الف — قسط نمبر ۰۸

ایک بہت بڑے کینوس پر ایک بوڑھا ہاتھ قرآن پاک کی ایک آیت لکھ رہا تھا اور پوری فضا میں وہی آیت کسی بہت خوب صورت آواز میں گونج رہی تھی۔
آسمان سے آنے والی روشنی اس کینوس پر اس آیت کو لکھتے ہوئے اس بوڑھے جھریوں زدہ ہاتھوں کو بقعہ نور بنائے ہوئے تھی اور اسی کینوس کے پار ایک میدان نما سپاٹ جگہ پر ایک وجود سفید لباس میں رقص کرنے میں مصروف تھا۔ پھر کی کی طرح گھومتا وہ وجود ایک مرد کے وجود سے ایک عورت کے وجود میں تبدیل ہوا تھا اور پھر یک دم شعلہ بن کر جل بجھا تھا۔
قلب ِمومن بے اختیار نیند میں اٹھ کر ایک جھٹکے سے بیٹھا تھا۔ اس کا وجود پسینے سے بھیگا ہوا تھا اور وہ گہری سانسیں لے رہا تھا۔
اس نے بیڈ پر سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کر دیا تھا اور جیسے اپنے کمرے کو پہچاننے کی کوشش کی اور کمرے میں روشنی ہوتے ہی جو پہلی چیز اس کی آنکھوں کے سامنے چمکی تھی وہ، وہ آیت تھی جو اس کینوس پر تھی۔
فلاتغرنکم الحیواة الدنیا (سورة فاطر، آیت 5)
وہ مفہوم نہ سمجھنے کے باوجود اس آیت کو دہرا سکتا تھا۔ وہ اس کے ذہن سے چپک گئی تھی۔
بستر سے اٹھ کر وہ چپل پہنے بغیر جا کر کمرے کے وسط میں کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ بوڑھا ہاتھ عبدالعلی کا تھا۔ وہ اب بالآخر پہچان گیا تھا۔ اس ناچتے ہوئے مرد کا وجود طہٰ کا تھا اور وہ وجود جس نسوانی وجود میں ڈھلا تھا۔ وہ اس کی اپنی اماں حسنِ جہاں کا وجود تھا۔ آج کینوس پر پہلی بار اس نے اللہ نور السموات کے بجائے ایک اور آیت دیکھی تھی۔ جس کے مفہوم سے وہ ناآشنا تھا۔
اس کا سر یک دم درد سے پھٹنے لگا تھا اور اسے محسوس ہوا تھا جیسے اس کا اپنا وجود بھی بالکل اسی طرح ایک دائرے کی شکل میں گھومنے لگا تھا۔ وہ اس خواب سے اب ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ چاہتا تھا۔ یہ خواب اس کو بہت دور بہت پیچھے لے جاتا تھا۔
اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھ کر دکھتے سر کے ساتھ بھی اس نے قلم اٹھا کر کاغذ پر اس کہانی کو لکھنا شروع کر دیا تھا جس پر وہ اتنے ہفتوں سے کام کر رہا تھا۔
الف کی کہانی پر۔ اس کی اپنی داستان پر۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ماسٹر ابراہیم کے گھر کے برآمدے میں فرش پر بیٹھے سامنے پڑے لکڑی کے اس بورڈ پر رکھے کاغذ پر قرآن پاک کی ان آیات کو ہاتھ سے لکھتے ہوئے اتنے مہینوں میں پہلی بار سکون وحی کی طرح مومنہ سلطان کے وجود پر اترا تھا۔ دل جیسے صحیح جگہ آکر کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا تھا اور دنیا کی بھنور جیسی گردش میں سے مومنہ سلطان جیسے نکل آئی تھی۔ وہاں خاموشی تھی۔ کبوتروں کی دانہ چگتے ہوئے غٹرغوں کی آوازیں اور قرآن پاک کی وہ آیات جنہیں وہ سرجھکائے بے حد انہماک سے لکھنے میں مصروف تھی۔ سکون کی اس جنت میں وہ بھولے بھٹکے آگئی تھی۔
اس کے برابر میں ایک اور لڑکی بھی اسی طرح بے حد خاموشی سے بیٹھی اپنا کام کر رہی تھی اور پھر کام کرتے کرتے جیسے اسی طرح بے حد خاموشی سے بیٹھی اپنا کام کر رہی تھی اور پھر کام کرتے کرتے جیسے اس نے اپنا کام مکمل کر لیا تھا اور اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے اس نے مومنہ سلطان کو خداحافظ کہتے ہوئے یکدم کہا۔
”میں سوچ رہی تھی، میں نے آپ کو کہاں دیکھا ہے اور اب اچانک یاد آیا ہے۔ آپ تو مومنہ سلطان ہیں۔ ہیکٹر کلف کی فلم میں کام کر رہی ہیں نا آپ؟”
اس لڑکی نے بے حد اشتیاق سے پوچھا تھا اور مومنہ کا دل چاہا، وہ انکار میں سرہلاتے ہوئے کہے نہیں وہ وہ نہیں ہے جو وہ پہچان کر پوچھ رہی ہے۔ سکون کی اس جنت میں وہ نام وری جیسے سانپ کی طرح ڈسی تھی اسے۔ کچھ بھی کہے بغیر اس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
اس لڑکی نے اپنی حیرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کاغذ کا ایک ٹکڑا اس کی طرف بڑھایا تھا۔ وہ اس کا آٹوگراف چاہتی تھی۔ کاغذ کے اس خالی ٹکڑے پر اس روشنائی سے اپنے دستخط کرتے ہوئے مومنہ کو عجیب سی ندامت ہوئی۔ جس روشنائی سے وہ قرآن پاک کے الفاظ لکھ رہی تھی۔ دنیا اسے آخرت سے واپس کھینچ لائی تھی۔
وہ لڑکی چند منٹ اس سے بات چیت کرنے کے بعد وہاں سے چلی گئی تھی اور اس کے دروازے سے باہر نکلتے ہی ماسٹر ابراہیم اندر داخل ہوئے تھے اور مومنہ کو وہاں دیکھ کر وہ بے اختیار خوش ہوئے تھے۔
”ارے مومنہ! تم کیسے اور کب آئیں؟”
وہ صحن پار کر کے اب برآمدے میں داخل ہو رہے تھے۔ انہوں نے سلام کر نے کے بعد اس سے کہا تھا۔
”بس ماسٹر صاحب! تھوڑی دیر ہوئی ہے آئے۔” اس نے سلام کا جواب دیتے ہوئے ان سے کہا۔
”میں اپنی بیوی کی قبر پر گیا ہوا تھا۔ آج شادی کی سالگرہ تھی ہماری۔” ماسٹر ابراہیم نے اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”شادی کی سالگرہ، برسی، ان کی سالگرہ۔ سب آج بھی اسی طرح مناتے ہیں آپ۔ آپ بڑے نیک انسان ہیں ماسٹر صاحب! ورنہ دنیا سے جانے کے بعد کون یاد رکھتا ہے کسی کو اور اتنے سالوں کے بعد۔” مومنہ کو عجیب رشک آیا تھا ماسٹر ابراہیم کی بیوی پر۔ وہ سالوں سے ان کی یہ روٹین دیکھتی آئی تھی۔
”نیک تو میری بیوی تھیں۔۔۔ میں تو گناہ گار تھا۔۔۔ اب تک گناہ گار ہی ہوں مگر تم بتاوؑ۔ امریکہ میں ٹھیک رہا سب کچھ؟’
”ہاں فلم کی شوٹنگ ختم ہو گئی۔ براڈ وے پر ا یک پلے کر کے آئی ہوں۔ ایک دو اور فلمز بھی سائن کر آئی ہوں۔ ایک برانڈ کیendorsement مل گئی ہے۔ کام ختم ہونے سے پہلے اگلا کام مل رہا ہے۔ رزق ختم ہونے سے پہلے اگلا رزق۔” اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
وہ بے اختیار مسکرائے۔
”ماشا اللہ مومنہ! ماشا اللہ۔”
”پردل ماسٹر صاحب! دل ویسے کا ویسا ہے۔”
”اداس؟” ماسٹر ابراہیم نے پوچھا تھا۔
”ناشکرا، کم ظرف، کسی چیز سے خوش نہیں ہوتا۔ کسی چیز میں لگتا ہی نہیں۔” مومنہ نے عجیب بے بسی سے کہا تھا۔
”بڑی نعمت ہے دل کا دنیا میں نہ لگنا۔ مومنہ کا دل ہے، ایسے ہی رہنا ہے اس نے۔” ماسٹر ابراہیم نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
”مومنہ ہی کا تو دل نہیں ہے یہ۔” اس نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا تھا۔
”اس قرآن پاک کا بس ایک صفحہ رہ گیا تھا، وہ مکمل کر دیا آج۔” اس نے ماسٹر ابراہیم سے کہا تھا۔
”اب نہیں آؤ گی؟” وہ جیسے جانتے تھے، وہ آگے کیا کہنا چاہتی تھی۔
”آنا چاہتی ہوں ماسٹر صاحب! مگر پیروں میں سفر کا بھنور لپٹ گیا ہے۔ پھر امریکہ جا رہی ہوں وہاں سے انڈیا۔ پتا نہیں کب آؤں دوبارہ۔ آبھی پاؤں یا نہیں۔”
اس نے جیسے ماسٹر ابراہیم سے اپنی بے بسی بانٹی تھی۔
”اللہ لے آئے گا تمہیں دوبارہ یہاں، جب بھی لانا ہو اس نے۔” ان کے لہجے میں عجیب اطمینان تھا۔
”فیصل سے منگنی کے بارے میں بتایا تھا تم نے؟” انہیں یک دم فیصل یاد آیا تھا۔
”میں نے ختم کر دی۔” مومنہ نے اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔
”کیوں مومنہ؟” وہ بے ساختہ بولے۔
”پتا نہیں کیوں ماسٹر صاحب! شاید حلال اب میرے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ کسی مرد کے گھر کی عزت بن کر اس کا رزق کھانا میرے ہاتھوں کی لکیروں میں نہیں لکھا۔ میں اپنے ماں باپ کا بیٹا ہوں۔ بیٹی نہیں بن سکتی۔” وہ کہتی گئی تھی۔
”مجھے بڑا دکھ ہوا۔” ماسٹر ابراہیم نے کہا تھا۔
”مجھے بھی ہوا تھا۔” وہ مسکرائی تھی۔
”آپ نے پچھلی بار کہا تھا۔ مجھے اجر ملے گا۔ فیصل اجر تھا میرا لیکن میں نے خود اپنے ہاتھوں اسے گنوا دیا۔” اس کی آواز میں رنج جھلکا تھا پچھتاوا نہیں۔
”نہیں۔ وہ اجر نہیں تھا بیٹا۔ اجر ہوتا تو ضرور ملتا۔ اجر کھونے اور گنوانے والی شے ہے ہی نہیں۔ جو کھو جائے وہ پھر اجر نہیں، اجر سے پہلے کی آزمائش ہے۔”
وہ اس سے کہہ رہے تھے۔ مومنہ چپ چاپ سنتی چلی گئی۔ وہ جس دنیا میں اب رہتی تھی وہاں کوئی ایسی باتیں نہیں کرتا تھا۔ اجر اور ثواب کی۔ وہاں سب نفع اور نقصان کی باتیں کرتے تھے۔
”آپ جب ایسی باتیں کرتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کوئی میرے زخموں پر مرہم کے ٹھنڈے پھاہے رکھ رہا ہے۔ ساری دنیا آپ کی طرح کیوں نہیں ہو جاتی ماسٹر صاحب۔”
مومنہ نے مسکراتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کی طرح ان سے سوال کیا تھا۔ وہ ہنس پڑے تھے۔ کچھ بھی کہے بغیر انہوں نے لکڑی کے اس باکس میں سے غلاف میں لپٹا ایک قرآن پاک نکالا تھا جو اُن کے سامنے رکھا ہوا تھا۔
”یہ لو۔” انہوں نے وہ مومنہ کی طرف بڑھا دیا تھا۔
”یہ کیا ہے؟” مومنہ نے کچھ حیران ہوتے ہوئے وہ قرآن پاک تھاما۔
‘یہ عبدالعلی صاحب کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن پاک کا نسخہ ہے۔ تم رکھ لو۔”
وہ ان کی بات پر دنگ رہ گئی تھی۔
”مجھے کیوں دے رہے ہیں آپ یہ؟” اس نے ماسٹر ابراہیم سے بے چین ہو کر پوچھا تھا۔
”جب میں شہرت اور کامیابی کی چکا چوند میں راستے بھول رہا تھا تو یہ مجھے یہاں لے آیا تھا۔ اب تم اس راستے پر جانے والی ہو تو تمہیں بھی یہ راستہ دکھائے گا۔” انہوں نے کہا تھا
مومنہ ان کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ وہ چہرہ ان چہروں میں سے ایک تھا جنہیں وہ کبھی بھلا نہیں سکتی تھی۔ فیض پہنچانے والا چہرہ۔
”آپ دعا کریں ماسٹر صاحب! میں راستہ نہ بھولوں نہ بھٹکوں۔”
اس نے ماسٹر ابراہیم سے کہتے ہوئے قرآن پاک کو آنکھوں سے لگایا تھا۔
وہ عبدالعلی کے کام، نام اور ماسٹر ابراہیم سے ان کے تعلق کے بارے میں سالوں سے جانتی تھی مگر وہ اس طرح ان کی خطاطی کی کسی چیز کو اسے دے دیں گے یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
”اللہ تمہیں منزل پر پہنچائے۔”
ماسٹر ابراہیم نے اس کی بات کے جواب میں اسے عجیب دعا تھی۔
٭…٭…٭
وہ اس دن ماسٹر ابراہیم سے ملنے کے بعد اگلے دن امریکہ چلی گئی تھی۔ اسے اب اگلے چند مہینے امریکہ میں رہنا تھا اس کی فلم کا پریمیئر ہونے والا تھا اور اس کی اگلی فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہونا تھا۔
ماسٹر ابراہیم کی وہ آخری دعا جیسے اس کے دماغ سے چپک گئی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ انہوں نے اسے منزل پانے کی دعا دی تھی اور وہ منزل کیا تھی۔ کہاں تھی اور وہ اسے کیسے پا سکتی تھی۔ یہ مومنہ سلطان سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
قلبِ مومن نے اسے جو بددعا دی تھی، وہ مومنہ سلطان کی فلم کو لگی تھی۔ اس کی پہلی فلم فلاپ ہو گئی تھی۔ باکس آفس پر وہ ہیکٹر کلف کی پہلی فلاپ تھی مگر مومنہ سلطان اس فلم سے آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والی واحد معاون اداکارہ تھی۔ قلبِ مومن کی بددعا مومنہ سلطان کو نہیں لگ سکی تھی۔
٭…٭…٭
آدھی را ت کو آنے والی اس فون کال نے قلبِ مومن کو نیند میں ہڑبڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ کال ترکی سے آرہی تھی لیکن دادا کے فون نمبر سے نہیں ان کے ایک اور ہمسائے اور دوست کے نمبر سے۔ کال ریسیو کرنے سے بھی پہلے قلبِ مومن جان چکا تھا کہ اس کے لیے دوسری طرف کوئی بُری خبر تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۷

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!