الف — قسط نمبر ۰۹

”میں نہیں مانتی، یہ اسکرپٹ مومن نے لکھا ہے۔ وہ یہ لکھ ہی نہیں سکتا۔”
ٹینا دوسرے دن اپنے آفس میں بیٹھے وہ اسکرپٹ کھولے بیٹھی رو رہی تھی اور ٹشو سے اپنی ناک اور آنکھیں رگڑتے ہوئے اس نے سامنے بیٹھے داؤد سے کہا تھا۔ جو پچھلی رات یہ اسکرپٹ پڑھ آیا تھا اور اس نے صبح سویرے سرخ آنکھوں کے ساتھ آفس میں ٹینا کو وہ اسکرپٹ دیتے ہوئے کہا تھا۔
”You must read it.پاگل ہو گیا ہوں میں رات کو۔”
اس نے ٹینا سے کہا تھا اور ٹینا کو لگا وہ مذاق کر رہا تھا یا شاید اس اسکرپٹ کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مگر دو گھنٹے بعد اب و ہ اس اسکرپٹ کو لیے سکتے کے عالم میں بیٹھی تھی۔
”مجھے بھی یقین نہیں آرہا کہ یہ انہوں نے ہی لکھا ہے مگر وہ اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ انہوں نے لکھا ہے تو جھوٹ تو نہیں بولا ہو گا۔” داؤد نے اس کی بات کے جواب میں کہا تھا۔
”کس کی کہانی لکھی ہے مومن نے؟ ایک ایک صفحے پر مجھے لگتا ہے جیسے یہ کسی کی کہانی ہے جیسے یہ سب کسی پر گزرا ہے۔” ٹینا اب ایک صفحہ پر لکھی ہوئی لائنز پڑھ رہی تھی اور سر دھن رہی تھی۔
”مجھے بھی یہی لگتا ہے کہ یہ سچی کہانی ہے۔ ہو سکتا ہے کسی فلم سےinspiredہو یا کسی ناول سے۔” داؤد نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”بالکل یہی بات ہے۔ بالکلinspiredہے یہ۔ مومن کتابیں بھی تو بہت پڑھتا ہے اور فلمز تو سارے زمانے کی دیکھتا ہے۔ مجھے پکا یقین ہے کہیں سے چرائی ہے کہانی یا ملا کر بنائی ہے مگر جو بھی ہے، کمال ہے۔ ۔۔شان دار ہے۔”
ٹینا کہتے ہوئے اسکرپٹ کے صفحات کو پھر پلٹتی جا رہی تھی۔ وہ بار بار اپنے پسندیدہ سینز اور لائنز کو انڈرلائن کرتی اور پھر بلند آواز میں داؤد کو سنانے لگتی اور وہ جواباً اسے اگلی لائنز سناتا۔ وہ اسکرپٹ پہلی ریڈنگ میں ہی انہیں جیسے رٹ گیا تھا۔
”تمہیں پتا ہے عالیہ کا کردار کس کو کرنا چاہیے؟” ٹینا نے یک دم اس سے کہا۔ اس کا لہجہ بے حد عجیب تھا۔ اس نے داؤد کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جیسے سوال نہیں کیا تھا۔ اس کی رائے لی تھی۔
”وہ نہیں کرے گی۔” داؤد نے اس ایکٹریس کا نام جیسے پہیلی کی طرح بوجھا تھا۔ جو ٹینا کے ذہن میں آئی تھی۔
”تمہیں بھی اسی کا خیال آیا تھا ناں؟” ٹینا نے بھی اس کے جواب کو بغیر سنے جانا تھا۔ وہ ایکسائیٹڈ ہوئی تھی۔
”ہاں۔ مگر مومن بھائی نے شیلی کو کاسٹ کرنے کا کہا ہے اور شیلی ہی سے بات کرنی ہے ہمیں۔” داؤد نے دوٹوک انداز میں اس بار اس کی ایکسائٹمنٹ ختم کی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”دادا جی بڑے نیک انسان، بڑی نیک روح تھے۔ مجھے تو پتا تھا ہمیشہ سے۔ نیکوں کو نیکوں کا پتا چل ہی جاتا ہے۔”
شکور نے زار زار روتے ہوئے قلبِ مومن سے کہا تھا۔ وہ اس سے عبدالعلی کی تعزیت کر رہا تھا اور وہ بے حد خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔
”میرے بارے میں کچھ کہا انہوں نے؟” اپنی ناک رگڑتے ہوئے شکور کو یک دم خیال آیا۔ قلبِ مومن نے سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”صرف یہ کہ شکور سے کہہ دوں کہ وہ جھوٹ چھوڑ دے۔” شکور کا منہ چند لمحوں کے لیے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ وہ جیسے رونا ہی بھول گیا تھا۔
”یہ دادا جی نے میرے لیے اس دنیا سے جانے سے پہلے کہا؟” شکور کو یقین نہیں آیا تھا۔
”تم نے اس بلڈنگ کے چوکیدار سے کہا کہ میں اپنا پینٹ ہاؤس چھوڑ کر تبلیغ پر چلا گیا ہوں؟” شکور کے آنسو بھاپ بن کر ہوا میں تحلیل ہوئے تھے۔
”نہیں تو۔” شکور کی سانس حلق میں اٹکی۔
”صبح سے پراپرٹی ڈیلرز کے فون بھگتا رہا ہوں میں، اور وہ سب تمہارے ریفرنس سے آرہے ہیں کیوں کہ تمہارے ذمہ لگایا ہے میں نے یہ گھر بیچنا۔” شکور قلبِ مومن کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ عبرانی زبان میں باتیں کر رہا ہو۔
”میرے بڑے دشمن ہیں مومن بھائی۔ آپ کی نظروں میں گرانا چاہتے ہیں مجھے۔” شکور نے بالآخر کہا۔
”انہیں جا کر پھر بتا دو کہ تم میری نظروں میں جتنا پہلے گرے ہوئے ہو اس سے زیادہ نہیں گر سکتے۔” قلبِ مومن نے تنک کر کہا تھا۔
”ہاں، یہ بات ہوئی نا۔ یہی جا کر کہوں گا۔ آپ کو بس اسی طرح اعتبار ہونا چاہیے مجھ پر۔”
قلبِ مومن کی بات اس کے سر کے اوپر سے گزری تھی یا اگر اس کی سمجھ میں بھی آئی تھی تو اس نے ناسمجھی کا مظاہرہ کیا تھا۔
قلبِ مومن نے اس کے ساتھ مزید مغز ماری کا ارادہ ترک کر دیا۔
”تم کسی ماسٹر ابراہیم کو جانتے ہو؟” اس نے شکور سے پوچھا تھا۔
”وہ جو دادا جی کے دوست تھے اور جن سے دادا جی ملنے گئے تھے؟” اس نے چونک کر پوچھا تھا۔
”ہاں۔” قلبِ مومن نے مختصراً کہا۔
”ہاں جی، جانتا ہوں۔”
”مجھے ملنا ہے ان سے۔ ان کا پتا چاہیے۔”
شکور اس کی بات پر سرکھجانے لگا۔
”پتا تو نہیں ہے میرے پاس۔ بس علاقے کا پتا ہے۔ آپ کو بتایا تھا نا کریم منگوائی تھی میں نے ان کے لیے۔ پر پورا ایڈریس نہیں دیا تھا انہوں نے۔”
وہ فون نکال کر جیسے ایڈریس ڈھونڈنے لگا تھا۔
”تمہیں علاقے کا پتا ہے تو وہی بتا دو میں ڈھونڈ لوں گا انہیں۔” قلبِ مومن بڑبڑایا تھا۔
”پر آپ ملنا کیوں چاہتے ہیں ان سے؟” شکور کو یک دم متجسس ہوا۔
”ہے کوئی بیڑی جو پاؤں سے اتارنا چاہتا ہوں۔”
اس کا جملہ ایک بار پھر شکور کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔
”مومن بھائی صوفی ہو گئے ہیں۔” اس نے دل ہی دل میں کہا۔
”لیکن بس چہرے پر نور نہیں آیا جیسے دادا جی کے چہرے پر ہوتا تھا۔” اس نے چور نظروں سے صوفے پر بیٹھے ہوئے قلبِ مومن کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ پھر اسے یک دم کچھ یاد آیا۔
”کوئی خالق صاحب آتے رہے تھے آپ کے بعد آپ سے ملنے۔ کہتے تھے دادا جی نے آپ کا پتا اور فون نمبر دیا تھا مگر آپ کے فون پر ان کا آپ سے رابطہ نہیں ہو پایا تھا۔ ان کو دادا جی کی وفات کا بھی پتا تھا۔” شکور نے قلب مومن کو اطلاع دی۔
”مجھے اپنا کارڈ دے کر گئے تھے۔ ترکی جاتے رہتے تھے داداجی کے پاس۔ مجھے بتایا تھا انہوں نے۔ ویسے تو کہہ رہے تھے، دوبارہ آئیں گے فون بھی کریں گے۔”
قلبِ مومن نے عدم دلچسپی سے اس کی بات سنی تھی۔ اسے فی الحال صرف ماسٹر ابراہیم سے ملنے میں دلچسپی تھی۔
٭…٭…٭
”شرم آنی چاہیے تم لوگوں کو یہ رول مجھے آفر کرتے ہوئے۔” شیلی کا بس نہیں چلا تھا کہ وہ داؤد کے سر پر آفس میں پڑی کوئی چیز دے مارتی۔ وہ اپنا رول سننے آئی تھی اور اب غضب ناک تھی۔
”اس سے بہتر میں نے کسی ہیروئن کا کریکٹر مومن کی کسی فلم میں نہیں دیکھا۔’ ٹینا نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔ شیلی نے اس کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”سات سالہ بچے کی ماں؟ میں کہاں تمہیں سات سالہ بچے کی ماں لگتی ہوں؟” وہ دھاڑی تھی۔
”کتنیlayers اور شیڈز ہیں۔ شادی سے پہلے کا پوراglamorous سفر ہے۔” اس بار داؤد نے کچھ بولنے کی کوشش کی تھی اور شیلی نے اسے بھی بات پوری کرنے نہیں دی۔
”پندرہ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے وہ سارا گلیمر اور پھر پوری فلم میں، میں ایک بچہ لٹکا کر پھروں گی اور وہ بھی پہلے سات سال کا پھر اس سے بھی بڑا۔For God sake۔ مومن سے کہو فلمیں بنانا چھوڑ دے اور لکھنا تو مکمل طور پر۔۔۔ رائٹر نہیں ہے وہ۔۔۔ یہ کیڑا کیوں گھس گیا ہے اس کے دماغ میں۔ جب تک وہ اس فیز سے نکل نہیں آتا۔ اسے کہو وہ گھر بیٹھ جائے۔” وہ دھاڑتے ہوئے اپنا بیگ اٹھا کر کھڑی ہو گئی تھی اور چلتے چلتے اس نے یک دم رک کر داؤد سے کہا۔
”اور ہاں اسے یہ بھی بتا دینا کہ میں نے احسن کی فلم سائن کر لی ہے۔ میرے پاس اب اس سال کسی اور فلم کے لیے ڈیٹس نہیں ہیں۔ ہاں اگر نے صنم بنانی ہو تو بتانا مجھے۔” شیلی کہتے ہوئے آفس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گئی تھی اور اس کے باہر جاتے ہی ٹینا کا چہرہ چمکنے لگا تھا۔
”Thank God۔ اس نے انکار کر دیا۔ یہ رول مومنہ سلطان کا ہے۔ وہی کرے گی میں بتا رہی ہوں تمہیں۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا یہ رول۔” ٹینا نے داؤد کو چیلنج کرنے والے انداز میں کہا تھا۔
٭…٭…٭
”ہاں ہاں مجھے پتا ہے تو نے ایسے ہی کہنا تھا۔ اب تجھے کیا پتا کتنی مصروف ہوں۔ مومنہ آئی ہوئی ہے تو اس کے لیے کھانا بنا رہی ہوں۔ تیری طرح وہ بھی ہر وقت فرمائشیں ہی کرتی رہتی ہے۔ تجھے بتایا تو تھا نا میں نے ایوارڈ ملا ہے اسے۔ آسکر۔”
کوریڈور میں سے گزرتے ہوئے مومنہ کو لگا ثریا کسی سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ کچن میں تھی اور ملازم ابھی کچھ دیر پہلے باہر گیا تھا پھر وہ کچن میں کس سے باتیں کر رہی تھی۔ مومنہ عجیب تجسس کے عالم میں کچن میں گئی تھی اور وہ دروازے سے اندر نہیں جا سکی۔ ثریا اب توے پر روٹی ڈالتے ہوئے ہنس رہی تھی اور پھر ہنستے ہوئے اس نے کسی سے کہا تھا۔
”ہاں ہاں۔۔۔ گئے تھے ہم۔۔۔ وزیراعظم سے بھی ملے، صدر سے بھی ملے۔ تیری بہن کی اتنی عزت ہوئی وہاں۔ تو ہوتا تو کتنی تصویریں بناتا۔ ہاں ہاں پتا ہے مجھے۔’
مومنہ دروازے میں ساکت کھڑی ثریا کو دیکھتی رہی۔ وہ اسی طرح باتیں کر رہی تھی اس کی موجودگی سے بے خبر۔
”اماں کس سے باتیں کر رہی ہیں آپ؟” اس نے بالآخر ہمت کر کے جیسے انہیں مخاطب کیا تھا۔ ثریا نے چونک کر اسے دیکھا پھر عجیب پراسرار انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”کس سے باتیں کروں گی؟ تیرا بھائی جہانگیر ہے۔۔۔ یہ دیکھ۔” اس نے اس طرح الماری کی طرف اشارہ کیا تھا جیسے وہ وہاں کھڑا تھا۔
مومنہ نے اضطراب کے عالم میں وہا ںدیکھا تھا جہاں وہ اشارہ کر رہی تھی۔ وہاں کوئی نہیں تھا یہ وہ وہاں دیکھتے ہوئے بھی جانتی تھی۔
”اماں! یہاں کوئی نہیں ہے۔۔۔ اور جہانگیر کیسے آسکتا ہے؟” اس نے ماں کو جیسے کچھ یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔
”لو بھلا۔ اس کی بہن کا گھر ہے، اسے کون روکے گا۔ اس کا جب دل چاہتا ہے آجاتا ہے۔ پھر میں اور وہ بیٹھ کے فلمیں دیکھتے ہیں۔” ثریا نے اس کی بات اس طرح نظرانداز کرتے ہوئے اسے بتایا تھا جیسے وہ عقل سے پیدل تھی۔ جو وہ دیکھ پا رہی تھی، وہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔
مومنہ سلطان کچھ بھی بول نہیں پا رہی تھی۔ وہ بس دروازے کی چوکھٹ کے دونوں اطراف ہاتھ رکھے وہاں دم سادھے کھڑی رہی تھی۔
٭…٭…٭
”شیزوفرینیا کی علامات ہیں۔ وہ پچھلے کئی مہینوں سے آپ کے بھائی کو دیکھ رہی ہیں۔ آپ نے پہلے کبھی نوٹس کیوں نہیں کیا؟”
مومنہ سلطان نے سوچا تھا، اس کی زندگی میں بُری خبریں اب نہیں رہیں۔ کچھ دن تو اچھے گزرتے۔ سائیکاٹرسٹ ثریا کے ساتھ کیے جانے والے سیشن کے بعد اسے اپنی تشخیص بتا رہا تھا اور وہ دم بخود سن رہی تھی۔
”میں پاکستان میں رہی ہی نہیں اتنے مہینے۔” اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے سائیکاٹرسٹ کو بتایا تھا۔
”اسی لیے آپ کو اندازہ نہیں ہوا۔ ریگولرمیڈیکیشن کرنی پڑے گی اور سیشنز بھی۔ ابھی ابتدائی اسٹیج میں ہے یہ مرض۔ وقت پر علاج ہو جائے گا تو کنٹرول ہو جائے گا۔” وہ اسے امید دلا رہا تھا۔ مومنہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے صرف سرہلا رہی تھی۔
”By the way آپ کو آسکر جیتنے پر بہت بہت مبارک ہو۔۔۔ آپ مومنہ سلطان ہیں نا؟” سائیکاٹرسٹ نے گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے اس وقت اس سے کہا جب وہ کرسی سے اٹھ کر اس کے آفس سے نکلنے والی تھی۔ اس نے بمشکل شکریہ ادا کیا۔ بعض لمحوں میں آپ پہچانے نہیں جانا چاہتے۔ سینگ لگا لینا چاہتے ہیں۔ ماسک چڑھا لینا چاہتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں آپ کو پہچانے جانے کے بعد یاد آتی ہیں۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

الف — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!