الف — قسط نمبر ۰۹

ان کیلی گرافیز کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کو عبدالعلی کے جنازے کے مناظر نظر آنے لگے تھے۔ وہ ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ تھے جو عبدالعلی کے لیے نکل آئے تھے اور قلبِ مومن اس میں چیونٹی جیسا رہ گیا تھا۔ وہ نہ ہوتا تو بھی وہ دنیا سے اپنا آخری سفر اسی شان و شوکت سے کرتے۔
”اور وہ مجمع جو دادا کو آخری بار رخصت کرنے آیا تھا۔۔۔ وہ لاکھوں کا مجمع کیا صرف انسانوں کا تھا۔۔۔ یا پھر۔۔۔ اللہ کی بھیجی ہوئی ہر مخلوق تھی اس میں جو عبدالعلی بن تراب کو آخری سلام پیش کرنے آئی تھی؟’
قلبِ مومن نے جیسے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔ وہاں اب جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔ دیوار پر لگے وہ خطاطی کے شاہکار۔ رات کے اس پہر جیسے عبدالعلی کی زندگی کی داستان قلبِ مومن کو سنانے میں مصروف تھے۔ ہر رنگ، ہر اسٹروک پکار پکار کر کہہ رہا تھا۔
”میرا لکھنے والا اپنے عہد کا بڑا انسان تھا۔”
وہ اب دوسرے کمرے میں پڑا وہ صندوق کھولنے لگا تھا جس کے اوپر پینٹنگ کے بہت سارے برش اور رنگ پڑے رہتے تھے اور قلبِ مومن نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے اندر کیا ہو سکتا تھا۔ مگر اب وہ اسے کھول کر بیٹھا تھا۔
وہ سارے ایوارڈز اور اعزازات اس صندوق میں اوپر نیچے پڑے ہوئے تھے جن کا ذکر وہ کچھ دیر پہلے ان اخبارات اور لیٹرز میں پڑھ رہا تھا۔
”اور میں سمجھتا تھا، عبدالعلی بن تراب کو گھمنڈ ہے۔۔۔ ایسے کام کا گھمنڈ جو بے مقصد ہے۔مگر عبدالعلی بن تراب نے تو اپنی ساری زندگی صرف اللہ کی بڑائی اور کبریائی بیان کرنے میں صرف کر دی تھی۔ اپنی عظمت اور بڑائی بیان کرنے والی ہر شے تو چھپا دی تھی انہو ں نے۔” اس نے اس صندوق کو دوبارہ بند کر دیا تھا۔
”وہ ٹھیک کہتے تھے، انہوں نے ساری زندگی اللہ کی کبریائی بیان کی تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا، وہ اللہ کی نظر میں نہ رہتے۔” بند صندوق کے ڈھکنے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔
”اور میں۔۔۔ میں کون ہوں؟ اللہ کی بڑائی بیان کرنے سے انکار کرنے والا۔۔۔ عبدالعلی کے خاندان کا آخری فرد۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔
خسارہ ہی خسارہ تھا جو وہ اتنے سالوں میں جمع کرتا رہا تھا۔ اس کے سارے اثاثے اپنے مالک سمیت پل بھر میں بے مو ل ہو گئے تھے اس گھر میں پڑی چیزوں کے سامنے۔
”ہم سمجھتے ہیں جن چیزوں کو ہم خرید لیتے ہیں، حاصل کر لیتے ہیں ہم ان کے مالک بن جاتے ہیں۔ ہم ان کے مالک نہیں بنتے ان کے غلام بنتے ہیں۔ وہ چیزیں ہماری مالک بن جاتی ہیں۔ ان کی زندگیاں ہمارے گرد نہیں گھومتیں، ہماری زندگیاں ان کے گرد گھومنے لگتی ہیں۔”
عبدالعلی نے ایک بار کہا تھا اور وہ سمجھ نہیں پایا تھا۔ اسے عبدالعلی کی زندگی کی فلاسفی کبھی بھی سمجھ میں نہیں آتی تھی اور اس کا خیال تھا، اسے سمجھنے کی کوشش کرنا بھی نہیں چاہیے۔ وہ انہیں ایک ”ناکام” انسان سمجھتا رہا تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا ان کا کام اگر ان کے لیے دنیا کی آسائشات کا ڈھیر نہیں لگا سکتا تو وہ کام ”اچھا” کام نہیں۔ وہ انسان ”کامیاب” انسان نہیں۔ اور اب ان کے جانے کے بعد کئی راتیں کو اسی طرح جاگتے ہوئے وہ اس ”ناکام” انسان کی کامیابی کو ماپنے کی کوششوں میں بے حال ہوا جا رہا تھا۔
عبدالعلی دین اور دنیا کو ساتھ لے کر جیے تھے مگر دنیا کو اپنے اوپر حاوی کیے بغیر۔ وہ قلبِ مومن صرف دنیا سمیٹے بیٹھا تھا اور دنیا اب آکٹوپس کی طرح اسے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھی۔ وہ نکلنا چاہتا تھا اور نکل نہیں پا رہا تھا۔ وہ بھاگنا چاہتا تھا اور اس کی ٹانگیں شل تھیں اور قلب مومن کی کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
زندگی میں بڑے ”صحیح” وقت پر سارے پردے اس کی نظروں کے سامنے سے ہٹے تھے مگر بڑے غلط وقت پر اسے اپنی زندگی کے بارے میں دوبارہ سے سوچنا پڑ گیا تھا۔
اسے اپنے اپارٹمنٹ کے لاؤنج میں لگی ہوئی عبدالعلی کی وہ پینٹنگ یاد آئی جو انہوں نے اسے فلم میکنگ کو کیریئر بنانے کا فیصلہ کرنے پر اس سال اسے اس کی سالگرہ پر دی تھی۔
اھدنا الصراط مستقیم
مجھے سیدھا راستہ دکھا
وہ سیدھا راستہ جو نہ GPS دکھا سکتا ہے نہ عقل۔۔۔ وہ راستہ جو دل کی گلیوں سے گزر کر روح تک پہنچتا ہے اور صرف ایمان کی روشنی میں نظر آتا ہے۔ قلبِ مومن اب ایمان کہاں سے لاتا۔
وہ اس رات عبدالعلی کے گھر میں بے مقصد پھرتا رہا تھا۔ ایک ایک کمرے کے سو سو چکر کاٹتے ہوئے اندر باہر۔ اندر باہر۔ پتا نہیں کیا تھا جو گم ہوا تھا۔ پتا نہیں کیا تھا جو ڈھونڈتا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”مومنہ سلطان جنوبی ایشیا کی وہ پہلی ایکٹریس بن گئی ہیں جنہوں نے سپورٹنگ ایکٹریس کے رول کے لیے آسکر ایوارڈ جیتا ہے۔ آپ کے کیا تاثرات ہیں؟”
ریڈ کارپٹ پر شیلی سے انٹرویور نے پوچھا تھا۔ وہ ایک ایوارڈ شو میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھی مگر ایوارڈ شو سے پہلے ہونے والا وہ ریڈکارپٹ پچھلے ویک اینڈ پر مومنہ سلطان کی اس جیت سے شروع ہو کر بار بار اسی پر ختم ہو رہا تھا۔ جو غیر متوقع تھی ناقابل یقین تھی۔ مگر اس وقت پورے پاکستان کے لیے وہ بے پناہ خوشی اور فخر کا باعث بنی ہوئی تھی۔
پاکستانی میڈیا پچھلے کچھ مہینوں سے اس کی آسکر کے لیے نامزدگی کو بھی اسی طرح کوریج دیتا آرہا تھا جیسے وہ صرف نامزد ہونے پر ہی جیت گئی ہو اور اس کا سفر بس اتنا ہی تھا۔ مگر وہ نامزد ہونے کے بعد آسکر جیت بھی جائے گی، اس کا یقین کسی کو ابھی تک نہیں آرہا تھا۔ وہ پاکستان شوبز انڈسٹری کے بڑے اور یادگار لمحوں میں سے ایک تھا اور اب اگر اس کی گونج بار بار سنائی دے رہی تھی تو یہ کسی کے لیے بھی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔
شیلی نے اپنی پلکیں بے حد مصنوعی انداز میں جھپکائیں۔ اپنے گاؤن کو سیدھا کرتے ہوئے اس نے انٹرویور کے بجائے کیمرہ کو دیکھتے ہوئے بے حد جذباتی انداز میں کہا۔
”I am so proud of her. میں نے خاص طور پر اکیڈمی ایوارڈ شو کی اس تقریب کو مومنہ سلطان کے لیے لائیو دیکھا تھا اور جب اس کا نام ونر کے طور پر پکارا گیا تو میں نے اتنی چیخیں ماریں خوشی میں کہ اتنی چیخیں تو مومنہ سلطان نے بھی نہیں ماری ہوں گی۔”
شیلی بے حد جذباتی انداز میں بات کرتی جا رہی تھی۔
”میں بتا نہیں سکتی اپنیfeelings۔” اس نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
انٹرویور نے اس کی بات کو درمیان سے کاٹتے ہوئے بے حد غیرجذباتی انداز میں اگلا سوال کیا۔
”آج کس ڈیزائنر کو پہنا ہوا ہے آپ نے؟”
شیلی یک دم گڑبڑائی تھی۔ ابھی تو اس نے جذباتی انداز میں اپنی آنکھوں میں آنے والے وہ آنسو بھی صاف کرنے تھے جو امڈ ہی نہیں رہے تھے تب ہی اس کے ریڈکارپٹ پر مومنہ سلطان کے بارے میں دیے گئے کمنٹس کو جھلکیوں میں جگہ ملتی۔
”میں؟ ہاں یہ HSY ہے۔ as always۔” اس نے لمحہ بھر لگایا تھا جذباتی سے غیرجذباتی ہونے میں۔ اب وہ اپنا گاؤن جھٹک کر دکھا رہی تھی۔ کسی دوسرے کی کامیابی کے بارے میں بات کرنے سے زیادہ تکلیف دہ کام دنیا میں کوئی نہیں ہوتا اور وہ بھی اپنے شوبز کے ساتھیوں کے بارے میں۔ شیلی نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔ مومنہ سلطان پر حسد اور رشک وہ کر چکی تھی۔ اب اسے اس سے موازنے اور مقابلے کا مسئلہ تھا۔
”آپ کی اگلی فلم قلبِ مومن کے ساتھ تھی۔ وہ کب شروع ہو رہی ہے؟” انٹرویور گاؤن کو سراہنے کے بعد سیدھا اس کی دکھتی رگ پر آیا تھا۔ قلبِ مومن کی spiritual فلم جو اب فلم انڈسٹری میں قلبِ مومن کی نفسیاتی فلم کے طور پر مشہور تھی۔
”ہاں۔۔۔ وہ بہت جلد اپ ڈیٹ دوں گی۔۔۔ جلدی۔”
شیلی نے مسکراہٹوں کے جلوے بکھیرتے ہوئے جیسے اپنی عزت بچائی اور دل ہی دل میں قلبِ مومن کو چار گالیاں اور دیں۔ وہ اتنے مہینوں سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھا اور وہ اسے فلم کی ڈیٹس دے کر پھنس گئی تھی اور دنیا مومنہ سلطان کا طواف کرنے میں مشغول تھی۔
٭…٭…٭
”اس وقت ہم مومنہ سلطان کے پرانے گھر کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں مومنہ سلطان نے اپنی زندگی کا ایک بڑا وقت گزارا اور یہاں پر لوگوں کی خوشی دیدنی ہے۔ ہم ان کے ایک ہمسائے سے ابھی ابھی بات کر کے ہٹے ہیں اور اب ہم ان کے علاقے کے ایک اور ساتھی سے آپ کی ملاقات کرواتے ہیں اور ان کے تاثرات آپ کو سنواتے ہیں۔”
نیوز رپورٹر خوشی اور پسینے دونوں سے بے حال تھا اور گلی میں اس کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا جو ہر قیمت پر کیمرہ کے فریم میں آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ رپورٹ اب جھومر سے بات کرنے لگا تھا۔
”میں تو جی اس دن سے ناچ رہی ہوں جس دن سے ایوارڈ ملا ہے۔ رک ہی نہیں رہی جی میں۔ مجھے تو ہمیشہ سے پتا تھا کہ مومنہ باجی نے کوئی بڑا ہی کام کرنا ہے۔ میں تو کہتی رہتی تھی انہیں۔” جھومر نے شاید اور بھی کچھ کہنا چاہا تھا مگر نیوز رپورٹر نے مداخلت کرتے ہوئے اس کی بات بیچ میں کاٹی تھی اور واپس اسٹوڈیو چلنے کا اعلان کیا تھا۔
ایل ای ڈی پر اب وہ نیوز کاسٹر آنے لگی تھی جو اسٹوڈیو میں بیٹھی ہوئی تھی۔
”ابھی آپ نے اسپیشل رپورٹ دیکھی ہے مومنہ سلطان کے آسکر کی جیت کے بعد عوام کا ردعمل اور ان کے اپنے نئے اور پرانے علاقے کے رہائشیوں کے ان کے اس جیت پر تاثرات۔ ہم آپ کو یہاں یہ بتاتے چلیں کہ مومنہ سلطان پچھلی رات پاکستان واپس آچکی ہیں اور ہمارے چینل نے ہی ان کی واپسی پر ایئرپورٹ پر سب سے پہلے ان سے بات کی تھی۔ ان کے ساتھ تفصیلی انٹرویو کل شام سات بجے نشر کیا جائے گا۔ کل مومنہ سلطان وزیراعظم پاکستان کی دعوت پر ان سے ملنے کے لیے وزیراعظم ہاؤس جائیں گی اور اس کے بعد پرسوں ایوانِ صدر، ہمارا چینل ان کے اگلے دو تین دن کی تمام مصروفیات کی کوریج آپ کے سامنے اسی طرح وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہے گا۔”
نیوز کاسٹر بولتی جا رہی تھی اور اس کی گفتگو کے دوران چلنے والے نیوز ٹکرز میں مومنہ سلطان کے اکیڈمی ایوارڈ جیتنے کی خبر بار بار دہرائی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ مومنہ کے ایوارڈ کے ساتھ پاکستان لوٹنے کی خبر بھی۔ اس کے ایوارڈ جیتنے کی فوٹیج اس وقت بیک وقت بہت سے چینلز پر دو دن پرانی خبر ہونے کے باوجود بار بار چلائی جا رہی تھی۔ وہ ریٹنگ لانے والی خبر تھی وہ کیسے اسے بار بار چلانا چھوڑ دیتے۔
مومنہ سلطان کے گھر کے لاؤنج میں اس ایل ای ڈی کے سامنے بیٹھے سلطان اور ثریا جیسے پلکیں جھپکائے بغیر چپ چاپ اس چینل پر آنے والی وہ خبریں اور نیوز رپورٹ دیکھ اور سن رہے تھے۔ وہ وقتاً فوقتاً چینل بدل بدل کر ہر چینل پر مومنہ اور اس کی جیت کے حوالے سے آنے والی ہر خبر کو اس طرح دیکھتے اور سنتے جیسے وہ پہلی بار سن رہے ہوں۔ یہ ان کی زندگی کے سب سے شان دار اور یادگار لمحے تھے۔ وہ جیسے ریو ائنڈ کر کر کے ان لمحوں کو گزر جانے سے روک رہے تھے۔ جتنی مبارک بادیں انہوں نے وصول کرنی تھیں، پچھلے دو دن میں وصول کر لی تھیں۔ اب ان دونوں کے فون خاموش تھے۔ اس گھر کی طرح جہاں اب وہ پچھلے کئی مہینوں سے رہ رہے تھے۔
زندگی میں آسکر شاید وہ آخری چیز بھی نہ ہوتی جس کو مومنہ کا نصیب بنتے دیکھنے کا خواب وہ دیکھتے مگر وہ اعزاز کسی خواہش، کسی دعا کسی خواب کے بغیر ہی مومنہ سلطان کی جھولی میں آن گرا تھا اور سلطان اور ثریا کو خوش ہونا بھی نہیں آرہا تھا۔۔۔ فخر کرنا تو اس کے بعد کی بات تھی۔
وہ لاؤنج جہاں اس وقت وہ بیٹھے ایل ای ڈی پر خبریں دیکھ رہے تھے۔ وہ پھولوں کے گل دستوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہاں پھولوں کے چھوٹے بڑے گل دستوں کا انبار تھا اور گل دستوں کا یہ سیلاب پچھلے چند دنوں سے فی الحال تھم نہیں رہا تھا اور ہر بار جب ملازم کوئی گلدستہ اندر لے کر آتا۔ سلطان اور ثریا بچوں کی طرح خوش ہوتے۔ یوں جیسے وہ گلدستہ ان ہی کے لیے آیا ہو۔ اس گھر کے ہر کمرے میں اس وقت پھول ہی پھول رکھے ہوئے تھے اور سلطان اور ثریا جیسے ان کی نگہبانی کر رہے تھے۔ وہ آتے جاتے کسی نہ کسی گلدستے کی پوزیشن یا جگہ بدلتے رہتے۔
”میری مومنہ کا نصیب بڑا اونچا ہے۔۔۔ یاد ہے نا، میں ہمیشہ تجھ سے کہتا تھا۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Read Next

الف — قسط نمبر ۱۰

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!