وہ باہر نکلی تو ثریا اور سلطان دونوں باہر ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اسے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
”بہت پیسہ آگیا ہے اس کے پاس۔ خواہ مخواہ ڈاکٹروں کے پاس چکر لگواتی ہے۔” ثریا نے خفگی سے اس سے کہا تھا۔ اس نے کچھ کہے بغیر ماں کا چہرہ دیکھا۔
”سب ٹھیک تو ہے نا مومنہ؟” سلطان نے جیسے بیٹی کے چہرے کو پڑھ لیا تھا۔
”ہاں ابا! سب ٹھیک ہے۔” مومنہ نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے باپ کو یقین دلایا۔
”میں نے تو پہلے ہی کہا تھا۔ مجھے کیا ہوا؟ دو گھنٹے سے بس باتیں ہی کیے جا رہا تھا وہ ڈاکٹر مجھ سے۔ آئندہ نہیں جاؤں گی اس کے پاس۔ میرا دماغ کھا گیا۔”
ثریا خفا انداز میں کہتے ہوئے کلینک سے باہر چل پڑی تھی۔
مومنہ میکانکی انداز میں فائل پکڑے ان دونوں کے پیچھے چلی گئی تھی۔ سائیکاٹرسٹ نے کہا تھا، اسے ثریا کے ساتھ وقت گزارنا تھا اگر وہ یہ چاہتی تھی کہ اس کا مرض نہ بگڑے اور وقت مومنہ سلطان کہاں سے ڈھونڈ کر لاتی۔ وہ یہ سوچ رہی تھی۔ زندگی ہمیں کبھی بھی بادشاہ نہیں ہونے دیتی کہ سب کچھ ہی عطا کر دے زندگی ہمیں ہمیشہ فقیر ہی رکھتی ہے۔۔۔ کسی نہ کسی شے سے محروم۔۔۔ کسی نہ کسی شے کے لیے ترستا ہوا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”پہلی فلم اور پہلی فلم پر ہی سپورٹنگ رول پر آسکر۔۔۔ سفر اتنا آسان تھا کیا؟”
اپنے آفس میں بیٹھے آفس میں لگی ایل ای ڈی پر آنے والے مومنہ سلطان کے ایک ٹی وی انٹرویو پر قلبِ مومن رک گیا تھا۔ مومنہ سلطان کے آسکر کے بارے میں وہ واپس آکر جانا تھا جہاں ٹی وی چینلز پر پچھلے دو ہفتوں میں اس کے علاوہ کوئی اور خبر باربار دہرائی نہیں جا رہی تھی۔
”بالکل بھی نہیں۔۔۔ ہر بڑی کامیابی کے پیچھے بہت بڑی قیمت ہوتی ہے۔”
اس نے انٹرویو ر کو جواب دیا تھا۔ بہت کچھ بدلا ہوا تھا اس کی شخصیت میں۔ یہ وہ نروس گھبرائی ہوئی اداکارہ نہیں تھی جو اس کے پاس آڈیشن کے لیے آئی تھی۔ وہ بین الاقوامیexposureجو اسے پچھلے ایک سال میں ملا تھا۔ اس کے اٹھنے بیٹھنے بولنے ہر چیز میں جھلک رہا تھا۔ وہ بے حد پراعتماد اور گرومڈ نظر آرہی تھی۔
”کامیابی ہر مشکل سفر کی تھکن ختم کر دیتی ہے۔خاص طو رپر اگر کامیابی آپ کو ملنے والی کامیابی جیسی ہو۔” انٹرویور نے مسکراتے ہوئے بے حد مرعوب انداز میں اس کے جواب پر تبصرہ کیا تھا۔
”کامیابی کی اپنی تھکن ہوتی ہے اور جتنی بڑی کامیابی ہوتی ہے، اتنا زیادہ تھکاتی ہے۔”
اس نے مومنہ سلطان کو کہتے سنا۔ قلبِ مومن چینل بدلتے بدلتے رک گیا تھا۔ وہ اس کی گفتگو سننا چاہتا تھا۔ وہ ایک عام اداکارہ کی گفتگو نہیں تھی جو کامیابی کے نشے میں چور اسکرین پر اپنے ڈنکے بجانا چاہتی ہو۔
”اس مقام تک پہنچنے کے لیے کیا کیا سمجھوتے کیے؟” سوال کرنے والی نے یک دم موضوع بدل دیا تھا۔
”سمجھوتہ کام میں کبھی نہیں کیا۔ زندگی میں بہت سارے کیے۔” رائل بلوسوٹ میں اس کے گلے میں آج بھی ایک دوپٹہ تھا۔ قلبِ مومن کو پتا نہیں کیا کیا یاد آیا تھا اور جو بھی یاد آیا تھا وہ شرم سار کرنے کے لیے کافی تھا۔
”سمجھوتے کو بُرا سمجھتی ہیں؟” انٹرویور نے کُریدا تھا۔
”کام کرنے کے لیے کیے جانے والے سمجھوتے کو بہت برا۔۔۔ زندگی گزارنے والے کیے جانے والے سمجھوتوں کو بالکل بھی نہیں۔”
وہ بہت مختصر اور مدلل بات کر رہی تھی۔ انٹرویو کرنے والی اسی کی عمر کی لڑکی تھی مگر وہ مومنہ سلطان سے بے حد مرعوب اور خائف نظر آرہی تھی۔
قلبِ مومن جانتا تھا، وہ اس کا انٹرنیشنل اسٹارڈم تھا جو بات کرنے والی کو بار بار سوچ کر بات کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔
”چلیں کچھ ہلکی پھلکی بات چیت کرتے ہیں ہم۔ کچھ پرسنل سوالات۔”
انٹرویور نے یک دم موضوع ایک بار پھر اسی انداز میں بدلا تھا جس میں وہ بدلنے کی عادی تھی۔ قلبِ مومن آفس کا دروازہ کھول کر اندر آنے والے داؤد کو نہیں دیکھ سکا۔ وہ اس انٹرویو میں اتنا محو تھا۔ داؤد خاموشی سے آکر ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور وہ بیٹھا تو مومن کو پہلی بار اس کی موجودگی کا احساس ہوا۔
”کبھی کسی سے پیار کیا؟” انٹرویور نے بے حد تجسس کے عالم میں اس سے سوال کیا تھا۔
”ہاں۔” بے حد بے تاثر انداز میں جواب آیا تھا۔
”پاپا یا کھویا؟” انٹرویور کا تجسس اور بڑھا۔
”پاکر بہت کچھ کھو دیتی۔۔۔ اس لیے کھو دیا۔” مومنہ سلطان نے اسی انداز میں کہا تھا۔
”کھو دینے کی تکلیف ہے؟”
”اب نہیں ہے۔”
”زندگی میں کبھی کسی سے نفرت کی؟” انٹرویور کا اگلا سوال تھا۔
”ہاں۔” جواب سوچے بغیر آیا تھا، یوں جیسے وہ جانتی تھی اسے کس کا نام لینا تھا۔
”کس سے؟”
”ایک ڈائریکٹر تھا۔ جس کے پاس میں فلم کا آڈیشن دینے گئی تھی۔۔۔ اس نے فلم میں نامناسب لباس پہننے کے لیے مجھے مجبور کیا اور میرے انکار پر فلم میں کام نہیں دیا۔ وہ فلم مل جاتی تو شاید میرے بھائی کی زندگی بچ جاتی۔ تو بس اس وقت ضرورت نے ایسی نفرت کروائی تھی اس سے کہ آج بھی اگر کوئی نفرت کا نام لیتا ہے تو میری آنکھوں کے سامنے صرف اس ڈائریکٹر کا چہرہ آتا ہے۔”
وہ پہلا سوال تھا جس کا جواب اس نے مختصر نہیں دیا تھا۔ بے حد تحمل سے دیا تھا مگر اس کی آنکھیں اس تحمل کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔
قلبِ مومن کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ آج بھی اس کی یادداشت کا حصہ ہے اور اس انٹرویو میں اس کا حوالہ اس طرح آئے گا۔ ندامت اس لیے بھی زیادہ ہوئی تھی کیوں کہ اس نے کچھ فاصلے پر داؤد بیٹھا ہوا تھا۔ کبھی کبھار قسمت ہمیں اس طرح کٹہرے میں لاکر کھڑا کر دیتی ہے کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
”نام بتانا چاہیں گی آپ اس کا؟” انٹرویور نے چند جملے اس ڈائریکٹر کی شان میں کہنے کے بعد جیسے مومنہ سلطان کو نام لینے پر اُکسایا۔
”وہ اس قابل بھی نہیں کہ میں اس کا نام لوں۔” قلبِ مومن نے ریموٹ اٹھا کر ایل ای ڈی بند کر دی تھی۔
”تم نے مجھے بتایا نہیں تھا، اس کا بھائی بیمار تھا۔” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد مومن نے داؤد سے کہا تھا۔
”بتا دیتا تو بھی کیا ہوتا مومن بھائی۔ آپ اس وقت کسی کی نہیں سنتے تھے۔”
داؤد نے شاید زندگی میں پہلی بار مدھم آواز میں اس کے رویے کی کسی بدصورتی کی نشان دہی کی تھی۔
مومن چپ کا چپ بیٹھا رہ گیا۔
”اگر تمہاری بات ہوتی ہو اس سے تو معذرت کرنا میری طرف سے۔” بہت دیر خاموش رہنے کے بعداس نے جو کہا تھا، اس نے داؤد کو گنگ کر دیا تھا۔ وہ شاید پہلی معذرت تھی جو مومن کسی سے کر رہا تھا۔
”میں اور ٹینا سوچ رہے ہیں مومن بھائی! کہ اگر مومنہ سے آپ کی فلم کے لیے بات کی جائے۔ شیلی تو اب انکار کر کے چلی گئی ہے اور ہم دونوں کا خیال ہے، یہ رول مومنہ کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔” داؤد نے اس کی بات کے جواب میں بڑی ہمت سے کہا تھا۔
”وہ اسکرپٹ تمہارے منہ پر مارے گی۔” بے حد ٹھنڈے لب و لہجے میں مومن نے اس سے کہا تھا۔
٭…٭…٭
”میں یہ اسکرپٹ تمہارے منہ پر مارنانہیں چاہتی اس لیے اسے اٹھا لو۔”
داؤد بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔ مومنہ کے چہرے کی سنجیدگی میں رتی برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ داؤد اس کے پاس کچھ دیر پہلے پہنچا تھا اور ادھر ادھر کی گپ شپ کرنے کے بعد وہ بالآخر اسی موضوع پر آیا تھا اور اسکرپٹ مومنہ کے سامنے رکھتے ہوئے اس نے بات کا آغاز کیا تھا اور جواب حسب توقع وہی آیا تھا۔ مومنہ نے اسکرپٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔
”مومن بھائی نے یہی کہا تھا۔ تم یہی کرو گی۔” داؤد نے بالآخر اس سے کہا۔
”تمہاری جگہ مومن بیٹھا ہوتا تو یقینا یہی کرتی۔ اس کی ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے یہ فلم آفر کرنے کی۔ مجھ سے رابطہ کرنے کی بھی۔” وہ بے اختیار خفا ہوئی تھی۔
”یہ آئیڈیا میرا تھا۔” داؤد نے اعترافی انداز میں کہا۔
”اقصیٰ ٹھیک کہتی ہے۔ تمہاری عقل گھٹنوں اور ٹخنوں کے درمیان چلتی رہتی ہے۔”
داؤد نے اس کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دی تھی۔
”وہ بہت شرمندہ ہیں۔” داؤد نے کہا۔ مومنہ طنزیہ انداز میں ہنسی۔
”اوہ اچھا۔ ضمیر جاگ گیا تمہارے مومن بھائی کا۔۔۔ بڑی جلدی جاگا ہے۔ اب مجھ سے یہ مت کہنا کہ وہ مجھ سے معذرت کرنا چاہتے ہیں۔” داؤد زبان دانتوں تلے دبا کر بیٹھا رہا۔
”تم صرف ایک بار یہ اسکرپٹ پڑھ لو۔” مومنہ نے اس کی بات کاٹی۔
”میں بغیر پڑھے انکار کر رہی ہوں۔ اس پر قلبِ مومن کا نام لکھا ہے اور میں اس نام کو دیکھنا تک نہیں چاہتی۔”
”اس پر اللہ کا نام بھی ہے اور الف اسی کے نام کا پہلا حرف ہے۔” داؤد نے بے اختیار کہا تھا۔ وہ چپ ہو گئی۔
”میں مومن کے ساتھ کبھی کام نہیں کروں گی۔” اس نے جیسے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔
”مت کرو۔ صرف اسے پڑھ لو۔ پڑھنے میں تو کچھ نہیں جائے گا تمہارا۔” داؤد نے بے ساختہ اس سے کہا۔ وہ اس بار خاموش رہی۔
”میں چلتا ہوں۔ دیر ہو رہی ہے۔” وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ مومنہ خفا سے انداز میں بیٹھی رہی۔
”تمہیں یاد ہے مومنہ! جہانگیر کے لیے جب ہم اس رات پیسے جمع کر رہے تھے تو جو پیسے کم پڑے تھے۔۔۔ وہ میں آدھی رات کو کس کو جگا کر لایا تھا؟” اس نے کھڑے ہوتے ہوئے مومنہ سے کہا۔ مومنہ اور داؤد ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ مومنہ کو لگا جیسے کسی نے اس کے پیٹ میں گھونسا مارا ہو۔
”مومن کا نام مت لینا۔” وہ جیسے کراہ کر داؤد سے بولی تھی۔
”تمہارا نام لے کر ان سے قرضہ لے کر نہیں آیا تھا۔ اپنا ہی نام لیا تھا۔ واپس دینا چاہتا تھا بعد میں انہیں۔ انہوں نے لیا ہی نہیں کہ یہ چھوٹی رقم ہے۔ چلتا ہوں۔”
وہ مدھم آواز میں کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔ وہ گم صم وہاں بیٹھی رہی تھی۔ زندگی میں قلبِ مومن وہ آخری آدمی بھی نہ ہوتا جس کا وہ کبھی کوئی احسان اپنے سر پر رکھنا چاہتی تھی۔ اس نے اس پر احسان کیا بھی نہیں تھا۔ مگر وہ مومنہ سلطان تھی۔ احساس سے عاری ہوتی تو بہت خوش رہتی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});