الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۱

بندہ عشق کے نام پر قربان ہو، جان نکلنا آسان ہو۔’’
یہ سن کر کنیز نے زلیخا کی طرف دیکھا اور بڑبڑائی: ‘‘توبہ ،بڑا ہی چھوٹا دل ہے بھائی جان کا۔’’ پھر حسن سے مخاطب ہوئی: ‘‘آپ فکر نہ کریں بھائی جان، میں کرن باجی کو بتا دوں گی کہ آپ مرنے والے ہیں۔’’
جب حسن اپنے بستر پر لیٹ گیا تو زلیخا نے کہا: ‘‘کنیز، تم جا کر دادی اماں کو چائے بنا کر دو، تھک گئی ہیں بے چاری۔’’
وہ چلی گئی تو زلیخا نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور کرسی گھسیٹ کر حسن کے بستر کے پاس آبیٹھی۔ چند لمحے حسن کو دیکھتی رہی پھر نرم لہجے میں بولی: ‘‘دیکھو جو ہوا سو ہوا۔ اب آگے کی سوچو۔’’
حسن نے کہا: ‘‘میں ہسپتال نہیں جاؤں گا۔ وہاں کے حکیم لوگوں پر آفت ڈھاتے ہیں، قبر میں زندہ دفن کر آتے ہیں۔’’
زلیخا نے گہرا سانس لیا اور تحمل سے بولی: ‘‘ہاسپٹل کی بات نہیں کر رہی، تمہارے رزلٹ کی بات کر رہی ہوں۔ میں نے چیک کیا ہے، سارے سبجیکٹس میں فیل ہو تم۔ لیکن یہ اتنی بڑی بات نہیں کہ تم علاج کرانے سے انکار کر دو اور مرنے کی باتیں کرنے لگو۔’’
حسن کا دل بھر آیا۔ گلوگیر آواز میں بولا: ‘‘میری وجہ سے نانی جان کو ازحد صدمہ پہنچا ہے۔ یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔’’ یہ کہہ کر زارزار رونے لگا۔
یہ بات سنی اور حسن کو روتے دیکھا تو زلیخا کی آنکھ بھی ڈبڈبائی، مگر سنبھل کر بولی: ‘‘تم دادی اماں کے صدمے کو خوشی میں بدل سکتے ہو۔ سال تو تمہارا ضائع ہو ہی گیا ہے۔ اب کالج میں سال ریپیٹ کرو، سب کلاسز اٹینڈ کرو۔ پورا سال محنت کرو گے تو اگلے سال انشا اللہ فلائنگ کلرز کے ساتھ پاس ہو گے۔’’
حسن نے کوئی جواب نہ دیا۔ چپ چاپ لیٹا آنسو بہاتا رہا۔ زلیخا کو بہت ترس آیا۔ آگے ہو کر حسن کا ہاتھ تھپتھپایا اور ہمدردی سے بولی: ‘‘فیل ہونا اتنی بڑی بات نہیں ہے کہ انسان زندگی کے خواب چھوڑ دے۔ پھر سے کوشش کرو، دوبارہ امتحان دو۔ پھر سے پکڑ لو اپنی زندگی کی باگ اپنے ہاتھوں میں ۔’’
حسن نے بے اختیار زلیخا کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا: ‘‘اور اگر یہی بات میں تم سے کہوں تو؟’’
زلیخا کا رنگ اڑ گیا۔ تیزی سے ہاتھ کھینچا اور کہا : ‘‘کیا مطلب؟’’
حسن نے کہا: ‘‘تم نے بھی تو ایک امتحان میں ناکامی کے بعد اپنے خوابوں کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ برا مت ماننا اور یہ مت سمجھنا کہ میں غرور و عجب و کبر کے باعث یہ سوال کرتا ہوں اور اس لیے پوچھتا ہوں کہ میں خود فیل ہو گیا ہوں۔ میرا صدمہ اپنی ذات کے لیے نہیں ہے، نانی جان کے لیے ہے، لیکن تم تو دن رات اپنی جان پر صدمے اٹھاتی ہو۔ انواع و اقسام کے رنج و الم سہتی ہو۔ سردھنتی ہو، تنکے چنتی ہو۔’’
زلیخا حیرت و بے یقینی سے بے ساختہ بول اٹھی: ‘‘تمہیں کیسے معلوم ہوا؟’’
حسن نے کہا: ‘‘جب بھی تمہارے ڈاکٹر ہونے کا ذکر ہوتا ہے، تمہاری مسکراہٹ پھیکی پڑ جاتی ہے، آواز بھرّا جاتی ہے۔ سب سے چھپ کر آنکھیں پونچھتی ہو۔ یہ میری نظر سے اوجھل تو نہیں۔ کوئی اندھا بھی ہو تو اسے بھی نظر آجائے۔’’
زلیخا ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ مسکرائی اور ملال سے بولی: ‘‘میرے گھر والے تو اندھے نہیں۔ انہیں تو آج تک پتا نہیں چلا کہ ۔۔۔وہ کیا محاورہ بولتے ہو تم؟ ہاں، کہ میں رنج سہتی ہوں، سردھنتی ہوں تنکے چنتی ہوں۔’’
ابھی حسن جواب دینے ہی کو تھا کہ دروازے پر کھٹکا ہوا۔ زلیخا تیر کی سی تیزی سے اٹھی اور دروازہ کھول دیا۔ باہر کنیز جو دروازے سے کان لگائے کھڑی تھی، گرتے گرتے بچی۔ زلیخا نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا اور ڈپٹ کر بولی: ‘‘تم یہاں کیا کر رہی ہو؟’’
کنیز نے اطمینان سے اپنے کپڑے جھاڑے اور شرمندہ ہوئے بغیر بولی: ‘‘میں تو آپ سے یہ پوچھنے آئی تھی کہ آپ چائے پئیں گی؟’’
زلیخا نے کہا: ‘‘نہیں۔ تم جا کر دادی اماں کو چائے دو۔’’
کنیز نے سنی ان سنی کر کے اندر جھانک کر حسن کو دیکھا اور ٹوہ لیتے ہوئے بولی: ‘‘اور بھائی جان کو نہ دوں؟’’
زلیخا نے کہا: ‘‘نہیں ،حسن دودھ کے ساتھ دوا لے گا۔ تم جاؤ کام کرو اپنا۔’’
کنیز ڈھیٹ بنی وہیں کھڑی رہی اور تجسس سے حسن کو دیکھ کر بولی: ‘‘ویسے بھائی جان کو ہوا کیا ہے؟’’
زلیخا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، ڈانٹ کر بولی: ‘‘گلے میں انفیکشن ہے اور بخار ہے۔ اب تم جاؤ گی یا نہیں؟’’
کنیز آنکھیں گھما کر بولی: ‘‘میں نے تو کچھ فیل ہونے کا ذکر سنا ہے۔’’
زلیخا یکدم گھبرائی، بے ساختہ بولی: ‘‘کس سے سنا ہے؟’’
کنیز نے آنکھیں مٹکائیں، کان کھجایا اور بولی: ‘‘ابھی آپ ہی کہہ رہی تھیں بھائی جان کو۔ کچھ فیل ہونے کی بات۔’’
زلیخا لمحے بھر کو گڑبڑائی، پھر سنبھل کر بات یوں بنائی: ‘‘وہ تو میں اسے کہہ رہی تھی کہ پانی زیادہ پیا کرے ورنہ گردے فیل ہو جائیں گے۔’’
کنیز نے ترچھی نظر سے زلیخا کو دیکھا اور تمسخر سے بولی: ‘‘آپ بڑی کوئی ڈاکٹر ہیں۔’’
یہ کہہ کر مڑی اور چلی گئی۔ زلیخا جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی۔ ایک خفیف نظر حسن پر ڈالی۔ پھر خود بھی باہر نکل گئی۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۰

Read Next

عبادالرحمن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!