ثریا بڑبڑاتے ہوئے اپنا ایک بیگ اُٹھا کر باہر نکل گئی تھی۔ مومنہ ماں کو باہر جاتے دیکھ کر سلطان کی طرف متوجہ ہوئی جو زمین پر اخبار بچھائے جہانگیر کی ٹرافیاں، کپ اور ایوارڈز ان میں احتیاط سے رکھ رکھ کر لپیٹ رہا تھا اس نے کمپنی کے ان لوگوں کو جہانگیر کی کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے نہیں دیا تھا۔ جو باقی کا سامان سمیٹتے ہوئے باہر موجود گاڑی میں رکھ رہے تھے۔
”ابا! سامان پیک ہو گیا یا میں مدد کرواؤں؟” مومنہ نے سلطان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔ نہیں۔ میں خود کروں گا سب کچھ۔ جہانگیر کے ایوارڈز کو ذرا بھی کچھ ہو جاتا تھا تو بڑا غصہ کرتاتھا وہ۔ یاد ہے نا، کیسے لڑ پڑتا تھا۔”
سلطان نے اس سے کہا تھا۔ مومنہ کچھ کہے بغیر کھڑی سلطان کو وہ ساری چیزیں سمیٹتے دیکھتی رہی تھی۔ اس گھر کے ساتھ ہی جیسے جہانگیر سے جڑی ہوئی بہت سی یادیں بھی یہیں رہ جاتی تھیں۔ یہاں کئی سال گزارے تھے انہوں نے۔ کچھ اچھے باقی سارے بُرے۔ یہاں انہوں نے بھوک بھی کاٹی تھی، بیماری بھی مگر یہ گھر اُن کی چھت رہا تھا۔ اتنے سال۔
ان کی زندگی کی بھوک اور غربت اب کٹ گئی تھی۔ وہ سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا تھا اور نیا گھر مومنہ سلطان کی زندگی میں کیا نیا لے کر آنے والا تھا۔ یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
دروازے کو تالا لگا کر سلطان نے چابی دروازے پر کھڑے جھومر کو دیتے ہوئے بڑی اداسی سے کہا تھا۔
”عذرا باجی کو یاد سے پہنچا دینا چابی۔”
جھومر نے دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اپنی ناک سڑکتے ہوئے اُس سے کہا۔
”فکر نہ کرو سلطان بھائی۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”تم آنا نئے گھر۔ ایڈریس تو دیا ہے تمہیں۔” سلطان نے اس سے گلے ملتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”بڑا یاد آوؑ گے سلطان بھائی۔ اب جھومر کس سے میک اپ کرائے گی مفت میں۔”
اس نے ہچکیوں سے روتے ہوئے سلطان سے گلے ملتے ہوئے کہا تھا۔ سلطان خود بھی رونے لگا تھا اور ثریا بھی۔ بس مومنہ تھی جو بڑے مستحکم انداز میں وہاں محلے کی عورتوں سے گلے مل رہی تھی اور پھر جھومر بھی ویسے ہی اس سے گلے ملا تھا۔
”مومنہ باجی! ہمیں بھول نہ جانا۔” جھومر نے اس کے ساتھ لپٹ کر اسی طرح آہ و زاری کرتے ہوئے کہا تھا۔
”آتی جاتی رہنا پرانے محلے میں۔ چھوٹے لوگ ہیں ہم پر تم سے پیار کرتے ہیں۔”
جھومر نے دوپٹے سے رگڑ رگڑ کر اپنی آنکھوں کا کاجل اور مسکارا اپنی آنکھوں کے گرد پھیلا لیا تھا۔
مومنہ اس سے کہہ نہیں سکی کہ اس نے زندگی میں بس ایک چیز نہیں سیکھی۔ بھولناخاص طور پر احسانوں کو۔ اور اس محلے کے لوگوں سے لیے ہوئے چھوٹے بڑے قرضوں سے اس نے جہانگیر کی زندگی کے دن خرید کر اپنے ماں باپ کو دیے تھے۔ وہ بہت پہلے مر جاتا اگر وہاں رہنے والے انہیں اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر بچائی جانے والی جمع پونجی میں سے وقتاً فوقتاً مانگے جانے پر وہ قرض نہ دیتے رہتے۔
مومنہ سلطان نے اس محلے کے ٹوٹے پھوٹے گھروں میں بہت سارے ”بڑے لوگ” دیکھے تھے اور بہت سارے عالی شان گھروں میں بہت سارے ”چھوٹے لوگ۔”
”آتی جاتی رہوں گی جھومر…! نہ اس محلے کو اپنے تعارف میں کبھی چھپاوؑں گی نہ تم لوگوں سے اپنے تعلق کو۔ جگہ بدل رہی ہوں تعلق نہیں۔”
اس نے جھومر کو تھپکتے ہوئے کہا تھا اور وہ ایک بار پھر روتے ہوئے اس سے لپٹ گیا تھا۔
٭…٭…٭
ثریا اور سلطان اس نئے تین بیڈروم کے اپارٹمنٹ میں اس کے ساتھ پھر رہے تھے اور مومنہ انہیں اس اپارٹمنٹ کی ایک ایک جگہ دکھا رہی تھی۔ وہ دونوں پچھلا گھر چھوڑنے پر اداس تھے لیکن اس اپارٹمنٹ کو چل پھر کر دیکھتے ہوئے وہ عجیب انداز میں متاثر ہو رہے تھے۔
انہوں نے زندگی میں کبھی دوبارہ کسی اچھے گھر میں جا کر رہنے کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ان کو لگتا تھا غربت کی دلدل جہانگیر کی بیماری کے ساتھ ہی انہیں کھا جائے گی۔
”ہاں اماں! بہت بڑا ہے۔” مومنہ نے جواباً ان سے کہا تھا۔
”کتنی کھڑکیاں ہیں؟” ثریا کا سوال مومنہ کو بے حد عجیب لگا تھا۔ وہ اب لاؤنج کی ایک کھڑکی کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”بہت ساری کھڑکیاں ہیں اماں۔۔۔!ہوا بھی آئے گی اور روشنی بھی۔” اس نے وہ کھڑکی کھولنے میں ثریا کی مدد کرتے ہوئے کہا تھا۔
”اور دھوپ؟” ثریا نے کھلی کھڑکی سے آتی ہوا کے سامنے کھڑے ہو کر اس سے پوچھا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے لاجواب ہوئی۔
”اس ٹیرس میں بیٹھیں گی تو دھوپ بھی آئے گی پھر اتنی گرمی میں دھوپ کو کیوں ڈھونڈ رہی ہیں آپ؟” مومنہ نے ثریا سے کہا تھا۔
”عادت ہو گئی ہے۔” ثریا کہتے ہوئے وہاں سے اس دیوار کی طرف چلی گئی تھی جسے سلطان دیکھ رہا تھا۔
”کتنی خاموشی ہے یہاں کوئی آواز نہیں آتی۔ پرندوں کی بھی۔”
مومنہ ان کی طرف آئی تھی اور اس نے ثریا کو سلطان سے کہتے ہوئے سنا تھا۔ سلطان نے ثریا کی بات کا جواب دینے کے بجائے مڑ کر مومنہ سے پوچھا تھا۔
”جہانگیر کی تصویریں کس دیوار پر لگاؤں؟”
”کسی بھی دیوار پر لگا دیں ابا۔ آپ کا گھر ہے۔” اس نے جواباً کہا تھا۔
وہاں پڑے ایک صوفہ پر بیٹھتے ہوئے وہ ثریا اور سلطان کو اس نئے گھر کی دیوار پر جہانگیر کی تصویروں کے لیے کیل ٹھونکتے دیکھتی رہی۔
٭…٭…٭
”مومن بھائی! صوفیہ درانی کہہ رہی ہے کہ وہ وارڈ روب نہیں کر سکے گی اس فلم کی، اسے میلان کے کسی فیشن شو میں حصہ لینا ہے۔ البتہ وہ کہہ رہی ہے کہ اگر آپ کی فلم صنم پہلے سیٹ پر جاتی ہے تو وہ کسی نہ کسی طرح وقت نکال لے گی۔ اس کی وارڈ روب کے لیے۔”
داؤد نے قلب ِمومن کو آفس آتے ہی اس دن کی پہلی بری خبر دی تھی۔ یہ اب معمول کی بات ہو گئی تھی کسی نہ کسی کی روز قلب ِمومن کے اس پروجیکٹ سے علیحدگی کی خبر، اس کے باوجود قلب ِمومن کو جیسے ایک دھچکا لگتا تھا۔ وہ آج بھی لگا تھا۔
”صنم کے لیے میری طرف سے معذرت کر لینا اس سے۔ وہ اگر یہ فلم نہیں کر سکتی تو اسے صنم کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔” وہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوا تھا اور اس سے پہلے کہ داؤد کچھ کہتا، دروازہ کھول کر شیلی اندر آئی تھی۔
”ہائے جان۔” شیلی نے اپنے مخصوص فدا ہو جانے والے انداز میں اندر آتے ہی کہا اور ساتھ آنکھیں جھپکائیں۔
”ہیلو۔” مومن نے جواباً مسکرانے کی کوشش کی۔
وہ شیلی کے سامنے یہ خبر دے کر اسے ڈرانا نہیں چاہتا تھا۔
”کافی بھیجو اچھی سی۔” شیلی نے اندر آتے ہی باہر جاتے ہوئے داؤد سے کہا۔
اس نے جواباً مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
”کچھ اور؟”
”اور میرا ایڈوانس کا چیک خرچ ہو گیا، اب اگلا کوئی چیک مل جائے تو۔” اس نے ساتھ ہی اپنا اگلا مطالبہ پیش کیا۔
”وہ تو باس سے بات کریں آپ۔ میں کافی ہی بھیجتا ہوں۔” داؤد فوراً محتاط ہو کر باہر گیا تھا۔
”باس سے کیا بات کریں۔ تمہارے باس کے سامنے تو بات ہی نہیں ہوتی شیلی سے۔”
شیلی نے داوؑد کے باہر نکلتے ہی بڑے عاشقانہ انداز میں ٹیبل پر دونوں کہنیاں ٹکاتے ہوئے آہ بھر کر مومن سے کہا۔
”تم کہاں تھے میں تو پاگلوں کی طرح مِس کر رہی تھی تمہیں۔”
”یار! ترکی میں تھا۔ وہی فلم کی ریکی۔” مومن نے گول مول اندازمیں بات کی۔
”وہ تو داؤد نے بتایا تھا مجھے۔ ہو گئی ختم ریکی۔” شیلی نے کُریدا۔
”ہاں location wise تو ہوگیا سارا کام۔”
”Wow، Amazing۔ اور اسکرپٹ بھی ہو گیا مکمل؟” شیلی نےexcitement دکھائی۔
”نہیں لیکن ہو رہا ہے۔” مومن نے پھر گول مول انداز میں کہا۔
”اچھا کون لکھ رہا ہے؟”شیلی نے پھر کُریدا۔ وہ آج شاید یہ ساری معلومات ہی لینے آئی تھی۔
”میں۔” شیلی کو مومن کے جواب پر جیسے کرنٹ لگا تھا۔
”تم۔ آہ۔ اچھا۔ اسکرین پلے کر رہے ہو گے۔”
”نہیں اسٹوری اور اسکرین پلے دونوں۔” مومن نے جواباً کہا۔
شیلی کی کچھ دیر سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ جھوٹی خوشی کا اظہار کرے یا پھر صاف گوئی کا مظاہرہ کرے۔
”Wow, Great….I am excited!!’ اس نے بالآخر جھوٹی خوشی کا اظہار کرنے میں ہی بہتری سمجھی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});