الف — قسط نمبر ۰۵

”اس شہرت سے میں نے کچھ نہیں کمایا۔ جہانگیر کے علاج کے پیسوں کے علاوہ، تم مجھے جانتے ہو پھر بھی یہ کہہ رہے ہو۔”
”میں نہیں کہتا یار۔ میرے ماں باپ کہتے ہیں۔ انہیں منا تو لیا ہے میں نے۔ لیکن بڑا مشکل کام ہے یہ یار۔ اس لیے کہہ رہا ہوں تم ہی بات مان لو میری۔ ممی تمہاری فلم کا سن کر پھر بگڑی ہوئی ہیں۔ پلیز مومنہ۔” فیصل نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ وہ چپ بیٹھی رہی تھی۔ وہ مشکل میں تھی اور فیصل کو یہ لگ رہا تھا وہ اس سے بڑی مشکل میں تھا۔
”کھانا آگیا۔ کھانا کھاتے ہیں۔ بس۔” فیصل کو یک دم خیال آیا تھا۔ وہ اس سے مستقبل کی اور بھی اچھی اچھی باتیں کرنے کے لیے اسے باہر لایا تھا۔
مومنہ خاموش ہو گئی تھی۔ فیصل نے اس مہنگے ریسٹورنٹ کی سب سے مہنگی ڈشز اس کے لیے منگوائی تھیں اور کچھ دیر پہلے کہے گئے تلخ جملوں کی تلخی کو مٹانے کے لیے جیسے اب اسے خود سرو کرنے لگا تھا۔ ساتھ اس سے ہلکی پھلکی گپ شپ کرنے لگا تھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس کی باتیں سنتی رہی۔
”مجھے تمہاری یہ عادت ہمیشہ سے پسند ہے۔” فیصل نے یک دم کہا۔
”کیا؟” وہ چونکی۔
”تم بہت توجہ سے بات سنتی ہو۔ دوسری لڑکیوں کی طرح اپنی بات نہیں کہتیں۔” وہ اسے خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا یا واقعی سراہ رہا تھا۔ مومنہ کو اندازہ نہیں ہوا۔ اس نے اپنی پلیٹ سے اگلا لقمہ لیا تھا۔ پھر ایک اور پھر ایک اور۔ کبھی کبھار بھوک مر جانے پر بھی انسان زبردستی اسے کھانے کی کوشش کرتا ہے، بس اپنی عزت نفس اور خودداری کے لیے۔ پریوں کی کہانی میں شہزادی کو شہزادے کے لیے اور کیا کیا سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اس نے اسٹیک کے اس ٹکڑے کو چند مشرومز کے ساتھ اپنے کانٹے میں پروتے ہوئے سوچا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ ایک شان دار لمبی سی گاڑی میں اپنے گھر کے دروازے سے کچھ فاصلے پر اترنے لگی تو فیصل نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اس کا ہاتھ تھاما۔
”تھینک یو۔” مومنہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔
”کس لیے۔”
”اس فیصلے کے لیے۔ میں سوچ رہا ہوں رِنگ کا سائز لینے کے بجائے تمہیں ساتھ لے کر تمہاری مرضی کی رِنگ دلواوؑں۔” اس نے کہتے ہوئے اس کی ایمٹیشن رِنگ واپس کر دی تھی۔ مومنہ نے اس رِنگ کو اپنی اسی انگلی میں پہن لیا جس سے اتار کر اس نے فیصل کو دی تھی۔
”پھر ویک اینڈ پر لینے آتا ہوں تمہیں رِنگ پسند کروانے کے لیے۔” فیصل نے اس سے کہا۔ مومنہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ محبت کا چہرہ تھا۔ اس کی زندگی کی پہلی محبت کا۔ ساری پاکیزگی، ساری معصومیت، ساری جذباتیت والی محبت۔ جیسے پوسٹ کارڈ پر ایک پرفیکٹ پکچروالی محبت۔ وہ اس محبت کو ویسے ہی رکھنا چاہتی تھی۔ وہ مسکرائی تھی۔
”خداحافظ۔” وہ کہتے ہوئے اس کا ہاتھ تھپک کر گاڑی سے اتر گئی۔ فیصل اسے جاتا دیکھتا رہا۔ ویسی ہی محبت سے۔ محبت کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اسے ایک دوسرے کا چہرہ پہچاننا آتا ہے، پڑھنا نہیں۔
٭…٭…٭
”پہلے تو میں نے اسے صرف فلم سے نکالا تھا۔ اب میں اسے سڑک پر لے آوؑں گا۔ دو ٹکے کا رائٹر ہے وہ۔ اوقات کیا ہے اس کی؟ میں نے بریک نہ دی ہوتی تو آج بھی دھکے کھا رہا ہوتا۔ احسان فراموش گھٹیا آدمی۔” قلب مومن فون پر پوری قوت سے دھاڑ رہا تھا اور فون پکڑے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ٹہلتے ہوئے اسے یہ اندازہ ہی نہیں ہوا تھا کہ ٹیناکے ساتھ ہونے والی وہ فون کال عبدالعلی بھی سن رہے ہوں گے۔
”سارا پرابلمز نیہا کی وجہ سے ہو رہا ہے ورنہ اختر کی اتنی جرأت نہیں تھی۔ اسے وکیل بھی نیہا نے کر کے دیا ہے۔ ورنہ اختر تو اب بھی بہت ڈرا ہوا ہے اورpatch up کی بات کریں فوراً تیار ہو جائے گا۔”
”نیہا کو تو دیکھ لوں گا میں۔ پبلسٹی کی بھوکی عورت۔ پچاس بوائے فرینڈز ہوں گے اس کے مجھ سے پہلے۔ مجھے بھی بہت کچھ پتا ہے اس کے بارے میں۔”وہ اسی تلخ لہجے میں کہہ رہا تھا اور ساتھ ٹہل رہا تھا۔
”احسن کی فلم کا پریمیرہو گیا۔ بہت برے ریویو ملے ہیں اسے۔ آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھے۔ فلاپ ہو گی وہ۔” ٹینا نے یک دم اسے ضروری اپ ڈیٹ دی۔
غصے میں بھی مومن قہقہہ لگانا نہیں بھولا تھا۔ ”زبردست۔ بڑی اچھی خبر دی تم نے۔ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو کہو، وہ بھی برے ریویو لکھے اس کی فلم کے بارے میں۔ دھجیاں اڑا دے اس کی فلم کی، تھرڈ کلاس ڈائریکٹر اپنے آپ کو قلبِ مومن کا استاد کہتا ہے۔”
مومن شاید اسی تضحیک آمیز انداز میں بات کرتا رہتا اگر وہ یک دم دادا کو نہ دیکھ لیتا جو اچانک اس کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے تھے۔
”مجھے ای میلز کر دو، میں جواب دیتا ہوں ان کا۔” مومن نے ٹینا کو خداحافظ کرتے ہوئے کہا۔ عبدالعلی کے دیکھنے کا انداز اسے کھلا تھا۔
”کیا دیکھ رہے ہیں آپ؟” فون بند کرتے ہی اس نے دادا سے کہا۔
”تمہیں۔”
”کیوں؟” وہ الجھا۔
”پہچان نہیں پا رہا۔”
”کیا؟” وہ حیران ہوا۔
”تمہیں۔ یہ جو فون پر بات کر رہا تھا، کیا یہ وہ قلبِ مومن تھا جو چڑیا کو گود میں لیے ساری رات بیٹھا رہتا تھا۔” مومن چند لمحے بول نہیں سکا۔
”وہ بچپن تھا دادا۔” مومن نے نظریں چرائیں۔
”اور جو اپنی ماں کے آنسو دیکھ کر اللہ کو خط لکھنے لگتا تھا کہ وہ اس کی ماں کو بھیج دے۔” انہوں نے بات جاری رکھی تھی۔
”وہ میرے خونی رشتے تھے دادا۔” وہ کہے بغیر نہیں رہ سکا۔
”اور جو راستے میں پڑے ہر پتھر کو اس لیے اٹھاتا تھا کہ کسی دوسرے کو ٹھوکر نہ لگے۔”
”آپ کو کرتے دیکھتا تھا اس لیے کرتا تھا۔” وہ اب ان سے نظریں چرانے لگا تھا۔
”وہ مومن جہاں بھی جاتا تھا لوگوں کی آنکھوں کا تارا بن جاتا تھا۔” دادا پتا نہیں اسے کس کا چہرہ دکھانے لگے تھے۔
”لوگ آج بھی مجھ سے پیار کرتے ہیں دادا۔ لاکھوں لوگ ٹوئٹر پر مجھے فالو کرتے ہیں۔ میری برتھ ڈے پر مجھے کارڈز، پھول، تحفے بھیجتے ہیں۔ میں آج بھی ان کی آنکھوں کا تارا ہوں۔ ا ن کے دلوں میں بستا ہوں۔” اس نے دادا کو چیلنج کیا۔
”وہ جو لوگوں کے دلوں میں بستا تھا، اس سے میں پوچھتا تھا کہ وہ ان سب لوگوں کے نام لکھے جو اس کے دشمن ہیں تو اس کا صفحہ خالی رہ جاتا تھا۔” مومن گم صم ہوا۔
”آپ مجھ سے کیا سننا چاہتے ہیں دادا؟” اس نے بالآخر زچ ہو کر کہا۔
”تم بدل گئے ہو مومن۔ تم وہ قلبِ مومن نہیں رہے۔”
”غلط۔ میں ایک بہترین انسان ہوں۔ آپ میرے سوشل سرکل میں آکر میرے بارے میں پوچھیں۔ اس ایک فون کال سے مجھے جج نہ کریں۔” وہ مدافعانہ انداز میں بولا تھا۔
”تم لوگوں کا رزق چھین سکتے ہو مومن؟ انہیں سڑکوں پر لانے کی طاقت رکھتے ہو؟” عبدالعلی نے جیسے اس کے الفاظ دہرائے۔
”جس کے بارے میں یہ بات کہی ہے، وہ احسان فراموش ہے۔ میں نے اسے عزت دی اور وہ…”
دادا نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”عزت اور ذلت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے قلبِ مومن! تمہارے ہاتھ میں نہیں۔”
”آپ اس فلم انڈسٹری کو نہیں جانتے دادا! یہاں سب ایک دوسرے کے بارے میں یہی کہتے ہیں، ایسے ہی بات کرتے ہیں، ایسے ہی گالیاں دیتے ہیں، یہاں سب چلتا ہے۔” مومن نے اب جیسے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”تو پھر اس حمام سے نکل آوؑ جس میں تم سب بے لباس ہو۔” ان کے اگلے جملے نے مومن کو مشتعل کر دیا تھا۔
”میرا حمام میرے پروفیشن کو کہہ رہے ہیں نا آپ؟”
”نہیں، اس جسم کو کہہ رہا ہوں جس کی پرستش کروانے کے لیے تم اپنی زندگی ضائع کر رہے ہو اور مل کیا رہا ہے؟ حسد، رقابت؟ بے عزتی، بے سکونی، ایوارڈز اور آسائشات کے ساتھ۔”
”آپ تو روح کا کام کرتے ہیں نا دادا! آپ سے تو کوئی حسد نہیں کرتا، کوئی دشمن نہیں ہے آپ کا۔” وہ عبدالعلی پر اب طنز کرنے لگا تھا۔
”میرے کام میں روح ہوتی ہے مومن اور روح ماورا ہے ان چیزوں سے جن میں تم الجھے پڑے ہو۔” وہ اس بار آگ بگولہ ہوا۔
”میرے کام میں روح نہیں ہوتی، وہ صرف آپ کے کام میں ہوتی ہے۔ آپ سمجھتے میں میں روح کو نہیں سمجھتا؟ کاغذ پر لکھے بے جان کرداروں کو اسکرین پر پیش کر کے لوگوں کے دلوں میں اتار دیتا ہوں اور میں روح کو نہیں سمجھتا۔”
”تمہارے ان بے جان کرداروں میں سے کس نے کس کی روح کو چھوا؟ نہیں مومن! جو بھی کردار تم پیش کرتے ہو سب جسم ہیں۔ سب لمس مانگتے ہیں۔ سب مادی۔ طلب ہے نفس کی۔ اور ان کا قصور نہیں ہے، تمہارا قصور ہے کیوں کہ یہ کردار تمہارے ہاتھوں گھڑ رہے ہیں اور تمہیں صرف جسم کا پتا ہے، روح کا تو پتا ہی نہیں ہے۔”
جوتا نہیں، جوتے مارے تھے ان کی نرم ، میٹھی، مدھم آواز میں اور کوڑوں کی طرح اس کی انا کو زخمی کر گئے تھے۔
”آپ کہتے ہیں نا دادا! میں روح کو نہیں سمجھتا، صرف جسم کو جانتا ہوں، اسی کی پرستش کروا سکتا ہوں۔ تو دادا! اب میں آپ کو ایک ایسی فلم بنا کر دوں گا جو جسم کا لمس نہیں مانے گی۔ روح کو چھوئے گی۔ اللہ کی عبادت کروائے گی۔” عبدالعلی بے اختیار ہنسے تھے۔ یوں جیسے کوئی بڑا کسی بچے کی بچگانہ بات پر ہنستا ہو۔
”ٹھیک ہے مومن! اس بار تم ایک فلم بناوؑ، روح میں اتر جانے والے کرداروں کی۔ اللہ کی عبادت پر مجبور کر دینے والی۔ روح کو چھونے والی اور جس دن تم اپنی فلم میں روح کی بات کرنے لگو گے یہ لاکھوں کروڑوں کا مجمع جنہیں تم فین اور فالورز کہتے ہویہ چھٹ جائے گا۔ یہ سب جنہیں تم دوست کہتے ہو، پرندوں کی طرح اڑ جائیں گی۔”
عبدالعلی کی آواز میں عجیب سی کیفیت تھی۔
”ایسا نہیں ہو گا۔” مومن نے کہا۔
”تم آزما لو۔ پھر جب تم اپنے آپ کو اکیلا پاوؑ تو یہاں آجانا۔”
”میں آپ کے پاس صرف روح اور روحانیت پر ایک ہٹ فلم لے کر آوؑں گا۔” قلبِ مومن نے جواباً کہا۔ ”وہ فلم جو آپ کی خطاطی سے زیادہ قریب کرے گی لوگوں کو اللہ کے۔” قلبِ مومن نے چیلنج کیا۔
”تم جیت گئے تو میں کیلی گرافی چھوڑ دوں گا۔ میں جیت گیا تو تم آجانا میرے پاس اپنا اثاثہ سبھالنے۔”
عبدالعلی نے مسکراتے ہوئے اس کا چیلنج قبول کیا تھا۔ وہ اپنی اپنی فیلڈ کے دو پہلوان تھے اور اب دنگل کے لیے اکھاڑے میں اتر آئے تھے۔
٭…٭…٭
دروازہ بجانے پر ثریا باہر نکلی تھی اور فیصل کو دیکھ کر اس کا چہرہ کھل گیا تھا۔
”ارے بیٹا! آوؑ آوؑ۔ اندر آوؑ۔” اس نے دروازے سے ہٹتے ہوئے ساتھ اس کے سلام کا جواب دیا۔
”نہیں آنٹی بس مومنہ کو لینے آیا ہوں، اسے بھیج دیں۔” ثریا کے چہرے پر الجھن آئی۔
”مومنہ۔ وہ تو کل امریکا چلی گئی۔ کیا تمہیں نہیں بتایا اس نے۔”
فیصل فریز ہوا تھا۔ ”نہیں۔” اس نے بمشکل کہا۔
”پر مجھے تو کہہ رہی تھی کہ تم آوؑ گے ویک اینڈ پر تو تمہیں وہ لفافہ دے دوں۔” ثریا کچھ اور الجھی تھی۔
”کون سا لفافہ؟” فیصل الجھا تھا۔
”ایک منٹ۔” ثریا کہتے ہوئے برق رفتاری سے اندر گئی پھر اسی رفتار سے واپس آگئی اور اس نے ایک لفافہ فیصل کو تھما دیا۔
”ٹھیک ہے آنٹی۔ میں چلتا ہوں۔” فیصل کو بات کرنے میں دقت ہو رہی تھی۔
”بیٹا! اندر تو آتے۔ کچھ چائے وغیرہ۔” ثریا نے کہا۔
”نہیں آنٹی! پھر کبھی۔ ابھی ممی کو کلینک پر بھی چھوڑنا ہے مجھے۔ خدا حافظ۔”
وہ رُکے بغیر کہتا ہوا وہاں سے چل پڑا تھا۔ اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی اس نے مومنہ کے خط کا جوب بھی سوچتے ہوئے لفافہ کھول لیا تھا۔ اسے یقین تھا، اس نے اپنے خط میں وضاحتیں دی ہوں گی اور فیصل کو کوئی وضاحت قبول نہیں کرنا تھی۔ لفافے کے اندر کوئی خط نہیں تھا۔ اس کے اندر پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ تھے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۴

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!