الف — قسط نمبر ۰۸

”رائٹر کے بارے میں بھی کر ہی لیں کوئی فیصلہ، اختر صاحب روز فون کرتے ہیں۔” ٹینا نے میٹنگ کے دوران یک دم مومن کو جیسے یاد دلاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ اور داؤد مومن کے ترکی سے واپس آنے کے بعد پہلی بار اُس سے فلم کے حوالے سے بات کرنے بیٹھے تھے جب ٹینا نے پہلی بار اسکرپٹ کی بات کی تھی۔
”رائٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود لکھ رہا ہوں اس فلم کا اسکرپٹ۔” مومن نے جواباً کہا تھا اور اُس کے اس جملے پر ٹینا اور داؤد دونوں کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔
”جی؟” داؤد کہے بغیر نہیں رہ سکا اور اُس کے اس ”جی” نے مومن کو جیسے خفا کیا تھا۔
”تمہیں کوئی اعتراض ہے؟” اُس نے جواباً داؤد سے کہا تھا۔
”نہیں۔ نہیں باس! مجھے کیوں اعتراض ہو گا۔ میں تو ویسے ہی کہہ رہا تھا آپ نے پہلے کبھی۔۔۔”
داؤد بات مکمل نہیں کر سکا۔ اُس کا فون یک دم بجنے لگا تھا۔ اس نے فون اٹھا کر اُسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”صدف کا فون ہے، پتا نہیں کیوں بار بار کال کر رہی ہے۔” داؤد نے ایک جرنلسٹ کا نام لیتے ہوئے مومن سے کہا۔
”میری فلم کے بارے میں ہی کوئی آرٹیکل کرنا چاہتی ہو گی۔ مجھ سے بھی بات کروا دینا۔” مومن نے بے ساختہ کہا۔
”چلیں، میں اسپیکر پر ہی لے لیتا ہوں اُسے۔” داؤد نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا۔
”تھینک گاڈ! تم نے کال ریسیو کی۔ کب سے فون کر رہی ہوں تمہیں۔” صدف نے داؤد کی آواز سنتے ہی کہا۔
‘سوری، بس بزی تھا۔ ابھی بھی مومن بھائی کے ساتھ ایک میٹنگ میں ہوں۔” داؤد نے جواباً اس سے کہا۔
”اچھا تو پھر زیادہ وقت نہیں لوں گی تمہارا۔ مجھے مومنہ سلطان کا کانٹیکٹ نمبر چاہیے۔ انٹرویو کرنا ہے میں نے۔ تمہاری دوست ہے نا۔”
قلبِ مومن کے ماتھے پر بل آئے تھے اور یہ بل داؤد اور ٹینا سے پوشیدہ نہیں رہے تھے۔
”ہاں، وہ میں بھیج دیتا ہوں۔” اس نے گڑبڑا کر مومن کو دیکھتے ہوئے صدف سے کہا۔
”انٹرویو دے دے گی نا وہ؟” صدف نے اُس سے پوچھا تھا۔
”پتا نہیں، تم اُس سے پوچھ لو۔” داؤد نے گول مول انداز میں کہا۔
”یار! کروا دو نا۔ تمہارا ریفرنس دوں اُسے؟” صدف نے منت بھرے انداز میں کہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ہاں دے دینا اور وہ ہماری فلم کے بارے میں جو آرٹیکل کر رہی تھیں تم، وہ ابھی تک نہیں چھپا۔” داؤدنے کہہ کر فوراً سے پہلے بات بدلی تھی۔
”وہ چھپے گا بھی نہیں۔ مومن کا دماغ خراب ہو گیا ہے Spirituality (روحانیت) پر فلم۔ یعنی اب آئٹم نمبر پیش کرنے والے فلم میکر سے ہم وعظ سنیں گے۔ اسے مشورہ دیا کس نے تھا اسsubject پر فلم کرنے کا۔”
داؤد کو اگر اندازہ ہوتا کہ وہ اس طرح بنا لحاظ بات کرے گی تو وہ کبھی اُسے اسپیکر پر نہ لیتا۔ مومن کے چہرے کے بدلتے رنگوں سے وہ بُری طرح خائف ہوا تھا۔
”مومن بھائی بھی بات کرنا چاہ رہے ہیں تم سے۔ تم ذرا اُن سے بات کرو۔”
داؤد نے ایک بار پھر صدف کی بات بیچ میں ہی کاٹ کر قلب مومن کے سامنے فون رکھنے کی کوشش کی تھی مگر اس سے پہلے، کہ مومن ہیلو ہائے کر کے اُس سے گفتگو کا آغاز کرتا صدف نے بے ساختہ کہا۔
”نہیں، مجھ سے مت کروانا کوئی بھی بات۔ مجھے اس وقت مومنہ کی ضرورت ہے مومن کی نہیں۔ ٹیکسٹ کرنا پھر مومنہ سلطان کا نمبر یار پلیز۔ بائے۔”
اس نے کہہ کر فون بند کر دیا تھا اور میٹنگ روم میں چند لمحے خاموش رہی تھی۔ قلبِ مومن کو لگا تھا جیسے کسی نے اس کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ مار دیا ہو۔
زندگی میں پہلی بار کسی نے قلبِ مومن سے بات کرنے سے انکار کر کے کسی اور سے بات کرنے کو ترجیح دی تھی اور قلبِ مومن کو جیسے انگارہ کر دیا تھا۔
یہ وہ جرنلسٹس تھے جو کچھ ہفتے پہلے کالز کر کر کے اس سے بات کرنے کے لیے چند منٹ مانگتے تھے اور اس کے بارے میں کوئی بھی خبر دینا اپنے لیے اعزاز کی بات سمجھتے تھے اور اب یک دم ہی وہ قلبِ مومن سے نہیں مومنہ سلطان سے بات کرنے کے خواہش مند تھے۔ چند دن پہلے اس کے ساتھ کیا جانے والا وہ سفر مومن کی یادداشت میں پھر تازہ ہو گیا تھا۔ وہ ہر بار کسی نہ کسی حوالے سے اس کے سامنے آکر کھڑی ہو جاتی تھی۔
میٹنگ دوبارہ شروع ہو گئی تھی مگر قلبِ مومن کا ذہن بری طرح انتشار کا شکار تھا۔ وہ اس دن جلدی آفس سے گھر آگیا تھا اور لاؤنج میں پڑے ایک میگزین کے کور پر مومنہ سلطان کی تصویر دیکھ کر جیسے کسی نے قلبِ مومن کے پیٹ میں ایک گھونسہ اور مارا تھا۔ اس کی بھوک اڑ گئی تھی۔ پانی کا گلاس ایک سانس میں حلق سے اتارتے ہی اسے یک دم عبدالعلی کو فون کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔
پہلی بار بیل ہوتے ہی دوسری طرف سے عبدالعلی نے فون اٹھا لیا تھا۔
”السلام علیکم دادا۔” قلب مومن فون کان سے لگائے اپنے بستر پر لیٹ گیا تھا۔
”وعلیکم السلام۔ کیسے ہو قلب مومن؟” انہوں نے اس سے پوچھا تھا ہر بار کی طرح۔۔۔ اسی محبت اسی نرمی سے۔
”بس دادا! فلم لے کر بیٹھا ہوں۔” وہ پریشان تھا اور ان سے پریشانی چھپا نہیں سکا۔
”کیا ہوا، خیریت ہے؟” عبدالعلی فکر مند ہوئے تھے۔
”پہلے فلم کے لیے کہانی نہیں مل رہی تھی۔ اب کہانی مل گئی ہے تو فلم کے فنانس نہیں مل رہا۔۔۔کوئی بھی اس فلم میں انویسٹ نہیں کرنا چاہتا۔” اس نے عبدالعلی سے کہا تھا۔
”قلبِ مومن کی فلم ہے تب بھی؟” عبدالعلی نے ہنس کر کہا تھا۔
کوئی اور موقع ہوتا تو قلب مومن کو غصہ آجاتا مگر اس بار اسے غصہ نہیں آیا تھا۔
”آپ کر لیں طنز۔” اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”طنز نہیں کر رہا ہوں، میں بس یاددہانی کروا رہا ہوں تمہیں۔۔۔ تمہیں ان ہی سب پر ساتھی ہونے کا گمان تھا نا؟” عبدالعلی نے جواباً اس سے کہا تھا۔
”جب اسکرپٹ پورا ہو جائے تو مجھے بتا دینا۔۔۔ میں دے دوں گا تمہیں فلم کے لیے پیسے۔” انہوں نے مدھم آواز میں اس سے کہا تھا۔
”آپ کہاں سے دیں گے دادا؟ آپ کے پاس کہاں سے آئے گا اتنا پیسہ؟” مومن ان کی بات پر حیران ہوا تھا۔
”ایک فون نمبر بھیجوں گا تمہیں۔ وہ جو تمہاری سالگرہ پر ہر سال تمہیں کیلی گرافی بھیجتا ہوں وہ بیچ دینا اس فون نمبر والے آدمی کو۔ مسئلہ حل ہو جائے گا تمہارا۔”
انہوں نے اسی پرسکون اور مدھم آواز میں کہا تھا۔ قلبِ مومن بے اختیار ہنس پڑا۔
”دادا! یہ کروڑوں کی بات ہے آپ کیا سمجھ رہے ہیں؟”
”اربوں کی بات تو نہیں ہے نا؟”
عبدالعلی نے جواباً اس سے کہا تھا۔ قلب ِمومن نے گفتگو کا موضوع تبدیل کر دیا۔ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنی زبان سے انہیں یہ بتائے کہ ان کی خطاطی کے ان نمونوں کے لیے کوئی چند لاکھ بھی مشکل سے دے گا۔ کہاں یہ کہ کروڑوں روپے۔
دادا ترکی میں بیٹھے اپنے اس چھوٹے سے قصبے کے گھر میں شاید ایک ایسی خیالی دنیا میں جی رہے تھے جس میں انہیں کسی چیز کی صحیح قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ نہ روپے کی اہمیت کا نہ خطاطی کی وقعت کا۔ ان سے بات ختم کرتے ہوئے قلب مومن سوچے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ کال ختم ہونے کے کچھ دیر بعد اس کے سیل فون پر عبدالعلی کی طرف سے ایک فون نمبر اور ایک شخص کا نام بھیجا گیا تھا۔ قلبِ مومن اس نام اور نمبر کو غائب دماغی کے عالم میں دیکھتا رہا۔ اس کے ذہن پر اس وقت بہت سی چیزیں سوار تھیں اور ان میں اس شخص سے رابطہ کرنا کہیں بھی نہیں تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۷

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!