میرے پیارے سلطان!
اتنے مہینوں بعد میرا خط دیکھ کر تم حیران ہو گئے نا؟
میں جانتی تھی۔ تم کو لگا ہو گا میں تمہیں بھول گئی۔ دیکھ لو نہیں بھولی۔ ہاں دُنیا کو بھلا دیا میں نے۔ اُس دنیا کو جو میرے حسن اور جسم کا طواف کرتی تھی۔ میں مشرک تھی۔۔۔ موحد ہو گئی! جانتی ہوں، یہ باتیں تمہاری سمجھ میں کہاں آتی ہوں گی پھر بھی لکھ رہی ہوں۔ تم ہی سے تو سب کچھ کہا کرتی تھی میں۔ تمہارے علاوہ کسی سے ہر راز کہہ دینے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوا حسنِ جہاں میں۔ کوئی تمہاری طرح میرے رازوں کے لیے کنواں بننے کی ہمت بھی تو نہیں رکھتا تھا۔
اپنی خوشی کا عالم تمہیں کیسے بتاؤں؟ میں اور طہٰ بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک کمرے کے گھر میں۔۔۔ ہاں، میں جانتی ہوں تم ہنسو گے مگر مجھے پروا نہیں۔
میں یہ بھی جانتی ہوں تم کہو گے ”محل سے جھونپڑی میں آگئیں آپ حسن جہاں جی اور پھر بھی کہہ رہی ہیں کہ خوش ہیں؟” پر میں شاید تم کو یہ نہیں بتا پائی کبھی کہ محل میں جو سوئیاں چبھتی تھیں شہزادی کو،وہ یہاں اس جھونپڑی میں نہیں چبھتیں۔
اس گھر کو اپنے ہاتھوں سے سجایا ہے میں نے۔۔۔ اس کا ایک ایک کونہ، ایک ایک دیوار۔۔۔سارا دن یہی کرتی رہتی ہوں یہاں۔ پیچھے گھر کے صحن میں سبزیاں اُگاتی ہوں اور آگے باغیچے میں پھول۔۔۔ آج کل بہار آئی ہوئی ہے ہمارے گھر کے ہر کونے میں اور زندگی میں بھی۔
میں اُمید سے ہوں۔ طہٰ کہتا ہے بیٹا ہو گا ہمارے گھر میں اور اس کا نام قلبِ مومن رکھنا ہے۔۔۔ طہٰ جو بھی کہتا ہے، وہ سچ ثابت ہو جاتا ہے۔ مجھے ایسا اندھا یقین ہے اُس پر۔ ۔۔پیار بھی اندھا تھا۔۔۔ اعتبار بھی۔۔۔ اللہ قائم رکھے۔
لیکن پتا نہیں کیوں طہٰ نے خطاطی چھوڑ دی۔۔۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے، اُس نے میری تصویروں کے علاوہ کچھ نہیں بنایا۔ جب جب خطاطی کرنے بیٹھتا ہے، بس بیٹھا ہی رہتا ہے۔ پریشان ہوتا ہے لیکن مجھ سے کچھ نہیں کہتا۔
میں ہر روز نماز پڑھ کر اُس کے لیے دعا کرتی ہوں کہ وہ دوبارہ سے خطاطی کرنے لگے۔ وہ کہتا ہے وہ قلبِ مومن کو بھی خطاط ہی بنائے گا اور اسے اپنے باپ کے پاس بھیج دے گا۔ میں قلبِ مومن کو کہیں نہیں جانے دوں گی۔ وہ میری اولاد ہو گی، میں اسے اپنی آنکھوں سے دور کیسے کروں گی اور وہ بھی عبدالعلی کے پاس بھیج کر جنہوں نے آج تک طہٰ اور مجھ سے کبھی رابطے کی کوشش تک نہیں کی۔ کوئی اپنی اکلوتی اولاد کو اس طرح کیسے بھول سکتا ہے جیسے انہوں نے بھلا دیا اور طہٰ۔۔۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ ان کا ذکر نہ کرتا ہو۔ اس نے ان کی باتیں کر کر کے میرے دل سے اُن کے لیے غصہ اور نفرت بھی ختم کر دی ہے۔ ورنہ میں پتا نہیں کیا کیا سوچے بیٹھی تھی اُن سے بدلہ لینے کے لیے۔
”دُنیا” میں رہتی تھی تو ”دُنیا” جیسی تھی، طہٰ کے ساتھ رہنے لگی ہوں تو پتا نہیں کیسی ہو گئی ہوں۔ اس کی دُنیا اور ہی دُنیا ہے۔ ۔۔اس کی باتیں اور ہی باتیں ہیں۔ طہٰ میری زندگی میں نہ آتا تو یہ سب کہاں کھوجنے بیٹھتی میں۔۔۔رب کے بارے میں کہاں سوچتی اور اب جب سوچنے بیٹھی ہوں تو فرصت ہے۔ لگتا ہے دُنیا کا ہر کام ختم ہو گیا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے قلبِ مومن، مومن بنے۔۔۔اپنے دادا کی طرح۔ لیکن پھر سوچتی ہوں جو مومن ہوتا ہے، کیا وہ بھی معاف نہیں کرتا۔۔۔ مومن ہو کے بھی؟
تم کو اگلا خط جلد لکھوں گی۔ میرا پتا کسی کو نہ دینا۔ میں جانتی ہوں۔ میں نہ بھی کہتی تو بھی تم کسی کو نہ دیتے۔
تمہاری حسنِ جہاں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
عبدالعلی اُس کا چہرہ دیکھتے رہے پھر انہوں نے مدھم آواز میں مومن سے کہا۔
”اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے مومن۔۔۔ وقت گزر گیا۔ سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا۔ اب اگر تم جان بھی لو تو بھی کیا کرو گے؟”
اُس لمحہ مومن کو احسا س ہوا وہ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ اسے یہ جان کر اب کیا کرنا تھا۔
”تم ملنا چاہتے ہو اُس سے؟” انہوں نے یک دم مومن سے پوچھا۔
”نہیں۔” اس نے بے اختیار سوچے سمجھے بغیر کہا۔ اُسے اب اُس شخص سے مل کر کرنا بھی کیا تھا۔
”تو پھر جاننے کی جستجو نہ کرو۔” وہ کہتے ہوئے اُس کے کمرے سے چلے گئے۔
مومن اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھا میز پر بکھرے اُن کاغذوں کو دیکھتا رہا جن پر وہ اُس فلم کی کہانی لکھ رہا تھا جو وہ بنانا چاہتا تھا۔ سب کچھ بکھرا ہوا تھا۔ کردار، کہانی، سچویشنز۔۔۔ سب کچھ اُس کی اپنی زندگی کی طرح۔ سب کچھ سامنے تھا اور سرا پھر بھی غائب تھا۔ ایک عجیب سی تھکن نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا اور اُس نے میز پر اپنا ماتھا ٹکا دیا تھا اور تب ہی اُسے اپنا بچپن یاد آیا تھا۔ وہ تب بھی یہی کیا کرتا تھا۔ جب بہت تھک جاتا تو کاغذ قلم رکھ کر میز پر ماتھا ٹکا کر آنکھیں بند کر لیتا۔ یہ جیسے زندگی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اظہار ہوتا تھا۔ زندگی آج بھی ویسی ہی تھی اکھڑ، خودسر، اپنی من مانی کرنے والی، وہ آج بھی ویسا ہی تھا کمزور، بے بس، نڈھال۔
اُس کے ذہن کی اسکرین پر کچھ اور منظر جھماکوں کی شکل میں نمودار ہونے لگے تھے۔ لاشعور جیسے اُس رات اس کے سامنے سب کچھ ہی لا کر رکھ دینے پر تُلا ہوا تھا۔
وہ چودہ پندرہ سال کا تھا جب اُس نے حسنِ جہاں کو دادا کے گھر پر دیکھا تھا۔ وہ اُس سے کئی سال بعد ملنے آئی تھی، اپنے شوہر کے ساتھ نہیں تھی۔ وہ وہاں اکیلی آئی تھی اور قلبِ مومن کی سمجھ میں نہیں آیا، اُسے کیا ہوا تھا۔ وہ بس اپنے کمرے کو اندر سے بند کیے ہوئے چلاتا اور کمرے میں موجود چیزیں توڑتا رہا تھا۔
”انہیں کہیںیہ جائیں یہاں سے اور دوبارہ کبھی نہ آئیں۔۔۔ میں نہیں ملنا چاہتا ان سے۔۔”
وہ اندر کمرے سے چیخ چیخ کر بولتا رہا تھا اور دروازے کے باہر کھڑے دادا کی منت سماجت کے باوجود اُس نے نہ اُن کے لیے دروازہ کھولا تھا نہ حسنِ جہاں کے لیے۔
”میں نفرت کرتا ہوں ان سے۔۔۔ میں بہت خوش ہوں ان کے بغیر۔۔۔ ان سے کہیں یہ جائیں۔ اپنے شوہر کے ساتھ رہیں۔۔۔ عیش کریں۔۔۔ میرے بابا کو تو مار دیا انہوں نے۔۔۔ اب کیا مجھے بھی مارنا چاہتی ہیں یہ؟”
اُس کے دل میں جو آیا وہ اپنے بند کمرے میں چیزوں کو پھینکتے توڑتے ہوئے بلند آواز میں چلا چلا کر کہتا چلا گیا تھا۔ باہر سے اسے عبدالعلی کی وضاحتیں اور منتیں سنائی دیتی رہی تھیں مگر حسنِ جہاں کی نہیں۔ اُس کی خاموشی قلبِ مومن کو جیسے پاگل کر رہی تھی۔ وہ ماں سے کچھ سننا چاہتا تھا۔۔۔ کچھ بھی۔۔۔ندامت ۔۔۔پچھتاوا۔۔۔ افسوس۔۔۔ اور اس سے محبت کا اظہار مگر وہاں اسے کچھ بھی نہیں ملا تھا۔
”ان سے کہیں جائیں اور پھر کبھی مجھ سے ملنے نہ آئیں۔”
اُسے اپنے اس جملے کی گنتی بھی یاد نہیں تھی کہ اُس نے کتنی بار یہ دُہرایا تھا اور ہر بار عبدالعلی اُسے جواب میں کچھ نہ کچھ کہتے لیکن پھر ایک بار اُسے اس جملے کے جواب میں باہر سے کچھ سنائی نہیں دیا تھا۔اُس نے رُک کر جیسے خاموشی میں باہر اُبھرنے والی آوازوں کو سننا چاہا تھا۔ باہر کوئی آواز نہیں تھی سوائے بیرونی دروازہ کھلنے کے اور دو انسانوں کے باہر جانے کے۔ عجیب طیش کے عالم میں قلبِ مومن اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آیا تھا اور اُس نے بڑے کمرے کی میز پر ایک بہت خوب صورت گفٹ ریپر میں لپٹا ہوا ایک گفٹ باکس دیکھا تھا۔ بے حد غضب ناک ہو کر اُس نے اُس گفٹ باکس اُٹھایا تھا اور لپکتا ہوا بیرونی دروازے کی طرف گیا۔
اس نے گھر کے باہر ایک ٹیکسی کے پاس عبدالعلی اور حسنِ جہاں کو کھڑا دیکھا تھا جنہوں نے گھر کا دروازہ کھلنے پر بیک وقت دروازے کی طرف دیکھا تھا۔ مومن نے دروازہ کھولتے ہی وہ گفٹ باکس پوری قوت سے باہر سڑک پر ٹیکسی کی طرف اُچھال دیا تھا پھر حسنِ جہاں اور دادا سے کچھ کہے بغیر وہ اندر آگیا تھا۔ اپنے کمرے میں آکر بھی اُسے جیسے سکون نہیں ملا تھا۔ اُس نے کمرے کی کھڑکی سے باہر اُس سڑک کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔
حسنِ جہاں اب ٹیکسی میں بیٹھ رہی تھی اور وہ رو رہی تھی۔ عبدالعلی اس سے کچھ کہہ رہے تھے۔ قلبِ مومن کو حسنِ جہاں کے آنسوؤں نے جیسے عجیب سا سکون دیا تھا۔ یوں جیسے جو وہ کرنا چاہتا تھا، وہ کر پایا تھا۔ اُسے ماں کو رُلانا تھا، تکلیف پہنچانی تھی اور وہ ان دونوں کاموں میں کامیاب ہوا تھا۔
ٹیکسی میں بیٹھ کر حسنِ جہاں نے کھڑکی سے اُس کے کمرے کی کھڑکی کو دیکھا تھا۔ چند لمحوں کے لیے دونوں کی نظریں ملی تھیں۔ قلبِ مومن نے کھڑکی سے ہٹنا چاہا تھا۔ وہ ہٹ نہیں سکا تھا۔ ٹیکسی چل رہی تھی اور حسنِ جہاں اُس پر نظریں جمائے ہوئے تھی اور قلبِ مومن۔۔۔ وہ پہلے آگ سے برف پھر برف سے پانی ہوا تھا۔۔۔
وہ آخری بار تھا جب اُس نے حسنِ جہاں کو اور حسنِ جہاں نے اُسے دیکھا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});