بات ادھوری چھوڑ کر زلیخا نے ہاتھوں میں منہ چھپا لیا اور رونے لگی۔
حسن نے طیش سے کہا۔ ‘‘میں باہر ہی بیٹھا تھا،مر تو نہ گیا تھا۔ مجھے کیوں نہ بتایا؟’’
زلیخا نے آنسو پونچھ کر کہا: ‘‘میں تو اس کو benefit of doubt دیتی رہی۔ یہی سمجھتی رہی کہ میں ہی اوور ری ایکٹ کر رہی ہوں، یہ تو چیک اپ کر رہا ہے۔ وہ تو جب میں دروازے تک پہنچی تو اس نے مسکرا کر کہا، آپ کا فگر بہت اچھا ہے۔ مجھے curvy عورتیں پسند ہیں۔’’
یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔
حسن بدر الدین کی قسمت اچھی تھی کہ اسے یہ آخری بات سمجھ نہ آئی۔ ورنہ اسی وقت جاتا، یا مرتا، یا مار آتا۔
اس نے ڈانٹ کر زلیخا سے کہا: ‘‘میں سمجھ نہیں پاتا ہوں اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں پاتا ہوں کہ ایک عورت ہوتے ہوئے تم آخر ایک مرد ڈاکٹر کے پاس کیوں گئیں؟ کیا دنیا کی عورت ڈاکٹریں مر گئی تھیں؟’’
زلیخا نے سرجھکایا اور منمنا کر کہا: ‘‘غلطی ہو گئی۔’’
‘‘بھگتو پھر اس غلطی کی سزا۔’’حسن نے ڈپٹ کر کہا۔ ‘‘سب قصور تمہارا اپنا ہے۔ تمہیں اس کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔’’
حسن زلیخا کو ڈانٹتا تھا اور بہت باتیں سناتا تھا۔ زلیخا چپکے سے کان دبائے حسن کی گھرکیاں جھڑکیاں سنتی تھی۔
آخر جب حسن کی لعن طعن حد سے سوا ہوئی تو اس سے رہا نہ گیا۔ بسور کر بولی: ‘‘مجھے کیا پتا تھا وہ یہ کچھ کرے گا۔ بڑا نوبل پروفیشن ہے ڈاکٹری۔ میں تو اسے مسیحا سمجھی تھی۔ کیا پتا تھا مسیحا کے بھیس میں شیطان ہے۔’’
حسن نے غصے سے کہا: ‘‘ایک مرتبہ پہلے بھی تمہیں سمجھایا تھا کہ ہر ایرے غیرے مرد پر اعتبار کر لینا داخلِ از حماقت ہے، نری آفت ہے۔ کیا معلوم کس کے اندر کون سا شیطان چھپا بیٹھا ہے؟ میں پوچھتا ہوں آخر اس بے وقوفی کا کیا سبب ہے؟ آخر تم کسی عورت ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں گئی؟ ــ’’
زلیخا نے تنگ آکر کہا: ‘‘ٹوٹل آٹھ لیڈی ڈاکٹرز ہیں اس ہسپتال میں۔ ان میں پانچ گائنی کی ہیں۔ وہ بچے ڈیلیور کرانے میں مصروف تھیں۔ دو چھٹی پر تھیں اور آٹھویں کی ڈیوٹی ایمرجنسی میں لگی تھی۔ میرے حصے میں تو آجا کر یہ ڈاکٹر شکیل ہی آیا۔ اس پر بھروسہ کر کے پچھتا رہی ہوں۔’’
حسن نے کہا: ‘‘اسی لیے تو کہتا ہوں امتحان دوبارہ دو اور ڈاکٹر بنو۔’’
زلیخا رونا بھول کر ہکا بکا حسن کی صورت دیکھنے لگی۔ پھر نظریں چرائیں اور آہستہ آواز میں بولی: ‘‘اس بات کا یہاں کیا ذکر؟’’
حسن نے زور دے کر کہا: ‘‘اسی بات کا تو یہاں ذکر ہے۔ اگر عورتیں ڈاکٹر نہیں بنیں گی تو ایسے ہی بھیڑیوں کے ہتھے چڑھیں گی۔’’
زلیخا نے چڑ کر کہا: ‘‘ساری عورتیں تو ڈاکٹر نہیں بن سکتیں۔’’
حسن نے ترنت جواب دیا: ‘‘جو بن سکتی ہیں، انہیں تو بننا چاہیے۔’’
زلیخا خفگی سے بولی: ‘‘میں نہیں بن سکتی۔ میری قسمت میں ڈاکٹر بننا ہوتا تو پہلی مرتبہ میں ہی کامیاب ہو جاتی۔ اتنے سالوں کی محنت ضائع نہ جاتی۔’’
حسن نے طنز سے کہا: ‘‘قسمت میں ڈاکٹر بننا نہیں؟ تو پھر کیا قسمت میں یہ ہے کہ ایسے ڈاکٹران ِ پلید کے ہتھے چڑھو اور آٹھ آٹھ آنسو روؤ؟’’
زلیخا نے ٹھنڈا سانس بھرا اور بولی: ‘‘اف حسن! چھوڑ دو پیچھا، معاف کرو، غلطی ہوئی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ یہ ایسا نکلے گا۔ میں نے تو سوچا بڈھا ہے، بے ضرر ہو گا۔’’
حسن نے کہا: ‘‘میری ایک بات تا زندگی یاد رکھنا، کبھی بڈھوں پر اعتبار نہ کرنا۔ بڈھے جوانوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، کیوں کہ کھیلے کھائے، آزمودہ کا رہوتے ہیں، بہت بے باک ہوتے ہیں۔’’
زلیخا دم بخود رہ گئی۔ پھر آہستہ سے بولی: ‘‘ٹھیک کہتے ہو۔ کاش یہ بات کسی نے مجھے پہلے بتائی ہوتی۔’’
یہ کہہ کر خاموش ہو ئی، پنبہ درگوش ہوئی۔ سوچ میں گم چپ چاپ بیٹھی رہی۔
اچانک حسن بدرالدین اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا اور چلا کر نعرۂ مستانہ بلند کیا۔ ‘‘می ٹو۔’’
زلیخا نے گھبرا کر کہا۔‘ ‘شش آہستہ بولو، کوئی جاگ جائے گا۔ یہ کیا کہہ رہے ہو؟’’
حسن اچھل کر کرسی پر بیٹھ گیا اور جوش سے بولا: ‘‘می ٹو۔ می ٹو۔’’
زلیخا بھونچکا رہ گئی۔ ‘‘کیا؟ یعنی اس نے تمہیں بھی؟ لیکن کب؟ میں تو وہاں تمہارے پاس ہی تھی۔ حد ہو گئی۔ یعنی ڈاکٹر شکیل نے تمہیں بھی؟ یعنی curvy عورتیں بھی اور ہینڈسم مرد بھی؟ حد ہو گئی۔’’
حسن نے زلیخا کے اس حواس باختہ کلام ِلا یعنی کو نظرانداز کیا اور یوں افشائے راز کیا۔
‘‘تم ڈاکٹر شکیل کے پاس اس لیے گئیں کہ تم نے اسے مسیحا سمجھ کر اس پر اعتبار کیا۔’’
زلیخا نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔
حسن نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ‘‘اور تم اس کے پاس اس لیے گئیں کیوں کہ مجبوری یہ تھی کہ کوئی عورت ڈاکٹر اس کام کے لیے میسر نہ تھی۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘ہاں لیکن……’’
حسن نے بات کاٹ دی۔ ‘‘اور اس لیے کہ تم اپنی معصومیت میں یہ سمجھیں کہ کردار کا تعلق عمر سے ہوتا ہے۔ بڈھا ہے تو ضرور بے ضرر ہو گا۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘حسن پلیز، میں نے کہا نا مجھ سے……’’
حسن نے بات کاٹ کر جوش سے کہا: ‘‘اب یاد کرو کہ تم نے مجھے می ٹو کی کیا تعریف بتائی تھی۔’’ زلیخا خاموشی سے حسن کی صورت دیکھنے لگی۔
حسن نے جوش سے کہا: ‘‘تم نے کہا تھا کہ جو مرد عورتوں کی معصومیت، اعتماد یا مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کے خلاف وہ می ٹو کی مہم چلاتی ہیں، انہیں خوب سبق سکھاتی ہیں۔’’
زلیخا بدستور یک ٹک حسن کو دیکھتی رہی۔
حسن نے کہا: ‘‘گو دنیا گزاشتنیی و گزشتنی ہے مگر ایسا ڈاکٹر نابکار بھی ضرور لائقِ گردن زدنی ہے۔ اس بدبخت سے بدلہ لینا چاہیے۔ می ٹو کی سولی پر چڑھا دینا چاہیے۔’’
زلیخا نے نظریں چرائیں اور آہستہ سے بولی ‘ ‘ نہیں’’۔
حسن بے حد حیران ہوا، پریشان ہو کر کہا، ‘‘نہیں؟ کیا مطلب نہیں؟’’
زلیخا نے رنج سے کہا۔ ‘‘یہ میں جانتی ہوں اور میرا خدا جانتا ہے کہ میرے ساتھ ظلم ہوا۔ لیکن جب اس ظلم کی کہانی میں دنیا کو سناؤں گی تو جانتے ہو کیا ہو گا؟’’
حسن نے ناسمجھی سے کہا: ‘‘ کیا ہو گا؟’’
زلیخا تلخی سے ہنسی اور بولی: ‘‘وہی ہو گا جو ابھی، اس وقت اس صحن میں ہوا۔ لوگ مجھ سے عین وہی باتیں کہیں گے جو تم نے کہیں۔ مجھے ہی قصوروار ٹھہرائیں گے، مجھی پر انگلیاں اٹھائیں گے۔ وہی سوال پوچھیں گے جو تم نے پوچھے ……..تم اس وقت کیوں نہیں بولیں؟ اتنی دیر سے کیوں خیال آیا؟ مرد ڈاکٹر کے پاس گئیں ہی کیوں؟ سب قصور تمہارا ہے۔ گھر میں رہتیں، باہر کیوں نکلیں؟ پیٹ درد تھا تو سہتی کیوں نہ رہیں؟ تکلیف تھی تو زندہ ہی کیوں رہیں؟ مر کیوں نہ گئیں؟’’
زلیخا کی آواز بھرا گئی۔ ‘‘یو نو حسن! عورت کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات اپنے کردار کی صفائی دینا ہے۔ میں نے ڈاکٹر شکیل کا ظلم برداشت کر لیا۔ لیکن خود پر اٹھنے والی انگلیاں نہیں برداشت کر سکوں گی۔’’
یہ کہہ کر زلیخا نے آنسو پونچھے اور اٹھ کر چلی گئی۔ حسن دم بخود وہیں بیٹھا رہ گیا۔
٭……٭……٭