”کیا بیچتی وہ۔۔۔؟ اُس کے پاس نقلی زیور کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔” اُسی طرح اُسے دیکھتے ہوئے مومن نے اُسے جواب دیا تھا۔
”ہوسکتا ہے وہ تصویریں بیچی ہوں جو عالیان نے اُس کی محبت میں بناکر اُس گھر کی دیواروں پر سجائی تھیں۔”
وہاں کچھ دیر کے لئے خاموشی چھائی تھی۔ قلبِ مومن کا دماغ جیسے بھک سے اُڑا تھا۔ وہ کن تصویروں کی بات کررہی تھی؟ اُس کے ذہن کے کینوس پر جیسے کوئی یاد لہرائی تھی۔ سلطان کے آنے سے پہلے اپنی اور حسنِ جہاں کی گفتگو۔۔۔
”آپ تصویریں کیوں اُتار رہی ہیں؟” قلبِ مومن نے حسنِ جہاں کو سلطان کے آنے سے پہلے دیواروں سے تصویریں اُتارتے دیکھ کر حیران ہوکر ماں سے پوچھا تھا۔
”دیواریں بُری لگ رہی ہیں اس لئے اور یہ تصویریں پرانی بھی ہوگئی ہیں اس لئے۔”
اس کے بار بار سوالوں پر حسنِ جہاں بار بار کوئی اور وجہ بتارہی تھی اُن تصویروں کے اُتارنے کی ۔ اُن تصویروں کو سلطان کے جانے کے بعد مومن نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ رقص کرتی ہوئی حسنِ جہاں کی طہٰ کے ہاتھ سے بنی ہوئی تصویریں۔
قلبِ مومن نے مومنہ کو دیکھا تھا۔ وہ اُسے دیکھے بغیر کہہ رہی تھی۔
”عالیان جیسے خطاط کے ہاتھ سے بنی ہوئی عالیہ کے حسن کو خراج تحسین پیش کرتی ہوئی وہ تصویریں۔۔۔ کیا اثاثہ سمجھتی ہوگی عالیہ اُن تصویروں کو لیکن اپنے بیٹے کے لئے وہ اُنہیں بھی بیچنے کو تیار ہوگئی۔ اپنے بیٹے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وہ اپنی اور عالیان کی محبت کی نشانی بیچ دیتی ہے تو کیا عالیان غضب ناک نہیں ہوگا۔۔۔ ہونا چاہیے اُسے غصے سے پاگل۔۔۔”
قلبِ مومن کے سر میں یک دم درد اُٹھا تھا۔۔۔ شدید درد flashesکی شکل میں اُس کی آنکھوں کے سامنے ایک بار پھر اُن تصویروں کو دیواروں سے اُتارتی ہوئی حسنِ جہاں آئی تھی۔
”اللہ ہمیں چیزیں کیوں نہیں دیتے۔۔۔ جیسے سب کو دیتے ہیں؟” اُس کے کانوں میں اپنی آواز لہرائی تھی۔
”ہمیں بھی دیں گے۔۔۔” حسنِ جہاں کی پچکارتی آواز ۔
”کب دیں گے؟” اُس کا اصرار ۔
”بہت جلد۔”
قلبِ مومن یک دم اُٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔
”میں ایک سگریٹ پی کر آتا ہوں۔”
وہ کسی سے نظریں ملائے بغیر بغیر رُکے وہاں سے کہہ کر باہر نکل آیا تھا۔ سگریٹ نے اُس کے درد میں کمی نہیں کی تھی۔ وہ کسی کو بتائے بغیر وہاں سے گھر آگیا تھا۔ اُس نے اپنا فون بند کردیاتھا۔ سر کا وہ درد جیسے کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ اور ماضی کسی فلم کی ریل کی طرح آوازوں اور شکلوں میں اُس کے اردگرد گھومنے لگا تھا۔۔۔ طہٰ کا چہرہ ، حسنِ جہاں کا چہرہ، اُس کا اپنا چہرہ۔۔۔ اور وہ لیٹر باکس ۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کاٹیج کے باہر برآمدے میں سات آٹھ سالہ قلبِ مومن لکڑی کے بہت سارے ٹکڑے ، کیل اور ہتھوڑی لئے فرش پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ لکڑی کے اُن ٹکڑوں کو ایک لیٹر باکس کی شکل میں جوڑنے کی کوشش کررہا تھا۔ دو ٹکڑوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر اُس نے کیل اُن دونوں ٹکڑوں میں ٹھونکنے کے لئے رکھی اور پھر ہتھوڑی کی پہلی ضرب لگائی اور پہلی ضرب کے ساتھ ہی اُس کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی تھی۔ اور چیخ سنتے ہی اندر سے حسنِ جہاں بھاگتی ہوئی آئی تھی۔ مومن اپنا بایاں ہاتھ دائیں سے پکڑے ہوئے وہیں بیٹھا رو رہا تھا۔ وہ لپکتی ہوئی آئی اور حواس باختہ اُس کے پاس فرش پر بیٹھ گئی تھی۔
”کیا ہوا۔۔۔؟ کیوں رو رہے ہو مومن؟”
”ممی۔۔۔ ممی۔۔۔”
مومن نے ہچکیوں سے روتے ہوئے کچھ کہنے کی بجائے اپنا ہاتھ اُس کے آگے کردیا تھا۔ اُس کی ایک انگلی خون آلود تھی۔ حسنِ جہاں نے بے اختیار اُس کی اُنگلی پکڑی تھی اور اپنی قمیض کا دامن جیسے اُس کی انگلی کے گرد لپیٹ کر خون روکنے کی کوشش کی۔
”کیا ہوا ہے اُنگلی کو… کیا کررہے تھے تم؟” وہ روہانسی اُس سے پوچھ رہی تھی۔
”لیٹر باکس بنارہا تھا۔” اُس نے ہچکیوں میں کہا تھا۔
”کیا کرنا تھا تم نے لیٹر باکس کا؟” ایک ہاتھ سے اُس کی انگلی ہاتھ میں پکڑے وہ دوسرے ہاتھ سے اُس کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے بولی تھی۔
”خط بھیجنا تھا۔” اُس نے ماں کو بتایا۔
”تو وہ سڑک پر بنے ہوئے لیٹر باکس میں ڈالتے۔” اُس نے کچھ حیران ہوکر مومن کو دیکھا تھا۔
”وہاں سے نہیں جاتا۔” ماں کے ہاتھ میں اُس کی انگلی کا درد جیسے تھمنے لگا تھا۔
”کیوں۔۔۔؟ وہاں سے کیوں نہیں جائے گا؟” اُس کی ماں نے حیران ہوکر اُس کا چہرہ دیکھا تھا۔
”آپ ہی تو کہتی ہیں کہ اللہ میاں وہاں ہوتے ہیں جہاں کوئی نہیں ہوتا۔” ہچکیوں اور سسکیوں میں اُس نے جو کہا تھا اُس نے حسنِ جہاں کو خاموش کردیا تھا۔
”تم اللہ کو خط لکھنا چاہتے ہو؟” عجیب حیرت کے عالم میں اُس نے بیٹے سے پوچھا تھا اور اُس نے تھمتی سسکیوں کے درمیان سرہلایا۔
”کیوں؟” اُس نے مومن سے پوچھا تھا۔
”کیونکہ مجھے اللہ سے بہت ساری چیزیں لینی ہیں۔۔۔ چاکلیٹس۔۔۔کینڈیز۔۔۔ نئے کپڑے۔۔۔ جوتے۔۔۔ کھلونے۔۔۔ سائیکل۔”وہ اُسے چیزیں گنواتے گنواتے رونا بھول گیا تھا اور حسنِ جہاں اُس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ مومن بچہ نہ ہوتا تو ماں کے چہرے کی بے بسی پڑھ لیتا۔
اُسے اندر لے جاکر اُس کا ہاتھ دُھلوا کر اور اُنگلی پر بینڈیج کرکے وہ اُسے واپس برآمدے میں لے آئی تھی۔ میں بنادیتی ہوں تمہیں لیٹر باکس۔” اُس نے فرش پر لکڑی کے اُن ٹکڑوں کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”اور مومن جب تم اللہ کو خط لکھا کرو تو میرے لئے بھی خط لکھا کرنا۔” اُس نے لکڑیوں کو ترتیب دیتے ہوئے عجیب سے انداز میں مومن سے کہا تھا۔ جو اُس کے پاس ہی آلٹی پالٹی مارے بیٹھ گیا تھا۔
”آپ کے لئے کیا لکھا کروں خط میں؟” اُس نے کچھ حیران ہوکر ماں سے کہا۔
”دعائیں۔” حسنِ جہاں نے اُس سے کہا تھا۔
”چیزیں نہیں چاہیے آپ کو؟” مومن نے جیسے حیران ہوکر ماں سے پوچھا تھا۔
”جیسے زیور۔۔۔کپڑے۔۔۔ لپ اسٹک۔۔۔” اُس کے ذہن میں جو چیزیں آئیں اُس نے جیسے ماں کو بتاتے ہوئے کہا تھا۔
وہ بے اختیار ہنسی اور اُس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
”چیزیں تمہیں دے دے اللہ اور تمہارے لئے دعائیں وہ میری قبول کرلے۔” مومن نے ماں کی بات پر غور نہیں کیا تھا اُس کی توجہ اُس لیٹر باکس پر تھی جو حسنِ جہاں اب جوڑنا شروع کرنے کے لئے ہتھوڑی اور کیل اُٹھا رہی تھی۔
”ممی میں چلاؤں گا ہتھوڑی۔” اُس نے بے اختیار حسنِ جہاں سے کہا تھا۔ وہ ایک لمحہ کے لئے رُکی پھر اُس نے ہتھوڑی مومن کے ہاتھ میں تھمادی تھی۔
”یہ لو میں کیل رکھتی ہوں تم ٹھونکو۔” اُس نے دو ٹکڑوں پر ایک کیل رکھتے ہوئے مومن سے کہا۔ مومن نے بے حد جوش کے عالم میں ہتھوڑی اُس کے ہاتھ سے لی۔ اور پھر وہ اُسے اُٹھا کر اُس کیل پر مارتے مارتے رُ ک گیاجو حسنِ جہاں پکڑے ہوئی تھی۔
”کیاہوا ؟” حسنِ جہاں نے اُسے رُکتے دیکھ کر پوچھا۔
”آپ کو چوٹ لگ گئی تو۔۔۔؟” مومن نے بڑے فکر مند انداز میں پوچھا۔
”نہیں لگتی۔۔۔ تم اتنے زور سے تھوڑی ماروگے۔” حسنِ جہاں نے مسکراتے ہوئے اُس سے کہا۔
”ممی میں پکڑتا ہوں کیل۔” مومن جھجھک رہا تھا۔ اُس نے حسنِ جہاں کے ہاتھ سے کیل پکرنے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں بیٹا تم مت پکڑو کیل۔۔۔ چوٹ لگی ہے تمہیں پہلے بھی۔ میں نے پکڑی ہوئی ہے نا تم بس ہتھوڑی چلاؤ۔” حسنِ جہاں نے اُسے کیل پکڑنے نہیں دی تھی۔ مومن نے جھجکتے جھجکتے ہتھوڑی اُٹھائی۔ اور پوری قوت سے کیل پر دے ماری۔
٭…٭…٭
قلبِ مومن کے کمرے میں اندھیرا ہوگیا تھا۔ کتنا وقت گزرا تھا اُسے اندازہ نہیں تھا۔ مگر وہ ٹھیک نہیں تھا۔ وہاں آکر وہاں اکیلے بیٹھ کر بھی وہ اُسی کیفیت میں تھا۔
مومنہ سلطان کو ن تھی۔۔۔ ؟ اُس کا حسنِ جہاں سے کیا تعلق تھا۔۔۔؟ وہ کیسے سب کچھ جانتی تھی۔۔۔؟ اور کیا کیا جانتی تھی وہ ۔۔۔؟
اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے قلبِ مومن کو اب اس کے علاوہ کسی اور چیز میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔
٭…٭…٭
”بس تو بھی صبح سویرے چل پڑتا ہے۔ مجال ہے تجھے پروا ہو۔۔۔ ہاں ہاں پتہ ہے تجھے کام ہے۔۔۔ سٹار ہے تو۔۔۔ کوئی عام لڑکا تھوڑی ہے تو۔۔۔ پر ناشتہ نہیں کرے گا بیٹا۔۔۔ تو صحت خراب ہوجائے گی تیری۔۔۔اور اوپر سے الماری میں کپڑوں کپڑوں کا حال دیکھ کیا کررکھا ہے تو نے۔۔۔؟ ایسے رکھتے ہیں سٹار اپنے کپڑوں کو ۔۔۔ اور تو تو صرف سٹار بھی نہیں ہے۔۔۔ تو تو ہیرو ہے۔۔۔ سارا پاکستان مرتا ہے تجھ پر ۔۔۔ گھر بھردیاہے تیرے فینز نے پھولوں سے ہمارا۔۔۔ اور جو یہ تیرا آسکر ایوارڈ ہے نا اسے تو سنبھال سنبھال کر تھک گئی ہوں میں۔۔۔چھپاتی بھی پھرتی ہوں کہ نظر نہ لگے ۔۔۔ بُری نظر سے بُری چیز کوئی نہیں۔۔۔”
ثریا مومنہ کے کمرے میں کپڑوں کی الماری کھولے اُس میں سے کپڑے نکال نکال کر تہہ کررہی تھی اور ساتھ اُسی طرح باتیں کرتی جارہی تھی اور مومنہ دروازے میں کھڑے اُسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ساری کامیابیاں ساری فتوحات ثریا نے جہانگیرکے حوالے سے خوابوں میں دیکھی تھیں وہ آج بھی جہانگیر ہی کی تھیں۔ مومنہ سلطان ایک بے معنی چیز تھی ماں اور بیٹے کی اُس محبت کے رشتہ میں۔
وہ اُس کے کپڑے نہیں تھے جنہیں وہ تہہ کررہی تھی وہ جہانگیر کے کپڑے تھے۔ اُس کے لئے۔۔۔ اُس گھر میں موجود ہر شے اُس کے لئے جہانگیر کی ملکیت تھی۔
”اماں۔۔۔” مومنہ نے اُسے پکارا تھا۔
وہ اُسی طرح اُسے دیکھنے کے باوجود اپنے کام میں مصروف رہی تھی۔
”کس سے باتیں کررہی ہیں آپ؟” مومنہ اُن کے پاس آگئی تھی اور ثریا نے بے حد خفگی سے اُس سے کہا۔
”ایک تو تو روز روز ایک ہی بات پوچھ پوچھ کر تنگ نہیں آتی مومنہ۔۔۔یہ نظر نہیں آرہا تجھے جہانگیر۔۔۔ اور کس سے باتیں کروں گی۔” ثریا نے کپڑے تہہ کرتے کرتے جیسے رُک کر اُسے دیکھتے ہوئے جھلا کر کہا تھا۔ اور پھر دوبارہ کپڑے تہہ کرتے ہوئے وہ جیسے وہاں موجود شخص سے بات کرنے لگی تھی۔
”بہن کو دیکھ اپنی۔۔۔ اسے تو نظر ہی نہیں آتا ۔” وہ اب جہانگیر سے بات کرتے ہوئے مومنہ پر ہنس رہی تھی۔
”آئیں چھوڑیں سب کام ۔۔۔سوجائیں۔” مومنہ سے برداشت نہیں ہوا تھا۔ اُس نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُنہیں کام سے روکا تھا۔ ثریا نے اُس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”لوبھلا جہانگیر کا کام چھوڑ کر تیرے ساتھ چل پڑوں۔”
”اماں بہت رات ہوگئی ہے۔”
”کوئی بات نہیں تو سوجا ۔۔۔ تھکی ہوئی آئی ہے۔۔۔ مجھے تو جہانگیر کے ساتھ بات کرتے ہوئے نیند کہاں آتی ہے۔۔۔ جا تو سو جا ۔۔۔ جاکر۔۔۔” ثریا نے اپسے پچکارتے ہوئے یک دم کپڑے چھوڑے تھے اور اُسے کمرے سے باہر دھکیلنا شروع کردیا تھا۔
وہ جیسے اُسے جہانگیر کے کمرے سے نکالنا چاہتی تھی۔ اپنے اور جہانگیر کے بیچ میں آنے سے روکنا چاہتی تھی۔
مومنہ مزاحمت کرنا چاہتی تھی مگر اُسے سمجھ میں آئی تھی کہ وہ ماں سے کیسے مزاحمت کرتی۔ثریا نے اُسے دھکیلتے ہوئے کمرے سے نکال دیا اور دروازہ اندر سے بند کرلیا۔
مومنہ کو دروازہ بند کرتے ہی ثریا کے ہنسنے کی آواز آئی تھی۔
”نکال دیا میں نے اُسے۔۔۔مجال ہے کبھی دو گھڑی مجھے چین سے تیرے پاس بیٹھنے دے۔ تو بھی تو ایسا ہی کرتا تھا ۔ لڑتے رہتے تھے دونوں کہ میرے پاس کون بیٹھے گا۔۔۔پراب صرف تجھے ہی بٹھاؤں اپنے پاس۔۔۔ اس مومنہ کو کوئی خیال اور احساس نہیں ہے میرا۔۔۔ آوارہ پھرتی رہتی ہے۔۔۔ کبھی اس ملک کبھی اُس ملک ۔۔۔ یہ نہیں کہ ماں کے پاس گھر میں بیٹھ کر ہانڈی روٹی کرے۔۔۔ اگلے گھر بھیجوں گی تو کتنی باتیں سنوں گی اس کے سسرال والوں کی۔۔۔ بس تو کوئی رشتہ بتادے فوراً مجھے اس کے لئے۔”
مومنہ نے دونوں ہاتھ دروازے پر رکھ کر ماتھا دروازہ سے لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔
کاش زندگی ویسی ہی ہوتی جیسی اُس کی ماں اندر بُننے کی کوشش کررہی تھی۔ آسکر نہ ہوتا، شہرت اور نام نہ ہوتا وہ ہیروئن نہ ہوتی صرف ”ہیرو” کی بہن ہوتی اور ہیرو ”جہانگیر” ہی ہوتا۔ وہی رہتا۔۔۔
دروازے سے ماتھا ٹکائے وہ روئی چلی گئی تھی۔ کندھے پر رکھے بیگ میں پڑے فون پر آنے والی کال سے بے خبر۔۔۔ جو مومن اُسے بار بار کررہا تھااور کرتا ہی جارہا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});