الف — قسط نمبر ۰۸

نیویارک سے کراچی آتے ہوئے استنبول میں چھے گھنٹے کے اسٹاپ اوور کے دوران مومنہ سلطان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، وہ استنبول سے کراچی کا بقیہ سفر کس کے ساتھ طے کرنے والی تھی۔ وہ بزنس کلاس میں سفر کر رہی تھی اور جہاز میں کراچی کے لیے دوبارہ سوار ہوتے ہوئے اُس کی سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی۔ اُس کے برابر کی سیٹ بہت دیر تک خالی تھی اور پھر بالآخر جو مسافر اُس سیٹ پر بیٹھنے کے لیے آیا تھا، وہ اور مومنہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ وہ قلبِ مومن تھا جو استنبول سے واپس پاکستان جانے کے لیے اُس فلائٹ میں سوار ہوا تھا جس میں مومنہ سفر کر رہی تھی۔ ایک لمحہ میں دونوں نے ایک دوسرے کو پہچانا تھا اور پھر بیک وقت ایک دوسرے سے نظریں چرائی تھیں۔
حیرت کے اس ابتدائی جھٹکے کے بعد جس کا شکار دونوں ہوئے تھے، دونوں بیک وقت ہی سنبھلے تھے۔ مومنہ نے اُس سیٹ پر پڑی ہوئی اپنی کچھ چیزیں اُٹھا لی تھیں جنہیں وہ قلبِ مومن کے آنے سے پہلے وہاں رکھے ہوئے تھی اور مومن بھی بڑی خاموشی سے کیبن اسٹیورڈ کی رہنمائی میں اپنا سامان کیبن میں رکھنے کے بعد خاموشی سے اس کے برابر بیٹھ کر اپنی سیٹ بیلٹ باندھنے لگا تھا۔ بزنس کلاس کی کچھ سیٹس خالی تھیں اور قلبِ مومن کو یقین تھا، فلائٹ ٹیک آف کرنے کے بعد مومنہ ضرور اپنی سیٹ تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی اور کچھ ایسا ہی خیال مومنہ کو بھی آیا تھا۔ اُسے توقع تھی وہ اُس کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہے گا۔
فلائٹ کے ٹیک آف کے بعد دونوں کو ہی حیرت کا دوسرا جھٹکا تب لگا تھا جب اُن دونوں کی توقعات کے برعکس کسی نے بھی سیٹ بدلنے کے لیے اسٹیورڈ سے نہیں کہا تھا۔ مومنہ کی فلائٹ لمبی تھی اور وہ تھکی ہوئی تھی۔ وہ خاموشی سے منہ پر کمبل لے کر سو گئی تھی۔
قلبِ مومن کے ذہن میں وہ آڈیشن کسی فلم کی طرح دوبارہ چلنے لگا تھا۔ اس بار مومنہ کے سارے جملوں پر اُس کے دل میں کوئی خفگی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ شاید وہ پرانی بات ہو گئی تھی یا پھر مومنہ سلطان کا اسٹیٹس بدل چکا تھا یا پھر شاید قلبِ مومن بدل رہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

اس طویل فلائٹ کے دوران ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی، اس کے باوجود کہ اُن دونوں کے ذہنوں پر مسلسل دوسرا ہی سوار تھا۔ مومنہ کو فلم کا وہ آڈیشن ہی یاد نہیں آیا تھا جہانگیر بھی یاد آیا تھا۔ وہ توقعات اور اُمیدیں بھی جو وہ جہانگیر کے علاج کے لیے قلبِ مومن کی فلم سے لگا کر گئی تھی اور اُس سب ٹوٹنا بھی۔ وہ فلم وقت پر مل جاتی تو۔۔۔ وہ اُس تو کے بعد آگے کچھ بھی سوچنا نہیں چاہتی تھی کیوں کہ آگے بس درد اور غم کا وہ سمندر تھا جس میں وہ اتنے سارے مہینوں میں ڈوب ڈوب کر اُبھری تھی اور اب دوبارہ ڈوبنا نہیں چاہتی تھی۔
اُس کے ساتھ بیٹھا قلبِ مومن پچھلے کچھ مہینوں میں مومنہ سلطان کی ساری ”فتوحات” دو منٹوں میں اپنی انگلیوں کی پوروں پر گنوا سکتا تھا۔ مومنہ سلطان کے کیریئر کے بارے میں ہر خبر کو وہ کھوجتا رہا تھا۔ اُس کی پہلی فلم میں اُس کے رول سے لے کر براڈوے پر ہونے والے اُس کے پلے اور اُس کی اگلی دو فلمیں سائن کرنے کے بارے میں بھی۔۔۔ قلبِ مومن نہ چاہتے ہوئے بھی اُس چیونٹی کے ہاتھی بننے کا سفر دیکھتا رہا تھا اور اس کی وجہ وہ نہیں جانتا تھا۔
اُس کے برعکس مومنہ سلطان کو قلبِ مومن کے بارے میں اب کچھ پتا نہیں تھا۔ نہ اس کی اس کمرشل مودی کے بارے میں جب کے لیے وہ آڈیشن دینے گئی تھی نہ اُس دوسری فلم کے بارے میں جس کی اناؤنسمنٹ کے بعد پورا میڈیا قلبِ مومن کا مذاق اڑانے میں مصروف تھا۔
وہ امریکا میں صرف اپنے کام اور اپنی زندگی کے بارے میں محو رہی تھی۔ پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری وقتی طور پر اُس کے کینوس سے غائب ہو گئی تھی اور اُس سے منسلک سب لوگ بھی۔ اقصیٰ اور داؤد کے ساتھ بھی اُس کی بات چیت امریکا میں ہونے کی وجہ سے کچھ محدود ہو گئی تھی اور اب یک دم جب قلبِ مومن اُس کے برابر آبیٹھا تھا تو مومنہ سلطان اپنے اس خول سے یک دم جیسے باہر آگئی تھی۔ جس میں وہ پچھلے کئی مہینوں سے قید تھی۔
اُس کا ظرف چھوٹا ہوتا تو وہ اُس سے فخریہ کہتی کہ” دیکھو آج میں تمہارے برابر بیٹھی ہوں اور میں نے تمہیں غلط ثابت کر دیا۔ تم کہتے تھے میں فلم کی ایکٹریس نہیں ہوں، تم کہتے تھے میں فلم کی ایکٹریس نہیں ہوں، تم کہتے تھے میں اپنا جسم دکھائے بغیر کسی فلم میں کام نہیں کر سکتی۔۔۔ دیکھو میں نے تمہیں جھوٹا کر دیا۔”
اُس کی جگہ بیٹھی کوئی اور لڑکی ہوتی تو قلبِ مومن سے یہ سب کہنے کا موقع کبھی ضائع کرتی۔ مگر وہ مومنہ سلطان تھی۔۔۔ سب کچھ پی جانے والی۔ غم و ذلت سب۔
سفر میں چند بار مومن کو اس سے بات کرنے کا خیال آیا اور جتنی بار آیا اس نے اسے جھٹک دیا۔ وہ مومنہ سلطان کے سامنے چھوٹا پڑ جاتا اس سے بات کا آغاز کر کے اور بات کرتا بھی تو کیا کرتا۔ اسے مبارک باد دیتا اُس کی کامیابیوں پر؟ یا معذرت کرتا کہ اُس نے اس کے ٹیلنٹ کو غلط جانچا؟
یہ دونوں جملے کہنے کے لیے قلب مومن کے پاس نہ ظرف تھا نہ جرأت اور اُس کے پاس بیٹھے قلبِ مومن پر یہ خوفناک انکشاف بھی ہوا تھا کہ وہ مومنہ سلطان کے سامنے احساس کمتری کا شکار ہو رہا تھا اور یہ قلبِ مومن کی زندگی میں پہلی بار ہو رہا تھا۔ احساس کمتری وہ بھی ایک لڑکی کے سامنے اور وہ بھی وہ ایکٹریس جو اُس کے پاس کام مانگنے آئی تھی۔ قلبِ مومن نے جیسے خود ہی اس احساس سے نکلنے کے لیے جدوجہد کی۔ وہ احساس وہیں کا وہیں تھا۔ کسی بھوت کی طرح اُس کے سامنے ناچتے ہوئے۔
٭…٭…٭
شکور نے دروازہ کھلنے پر قلبِ مومن کو دیکھتے ہی چیخ ماری تھی اور مومن اُس کی چیخ پر جیسے لمحہ بھر کے لیے ہکا بکا رہ گیا پھر وہ جھلا کر اندر جاتے ہوئے بولا۔
”کیا بدتمیزی ہے یہ؟”
اپنا بیگ کھینچتے ہوئے اس نے شکور کو دروازے کے سامنے سے ہٹا دیا تھا۔
”آپ نے اپنے آنے کا بتایا ہی نہیں۔”
شکور نے گڑبڑائے ہوئے انداز میں اس کے پیچھے لپکتے ہوئے کہا تھا۔
”تو؟” مومن نے تیکھے انداز میں مڑ کر اسے دیکھے بغیر لاؤنج میں جاتے ہوئے کہا۔
اور لاؤنج میں قدم رکھتے ہی وہ کھڑے کا کھڑا رہ گیا تھا۔ ایل ای ڈی پر ایک انڈین فلم چل رہی تھی اور شکور کے تین چار دوست وہاں بیٹھے کھانے پینے کی چیزیں لاؤنج کے صوفہ کے سامنے پڑے کافی ٹیبل پر بکھیرے بیٹھے تھے۔ لاؤنج کی ہر چیز بکھری ہوئی تھی۔ مومن کو دیکھ کر وہ یک دم ہڑبڑا کر اُٹھے تھے۔ مومن نے پلٹ کر اپنے پیچھے آتے شکور کو دکیھا تھا۔ جس نے انتہائی نروس انداز میں کہا تھا۔
”یہ بس جا ہی رہے تھے۔ خداحافظ۔”
اُس نے پہلا جملہ مومن سے کہا تھا اور خداحافظ اُن چاروں سے جو عجلت کے عالم میں اپنے جوتے ڈھونڈتے ہوئے انہیں پہن کر اب وہاں سے نکلنے کے چکر میں تھے۔ مومن سینے پر بازو لپیٹے کچھ بھی کہے بغیر وہاں کھڑا اُن چاروں کو وہاں سے جاتا دیکھتا رہا اور اُن کے جاتے ہی وہ شکور پر برس پڑا تھا۔
”تم میرے پیچھے یہ کرتے ہو؟”
”وہ۔۔۔ وہ میری سالگرہ تھی۔” شکور کو اس کے علاوہ کوئی اور بہانا نہیں سوجھا تھا۔
”چھے مہینے میں تیسری دفعہ پیدا ہوئے ہو تم ۔۔۔ اب ایک بار اور پیدا ہوئے تو نوکری سے فارغ کر دوں گا تمہیں۔”
اُس پر تقریباً چلاتے ہوئے وہ اپنا ٹرالی بیگ کھینچتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف گیا تھا اور کمرے کی حالت دیکھ کر وہ ایک بار پھر دھاڑا تھا۔
”الو کے پٹھے۔”
باہر لاؤنج میں شکور اُس کی آواز پر لپکتے ہوئے اندر جاتے ہوئے بڑبڑایا تھا۔
”مجھے بلا رہے ہیں پھر۔۔۔چھے بھلے گئے ہوئے تھے ترکی۔۔۔ پتا نہیں ان کا دل کیوں نہیں لگتا وہاں۔”
٭…٭…٭
”اماں! کیوں رو رہی ہیں آپ؟”
مومنہ نے ثریا کو خود سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا جو اُسے ساتھ لپٹائے روئے چلی جا رہی تھی۔
”بس اسے عادت ہے۔ تو پریشان نہ ہو۔”
سلطان نے جیسے پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے مومنہ سے کہا تھا۔
”ہاں بس تجھے اتنے ہفتوں بعد دیکھا ہے تو رونا آگیا۔”
ثریا نے بھی جیسے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی گھر پہنچی تھی۔
”بس اب آگئی ہے، وہ کہیں نہیں جاتی۔ لا سامان رکھوں میں تیرا۔”
سلطان نے کہہ کر لنگڑاتے ہوئے اُس کے وہ بھاری بھرکم سوٹ کیس اُٹھانے کی کوشش کی تھی جو ابھی صحن میں ہی پڑے تھے۔ مومنہ نے سلطان کو روک دیا۔
”نہیں ابا! اپنا بوجھ خود اُٹھانے کی عادت ہے مجھے۔”
اُس نے ایک بھاری بھرکم سوٹ کیس کو بے حد آرام سے اُٹھاتے ہوئے سلطان سے کہا تھا۔
”اپنا نہیں تو تو دوسروں کا بوجھ بھی اُٹھا لیتی ہے مومنہ۔”
سلطان بڑبڑایا تھا اور مومنہ نے یوں ظاہر کیا جیسے اُس نے باپ کا جملہ سنا ہی نہیں۔
”اماں! کھانا لگا دیں جلدی سے۔ بہت بھوک لگ رہی ہے۔” اُس نے سوٹ کیس اندر لے جاتے ہوئے کہا تھا۔
”کل سے تیرے لیے کھانا پکانے میں لگی ہوئی ہے کبھی کباب بنا رہی ہے، کبھی مچھی کو مصالحہ لگا رہی ہے۔ اب تو امریکا رہ کر آئی ہے پتا نہیں کیا کھاتی ہو۔”
سلطان نے اس کے پیچھے آتے ہوئے کہا تھا اور وہ بے اختیار ہنسی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۷

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۷ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!