سلطان نے بالآخر اس نیوز بلیٹن کے خاتمے پر وہ جملہ دہرایا جو وہ پچھلے چند دنوں میں کئی بار دہرا چکا تھا اور ثریا نے ہمیشہ کی طرح اسی طرح سنا جس طرح پہلی بار سنا تھا اور سن کر ہنس پڑی تھی۔ یوں جیسے اپنی ہنسی سے سلطان کے جملے پر مہر تصدیق ثبت کر رہی ہو۔
”مومنہ واقعی نصیب والی ہے۔”
وہ بڑبڑائی تھی عجیب سی کیفیت میں۔
”یاد ہے نا، اس کے بعد جہانگیر ہوا تھا۔”
اس نے سلطان کو اس کی خوش قسمتی کا ایک اور ثبوت پیش کیا۔
”ہاں چار سال بعد۔” سلطان نے بے ساختہ کہا اور چینل بدلا۔
وہ آسکر بھی ان کے دلوں اور ذہنوں سے جہانگیر کو کھُرچ نہیں سکا تھا۔
ثریا کے فون کی گھنٹی نے یک دم جیسے اس کی یادوں پر بند باندھا۔ وہ اقصیٰ کا فون تھا۔
”یہ مومنہ کہاں ہے آنٹی! میں کب سے فون کر رہی ہوں اسے، فون بند کر کے بیٹھی ہوئی ہے اور یہاں میرے پیچھے میڈیا والے لگے ہوئے ہیں اور میں انہیں روک روک کر پاگل ہو رہی ہوں۔ اب اگر آپ کے گھر کی بیل بجنا شروع ہو تو پھر مجھے مت کہیے گا۔”
اقصیٰ نے فون پر ثریا کی آواز سنتے ہی مشین کی طرح بولنا شروع کر دیا تھا اور اس نے ثریا کو کوئی جواب دینے کا موقع بھی نہیں دیا تھا۔
”سو رہی ہے شاید پر میں دیکھ کر آتی ہوں۔ تجھے پتا تو ہے لمبی فلائٹ سے آئی ہے تھکی ہوئی ہو گی۔ ورنہ غیرذمہ دار تو نہیں ہے وہ۔” ثریا کچھ گڑبڑا کر اس کی صفائیاں دیتے ہوئے فون لیے مومنہ کے کمرے میں آئی تھی۔ کمرے کا دروازہ بند تھا لیکن لاکڈ نہیں تھا۔
”مومنہ۔ مومنہ۔” ثریا اسے پکارتے ہوئے فون لیے دروازہ کھول کر اندر آگئی تھی۔
وہ کمرے کے ایک کونے میں زمین پر پڑے رگ پر بیٹھی اپنی گود میں قرآن پاک رکھے اسے پڑھنے میں مصروف تھی۔ کمرے میں روشنی صرف اسی ایک کونے میں تھی جہاں وہ بیٹھ کر قرآن پاک پڑھ رہی تھی۔ ثریا کی آواز پر اس نے سراٹھا کر ماں کو دیکھا تھا۔
”بیٹا! اقصیٰ کا فون ہے، کب سے تمہیں فون کر رہی ہے۔ تم نے فون بند کیا ہوا ہے۔ اس سے بات کر لو۔” ثریا نے اس سے کہا۔
”اماں! میں تھوڑی دیر میں کرتی ہوں اسے فون۔ آپ بتا دیں اسے۔” اس نے قرآن پاک بند کرتے ہوئے ثریا سے کہا تھا۔ ثریا فون پر اقصیٰ سے بات کرتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کر کے چلی گئی تھی۔
اس کمرے کی خاموشی جو چند لمحوں کے لیے غائب ہوئی تھی۔ اب پھر واپس لوٹ آئی تھی۔ مومنہ سلطان نے ہاتھ میں پکڑے اس قرآن پاک کو تعظیماً ماتھے سے لگاتے ہوئے بند کیا تھا۔ وہ وہی نسخہ تھا جو عبدالعلی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور جو ماسٹر ابراہیم نے اسے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ وہ جب بھی اسے کھولتی تھی پوری دنیا کی باگ ڈور جیسے روک دیا کرتی تھی۔ وہ خاموشی اور سکون میں بیٹھ کر اس کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے اندر جھانکتی رہتی تھی۔ سوچنے کے لیے صرف اس کے پاس اتنا ہی وقت ہوتا تھا۔ اب باقی صرف روٹین تھی جو اس قرآن پاک کے بند ہوتے ہی دوبارہ شروع ہو جانا تھی۔ اس کا ایک منٹ اور گھنٹہ اب میکانیکی تھا۔Planned۔۔۔Scheduled۔۔۔
قرآن پاک بند کر کے بھی وہ اسی طرح کچھ آلتی پالتی مارے بیٹھی کمرے کے نیم اندھیرے میں جگہ جگہ رکھے پھولوں کے گلدستے دیکھتی رہی۔ جن کی خوشبوئیں ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی تھیں اور جن پر ان کے بھیجنے والوں کے نام کے کارڈز لگے ہوئے تھے۔ ثریا نے اس کے کمرے میں گلدستے رکھتے ہوئے صرف ان کی خوب صورتی دیکھی تھی، بھیجنے والے کا نام نہیں دیکھا تھا۔ اور نام مومنہ نے بھی نہیں دیکھے تھے۔ اس نے اب قرآن پاک سامنے پڑی چھوٹی میز پر رکھ دیا تھا۔ گھٹنے سکیڑ کر ان کے گرد بازو لپیٹے وہ اسی طرح خاموش بیٹھی اپنے پھولوں سے بھرے ہوئے کمرے کو دیکھتی رہی۔ وہ عروج کے دن تھے اور وہ عروج سے پہلے زوال سے گزر کر آئی تھی۔ عروج پر اعتبار کرتی تو کیسے کرتی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
” This too shall pass. (یہ وقت بھی گزر جائے گا۔) ” وہ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ ان سب پھولوں کو دیکھ کر بڑبڑائی تھی۔
اسی کمرے میں بہت سارے پھولوں کے درمیان آسکر کی وہ ٹرافی بھی رکھی تھی جس پر کھڑا سنہری مجسمہ اس کے کمرے کی دھندلی روشنی میں بھی چمک رہا تھا۔
”آپا! تم نے بہت بڑا سٹار بن جانا ہے۔ بتا رہا ہوں میں تمہیں۔ ہالی ووڈ میں کام کرو گی پھر آسکر لینے جاؤگی۔ پھرspeech کرنا اور میرا thank youکرنا کہ اگر جہانگیر نہ ہوتا تو۔”
اس کے کانوں میں جہانگیر کی آواز گونجی تھی۔ وہ جانے سے پہلے جیسے اسے اس کی قسمت کا حال بتا کر گیا تھا اور مومنہ نے آسکر ایوارڈ لیتے ہوئے جہانگیر کو وہ ایوارڈ dedicate کیا تھا بالکل ان ہی الفاظ میں اس کا شکریہ ادا کیا تھا جن میں اس نے کہا تھا۔
”جہانگیر نہ ہوتا تو مومنہ سلطان آج یہ ایوارڈ لیے یہاں کھڑی نہ ہوتی۔۔۔ اس کے ہونے نے مجھے ایک اداکارہ بنایا۔۔۔ اس کے نہ ہونے نے ایک ستارہ۔۔۔ وہ کہیں آسمان میں آج یہ ٹرافی تھامے مجھے دیکھ رہا ہو گا اور منتظر ہو گا کہ میں اس کا نام لوں اور شکریہ ادا کروں تو جہانگیر تمہارا بہت بہت شکریہ، تم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا۔”
اس کے کانوں میں اپنی بھرائی ہوئی آواز اور گونجتی ہوئی تالیوں میں جہانگیر کے لیے کہے ہوئے لفظ اس خاموشی میں بھی بازگشت کی طرح گونجنے لگے تھے۔ وہ پچھلی رات پاکستان آئی تھی اور آنے کے بعد سب سے پہلے جہانگیر کی قبر پر گئی تھی۔ اسے آسکر دکھانے۔ یوں جیسے اس آسکر کو حاصل کرنے کا سارا مقصد ہی یہ تھا۔
میز پر پڑا فون اٹھا کر اس نے اس کی سکرین دیکھی۔ وہ Aeroplane Mode میں تھا اور بے حد شانت تھا نہ وہاں کوئی پیغام تھا نہ کوئی مسڈکال، نہ کوئی آنے والی کال نہ کوئی آنے والی میٹنگ کی یاددہانی۔ اور اب وہ اسے آن کرتی تو یک دم بار بار اسے اپنا سانس بحال کرنے کی جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ نام کے لیے؟ ناموری کے لیے؟ شہرت کے لیے؟ کامیابی کے لیے؟ رزق کے لیے؟ یہ سب اب تھا اس کے پاس ان میں سے کسی چیز کے لیے بھاگنا نہیں پڑ رہا تھا اسے۔ مگر اس کے آگے کیا تھا اور اس سب کے بعد کیا تھا یہ وہاں بیٹھے ہوئے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
”What is next to ecstacy?”اس نے ”پیرِکاملۖ” میں ایک جگہ پڑھا تھا اور اب وہ خود سے وہی سوال کر رہی تھی۔
”کامیابی کے بعد کیا؟ اس سے بڑھ کر اور کیا؟”
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”یار! کوئی اس طرح تھوڑی کرتا ہے جس طرح مومن بھائی نے کیا ہے۔ ٹھیک ہے۔ دادا کی ڈیتھ ہو گئی لیکن مہینوں غائب ہو جاؤ۔ نہ میسج کا جواب دو نہ فون اٹھاؤ نہ ای میل کھولو اگلا خوار ہو جائے۔” داؤد اس شام بری طرح تپا ہوا تھا۔
وہ مومن کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا اور یہ اس کی اور ٹینا کی روز کی روٹین تھی وہ بے مقصد وہاں بیٹھے رہتے تھے۔ کام کرنے کے لیے نہیں تھا اور جو بھی تھا وہ التوا پر چلا گیا تھا کیوں کہ مومن یہاں نہیں تھا، اور اس کے بغیر کمپنی کا کوئی کام نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ دونوں کمپنی کے باقی لوگوں کی طرح ہر روز آتے اور بیٹھ کر قلب مومن کے نمبرز پر کالز اور ای میل ایڈریس پر میسجز کرتے رہتے اور پھر تھک ہار کر اٹھ جاتے۔ وہ ترکی میں تھا مگر کس حالت میں تھا وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے۔ مگر وہ اب تنگ آچکے تھے۔
”بغیر pay کے اتنے مہینوں سے بیٹھے ہیں اور مومن بھائی کو احساس تک نہیں ہے۔” داؤد واقعی بُری طرح بگڑا ہوا تھا۔
”میں نے تو اب پہلی فرصت میں کوئی بھی کمپنی جوائن کر لینی ہے۔ جہاں سے بھی مجھے لیٹر آگیا۔” ٹینا نے جیسے اعلان کیا تھا۔
”اور میری تو قسمت خراب ہے، جہاں اپلائی کر رہا ہوں۔ آگے سے کوئی جواب ہی نہیں ملتا۔” داؤد نے جیسے اپنا المیہ دہرایا۔
اس سے پہلے کہ ٹینا کچھ کہتی، دروازہ کھول کر ایک شخص اندر آیا تھا اور پہلی نظر میں ٹینا اور داؤد نے اسے پہچانا ہی نہیں تھا۔ وہ قلبِ مومن تھا۔ آنکھوں کے گرد حلقے، بڑھی ہوئی شیو، بے ترتیب بالوں کے ساتھ۔ وہ دونوں بے اختیار اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ کر کھڑے ہوئے تھے۔
”مومن بھائی۔What a pleasant surprise۔ آپ کب آئے؟” داؤد نے بے اختیار لپک کر اس سے گلے ملتے ہوئے کہا۔
”ابھی ایک گھنٹہ پہلے۔ ایئرپورٹ سے سیدھا آفس ہی آیا ہوں۔ یہ اسکرپٹ دینے۔ کل اس پر میٹنگ کروں گا تم لوگوں کے ساتھ۔ فی الحال گھر جا رہا ہوں۔” وہ کہتے ہوئے ان کی میز پر ایک اسکرپٹ رکھتا ہوا رکے بغیر اور ان کی کوئی بات سنے بغیر چلا گیا تھا۔
داؤد نے میز پر پڑا ہوا وہ اسکرپٹ اٹھایا۔ اس کے پہلے صفحے پر لکھا تھا۔
”Alif – A Story and Film by Qalb-e-Momin”
”یہ ترکی میں بیٹھ کر یہ کرتے رہے ہیں؟” اس نے جیسے بے یقینی کے عالم میں اس سکرپٹ کے صفحے الٹتے ہوئے کہا تھا۔
”میرا سوال یہ ہے کہ اس اسکرپٹ کو پڑھے گا کون؟” ٹینا نے اس کی بات کے جواب میں اتنی ہی سنجیدگی سے کہا۔
”دونوں کو ہی پڑھنا ہو گا۔ اگر میٹنگ ہے تو ظاہر ہے پوچھیں گے وہ کہانی کے بارے میں۔” داؤد نے کہا۔
”تم پڑھ کر سنا دینا مجھے کہانی۔ میں اپنی رات اسے پڑھنے میں ضائع نہیں کر سکتی۔ میرا motivation level اس وقت بہت lowہے ویسے ہی۔” ٹینا نے اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے اپنے بیگ میں ڈالیں، وہ آفس سے نکلنے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس کا اپارٹمنٹ ویسے کا ویسا ہی تھا۔ وہاں شکور اس کا استقبال کرنے کو نہیں تھا۔ شاید وہ چھٹی پر چلا گیا ہو گا۔ مومن نے اپنے پاس موجود keyکارڈ کا استعمال کرتے ہوئے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول لیا تھا۔ نو بجے بھی اس کا اپارٹمنٹ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے باری باری لائٹس آن کرنا شروع کیں۔ اپارٹمنٹ صاف تھا یعنی شکور چھٹی پر نہیں گیا تھا اور اگر گیا بھی تھا تو اسے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے۔ کچھ لمحوں کے لیے اس گھر میں کھڑے کھڑے مومن کو اپنا آپ وہاں بے حد غیر لگا یوں جیسے وہ کسی غلط جگہ آگیا تھا ایک بار پھر سے۔ کعبہ سے بُت کدہ میں۔ اور اس بُت کدہ میں بتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ جگہ جگہ۔ اور ویسے ہی بہت سارے بُت اس کے اندر بھی تھے جنہیں وہ توڑ کر آیا تھا تو اب باہر پڑے ”بُت”، ”بُت” لگنے لگے تھے۔۔۔ خدا نہیں۔
اور اس بُت کدہ کے بیچوں بیچ چلتے چلتے وہ ایک بار پھر اس پینٹنگ کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ جس پر اھدنا الصراط المستقیم کی آیات جگمگا رہی تھیں۔
قلبِ مومن چلتے ہوئے اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ وہ جیسے اندھیرے روشنی میں آکر کھڑا ہوا تھا۔
”میرے مومن کو سیدھا راستہ دکھا۔ وہ راستہ جس پر فلاح ہے نہ کہ وہ راستہ جس پر صرف کامیابی ہے۔”
اُس کے کانوں میں دادا کی آواز گونجی تھی اور اس کی آنکھوں میں پانی امڈا تھا۔ یہ پانی پتا نہیں دل کی کون سی نرم مٹی سے پھوٹنے لگا تھا۔ وہ تو رویا نہیں کرتا تھا۔ آنسو بہانا تو قلبِ مومن کا شیوہ ہی نہیں تھا اور اظہار ندامت کرنا اس کی ڈکشنری میں جرم تھا۔ پر اس پینٹنگ کے سامنے کھڑا قلبِ مومن اپنا دل ٹٹول رہا تھا اور جیسے اس روح میں جان پھونکنے کی کوشش کر رہا تھا جو اس کے اندر تھی مگر بے جان تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});