افسانہء فرصت مجھ سے۔
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
ٹھیک کہتے ہو۔ کتابیں نہیں کہنا چاہیے۔ زروجواہرہیں، لعل و گوہر ہیں، بزرگوں کے نسخے ہیں۔ لیکن کوئی ان کا قدر دان نہیں۔ بِکری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اوپر سے مہنگائی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ بجلی کا بل اس مہینے اتنا آیا ہے کہ سوچتا ہوں بجلی کٹوادوں۔ آج سارا دن واپڈا کے دفتر کے چکر لگاتا رہا ہوں۔ رشوت مانگتے۔۔۔‘‘ ابھی یہ تقریر جاری تھی کہ یکایک کمرہ روشنیوں سے جگمگا اٹھا ۔ وہ مردِ خوش آوا ز بولا۔ ’’لو آ گئی محترمہ لائٹ۔ لو بیٹا اب اپنے ماموں کو اجازت دو۔ تم بھی جاکر سوجاؤ، صبح کالج جانا ہوگا۔ ‘‘