الف — قسط نمبر ۰۹

”ہیلو۔ جی قلبِ مومن سے بات کر سکتا ہوں؟”
”جی۔ میں قلبِ مومن ہی ہوں۔” دوسری طرف فون پر موجود مرد یک دم بے حد خوش ہوا تھا۔
”شکر ہے۔ آپ سے بات ہو گئی۔ میں اتنے مہینوں سے آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ آپ کے اپارٹمنٹ پر بھی کئی چکر لگا آیا ہوں لیکن آپ سے رابطہ ہی نہیں ہو پایا۔” اس آدمی نے کہا تھا۔
قلبِ مومن کچھ الجھا تھا۔ اس کے ذہن میں اس آدمی کا نام گونجا تھا جس کا ذکر شکور نے کیا تھا لیکن اس نے فون پر اس آدمی کا نام لینے کے بجائے اس سے کہا۔
”سوری میں ابھی تک آپ کو پہچانا نہیں ہوں۔”
وہ اس وقت آفس سے نکل رہا تھا اور اپنی گاڑی کی طرف جا رہا تھا۔
دوسری طرف اس آدمی نے بڑے اطمینان کے عالم میں کہا۔
”جی۔ آپ جانتے ہوں گے تو پہچانیں گے نا۔ مرحوم عبدالعلی صاحب بہت اچھی طرح جانتے تھے مجھے ویسے۔” اس نے بڑے بے تکلفانہ انداز میں کہا۔
”آپ دادا کے دوست ہیں؟” مومن کے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا تھا۔
”کاش ہوتا جی۔ ہم تو ان کے صرف مداح تھے۔ آپ بتائیں۔ آپ کے پاس کب حاضر ہو سکتا ہوں۔ ایک بڑا ضروری کام ہے مجھے۔۔۔ اور عبدالعلی صاحب کا حکم بھی۔” اس آدمی نے جواباً کہا تھا۔ قلب مومن الجھا تھا۔
”دادا نے آپ سے کہا تھا مجھ سے ملنے کو؟”
”ہاں جی۔” اس آدمی نے کہا اور پھر یک دم جیسے اسے خیال آیا۔
”اپنا نام تو بتانا بھول ہی گیا میں ویسے آپ کے ملازم کو اپنا کارڈ دے کر آیا تھا میں۔۔۔ بندے کو خالق علی کہتے ہیں۔”
اس آدمی نے اپنا نام لیا اور ایک جھماکے کے ساتھ مومن کے ذہن میں وہ نام اور نمبر چمکا جو دادا نے اسے دیا تھا۔ ان کے ساتھ ہونے والی آخری فون کال کے بعد۔
”آپ آجائیں۔ اس ویک اینڈ پر میں انتظار کروں گا آپ کا۔” قلبِ مومن نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔ اسے پتا چل گیا تھا خالق اس سے کس چیز کے بارے میں بات کرنے آنا چاہتا تھا۔
”خیال تو رکھتا ہوں اس کا ہر وقت۔ اس کا خیال نہیں رکھوں گا تو کس کا رکھوں گا۔ دو ہی لوگ تو ہوتے ہیں یہاں۔ تم تو اتنے مہینے تھیں ہی نہیں۔”
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”خیال تو رکھتا ہوں اس کا ہر وقت ۔۔۔ اس کا خیال نہیں رکھوں گا تو کس کا رکھوں گا۔ دو ہی لوگ تو ہوتے ہیں یہاں۔۔۔ تم تو اتنے مہینے تھی ہی نہیں۔”
سلطان نے مومنہ سے اس رات گلہ کیا تھا۔ اس نے باپ کو ثریا کی بیماری کے بارے میں بتا دیا تھا۔ وہ اسے راز میں رکھ کر ثریا کا علاج نہیں کر سکتی تھی۔ سلطان کو شیزوفرینیا کی بیماری کی کتنی سمجھ آئی کتنی نہیں لیکن اس نے مومنہ کے سامنے یہ اقرار کر لیا تھا کہ ثریا اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی تھی اور کبھی کبھار جہانگیر سے بھی کرتی تھی مگر اسے اس میں کبھی کوئی قباحت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ مومنہ نے جواباً اسے اس ذہنی مرض کی تفصیلات بتانا شروع کر دی تھیں۔
”مہنگا علاج ہے؟” اس نے مومنہ کی ساری بات سن کر عجیب فکرمند انداز میں اس سے پوچھا تھا۔
”ابا! مہنگے اور سستے کی پروا نہ کریں آپ۔ علاج مسئلہ نہیں ہے۔ خیال مسئلہ ہے۔”
اور اس کے اس جملے کے جواب میں سلطان نے اسے یاد دلایا تھا کہ اس نے پچھلے ایک سال میں اس گھر میں کتنا کم وقت گزارا تھا۔
”جانتی ہوں ابا! میری کوتاہی ہے۔ لیکن میں بے بس تھی۔ چاہتی بھی تو رہ نہیں سکتی تھی آپ لوگوں کے ساتھ پاکستان میں۔ کام پتا نہیں کہاں کہاں لے کر جا رہا ہے مجھے۔ ابھی ایک ہفتہ میں دوبارہ جانا ہے اسی لیے آپ سے کہہ رہی ہوں۔ آپ خیال رکھیں اماں کا۔” اس نے بہت نادم انداز میں سلطان کو وضاحت دی تھی۔
”تم سے شکایت نہیں کر رہا مومنہ! پر یہاں تنہائی بہت ہے۔” سلطان نے کچھ شرمندگی سا ہو کر سرجھکاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”آرام بھی تو بہت ہے ابا۔” اس نے جیسے باپ کو یاد دلایا تھا۔
”ہاں۔ آرام ہے پر آرام تنہائی تو نہیں مٹاتا نا۔ اتنا لمبا دن ہوتا ہے اور وہ کٹتا ہی نہیں۔۔۔ رات ہوتی ہے تو نیند نہیں آتی۔۔۔ وہ جو پرانا گھر اور محلہ تھا نا وہاں یہ سب نہیں ہوتا تھا۔ دن گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ آدھا وقت پانی کے انتظار میں گزر جاتا تھا۔ آدھا بجلی کے، پھر گلی محلے میں ہونے والے لڑائی جھگڑے دیکھنے میں دن بھاگ جاتا تھا۔۔۔ رات ہوتی تھی تو نیند کا پتا بھی نہیں چلتا تھا کب آئی تھی کب نہیں۔ آنکھ جب بھی کھلتی تھی دن چڑھے ہی کھلتی تھی۔ چاہے مچھر کاٹتے ہوں، چاہے بجلی نہ ہونے پر ہوا بند ہو۔ پر نیند آجاتی تھی وہاں۔” سلطان عجیبnostalgic انداز میں بولتا جا رہا تھا۔ یوں جیسے اسے کوئی الف لیلہ کی داستان سنا رہا ہو اور وہ سنتی جا رہی تھی یوں جیسے وہ واقعی اس الف لیلہ سے واقف نہ رہی ہو۔
وہ اپنے ماں باپ کے لیے وہی کر سکتی تھی جو کر رہی تھی۔ جتنی آسائشیں دنیا سے اکٹھی کر کے اس بڑھاپے میں ان کے گرد ڈھیر کر سکتی تھی ڈھیر کر چکی تھی، مگر وہ یہ بھول گئی تھی کہ بڑھاپا آسائشیں ملنے پر نہیں چلتا۔ ضرور تیں پوری ہونے پر چلتا ہے اور وہ ضرورتیں وہ پوری کرنے کے قابل نہیں تھی۔
”وہاں جہانگیر اور تمہارے جانے کے بعد بھی تنہائی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ سارا دن محلے میں چلتے پھرتے رہتے تھے یا کوئی آتا جاتا رہتا تھا۔ ۔۔یہاں چیزیں بہت ساری ہیں۔ آنے جانے والا کوئی نہیں۔ ۔۔پرندے تک نہیں آتے۔ وہاں یاد ہے صحن میں بچی ہوئی روٹی کے دو ٹکڑے بھی پھینکتی تھی تمہاری اماں تو پتا نہیں کہاں کہاں سے کھانے کے لیے آجاتے تھے پرندے حالاں کہ چھوٹا سا صحن تھا ہمارا۔ اتنا تنگ۔۔۔ پتا نہیں آسمان سے کیسے ڈھونڈتے ہوں گے پرندے ہمارے صحن میں پڑے روٹی کے ٹکڑوں کو۔ تمہاری شادی ہو جائے تو میں اور ثریا اسی پرانے محلے میں کوئی کمرہ کرائے پر لے کر رہ لیں گے۔ وہاں خوش رہیں گے ہم۔ ثریا بھی ٹھیک ہو جائے گی وہاں۔” سلطان اس سے کہہ رہا تھا۔
”کام تو یہاں بھی بہت سارے ہیں ابا۔” مومنہ بمشکل بولی تھی۔ اس ہارے ہوئے وکیل کی طرح جسے پتا تھا اس کا کیس کمزور تھا۔
”یہاں کیا کام ہے؟ صفائی ملازم کرتا ہے۔ کھانا کک بناتا ہے۔ ضرورت کا سامان ڈرائیور بڑے اسٹور سے لاتا ہے۔ جہاں چلتے چلتے میں اور تیری اماں تھک جاتے ہیں۔ سارا دن میں اور ثریا بیٹھ کر ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہتے ہیں۔” سلطان نے عجیب سی ہنسی کے ساتھ اسے بتایا تھا۔ وہ ہنسی نہیں جیسے اس کی بے چارگی تھی۔
”آپ ڈرائیور کے ساتھ جایا کریں باہر گھومنے پھرنے۔” مومنہ نے جیسے ان کے لیے کام نکالا۔
”کہاں؟” سلطان نے بے حد سادہ لہجے میں کہا۔
”کہیں بھی اتنا بڑا شہر ہے۔” مومنہ نے کہا۔
”ہاں پر پورے شہر میں ہمارا تو کوئی نہیں ہے نا۔ جہانگیر تھا وہ چلا گیا۔ تم ہو۔ تو تم مصروف ہوتی ہو۔ پوری دنیا میں اور ہمارا کون ہے؟”
وہ مجرمانہ انداز میں باپ کے سامنے سرجھکائے بیٹھی رہی۔ سلطان کی کسی بات کا اس کے پاس جواب نہیں تھا۔ وہ ان کے پاس نہیں بیٹھ سکتی تھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر۔ ورنہ بیٹھ جاتی۔
یہ اختیار اور انتخاب اللہ نے اسے دیا ہی نہیں تھا۔ اس کے پاس جو تھا پوری دنیا اس پر رشک کرتے ہوئے مری جا رہی تھی۔ اس کے پاس جو نہیں تھا، وہ اسے مر کر بھی حاصل نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کی زندگی کا مقصد کیا تھا مومنہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس کی اس کامیابی کا مقصد کیا تھا۔ مومنہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ ایک ناکام اداکارہ تھی تو بھی اپنے ہر معاملے میں بے بس تھی وہ آج کامییاب اداکارہ تھی تو بھی اپنا کوئی مسئلہ حل نہیں کر پا رہی تھی۔
وہ سلطان کے پاس سے اس رات اٹھ کر آگئی تھی مگر سونے کی کوشش کے باوجود وہ سو نہیں پائی تھی۔ سلطان کی آواز اس کے کانوں میں بار بار گونجتی تھی۔ وہ کئی گھنٹے اپنے بستر پر کروٹیں بدلتے ہوئے جیسے کوئی راستہ کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہی اور پھر جیسے بے حد بے بسی کے عالم میں وہ رات کے پچھلے پہر کچن میں چائے بنانے چلی آئی تھی۔
چائے کا کپ لیے وہ لاؤنج میں آکر بیٹھی تھی اور اس کی نظر اس اسکرپٹ کے لفافے پر پڑی تھی جو داؤد وہاں چھوڑ کر گیا تھا۔ اس نے خالی الذہنی کے عالم میں اس لفافے کو اٹھایا تھا جس پر الف اور قلبِ مومن کا نام لکھا ہوا تھا اور اسکرپٹ لفافے سے نکال لیا تھا۔
وہ ایک اور دنیا تھی جہاں وہ کاغذ اسے لے گئے تھے۔ عالیہ جہاں کی دنیا اور اس دنیا کا مرکز۔ وہ سات سالہ دانیال۔ عالیہ جہاں کا محبوب عبداللہ اور عبداللہ کا باپ عبدالہادی۔ وہ کیا کہانی تھی جس کا ایک ایک کردار دل تھا اور بس دل ہی حکمرانی کر رہا تھا۔ مومنہ سلطان نے اپنے اس مختصر کیریئر میں ایسا اسکرپٹ ایسے کردار اور ایسے ڈائیلاگز نہیں دیکھے تھے۔ ہر صفحے پر وہ الجھتی اسے لگتا، وہ عالیہ جہاں کو جانتی تھی وہ اس کہانی میں خود بھی کہیں تھی مگر کہاں تھی یہ اسے نظر نہیں آرہا تھا۔ رکے بغیر وہ صفحے پر صفحے پلٹتی اس اسکرپٹ کو انٹرول تک پڑھتی گئی تھی اور انٹرول کے سین پر جس کردار کی انٹری ہوئی تھی اس کردار نے مومنہ کو ساکت کر دیا تھا کیوں کہ وہ پہچان گئی تھی۔ وہ کہانی کس کی تھی اور اسے کیوں وہ جانی پہچانی لگ رہی تھی وہ حسنِ جہاں کی کہانی تھی اور انٹرول میں اس کہانی میں آنے والا کردار سلطان تھا جو اپنی محبوبہ عالیہ جہاں سے ملنے ترکی گیا تھا اور عالیہ نے دانیال سے کہا تھا کہ وہ سلطان کے بارے میں عبداللہ کو نہ بتائے۔
اس کہانی کے ہر کردار کا نام فرضی تھا صرف سلطان کے نام کے علاوہ۔ مومنہ کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے تھے۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے انٹرول کے بعد آگے بڑھنے کے لیے اسکرپٹ کا صفحہ الٹا تھا وہاں آگے ”جاری ہے” کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اسے جو اسکرپٹ بھیجا گیا تھا وہ انٹرول تک تھا۔ وہ بُت کی طرح بیٹھی رہی۔ عالیہ جہاں یقینا حسنِ جہاں تھی اور اگر وہ حسنِ جہاں تھی تو قلبِ مومن دانیال کے سوال اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔
”مومنہ! تم اب تک جاگ رہی ہو؟”
وہ سلطان کی آواز پر چونکی تھی۔ وہ اسے دیکھنے لاؤنج میں آیا تھا اور اب اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ باپ کو دم سادھے دیکھتی رہی۔ اس کی نظروں میں یقینا کوئی ایسا تاثر تھا جس نے سلطان کو پریشان کیا تھا۔
”ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟” وہ آگے بڑھ آیا۔
”ایک اسکرپٹ پڑھ رہی ہوں ابا۔” مومنہ کو بات کرتے ہوئے اپنی آواز کھوکھلی لگی۔
”اسکرپٹ؟” سلطان الجھا تھا۔
”ایک اُردو فلم کا اسکرپٹ۔” مومنہ نے نظریں اس پر جمائی ہوئی تھیں۔
”کیا ہے کہانی؟” سلطان نے پوچھا، اُسے اُس کی نظریں بے چین کر رہی تھیں۔
”الف لیلیٰ جیسی کہانی ہے، انٹرول تک میں نے سانس روک کر پڑھا ہے۔ آپ کو بھی سناتی ہوں۔”
مومنہ نے کہنا شروع کیا۔
”ہاں سناؤ۔ حسنِ جہاں کو بھی بڑا یقین تھا میری رائے پر، ہر اسکرپٹ سناتی تھی وہ مجھے۔ تم بھی سناؤ۔ میں بتا دوں گا ہٹ ہے یا نہیں۔” سلطان کہتے ہوئے دوسرے صوفہ پر اس کے مقابل بیٹھ گیا تھا۔
”ایک بچے کی کہانی ہے ابا! جس کی ماں ایک ایکٹریس اور ڈانسر تھی اور اسے ترکی میں ایک فیسٹیول کے دوران ایک ترک ڈانسر اور خطاط سے پیار ہو جاتا ہے۔” مومنہ رکی تھی۔ اس نے سلطان کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھا۔
”وہ اس کے لیے سب کچھ چھوڑ کر ترکی میں رہ جاتی ہے اور وہ ڈانسر جو خطاطوں کے ایک نامور گھرانے سے تھا۔ اپنے باپ کو ناراض کر کے اس سے شادی کر لیتا ہے۔ لیکن پھر وہ خطاطی نہیں کر پاتا اور ان دونوں کے درمیان محبت کی یہ داستان ایک شخص کی وجہ سے شاید ختم ہو جاتی ہے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

الف — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!