دم کے دم میں بنّے بھائی آوارد ہوئے۔ انہیں دیکھ کر حسن کا رنگ زرد ہو گیا، دل سرد ہو گیا۔ مثل بیہ لرزاں ہوا، از بس خائف و ہراساں ہوا۔
ممانی نے بنّے بھائی کو حسن کے بخار کا حال سنایا اور بتایا کہ رات بھر اول فول بکتا رہا ہے۔ بنّے بھائی نے تیوری چڑھا کر کہا: ‘‘کیوں بھئی کیا تماشہ لگا رکھا ہے؟ کیا ہوا ہے؟ بیٹ میں درد ہے؟ گلا خراب ہے؟ کھالی ہو گی کوئی الٹی سیدھی چیز؟ ہیں؟’’ـــــــ
ادھر بنّے بھائی تو سوال پہ سوال پوچھتے تھے اور ادھر حسن کا یہ حال کہ سکتے کے عالم میں خاموش پنبہ درگوش۔
تنگ آکر بنّے بھائی نے تھپڑ دکھا کر کہا: ‘‘بولتا کیوں نہیں؟ یا لگاؤں دو؟’’
زلیخا جلدی سے مدد کو آئی اور بولی: ‘‘کل صبح سے کچھ نہیں کھایا اس نے۔ کمزوری سے کچھ بولا نہیں جا رہا بے چارے سے۔اسے ہاسپٹل لے جانا بہت ضروری ہے۔’’
بنّے بھائی نے جز بز ہو کرکہا: ‘‘میں نے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ اتنا انتظار نہیں کر سکتا۔ فوراً فوراً لے کر چلو ہسپتال تو چلتا ہوں ورنہ گھر رکھوا سے۔ شام کو فارغ ہوا تو لے جاؤں گا۔’’
نانی نے کہا: ‘‘نہ بیٹا تو جا اپنے کام سے۔ میں اور زلیخا لے جائیں گے اسے۔’’
بنّے بھائی اور ممانی کمرے سے چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی حسن چونچال ہو گیا۔ مزاج بحال ہو گیا۔ خوشی خوشی ناشتہ کیا اور نانی اور زلیخا کے ساتھ ہسپتال کو چلا۔
وہاں پہنچے تو ایک کمرے میں لے جائے گئے اور حسن کو ایک سفید پلنگ پر لٹا دیا۔ ایک ادھیڑ عمر آدمی سفید جبہ پہنے آیا اور آکر حسن سے مزاج کا حال پوچھا۔
حسن نے کہا: ‘‘کیا عرض کروں حکیم صاحب۔ کل سے ایک خبر ایسی سنی کہ طبیعت کا اور ہی رنگ ہے، عقل دنگ ہے۔ دردِ دل کے باعث دردِ سر ہوا اور جسم میں ایسی آگ سی لگی کہ معلوم ہوتا تھا، چکا جاتا ہے۔ اسی تبخیر کی وجہ سے غش آگیا اور ابخرے سے دماغ کی طرف متصاعد ہوئے۔’’
اس تقریرِ دلپذیر کو سن کر حکیم کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ چند لمحے آنکھیں پھاڑے حسن کو دیکھتا رہا پھر زلیخا سے بولا: ‘‘برین انجری لگتی ہے۔ بی ہیویئر میں کوئی تبدیلیاں تو نہیں آئیں پچھلے دنوں؟’’
زلیخا نے ٹھنڈا سانس لیا اور بولی: ‘‘بہت تبدیلیاں آئیں ہیں، ڈاکٹر صاحب۔ اس کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ یہ پرانے زمانے سے آیا ہے۔ ہر چیز پر عجیب طرح سے ری ایکٹ کرتا ہے۔’’’
‘‘ہوں۔’’ ڈاکٹر نامی حکیم نے سوچتے ہوئے کہا: ‘‘میں سائیکاٹرسٹ کو بھی ریفر کر دیتا ہوں۔ آپ ان کے برین کا ایم آر آئی کرا لیجئے۔’’
زلیخا نے ہچکچا کر پوچھا: ‘‘اس کے کیا چارجز ہوں گے ڈاکٹر صاحب؟’’
ڈاکٹر نے کہا: ‘‘تیرہ ہزار۔’’
زلیخا کا رنگ بدل گیا۔ بے بسی سے نانی کی طرف دیکھا۔ نانی نے کچھ دیر سوچا پھر بولیں۔
‘‘آپ کرا دیجئے، ڈاکٹر صاحب ۔ہم پیسوں کا بندوبست کر لیں گے۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘اور تب تک کے لیے بخار اتارنے کی دوا دے دیجئے۔’’
ڈاکٹر نے ایک عجیب وضع کا آلہ حسن کے سینے پر رکھا، دو ٹونٹیاں کانوں میں ٹھونسیں اور حسن سے کہا: ‘‘سانس لیجئے۔’’
حسن متحیر ہوا، دل میں سوچا۔ ‘‘یہ کیا ماجرا ہے؟ سانس تو میں ہمہ دم لے رہا ہوں۔ بھلا یہ آلہ میرے سینے پر رکھ کر یہ میرے دل کا کون سا راز جاننا چاہتا ہے؟ نہ نبض پکڑی نہ علالت کا حال پوچھا۔ خیر دیکھتا ہوں یہ کیونکر پیش آتا ہے۔ مار ڈالتا ہے یا جان بچاتا ہے۔ جب تک سارا حال نہ دیکھوں گا ہرگز یہاں سے جنبش نہ کروں گا۔’’
ڈاکٹر نے ٹونٹیاں کان سے اتاریں اور کہا: ‘‘چیسٹ تو کلیئر ہے۔’’
یہ کہہ کر ایک چپٹا سا آلہ نکالا اور حسن سے کہا: ‘‘آآآ کریں۔’’
اور جب حسن نے آآآ کرنے کے لیے منہ کھولا تو آلہ حسن کے منہ میں ٹھونس دیا۔ حسن کا سانس بند ہو گیا اور وہ اونکنے لگا۔ ڈاکٹر نے آلہ حسن کے گلے سے نکالا اور کہا: ‘‘گلے میں کچھ انفیکشن لگ رہی ہے۔’’
یہ کہہ کر ایک تیسرا آلہ نکالا اوور حسن کے ماتھے پر رکھا۔ ٹوں ٹوں کی آواز آئی اور ڈاکٹر نے تشویش سے کہا: ‘‘ایک سو تین بخار ہے۔’’
حسن یہ باتیں سنتا تھا، نت نئے آلے دیکھتا تھا اور سوچتا تھا: ‘‘یاالٰہی، عجب جادو کا کارخانہ ہے۔ یہ حکیم ہے یا افلاطون کا نانا ہے؟’’
اب حکیم ڈاکٹر نے ایک چوتھا آلہ نکالا اور اس کے ساتھ کچھ جادو منتر کیا۔ حسن خوش ہوا اور تجسس سے سوچا کہ پہلا آلہ سینے سے لگایا تھا، دوسرا منہ میں ٹھونسا تھا، تیسرا ماتھے پر رکھا تھا، اب دیکھئے اس چوتھے آلے کی باری کہاں آئے۔ شاید گردن سے لگائے یا کان میں دبائے مگر ڈاکٹر کے دماغ میں جانے کیا سمائی یا پھر شاید شیطان نے اسے انگلی دکھائی کہ حسن کا بازو پکڑ کر آستین الٹی اور دم کے دم میں آلے کے سرے پر لگی سوئی گوشت میں گھونپ دی۔
حسن کی چیخ نکل گئی اور سمجھ گیا کہ اب یہ مردِ بزرگ مار ہی ڈالے گا، دم بھر نہ ٹالے گا۔ اب میں مفت میں جانِ شیریں گنواتا ہوں، موت کے منہ میں جاتا ہوں۔ یہ سوچ کر سکوت اختیار کیا، خموشی سے کام لیا اور یہ سوچ کر چپکا ہو رہا کہ یہ دنیا سراسر فانی ہے، موت ایک دن ضرور آتی ہے۔ یاس و ناامیدی کے سبب سے سر دھننے لگا، تنکے چننے لگا۔
اب سنئے کہ وہ آلہ جس کے سر ے پر سوئی لگی تھی، اس میں کوئی ایسی جڑی بوٹی بھری تھی کہ ادھر ڈاکٹر نے اسے حسن کے جسم میں داخل کیا، ادھر دوائی نے اثرِ عاجل کیا۔ موت تو نہ آئی البتہ ٹھنڈے پسینے آنے لگے اور تھوڑی ہی دیر میں بخار اتر گیا۔ ڈاکٹر نے پھر وہ آلہ حسن کے ماتھے پر رکھا۔ ٹوں ٹوں کی آواز آئی اور ڈاکٹر نے خوش ہو کر کہا: ‘‘بخار ہنڈرڈ پر آگیا ہے۔’’
اب جو حسن اٹھ کر بیٹھا تو نہ سر چکراتا تھا نہ دل گھبراتا تھا۔ سمجھ گیا کہ دوا نے جسم میں بخوبی و بہ عنوانِ مناسب، جیسا کہ منظور و مدِنظر تھا، سرایت کی اور اس دوا کی گرمی نے بڑا کامل اثر دکھایا۔اب مرض کا نام و نشان نہ تھا، بخار بلائے جان نہ تھا۔
حسن بدرالدین اس علاجِ نایاب اور نسخہء لاجواب سے متحیر ہوا اور ایسا خوش و خرم ہوا کہ اٹھ کر ڈاکٹر کے ہاتھ چوم لیے اور کہا: ‘‘اے طبیبِ حاذق، مسیح الزماں، جالینوسِ دوراں، توُ طبِ یونان جدید و قدیم کا ماہر ہے۔ تو ُنے نہ کوئی دوا کھلائی نہ تبرید پلائی۔ بس ایک سوئی چبھوئی اور مجھے شفائے کامل ہوئی، دم کے دم میں صحت حاصل ہوئی۔ سبحان اللہ جنابِ باری نے اپنی صنعت ِ بالغہ سے کیا کیا بندے پیدا کیے ہیں اور ان کو کیسے کیسے ہنر عطا کیے ہیں۔ تیری خوش سلیقگی پر ہر فردِ بشر کو استعجاب ہے۔ واللہ تیرا طرزِ علاج لاجواب ہے۔’’
حسن کی یہ باتیں سن کر زلیخا نے سر پکڑ لیا۔ نانی کی آنکھ بھر آئی۔ البتہ وہ حکیم طبیب نامِ نامی جس کا ڈاکٹر تھا، شفقت سے مسکرایا اور بولا: ‘‘نو پرابلم ینگ مین۔ اب گھر جاؤ اور مزے سے سو جاؤ۔ کسی چیز کی ٹینشن نہیں لینی۔ ٹھیک ہے؟ شاباش۔’’
پھر زلیخا سے آہستہ آواز میں بولا: ‘‘میں اینٹی بائیوٹک کا کورس لکھ رہا ہوں، پابندی سے دیں اور ایم آر آئی ضرور کرائیں۔ ان کے دماغ کو کوئی ٹرامیٹک چوٹ پہنچی ہے، اس کی انوسٹیگیشن ضروری ہے۔ یہ سلپ لے جائیے اور ایم آر آئی ڈیپارٹمنٹ میں دکھا کر ٹائم لے لیجئے۔’’
یہ کہہ کر ایک پرچی پر کچھ لکھ کر زلیخا کے ہاتھ میں تھمایا۔ حسن مع نانی و زلیخا خوش خوش باہر آیا ۔ چلتے چلتے ایک حجرے میں پہنچے درودیوار جس کے ایسے سفید تھے کہ نور کا جھمکڑا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی نفاست و لطافت سے ماحول کا جو بن دوچند تھا، انسان کے نام سے وہاں صرف ایک مردِ معقول پسند تھا۔