وہ کہتی گئی تھی۔ سلطان پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہا تھا جب وہ خاموش ہوئی۔ تو سلطان نے کہا۔
”کس شخص کی وجہ سے؟”
مومنہ نے اسکرپٹ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
”سلطان کی وجہ سے۔”
لاؤنج میں ایسی خاموشی چھائی تھی جیسے وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر مومنہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس سے کہا۔
”کیا تھے ابا! آپ حسنِ جہاں کی زندگی میں؟ ہیرو یا وِلن؟”
سلطان نے جواب دینے کے بجائے بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا
”انٹرول کے بعد کیا ہوا تھا اس اسکرپٹ میں؟”
”میں نہیں جانتی۔ میرے پاس صرف آدھا اسکرپٹ آیا ہے۔”
”منع کر دو اس اسکرپٹ کو۔” سلطان نے بے ساختہ کہا۔
”آپ گئے تھے نا ترکی حسنِ جہاں سے ملنے؟ کیا ہوا تھا ابا وہاں؟ کیا کیا تھا آپ نے؟”
مومنہ نے اس کے حکم کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ سلطان اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”جس نے یہ اسکرپٹ لکھا ہے اس سے پوچھو۔ اسے سب علم ہو گا۔”
اس کے لہجے میں طنز تھا۔
”کس نے لکھا ہے یہ اسکرپٹ؟”
”قلبِ مومن نے۔” اس بار پہلے سے بھی لمبی خاموشی چھائی تھی لاؤنج میں پھر سلطان جیسے کراہتے ہوئے بولا تھا۔
”اس کے بیٹے نے؟”
مومنہ نے سرہلایا۔
”یہ وہی فلم ڈائریکٹر ہے جس کی فلم کے آڈیشن کے لیے بھیجا تھا آپ نے اور اس نے مجھے کام نہیں دیا۔”
مومنہ نے مدھم آواز میں کہا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”وہ فلم ڈائریکٹر؟ وہ بیٹا ہے حسنِ جہاں کا؟ وہ خطاط نہیں بنا؟ یہاں پاکستان آگیا؟” سلطان نے بے یقینی کے عالم میں اس سے کہا۔ اس نے سرہلا دیا۔
”مجھے۔ مجھے ملوا دو اس سے۔” سلطان نے بے اختیار کہا۔
”آپ کیا کریں گے اس سے مل کر؟” مومنہ نے پوچھا۔
”میں انٹرول کے بعد والے حصے میں اپنا رول جاننا چاہتا ہوں۔”
”آپ اس کی فلم کے ولن ہیں ابا! یہ میں آپ کو پورا اسکرپٹ پڑھے بغیر بھی بتا سکتی ہوں۔” ایک سایہ سلطان کے چہرے پر لہرایا تھا۔
”آپ کس لیے گئے تھے اس سے ملنے؟” مومنہ نے دوبارہ پوچھا۔
”حسنِ جہاں کا نام لکھا ہے اس نے اسکرپٹ میں؟” سلطان پتا نہیں اپنے کس اندازے کی تصدیق چاہتا تھا۔
”نہیں ابا۔ ہر ایک کا نام بدلا ہے اس نے سوائے آپ کے۔ آپ سے نفرت کرتا ہے وہ اس لیے آپ کا نام نہیں بدلا اس نے۔ حسن جہاں کی زندگی کے قصے اتنے سنے ہیں آپ سے کہ میں آنکھیں بند کر کے بھی پہچان سکتی ہوں کہ وہ عالیہ جہاں نہیں ہے حسنِ جہاں ہے اور عالیہ جہاں نے جس کے لیے بے وفائی کی، وہ سلطان تھا۔”
وہ اس کے جملے پر ہنسنے لگا تھا اتنا کہ اس کی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔
”بے وفائی کر لیتی سلطان کے لیے تو آج زندہ ہوتی۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
”ابا! آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔” مومنہ نے بے چین ہو کر پوچھا۔
”میں دوں گا بھی نہیں تم یہ فلم مت کرنا۔ یہ فلم فلاپ ہو گی۔ تاریخ کی سب سے بڑی فلاپ۔” وہ کہتے ہوئے وہاں رکے بغیر چلا گیا تھا۔ مومنہ مضطرب اسے جاتا دیکھتی رہی۔
٭…٭…٭
فون کی گھنٹی نے داؤد کو گہری نیند سے جگایا تھا۔ اس نے نیند میں ہی آنکھوں کو مسلتے ہوئے فون اٹھا کر نام دیکھتے ہوئے کال ریسیو کی تھی۔
”ہیلو مومنہ! رات کے تین بجے کال کر رہی ہو تم۔ سب خیریت تو ہے؟” داؤد نے فکرمند ہو کر کہا تھا۔
”میں یہ فلم کروں گی۔” اسے مومنہ کی آواز سنائی دی۔
”کون سی فلم؟” نیند میں داؤد فوری طور پر اس کی بات نہیں سمجھا۔
”الف۔” اس بار داؤد کی نیند اڑن چھو ہو گئی تھی۔
”مجھے یقین نہیں آرہا۔ تم نے الف کہا ہے نا؟” داؤد بستر میں اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
”ہاں۔ الف ہی کہا ہے۔ اگلے ایک دو دن میں قلب مومن کے ساتھ میری میٹنگ شیڈول کر دو۔ میں دبئی جانے سے پہلے اس سے مل کر فلم کا دوسرا حصہ سننا چاہتی ہوں۔”
اس نے کہا تھا اور داؤد کا جواب سنے بغیر فون رکھ دیا۔
٭…٭…٭
”فلم کا بجٹ shortہے باس۔” ٹینا نے اعلان کرنے والے انداز میں کہتے ہوئے لیپ ٹاپ کو جیسے پیچھے دھکیلا تھا۔ وہ پچھلے دو دن سے الف کے بجٹ پر بیٹھی ہوئی تھی اور اب اُس نے بالاآخر ہتھیار ڈالنے والے انداز میں مومن کو اطلاع دے دی تھی جو اُس کے ساتھ ہی دوسرا لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا اُس بجٹ شیٹ کو دیکھ رہا تھا جس میں سے بے شمار کٹوتیاں کرتے ہوئے بھی بجٹ کم نہیں ہورہا تھا۔
”Low-budgetedیہ فلم ہو نہیں سکتی اور High budgetedکے لئے پیسہ اکھٹا کرنا اس وقت مشکل ہے جب کوئی سپانسر ساتھ آنے کو تیار ہی نہیں۔” ٹینا نے اُسے بتایا ۔
”اگر آفس کو mortgageکرکے loanلے لیں۔” مومن نے یک دم کہا۔ ٹینا کو لگا وہ پاگل ہوگیا ہے۔ وہ فلم اُس کی زندگی کا رسک تھی اور وہ بھی calculatedنہیں اور اب وہ اس سے بھی بڑا رسک لینا چاہتا تھا۔
”باس یہ بے وقوفی تو کبھی نہ کریں۔ یہ فلم فلاپ ہوئی تو پچھلی فلموں سے جو کمایا ہے اس آفس کی صورت میں وہ بھی گنوا بیٹھیں گے آپ۔۔۔ ہمارا کیا ہے ہم تو کہیں بھی جاب ڈھونڈھ لیں گے آپ کا کیا ہوگا۔” ٹینا نے بے حد ہمدردانہ انداز میں اُسے بے تکلفی سے مشورہ دیا تھا۔
”اگر کم سے کم بجٹ بھی کریں تو کتنا پیسہ چاہیے ہوگا؟” مومن بڑبڑاتے ہوئے لیپ ٹاپ پر کچھ نمبرز دیکھ رہا تھا۔
”کم سے کم سات کروڑ زیادہ سے زیادہ دس ۔۔۔ یہ windowہے آپ کے بجٹ کی۔” ٹینا نے اُس کی مدد کی۔
”میری مانیں یہ رسک نہ لیں۔۔۔ صنم بنائیں اُس کے لئے سارے سپانسرز سارے ایکٹرز تیار بیٹھے ہیں۔” ٹینا کو لگا شاید یہ وہ موقع تھا جب وہ اُسے سمجھا سکتی تھی۔
”کس کے لئے بنارہے ہیں آپ یہ فلم جو spiritualityپر ہے۔۔۔ کون دیکھے گا۔۔۔؟ لوگوں کو نہیں ہے دلچسپی۔۔۔ مادہ پرست ہوچکے ہیں ہم سب۔۔۔ ہمیں اسی دنیا کے لئے جینا اور اسی میں جینا ہے۔ جن کو روحانیت کے بارے میں کھوج ہوتی ہے وہ مسجد جاتے ہیں مدرسہ جاتے ہیں وہ سینما نہیں آئیں گے۔۔۔ سینما میں وہی بکے گا جو آپ ہمیشہ سے بیچنے کے لئے مشہور ہیں۔” ٹینا کہتی چلی گئی۔ مومن ہنس پڑا۔
”یعنی کمرشل فلمز۔۔۔ آرٹ کے نام پر غلاظت۔”
ٹینا کو یقین نہیں آیا وہ لفظ اُس نے قلبِ مومن سے اپنے کام کے لئے سنے تھے۔ جب لوگ اُس کے کام کے لئے ایسے لفظ استعمال کرتے تھے تو وہ تپ جاتا تھا ۔ آج وہ خود وہ الفاظ استعمال کررہا تھا اور اُسے کوئی جھجھک نہیں تھی۔
”آپ وہ ہی بنائیں جسے بناکر آپ کو شہرت ملی ہے نام ملا ہے۔” ٹینا اپنے لفظوں کو اس سے زیادہ بے ضرر نہیں کرسکتی تھی۔ مومن نے اُس کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”وہ بنانے کو دل نہیں چاہتا۔”
”یہ جو آپ بنانے جارہے ہیں اس پر آپ کو زیادہ سے زیادہ Rave reviewsملیں گے لیکن پہلے ہفتہ میں ہی فلم اُتر جائے گی۔” ٹینا نے بے حد صاف گوئی سے کہا۔ مومن کے ساتھ ساتھ اُن کا کیرئیر بھی الف کی وجہ سے داؤ پر لگ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ مومن کچھ کہتا داؤد دروازہ کھول کر دھڑاک سے اندر آیا تھا اور اُس نے اندر آتے ہی بلند آواز میں کہا تھا۔
”مومن بھائی مومنہ تیار ہے الف کرنے کے لئے۔”
ٹینا اور قلبِ مومن دونوں کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔
”مطلب وہ یہ بچے والا رول کرے گی؟” مومن نے کچھ اٹکتے ہوئے کہا۔
”ہاں تو ظاہر ہے کرے گی وہ۔۔۔ ہیروئن ہی ایک ہے اس فلم میں۔” داؤد اب پھولے ہوئے سانس اور بے حد جو ش کے عالم میں کرسی پر گرتے ہوئے بولا تھا۔
”آپ کے ستارے گردش سے نکل رہے ہیں باس۔” ٹینا چہکی تھی۔
”یا اُس کے ستارے گردش میں آرہے ہیں۔” مومن اب بھی بے یقینی سے بڑبڑایا تھا۔
”وہ ملنا چاہتی ہے میٹنگ کے لئے۔” داؤد نے کہا۔
”اور میں نے کل کا ٹائم دے دیا ہے اُسے۔” داؤد نے ساتھ ہی کہا۔
”لیکن وہ اس سٹوڈیو نہیں آنا چاہتی۔ یہاں بُری یادیں ہیں اُس کی۔ میں نے اُسے آپ کے اپارٹمنٹ میں بلایا ہے۔” داؤد رُکے بغیر بولتا چلاجارہا تھا۔
”وہ آجائے گی اپارٹمنٹ؟” مومن حیران ہوا۔
”ہاں اُس نے کوئی اعتراض تو نہیں کیا۔” داؤد نے جواباً کہا۔
”میں جاسکتا ہوں اُس کے گھر۔” مومن نے یک دم کہا۔
”نہیں آپ کے اپارٹمنٹ ہی پر ملنا چاہتی ہے وہ اپنے گھر نہیں بلانا چاہتی۔” داؤد نے کہا اور ساتھ ہی دانت نکالتے ہوئے کہا۔
”برانڈز اب دوڑنے والے ہیں ہماری طرف۔۔۔ مومنہ سلطان کی پہلی پاکستانی فلم الف کے لئے۔”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});