پیارے بابا جان
السلام و علیکم
میںجانتی ہوں یہ خط دیکھ کر آپ حیران ہوجائیں گے لیکن شاید آپ کی خوشی آپ کی حیرت سے زیادہ ہوگی۔
آپ کو خط لکھنے کا خیال روز آتا تھا۔ اُس دن سے جب سے میں قلبِ مومن کو لے کر ترکی سے پاکستان آگئی تھی۔ روز میرا دل چاہتا تھا میں آپ سے آپ کا حال پوچھوں۔ میں جاننے کی کوشش کروں کہ آپ کے دن رات کیسے گزر رہے ہیں؟ کیا وہ بھی ویسے ہی ویران ہیں جیسے میرے ؟ کیا آپ کا غم بھی ابھی تک ویسا ہی ہے جیسا میرا؟ کیا درد اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا؟
آپ سے بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی بہت کچھ کہنا اور بتانا چاہتی تھی پر کبھی وقت آڑے آ گیا کبھی انا اور کبھی میری شرمندگی۔
اور اب زندگی نے بالآخر مجھے مجبور کردیا کہ میں آپ کو یہ خط لکھوں اور آپ سے مددمانگوں۔ وہ کام جو کبھی کرنے سے پہلے میں مرجانا چاہتی تھی۔ آپ سے ناراضگی اور آپ پر غصہ بہت سال رہا تھا مجھے۔
آپ نے میرے اور طہٰ کے درمیان آنے کی کوشش کی تھی۔ ہمیں جُدا رکھنے کی خواہش تھی آپ کی۔ اور وہ سب کچھ جو آپ نے میرے بارے میں کیا تھا وہ سُننے کے بعد اگر میں آپ سے نفرت کرتی تھی تو میری جگہ کوئی بھی ہوتا یہی کرتا۔
پر آج سوچتی ہوں۔ آپ غلط نہیں تھے۔ غلط میں اور طہٰ بھی نہیں تھے۔ یہ سب کچھ ایسے ہی لکھا تھا جیسے ہوا۔ طہٰ میری زندگی میں نہ آتا تو میں اس سفر سے آشنانہ ہوتی جو میں نے کیا اور اس سفر پر مجھے کوئی ندامت کوئی رنج کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
میں خطاطوں کے قبیلے کے جانشین کی محبت میں گرفتار ہوئی تھی۔ پارسائی کی خواہش تھی۔ اللہ کے قریب ہوجانے کا یقین تھا۔ پر اس سفر کے دوران پتہ چلا کہ کسی پارسا اور نیک کا ساتھ پارسائی اور نیکی کی طرف مائل کرسکتا ہے نیک اور مومن بنا نہیں سکتا۔ اللہ سے اپنی قربت کسی دوسرے کو عطا نہیں کرسکتا۔ میری بھول تھی میں اس راستے کو اتنا آسان سمجھ بیٹھی تھی۔ اب اتنے سالوں بعد سمجھ آیا ہے اللہ سے قریب ہونے کے لئے ہر آزمائش خود جھیلنی پڑتی ہے۔
میں زوال کی گرفت میں ہوں اور بے حد خوش ہوں۔ واپس آکر دوبارہ عروج مل جاتا تو پچھلے سارے سال ضائع ہی سمجھتی میں۔ اب یہ زوال مجھے سمجھا رہا ہے کہ یہ راستہ میرا نہیں ہے نہ میرے لئے اب رہا ہے۔ میں طے کرچکی ہوں وہ پہلی منزل جس کے بعد آگے کہیں اجر ہوتا ہے۔
اللہ نے راستہ بدل دیا ہے میرا کیونکہ دل بدل دیا ہے اُس نے میرا۔ وہ اب موم کا بن گیا ہے۔ پتھر کا نہیں رہا۔ غرض ختم ہوگئی ہے اُس میں سے۔۔۔غرور چلا گیا ہے اُس میں سے۔ میں بھی نہیں رہی اُس میں۔۔۔ اور کبھی کبھار لگتا ہی نہیں یہ میرا ہی دل ہے۔۔۔ حسنِ جہاں کا دل۔
آپ کے لئے کئی سال سخت کئے رکھا تھا اس دل کو۔۔۔ اب طہٰ کے غم نے نرم کردیا ہے۔ معاف کردیا میں نے آپ کو بابا جان۔ اُسی دن کردیا تھا جب طہٰ کی موت کا پتہ چلا تھا۔ کوئی خسارے کی فصل میں کھڑا ہوکر اور خسارہ کیا بوتا۔
میرا قلبِ مومن آپ کے پاس ہے۔ اُس کا دل میرے لئے پتھر ہے۔ میں اپنے پاس رکھے رکھتی تو پتھر سے کوئلہ ہوجاتا پر موم نہ ہوتا۔ میں نے ماں ہوتے ہوئے بھی اُسے آپ کے پاس بھیج دیا تھا۔ آپ کے قبیلے کا ایک جانشین میری وجہ سے راستے سے بھٹکا۔ میں رہ جانے والے آپ کی نسل کے اس واحد چشم و چراغ کے بھٹکے جانے کا گناہ اپنے سر نہیں لے سکتی تھی۔
آپ کو خط لکھ رہی ہوں کیونکہ میں نکلنا چاہتی ہوں ۔ اس سب سے جس میں میں اپنی نادانی کے ہاتھوں دوبارہ آپھنسی ہوں۔ آپ کے اور مومن کے پاس آکر رہنا چاہتی ہوں۔ وہاں زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔
آپ کے لئے ممکن ہو تو حسنِ جہاں کے لئے کچھ کیجئے گا۔ نہ بھی کرسکیں تو مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ میرا قلبِ مومن میرا مستقبل آپ کے پاس محفوظ ہے۔ میرے لئے اتنا کافی ہے بابا جان۔
مومن کے لئے بہت سا پیار
آپ کی بیٹی
حسنِ جہاں
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
قلبِ ِ مومن ٹینا اور داؤد کے ساتھ بیٹھے ہوئے آفس میں کام کررہے تھے۔ جب عباس دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ وہ اُن کی پچھلی فلم کا ہیرو تھاا ور الف کو شروع میں سائن کرکے پھر کانٹریکٹ ختم کرچکا تھا لیکن مومنہ سلطان کے فلم سائن کرتے ہی وہ اُڑجانے والے سارے موسمی پرندے اگلی بہار کے نظارے کے لئے واپس آنا شروع ہوگئے تھے۔
وہ بڑی گرم جوشی سے سیدھا مومن کے پاس آکر اُس سے گلے ملا تھا پھر اُس نے مصافحہ کرکے ہاتھ اپنے سینے پر یوں رکھے جیسے اُس کے لئے قلبِ مومن سے مصافحہ کرنا اور گلے لگنا بھی سعادت کی بات تھی۔
”آپ کو پتہ ہے مومن بھائی۔۔۔ آپ کے کام کافین ہوں میں۔۔۔ آپ کے ساتھ پراجیکٹس کرنے کے لئے دس پراجیکٹس چھوڑ کر آسکتا ہوں میں۔” اُس نے اس انداز میں کہا تھا جیسے اُس نے الف سے علیحدگی اختیار کی ہی نہ تھی اور اس فلم کے بارے میں پہلی بار ہی پتہ چلا تھا اُسے۔
ٹینا اور داؤد نے معنی خیز نظروں کا تبادلہ کیا تھا اور قلبِ مومن نے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔
”آپ نے مومنہ سلطان کے ساتھ مجھے اس فلم میں کاسٹ کرکے میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کردی ہے۔” اُس نے کرسی کھینچ ک ربیٹھتے ہوئے بھی اپنی بات جاری رکھی۔
”سکرپٹ ڈسکس کرتے ہیں۔” مومن نے اُس کی کسی لفّاظی کا جواب نہیں دیا تھا۔ اُس نے بس سکرپٹ کھول لیا تھا۔ عباس کچھ گڑبڑایا تھا۔ مومن جال میں نہیں آیا تھا۔
”رول چھوٹا ہے اور ایک بچے کے باپ کا ہے۔۔۔ کوئی اعتراض؟” اُس نے بے حد واضح اور غیر مبہم انداز میں کہا۔
”مومنہ سلطان کے Oppositeہے؟” عباس نے جھٹ پوچھا تھا۔
”ہاں۔” مومن کا جواب مختصر تھا۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں۔” اُس نے فوراً کہا۔
”اور پھر مومن بھائی آپ کی فلم ہے مجھے پتہ ہے آپ کچھ نہ کچھ کر واہی لیں گے مجھ سے۔ آپ پر اندھا اعتماد ہے مجھے۔”
مومن نے اُس کی خوشامد کا نیاسلسلہ بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے داؤد سے کہا۔
”کانٹریکٹ کروالو دوبارہ۔۔۔”
٭…٭…٭
وہ رات کے وقت گھر کے لاؤنج میں تھکا ہارا داخل ہوا تھا۔ شکور چند دنوں کے لئے چھٹی پر گیا ہوا تھا اور گھر کی خاموشی پہلے سے زیادہ گہری تھی۔
لاؤنج میں وہ دیوار خالی تھی جس پر وہ خطاطی اتنے سالوں سے لگی ہوئی تھی۔ مومن نے اُس کی جگہ کچھ بھی نہیں لگایاتھا۔
LCDآن کرکے وہ کچن کی فریج سے پانی کی بوتل نکال کر لے آیا تھا۔ اُسے پیتے ہوئے وہ چینلز سرفنگ کرنے لگا۔ ایک چینل پر اُس کی فلم کے حوالے سے خبر چل رہی تھی۔
“The Academy Award winning actress MOMINA SULTAN signs her new film in Pakistan leaving Hector’s upcoming merit Urban Saga.”
قلبِ مومن نے چینل بدل دیا۔ وہ اب جس چینل پر گیا تھا وہاں پریس کانفرنس کی کوریج کے ساتھ خبر چل رہی تھی۔
”مومنہ سلطان نے بالاآخر اپنی اگلی فلم کا اعلان کردیا اور اس بار وہ لوکل سکرین پر جلوہ گر ہوں گی۔ قلبِ مومن کی اگلی فلم ”الف” میں۔۔۔ یاد رہے کہ یہ فلم پچھلے سال اناؤنس ہوئی تھی مگر پھر تعّطل کا شکار ہوگئی۔ اب مومنہ سلطان کے اس فلم کا حصہ بننے پر قلبِ مومن کی قسمت کا ستارہ ایک بار پھر چمکا ہے اور اس بار بین الاقوامی طور پر ۔”قلبِ مومن نے وہ چینل بھی بدلتے ہوئے TV بند کردیا تھا۔ وہ اوب بوتل سے پانی غٹاغٹ پی رہا تھا۔ یوں جیسے مومنہ سلطان کے نام کی یہ تکرار اُسے پریشان کرنے لگی تھی۔ اُس کااحسان مند ہونے کے باوجود۔
فون اُٹھا کر اُس نے یک دم مومنہ کو کال کرنی شروع کردی تھی۔ دوسری طرف سے کسی نے کال ریسیو نہیں کی۔ قلبِ مومن کو اُس وقت احساس ہوا کہ وہ رات کا پچھلا پہر تھا۔ لیکن کال کا ریسیو نہ ہوناو پھر بھی اُس کی انا کو مجروح کرگیا تھا۔
”میں تو بھول گیا تھا۔۔۔ آسکرا یوارڈ یافتہ اداکارہ ہے وہ۔۔۔ پہلی کال پر ڈائریکٹر کی کال کیسے لے گی وہ۔۔۔ وہ بھی قلبِ مومن جیسے ڈائریکٹر کی۔” اُس نے بڑبڑاتے ہوئے خود ہی فون بند کرتے ہوئے اُسے دور پھینک دیا تھا۔
٭…٭…٭
میک اپ آرٹسٹ نے اُس کے چہرے پر Puffingسے آخری ٹچ دیتے ہوئے مومنہ سے کہا۔
”اب دیکھیں اپنے آپ کو۔” وہ کہتے ہوئے سامنے سے ہٹ گئی تھی۔ مومنہ نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا اور پہلی نظر میں اُسے لگا وہ حسنِ جہاں ہی تھی۔
”مومن بھائی نے جو lookدینے کو دی تھی بالکل ویسی ہی lookدی ہے میں نے آپ کو۔” وہ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے ہوئے میک اپ آرٹسٹ کی با ت پر چونکی تھی۔
”کون سی Look۔۔۔ تمہیں کوئی تصویریں دی تھیں اُس نے؟” اُس نے میک اپ آرٹسٹ کو کُریدا تھا۔
”ہاں۔۔۔ یہ دیکھیں یہ میرے فون میں ہیں تصویریں۔” میک اپ آرٹسٹ نے فوراً سے پہلے اپنے فون جیسے اُس کے سامنے کردیا تھا۔
وہ حسنِ جہاں کی تصویریں تھیں اور مومنہ کو حیرت تھی حسنِ جہاں کو نہ جاننے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اُس نے میک اپ آرٹسٹ کو وہ تصویریں کیسے دے دی تھیں کیا اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ مومنہ وہ تصوریں دیکھ سکتی تھی۔
”سبیکا۔۔۔ مومنہ کی Lookہوگئی تو پھر ہمیں۔۔۔” وہ ڈریسنگ روم کا دروازہ بجا کر روانی میں اندر آیا تھا اور آئینہ میں مومنہ کا عکس دیکھ کر فریز ہوگیا تھا۔ وہ جیسے اپنی بات بھی پوری نہیں کرسکا تھا۔ اُسے حسنِ جہاں یاد آئی تھی ۔ وہ اس وقت بالکل اُسی روپ میں تھی جس میں مومن حسنِ جہاں کو پاکستان آنے کے بعد دیکھا کرتا تھا۔
”مومن بھائی ٹھیک ہے نا گیٹ اپ۔۔۔ یہی lookچاہ رہے تھے نا آپ۔” میک اپ آرٹسٹ نے اُس کی محویت توڑی تھی۔ اُس نے ہڑبڑا کر جیسے نظریں اُس کے چہرے سے ہٹالی تھیں۔ وہ چلتا ہوا اب مومنہ سلطان کے پاس آگیا تھا۔ سامنے ڈریسنگ کاؤنٹر پر پڑے سفید گلابوں میں سے اُس نے کچھ اُٹھا کر مومنہ کے بالوں کے جوڑے میں لگاتے ہوئے میک اپ آرٹسٹ سے کہا تھا۔
” یہ بھی لگانے ہیں۔”
”اوہ۔۔۔ اوہ ۔۔۔یہ میں کیسے بھول گئی۔۔۔ ہاں یہ بھی لگاتی ہوں۔” میک اپ آرٹسٹ نے جواباً وہ پھول اُس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا تھا جو اُس نے مومنہ کے جوڑے پر رکھ کر اُسے وہ جگہ بتائی تھی جہاں وہ پھول لگتے تھے۔ مومنہ خاموشی سے آئینے میں اُس کے اور میک اپ آرٹسٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو کسی تبصرے کے بغیر سنتی رہی تھی۔
”اب دیکھیں۔” میک اپ آرٹسٹ نے چند لمحوں میں وہ پھول اُس کے جوڑے میں لگا کر دوبارہ مومن سے رائے لی تھی۔
اس بار مومن مومنہ کی کرسی کے پیچھے کھڑا اُسے آئینے میں دیکھ رہا تھا۔ جوڑے میں سجے اُن سفید گلابوں کے ساتھ اور مومنہ آئینے میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی تھی۔ یوں جیسے اُس کی رائے سننا چاہتی ہو۔ اُس نے صرف ایک لمحہ کے لئے آئینے میں مومنہ کو دیکھا تھا۔ پھر وہ نظریں چرا کر برق رفتاری سے وہاں سے نکل گیا تھا۔
”کاسٹیومز دیکھنے ہیں مجھے۔۔۔ ڈیزائنر آیا ہوا ہے۔” وہ عجیب سے لہجے میں کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});