زلیخا کی فکر سے نجات پائی تو حسن کو بچھڑی ہوئی محبوبہ کی یاد آئی۔ ہر دم اسی کا خیال تھا، فراق باعثِ رنج و ملال تھا۔ آہِ دردناک اور ٹھنڈی سانسیں بھرتا تھا۔ دن کو پریشانی و بے قراری تھی، شب کو گریہ و زاری تھی۔ ہر روز کرن کے مکان کے آگے سے گزرتا تھا اور کسی نہ کسی بہانے رک کر اس امید پر کھڑا ہو جاتا تھا کہ شاید اوپری منزل کی کھڑکی کھلے اور اس ستمگر کا جھمکڑا نظر آئے۔ لیکن اس کی پیاری صورت نظر نہیں آتی تھی، نجانے وہ کھڑکی میں کیوں نہیں آتی تھی۔
صرف یہی ایک وجہ نہیں تھی جس نے حسن کا جینا محال کر رکھا تھا اور بھی بہت سی وجہیں تھیں جن میں سرِفہرست تو یہ تھی کہ زلیخا اس کے پیچھے پڑی تھی کہ کالج میں دوبارہ داخلہ لے اور پڑھائی شروع کرے۔ دوسری طرف بنےّ بھائی اور ممانی تھے جو ہر دم اسے فیل ہونے کے طعنے دیتے تھے۔ تیسری طرف نسیمہ باجی کا دکھ تھا جن کے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ سب سے آخر میں نانی تھیں جن کا اصرار تھا کہ وہ زلیخا کا رشتہ عاصم سے کرانے کی کوشش کرے اور ان سب سے سوا کنیز تھی جو اٹھتے بیٹھتے پچھلے محلے والے آفتاب بھائی کا ذکر کر کے حسن کے زخموں پر نمک چھڑکتی تھی اور اس کی حالت سے حظِ وافر اٹھاتی تھی۔
بے چارہ حسن عشق کے مارے والہ و مفتون تھا، غم کے مارے مجنون تھا۔ نہ کھانے پینے کا ہوش تھانہ کپڑے لتے کا۔
جمعہ کے دن نانی نے صبح صبح حسن کو پکڑ لیا۔ گلے لگایا، ماتھا چوما اور بلائیں لے کر کہا:
‘‘ماں صدقے، طبیعت ٹھیک ہے تیری؟ اتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں نہ کپڑے بدلتا ہے نہ کہیں آتا جاتا ہے، نہ ڈھنگ سے کھانا کھاتا ہے۔ بخار تو نہیں تجھے؟’’
یہ کلماتِ شفقت انگیز سے تو حسن کا دل بھر آیا مگر افشائے حال پر اخفائے راز کو ترجیح دی اور مسکرا کر بات ٹالی۔
نانی نے کہا: ‘‘دیکھ تیری داڑھی اور بال کتنے بڑھ گئے ہیں۔ آج جمعہ کا دن ہے، جا میرا بچہ، جا کر بال کٹوا۔ داڑھی بھی بنوا۔ پھر نماز پڑھنے جانا۔’’
بموجبِ ہدایت حسن نے صابن سے منہ ہاتھ دھویا اور حجام کی دکان کو گیا۔ حجام نے بڑھ کر استقبال کیا اور جھٹ پٹ اسے کرسی پر بٹھایا اور گردن کے گرد کالا کپڑا لپٹایا۔ اپنی قینچیاں استرے نکال کر سامنے رکھے اور پوچھا: ‘‘کیا کروائیں گے سر؟ ہیئرکٹ کروائیں گے یا داڑھی گروم کروائیں گے؟’’
حسن کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ انگریزی میں کیا کہتا ہے۔ لہٰذا خود ہی کہا: ‘‘بال کاٹ دو اور خط بنا دو۔’’
حجام نے کہا: ‘‘واہ سر، کیا بات ہے، سنا ہے جو شخص جمعے کے دن ہیئرکٹ کروائے گا، ضرور جنت میں جائے گا۔’’
یہ کہہ کر جھپٹ کر حسن کے ہاتھ پکڑے اور ناخن دیکھتے ہوئے بولا: ‘‘اور یہی بات ناخن کٹوانے کے بارے میں بھی ہے۔ مینی کیور پیڈی کیور بھی کروا لیں سر۔ زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ ’’
پھر یکایک حسن کے گال پر ہاتھ پھیرا اور کہا: ‘‘چہ چہ کتنی رف ہو رہی ہے آپ کی سکن۔ کل کی اپائنمنٹ دے دیتا ہوں آپ کو فیشل کی۔ بلیک ہیڈز بھی ہو رہے ہیں۔ سٹیم دے کر سب نکال دوں گا۔ پالشر بھی لگا دوں گا تو سکن چمک جائے گی آپ کی۔ تو پھر کون سا فیشل بک کروں، سر؟ ہربل، جینسن، وائٹننگ۔ ہمارے پاس ہر طرح کا فیشل دستیاب ہے۔’’
حسن پہلے ہی اپنے حال سے بے زار بیٹھا تھا۔ حجام کی لن ترانیوں سے اور بھی جل بھن گیا۔ گھرک کر کہا: ‘‘کجا خط اور حجامت بنانا، کجا یہ بے جا تقریر سنانا۔ تم خط بناتے ہو یا صرف باتیں بناتے ہو؟ تم بس حجامت بناؤ اور اس فضول اور اول جلول تقریر سے باز آؤ۔’’
یہ سن کر حجام نے ایک لمبی سی پٹی نکالی جس پر یکساں فاصلے سے عد لکھے ہوئے تھے۔ جھٹ پٹ اسے کھولا اور حسن کے بالوں کی لمبائی ناپنے لگا۔ حسن نے پریشان ہو کر کہا: ‘‘یہ کیا کرتے ہو؟’’
حجام نے مستعدی سے حسن کے ماتھے کا ناپ لیتے ہوئے کہا: ‘‘سر میں آپ کے ہیئرز کی لینتھ دیکھ رہا ہوں۔انچی ٹیپ سے ناپتا ہوں ، اس سے مجھے اندازہ ہو جائے گا کہ آپ پر کون سا کٹ سوٹ کرے گا۔ جس طرح ڈفرنٹ فیس کٹس پر ڈفرنٹ لکس سوٹ کرتی ہیں، اسی طرح سر کی شیپ کے مطابق ہم لوگ ڈفرنٹ ہیئرکٹس کرتے ہیں۔ لیٹیسٹ فیشن کا کٹ دینے کے لیے ضروری ہے کہ میتھمیکٹس اور سائنس کو کام میں لایا جائے۔ نیا زمانہ ہے سر، آرٹ اور سائنس مل کر کام نہیں کریں گے تو یہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔’’
حسن نے پریشان ہو کر کہا: ‘‘تم جان کھا گئے، ناک میں دم کر دیا۔ اب میرے دماغ میں اس قدر قوت نہیں ہے کہ میں اس بک بک کو روا رکھوں۔ تم اپنی لسانی و خوش بیانی، گپ ولن ترانی رہنے دو۔ حجامت بناؤ اور میرا پیچھا چھوڑو۔ میرا سر نہ پھراؤ، معاف فرماؤ۔’’
یہ سن کر حجام نے جھپٹ کرایک تیز چمکتا ہوا استرا اٹھایا اور بجلی کی سی تیزی سے حسن کی شاہ رگ پر رکھ کر خونخواہ لہجے میں چلایا: ‘‘یوں ہوتا ہے قتل۔’’
اتنے میں آفتابِ جہاں تاب افقِ چرخِ بریں سے نمودار ہوا، صبح کاسفید اآشکار ہوا۔ شہرزاد نے یہاں کا قصہ یہاں چھوڑا، داستان گوئی سے منہ موڑا۔ بادشاہ نے نماز ِسحر ادا کی اور دیوانِ خاص کی راہ لی۔
٭……٭……٭
(باقی آئندہ)
٭……٭……٭