”پھر تو super glamorous رول ہو گا میرا۔ ہے نا ڈارلنگ؟” اس نے قلبِ مومن کو مکھن لگانے کی کوشش کی۔
”پاور فل ہے تمہارا رول۔” مومن کی سمجھ میں نہیں آیا وہ شیلی کو اس کے رول کی وضاحت کیسے دیتا۔
”پاور فل تو چلو ٹھیک ہے مگر glamorous ہے کہ نہیں۔” شیلی کو یک دم فکر لاحق ہوئی۔
”تم خود پڑھ کر دیکھ لینا۔” مومن نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
”کتنی ہیروئنز ہیں اس میں؟” شیلی کو ایک اور پریشانی ہوئی۔
”صرف ایک۔” مومن کے جواب پر شیلی کا چہرہ چمکنے لگا۔
”Thank God، پہلی بار کسی فلم میں صرف ایک ہیروئن رکھی ہے تم نے ورنہ تم تو جمعہ بازار لگا دیتے تھے عورتوں کا فلموں میں۔ کب مکمل ہو گا اسکرپٹ؟” شیلی منٹوں میں جذباتی اور بے تاب نظر آنے لگی تھی۔
”بس چند ہفتے اور چاہئیں مجھے۔” مومن نے جواباً کہا۔
”Fantastic۔ ارے وہ مومنہ سلطان کی فلم کا ٹریلر دیکھا ہے تم نے؟” شیلی کو یک دم کچھ یاد آیا اور قلبِ مومن کے چہرے پر جیسے بے اختیار ایک سایہ لہرایا۔
”کون مومنہ سلطان اور کون سا ٹریلر؟” اس نے مکمل طور پر انجان بننے کی کوشش کی۔
”ارے تم ڈائریکٹر ہو کر مومنہ سلطان کو نہیں جانتے۔ ہیکٹر کلف کی آنے والی فلم میں ہے وہ پاکستانی ایکٹریس۔ ایک سین میں آئی ہے وہ۔ اور اُف۔ کیا پرفارمنس دی ہے اس نے۔ ٹریلر میں جو اس کا سین ہے نا، سیدھا دل پر ہاتھ پڑتا ہے اسے دیکھ کر، سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے اس کا ٹریلر اور دھومیں مچی ہوئی ہیں اور تم کہہ رہے ہو، تم اسے نہیں جانتے۔ ویسے داؤد کی دوست بھی ہے وہ۔” شیلی نے رُکے بغیر اسے تفصیلات بتانا شروع کر دیں۔
”میں نے ریجیکٹ کر دیا تھا اسے آڈیشن میں۔” مومن یہ انکشاف کرتے ہوئے ایک لمحہ کے لیے بھول گیا تھا کہ اس نے چند لمحے پہلے مومنہ سلطان کو جاننے سے انکار کیا تھا۔
شیلی نے چونک کر اسے دیکھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اوہ اچھا۔ ظاہر ہے وہ oomph factor تو ہے ہی نہیں جو تمہیں چاہیے ہوتی ہے ایکٹریسز میں اور اتنیhot بھی نہیں ہے، پرسنالٹی بھی کچھ خاص نہیں۔” شیلی نے ایک منٹ لگایا تھا تھالی کا بینگن بننے میں۔
”لیکنlucky ہے پھر بھی یار! ودیا بالن کی جگہ کاسٹ ہوئی ہے۔ ہالی ووڈ کی اس فلم میں۔” وہ بات کے اختتام پر ایک بار پھر پٹڑی سے اتری تھی اور اس بار مومن کا پارہ ہائی ہو گیا تھا۔
”اپنی فلم کی بات کریں؟” اس نے کچھ سردمہری سے شیلی سے کہا۔
”ہاں ہاں۔ میں تو وہی ڈسکس کرنے آئی ہوں۔” شیلی جھٹ سے سیدھا ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
وہ دو گھنٹے اس کے ساتھ فلم سے زیادہ اپنی وارڈروب ڈسکس کرنے بیٹھی رہی تھی اور جب بالآخر وہ جانے کے لیے اٹھی تھی تو مومن اسے دروازہ تک چھوڑنے گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ واپس اپنے کمرے میں آتا، دروازہ بند ہوتے ہوئے بھی اس نے باہر ریسپشن پر شیلی اور داوؑد کے درمیان ہونے والی بات چیت سن لی تھی۔
”مومنہ کے ہالی ووڈ کے آڈیشن کرواتے ہوئے تمہیں شیلی کیوں یاد نہیں آئی داوؑد؟”
شیلی نے بڑی خفگی سے داوؑد سے گلہ کیا تھا جس نے جواباً ہنستے ہوئے کہا تھا۔
”اب مجھے کیا پتا تھا تم ہالی وڈ میں انٹرسٹڈ ہو گی ورنہ کروا دیتا میں، میرا کیا جاتا تھا۔”
”کیا مطلب ہے تمہارا۔ کون انٹرسٹڈ نہیں ہو گا ہالی ووڈ میں؟” اس نے شیلی کو جواباً کہتے سنا تھا۔
”مومنہ کو تو مومن بھائی نے آڈیشن میں ریجیکٹ کر دیا تھا اس لیے بس ہمدردی میں، میں نے ہالی ووڈ والی جگہ پر اس کا آڈیشن کروا دیا۔ وہ luckyنکلی کہ اس کو فلم مل گئی۔ آپ کے پاس تو بیٹھے بٹھائے مومن بھائی کی ایک کے بعد ایک فلمیں آرہی ہیں۔” داوؑد نے اس سے کہا تھا اور شیلی کے جواب نے مومن کو سیخ پا کر دیا تھا۔
”کاش مومن مجھے ریجیکٹ کر دیتا اس آڈیشن میں اور تم میری ہمدردی میں میرا آڈیشن ہالی ووڈ کے لیے کروا دیتے۔ تو آج میں گلوبل اسٹار ہوتی۔ کہاں مومن کی فلم کہاں مومنہ کی فلم۔ کوئی مقابلہ ہی نہیں دونوں میں۔”
وہ کہتے ہوئے اب شاید چلی گئی تھی کیونکہ اس کے بعد اس کی آواز نہیں آئی تھی۔ مگر وہ اپنی باتوں سے قلبِ مومن کو تپا گئی تھی۔ مومنہ سلطان کے نام کی گونج، بازگشت کی طرح یک دم ہر طرف سے قلبِ مومن کو پریشان کرنے لگی تھی۔ وہاں کھڑے اس نے دل سے اس کی پہلی ہی فلم کے فلاپ ہونے کی دعا کی تھی۔ قلبِ مومن سے نکلی ہوئی دعا کیسے قبول نہ ہوتی۔
٭…٭…٭
”ابا! آپ سوئے نہیں ابھی تک؟”
مومنہ نے رات کے پچھلے پہر سلطان کو ایک پرانے بیگ کے ساتھ لاوؑنج میں بیٹھے دیکھا تھا۔ وہ خود بھی نیند نہ آنے پر اپنے بیڈروم سے اٹھ کر باہر لاوؑنج میں آئی تھی اور تب ہی اسے سلطان وہ بیگ کھولے وہاں بیٹھا نظر آیا تھا۔
”تم سے ایک کام ہے مومنہ۔” سلطان نے جواباً اس سے کہا تھا۔
”ہاں ہاں بتائیں ابا۔ پیسے چاہئیں کیا؟” مومنہ اس کے پاس آکر صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔
”نہیں۔ تم امریکہ جا رہی ہو تو کیا کچھ دن کے لیے ترکی نہیں جا سکتیں؟” سلطان نے اس سے کہا تھا۔
”ترکی۔ وہاں کس لیے؟” وہ حیران ہوئی تھی۔
”حسنِ جہاں کا بیٹا ڈھونڈنا ہے مجھے۔ اس کی ایک امانت ہے میرے پاس۔” سلطان نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
”وہ ترکی میں ہے؟” مومنہ نے اس سے پوچھا تھا۔
”ہاں۔ اپنے دادا کے پاس رہتا ہے۔ حسنِ جہاں نے شادی کی تھی ایک خطاط سے وہاں اور۔۔۔” سلطان نے بات ادھوری چھوڑ دی پھر چند لمحے کے بعد کہا۔
”تم اس کے بیٹے کو ڈھونڈ دو۔”
”آپ کے پاس اس کا پتا ہے؟” مومنہ نے باپ سے کہا۔
”نہیں پتا نہیں ہے میرے پاس۔ صرف شہر کا پتا ہے۔”
”ابا صرف شہر کے پتے پر تو کسی کو نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔” مومنہ نے باپ سے کہا تھا۔
”اس کا باپ اور دادا دونوں خطاط تھے۔ دادا تو بہت بڑا خطاط تھا۔ ہو سکتا ہے حسنِ جہاں کا بیٹا بھی خطاط بن گیا ہو۔ کوئی بڑا مشہور خطاط۔ حسنِ جہاں یہی تو بنانا چاہتی تھی اسے۔” وہ بات کرتے کرتے ماضی میں جھانکنے لگا تھا۔
”کیا نام تھا اس کے دادا کا؟” مومنہ نے پوچھا۔
”نام بھول گیا ہوں مگر لکھا ہوا ہے خطوں میں کہیں، ڈھونڈ کر بتا دوں گا تمہیں۔” سلطان نے کہا۔
”خط؟” مومنہ اُلجھی۔
”وہ ترکی سے خط لکھا کرتی تھی مجھے، جب انڈسٹری چھوڑ کر چلی گئی تھی تو۔” سلطان بڑبڑایا تھا۔
”کیا نام تھا حسنِ جہاں کے بیٹے کا؟” مومنہ نے پوچھا۔
”قلبِ مومن۔”
مومنہ بے اختیار چونکی۔
”قلب ِمومن؟”
سلطان نے کچھ حیران ہو کر اسے دیکھا تھا۔
”تم جانتی ہو اسے کیا؟”
”جس کے بارے میں آپ بات کر رہے ہیں اس کو نہیں جانتی کسی اور کو جانتی ہوں مجھے امریکہ سے واپس آنے دیں۔ پھر ڈھونڈتی ہوں اسے۔ آپ قلب مومن کے دادا کا نام ڈھونڈیں۔ اس کے بغیر کسی کو تلاش نہیں کیا جا سکتا۔” مومنہ نے اس سے کہا تھا۔
”امانت سنبھالتے سنبھالتے تھک گیا ہوں۔ سوچتا ہوں، اب یہ اسے پہنچا دوں، کب تک یوں سنبھالے رکھوں گا۔”
سلطان بڑبڑاتا رہا تھا۔ مومنہ نے اس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ حسنِ جہاں کے بیٹے کے لیے کون سی امانت لیے بیٹھا ہے۔ اسے بس احساس ہوا تھا تو صرف یہ کہ باپ نے اس کا نام بھی حسن جہاں کے بیٹے کے نام جیسا رکھا تھا۔ وہ قلب مومن تھا۔ وہ مومنہ سلطان۔ وہ خطاط کا بیٹا تھا۔ خطاطوں کے پاس پلا تھا صرف نام ہی نہیں قلب بھی مومن جیسا ہی رکھتا ہو گا اور وہ مومنہ سلطان تھی نہ اس کے باپ کی دنیا پر حکومت تھی نہ مومنہ کو اگلی دنیا میں مومنہ کا درجہ ملنا تھا۔ وہ عجیب سے احساسات کے ساتھ سلطان کے پاس سے اٹھی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});