”اب بھی وہی کھاتی ہوں ابا۔ توے کی روٹی، بگھارے بینگن۔ دال چاول۔ مچھلی مٹن بہت کھا آئی۔” وہ کہتے ہوئے اندر چلی گئی تھی۔
کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنے سوٹ کیس کھول کر سامان نکالنا شروع کر دیا تھا۔ وہ ثریا اور سلطان کے لیے بہت ساری چیزیں لے کر آئی تھی۔
”اماں! دیکھیں، یہ آپ کے لائی ہوں۔” اس نے ایک سویٹر نکال کر ثریا کو دکھاتے ہوئے کہا۔
”کیوں پیسے ضائع کیے۔ کام آتے۔” ثریا نے بے ساختہ اُس سے کہا تھا۔
”اماں۔ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ؟” مومنہ نے کچھ خفگی سے کہا۔
”اور ابا یہ آپ کے لیے۔” اُس نے ایک اور سویٹر نکال کر سلطان کو دیتے ہوئے کہا۔
”اپنے لیے چیزیں لیتی بیٹا۔ میں نے کیا کرنا ہے اب ان چیزوں کو۔” سلطان نے سویٹر دیکھتے ہوئے اس سے کہا۔
”وہی کریں جو سب کرتے ہیں ابا۔”
وہ کہتے ہوئے سوٹ کیس سے کچھ اور نکالنے کے لیے جھکی۔
”فیصل نے شادی کر لی۔” ثریا کی آواز پر وہ وینٹی باکس نکالتے نکالتے چند لمحوں کے لیے ٹھٹکی جو وہ نکال رہی تھی۔
دل کی دھڑکن ایک لمحہ کے لیے رُکی تھی۔ پھر۔ پھر وہ ویسے ہی چلنے لگی تھی جیسے ہمیشہ سے چل رہی تھی۔
”اچھا۔” سیدھا ہوتے ہوئے اُس نے ثریا اور سلطان سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”اور ابا! یہ آپ کے لیے ایک وینٹی باکس بھی لائی ہوں۔” اُس نے یوں بات جاری رکھی تھی جیسے اُسے کچھ فرق ہی نہیں پڑا تھا۔
”تمہیں پتا تھا نا؟” سلطان نے اس سے باکس لیتے ہوئے کہا۔
”شادی کا نہیں پتا تھا۔” وہ ایک لمحہ خاموش رہی پھر اُس نے کہا۔ وہ اب سوٹ کیس بند کر رہی تھی۔
”اتنا بڑا دھوکا۔۔۔ تم سے منگنی کا کہہ کر اُس نے شادی رچا لی۔۔۔ ماں باپ کو نہیں منا سکتا تھا تو آیا کیوں تھا؟ دن رات بددعائیں دیتی ہوں میں اُسے اور اُس کے ماں باپ کو۔”
ثریا نے عجیب غم و غصے سے کہا تھا۔
”نہیں اماں! بددعائیں مت دیں اُسے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مومنہ نے بے ساختہ اُسے ٹوکتے ہوئے کہا تھا۔ سلطان خاموش رہا تھا لیکن ثریا بولتی رہی۔
”کیوں نہ دوں۔ اُس نے دل دُکھایا ہے تمہارا۔ چھوڑا ہے تمہیں۔”
”اُس نے نہیں چھوڑا مجھے اماں۔ میں نے چھوڑا ہے اُسے امریکا جانے سے پہلے۔”
اُس نے ثریا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ثریا ایک لمحہ کے لیے کچھ بول نہیں سکی۔
”کیوں؟”
”اس کے سامنے ساری عمر گلے میں احسان کا طوق ڈال کر کھڑے ہونا تھا مجھے۔۔۔ وہ میں نہیں کر سکتی تھی۔ وہ بہت بڑی قیمت مانگ رہا تھا ایک رشتہ کی۔”
اُس نے کچھ شکست خوردہ انداز میں بیگ کا ڈھکن گراتے ہوئے کہا۔
”کیا قیمت تھی؟” سلطان نے اُس سے پوچھا۔ وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتی رہی۔
”ابا میں اداکارہ ہوں مگر بھیک مانگنا اور لے کر کھانا نہیں سیکھا میں نے۔ ۔۔یہ جو بھی رزق کما رہی ہوں میں ۔۔۔ یہ میرے نصیب میں ہے اور جو چیز نصیب میں ہو، اُس سے بھاگا نہیں جا سکتا۔۔۔ اب جس سے بھی ساتھ جوڑوں گی اُسے میرے کام کے ساتھ مجھے قبول کرنا ہو گا۔ مجھے بھی آپ کو بھی۔”
اُس نے مدھم لیکن مستحکم آواز میں کہا۔ سلطان اُسے دیکھتا رہ گیا۔
٭…٭…٭
”اُف کتنی اسمارٹ اور فریش ہو کر آئی ہو۔” اقصیٰ اُسے دیکھتے ہی لپک کر اُس سے لپٹی تھی۔ وہ دونوں ایک ریسٹورنٹ میں مل رہی تھیں۔
”اچھا۔” مومنہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
”چند مہینوں کی بات ہے اور یوں لگ رہا ہے، تمہیں سالوں بعد دیکھ رہی ہوں۔”
اقصیٰ اُس سے الگ ہو کر اب اُسے بغور دیکھ رہی تھی۔
”اسٹائلش ہو گئی ہو اور فٹ بھی۔ جم کرواتے رہے ہیں کیا تمہیں ہالی وڈ والے؟”وہ اُس کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ستائشی نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
”بہت کچھ کرواتے رہے ہیں وہ ۔لینگویج کلاسز، گرومنگ کلاسز، ایروبک کلاسز تمہیں سب کی تفصیل بتا دوں گی۔” مومنہ نے مسکراتے ہوئے ہوئے ہاتھ میں پکڑا بیگ اُس کی طرف بڑھایا۔
”یہ کیا ہے؟” اقصیٰ چونکی۔
”وہی سب کچھ جو تمہیں پسند ہے۔ کاسمیٹکس، پروفیومز، چاکلیٹس، جوتے، بیگ اور کچھ چیزیں داؤد کے لیے بھی ہیں۔” وہ کہتے ہوئے اپنی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
”Ohh My God!۔ یہ سارا بیگ ہمارے تحفوں سے بھرا ہوا ہے؟” اقصیٰ نے بے یقینی سے بیگ کو جیسے تولتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔” وہ مسکراتے ہوئے جیسے اُس کی خوشی سے محظوظ ہوئی۔
”شکریہ نہیں ادا کروںگی تمہارا۔” اقصیٰ نے بیگ اپنی کرسی کے پاس رکھتے ہوئے اُس سے کہا۔
”میں شکریہ سننا بھی نہیں چاہتی۔” مومنہ نے اُسے ٹوکا۔
”دھومیں مچائی ہوئی ہیں تم نے۔۔۔ داؤد تو پاگل ہو گیا ہے۔۔۔ روز کوئی نہ کوئی چینل یا جرنلسٹ اُس کو فون کر کر کے تمہارا نمبر مانگ رہا ہے۔” اقصیٰ نے بیٹھتے ہی اپنے اُسی مخصوص انداز میں بولنا شروع کر دیا۔
وہ مسکراتے ہوئے اُس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”داؤد کو ایک اور کام بھی تو کہا تھا میں نے۔” مومنہ نے اُس سے کہا۔
”ہاں ہاں۔ مجھے پتا ہے گھر ڈھونڈنے کا کہا تھا نا کرائے کا۔ وہ ڈھونڈ لیا ہے اُس نے۔ تم ایک بار دیکھ لو پھر شفٹنگ کرنی ہے۔” اقصیٰ نے جواباً کہا۔
”ایک ہفتہ ہے میرے پاس اور اسی میں شفٹنگ کرنی ہے مجھے۔۔۔ پھر دوبارہ امریکا جانا ہے۔” اقصیٰ اُس کی بات پر چونکی۔
”کیا مطلب؟ فلم تو مکمل ہو گئی تمہاری ٹریلر آنے والا ہے اس کا پھر تم کیوں جا رہی ہو دوبارہ؟”
”دو اور فلمیں سائن کر لی ہیں میں نے۔” اُس نے بڑے عام سے انداز میں کہا۔ اقصیٰ بے یقینی سے اُس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
”مطلب ہالی ووڈ میں؟”
”ایک ہالی ووڈ میں ایک بالی ووڈ میں۔” اقصیٰ جیسے بے اختیار چیخی تھی۔
”Ohhh My God۔ بالی وڈ۔ مطلب انڈین فلم۔Seriously؟”
”یار شور مت مچاؤ۔ سب دیکھ رہے ہیں۔” مومنہ نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے احساس دلایا کہ وہ ریسٹورنٹ میں ہیں۔
”ایک اور کھانا ڈیو ہو گیا تمہاری طرف اور فائیو اسٹار میں۔” اقصیٰ اُسی جوش اور جذبے سے بولتی چلی گئی۔
”جتنے مرضی کھانے کھا لو۔ اور جہاں مرضی۔” مومنہ نے مسکراتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔
”I am so proud of you۔۔۔ آنٹی اور انکل کو تو نیند ہی نہیں آرہی ہو گی راتوں کو۔ تم نے سارے خواب پورے کر دیے ہیں اُن کے۔” اقصیٰ بے حد رشک سے اُسے دیکھ رہی تھی۔
”انہوں نے میرے لیے کوئی خواب دیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔ اُن کے سارے خواب جہانگیر کے لیے تھے۔ اُس کے ساتھ ہی ختم ہو گئے۔۔۔ میرے لیے صرف شادی کا خواب دیکھتے ہیں وہ۔۔۔” مدھم آواز میں مشروب کے اُس گلاس کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے اُس نے کہا تھا، جو ویٹر اُن دونوں کے سامنے رکھ گیا تھا۔
”آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں گے وہ۔ ۔۔صبر آجائے گا اُنہیں۔۔۔ وقت لگے گا لیکن صبر آجائے گا۔” اقصیٰ نے کہا تھا۔
”ہاں صبر آجائے گا مگر وہ بھولے گا نہیں۔” اقصیٰ اُس کی بات پر چند لمحے خاموش رہی پھر اُس نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
”فیصل کیسا ہے؟شادی کا کیا سین ہے؟ میں نے اور داؤد نے مل کر سارا فنکشن کرنا ہے تمہارا۔۔۔ میں نے تو کپڑے بھی بنوا لیے ہیں اپنے۔”ا قصیٰ ایک بار پھر پرجوش ہوئی۔
”فیصل نے شادی کر لی۔” مشروب کا گھونٹ بھرتے ہوئے مومنہ نے بڑے آرام سے یوں کہا جیسے وہ فیصل نام کے اس شخص کو جانتی ہی نہ ہو۔
اقصیٰ کو بے اختیار اچھو لگا۔
”کیا مطلب؟ بڑا بھونڈا مذاق ہے یہ مومنہ۔۔۔ فیصل نے شادی کر لی اور تم یہاں بیٹھی ہو۔” اقصیٰ اُس سے بے اختیار خفا ہوئی۔
”میں امریکا جانے سے پہلے رشتہ ختم کر گئی تھی۔” اقصیٰ بے یقینی سے اُس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
مومنہ سرجھکائے ہوئے بیٹھی تھی۔ مشروب کے گلاس کے اسٹرا کو ہلاتے ہوئے۔
”تم نے۔ تم نے کیوں ختم کیا یہ رشتہ؟” اقصیٰ اب جیسے اُس پر خفا ہوئی تھی۔
”وہ بہت کچھ چھڑانا چاہتا تھا۔ میری ایکٹنگ۔ ابا کا کام۔ اماں کا کام۔ جیسے desanatize کرتے ہیں نا۔۔۔ وہی کر کے شادی کرنا چاہتا تھا مجھ سے۔۔۔ مجھے پاک اور پوتر کر کے۔ اتنی پاک اور پوتر تو میں ہو ہی نہیں سکتی۔” وہ مسکراتے ہوئے اقصیٰ کو دیکھتے ہوئے بولی تھی پر اُس کی آنکھوں میں اقصیٰ کو نمی جھلملاتی نظر آئی تھی۔
”کیا کہوں؟” اقصیٰ نے عجیب بے بسی سے کہا۔
”کچھ بھی نہیں۔ ۔۔سب ٹھیک ہے اقصیٰ اور جو ٹھیک نہیں، وہ بھی ہو جائے گا۔” اُس نے مسکراتے ہوئے اقصیٰ سے کہا تھا، اپنی آنکھوں میں جھلملاتے۔ آنسوؤں کے بیچ۔
”تم فیصل کے لیے تھیں ہی نہیں مومنہ! تمہارے نصیب کا ستارہ اونچا ہے بالکل ویسے جیسے تم پاکستان ٹی وی اور فلم کے لیے بنی ہی نہیں۔ اسی لیے یہاں سے کام نہیں ملا تمہیں۔” اقصیٰ نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بے حد جذباتی انداز میں اُس سے کہا تھا۔ مومنہ ہنس پڑی تھی۔ وہ اپنی اُس بے لوث دوست کے لیے اتنا تو کر ہی سکتی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});