الف — قسط نمبر ۰۵

”مومن بھائی! ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔” وہ رات کو سونے کے لیے لیٹنے لگا تھا جب اچانک داوؑد کا فون آیا تھا۔ قلبِ مومن کو پہلا خیال فلم کی ریکی سے متعلق آیا تھا۔
”کیا ہوا؟” اس نے کچھ متفکر ہو کر پوچھا۔
”آپ نے سوشل میڈیا پر جا کر اپنی تصویریں دیکھیں؟” داوؑد نے کچھ جھجکتے جھجکتے کہا۔
”کون سی تصویریں؟”وہ الجھا۔ ”وہ کسی نے آپ کی کچھ پکچرز لیک کر دی ہیں سوشل میڈیا پر۔ کچھ پرسنل قسم کی۔ تو وہ وائرل ہو گئی ہیں۔”
مومن ہکا بکا ہو گیا تھا۔ ”میں دیکھتا ہوں۔ بس یہی مسئلہ تھا؟”
”نہیں، وہ اختر بھائی نے لیگل نوٹس بھیجا ہے آفس کے ایڈریس پر۔” داوؑد نے بالآخر وہ مسئلہ بتایا جس کے لیے اس نے فون کیا تھا۔
”لیگل نوٹس، کس لیے؟” وہ حیران ہوا۔ ”ایک کروڑ مانگ رہے ہیں damages میں صنم کے اسکرپٹ سے علیحدہ کیے جانے پر۔”
مومن کے ہونٹ بھنچ گئے۔ ”اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ ایک کروڑ اس نے کبھی خواب میں بھی دیکھا ہے؟” وہ بے ساختہ خفا ہوا تھا۔
”مجھے لگتا ہے اس سب کے پیچھے کوئی ہے۔ مجھے یہ ڈر ہے اختر بھائی بھی سوشل میڈیا پر نہ چلے جائیں۔”
داوؑد نے نیہا کا نام لیے بغیر جیسے اسے خبردار کیا۔
”میں جانتا ہوں کون ہے اس سب کے پیچھے اور جو ہے اس کو بھی دیکھ لوں گا۔”
مومن نے کہتے ہوئے فون بند کیا اور لیپ ٹاپ پر اس نے وہ لنکس کھول لیے جو داوؑد نے اسے بھیجے تھے۔ تصویروں پر نظر پڑتے ہی جیسے اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا تھا۔ وہ اس کی ساحل پر کچھ ماڈلز کے ساتھ تصویریں تھیں اور وہ تصویریں نیہا کے علاوہ کوئی اور اس کے فون سے نہیں نکال سکتا تھا۔ وہ تصویریں فیس بک اور ٹوئٹر پر مختلف فلم اور ٹی وی کے پیجز نے شیئر کر رکھی تھیں اور ان تصویروں کے نیچے دیکھنے والوں کی آراء تھیں۔thread comments میں قلبِ مومن اور ان ماڈلز کو ہر طرح کی گالیاں دی جا رہی تھیں۔ قلبِ مومن نے چند کمنٹس پڑھنے کے بعد مزید کمنٹس پڑھنے بند کر دیے تھے۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس وقت اگر وہ پاکستان میں ہوتا تو اس کی ان ساتھی ماڈلز کی طرف سے آنے والی کالز نے بھی اس کی زندگی اجیرن کر دی ہوتی کیوں کہ وہ پرسنل تصویریں تھیں اور ان میں سے ہر ایک یقینا یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ تصویریں قلبِ مومن نے شیئر کی تھیں اور اپنی ان گرل فرینڈز کے سامنے قلبِ مومن کو اب جس طرح کی صفائیاں اور وضاحتیں دینی تھیں۔ قلبِ مومن کو ان کی سنگینی اور نزاکت کا اندازہ تھا، نیہا کے علاوہ یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کے فون تک صرف نیہا ہی کو رسائی تھی۔
اس نے اگلی کال نیہا کو کی تھی مگر نیہا نے کال ریسیو نہیں کی تھی۔ قلبِ مومن جلتا بھنتا اس کو بار بار کالز کرتا رہا۔ اس کی کوئی کال اٹینڈ نہیں ہوئی تھی۔ اس کے چھوڑے ہوئے کسی میسج کا جواب نہیں آیا تھا اس کے باوجود کہ وہ دیکھ لیے گئے تھے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تم کیا رات کو سوئے نہیں؟” وہ اگلی صبح دادا کے کمرے میں آیا تو انہوں نے اس کا چہرہ دیکھتے ہی کہا تھا۔
”ہاں بس نیند نہیں آئی مجھے۔ نئی جگہ پر نیند نہیں آتی مجھے۔” مومن نے جیسے گول مول انداز میں جواب دیا تھا۔ اس کا ذہن مسلسل الجھا ہوا تھا۔
”یہ نئی نہیں، یہ تو پرانی جگہ ہے۔” دادا نے جیسے اسے یاد دلایا۔ وہ جواب دینے کے بجائے اس ایزل کے سامنے کھڑا ہو گیا جس پر رکھے کینوس پر وہ کچھ پینٹ کر رہے تھے۔
”اسے پہچانتے ہو؟” دادا نے یک دم دیوار پر لگی ایک کیلی گرافی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا۔ مومن نے گردن موڑ کر اس کیلی گرافی کو دیکھا۔ ایک چھوٹے سے کینوس پر صرف اللہ کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ بہت خوبصورت رنگوں لیکن بے حد غیرہموار لکیروں میں۔ وہ اس کی اپنی خطاطی تھی۔ اس کی پہلی خطاطی جب وہ دادا کے پاس آگیا تھا۔ اسے یاد آیا۔ اس گھر میں گزارا ہوا پہلا دن۔
”میں نے لکھ لیا۔” قلبِ مومن نے فخریہ انداز میں عبدالعلی سے کہا تھا۔
”بہت خوبصورت لکھا۔” انہوں نے اسے داد دی تھی۔
”لیکن بس اللہ کا الف تھوڑا ٹیڑھا ہو گیا۔ ہے نا دادا؟” قلبِ مومن نے الف پر انگلی پھیرتے ہوئے جیسے کچھ تشویش سے اپنے دادا سے کہا تھا۔
”جب بار بار اللہ کا نام لکھتے رہو گے تو سب کچھ سیدھا ہو جائے گا۔ الف بھی۔” عبدالعلی نے اس کے ہاتھ سے برش لے کر اس کے الف پر پھیرتے ہوئے اسے جیسا سیدھا کرنے کی کوشش کی تھی مگر کیا نہیں تھا۔
ایک جھماکے کے ساتھ وہ سین ذہن پر لہرایا تھا اور اسی طرح غائب ہو گیا تھا۔ قلبِ مومن نے انگلی الف پر پھیرتے ہوئے دادا سے کہا۔
”الف آج بھی ٹیٹرھا ہے میرا۔”
”تم نے اللہ کا نام لکھنا بھی تو چھوڑ دیا ہے اب۔” اسے اپنے عقب میں عبدالعلی کی آواز آئی۔
”ہاں شاید میں مومن ہوں نا۔ ساری غلطی ہمیشہ مومن ہی کی ہوتی ہے۔ آئیں ناشتہ کرتے ہیں۔”
اس نے عجیب سے انداز میں کہہ کر جیسے اپنی احساس ندامت اور احساس جرم کو جھٹکا تھا اور کمرے سے چلا گیا تھا۔
٭…٭…٭
وہ پہلی بار کسی ڈرامہ کی شوٹنگ کے لیے نہیں آج اپنے لیے تیار ہوئی تھی اور بار بار اسے لگ رہا تھا جیسے بہت تیز میک اپ کر لیا تھا۔ کچھ زیادہ ہی بلوڈرائی کر لیے تھے بال۔
ریسٹورنٹ میں لنچ کے لیے فیصل کے بالمقابل بیٹھی وہ پہلی بار نروس ہو رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ اور نظروں سے۔ اپنے ہاتھوں میں پہنی ایک امیٹیشن انگوٹھی اس نے چند لمحے پہلے فیصل کو تھمائی تھی اور وہ انگوٹھی ابھی تک فیصل کے ہاتھ میں تھی جو وہ خالی الذہنی کی کیفیت میں اپنی انگلیوں میں گھما رہا تھا۔
”سب باتیں کر رہے ہوں گے آج۔ سیٹ سے آئی ہوں اور پہلی بار اس طرح کسی مرد کے ساتھ سیٹ سے کہیں گئی ہوں۔” مومنہ نے ہنستے ہوئے اسے بتایا تھا۔ وہ ایک سیریل کے سیٹ پر اپنا کام وائنڈ اپ کروا رہی تھی جہاں سے فیصل نے اسے پک کیا تھا۔
”اندازہ ہے مجھے، اس لیے تو نہیں چاہتا کہ تم انڈسٹری میں کام کرو۔” فیصل یک دم سنجیدہ ہوا تھا۔
”میں سمجھی نہیں۔”اس کی مسکراہٹ بھی غائب ہو گئی تھی۔
”کیا؟” فیصل اس کے سوال پر حیران ہوا تھا۔
”کام نہ کرنے والی بات۔” مومنہ نے کہا۔
”آنٹی نے کہا تھا، تم انڈسٹری چھوڑ رہی ہو اور اب کام نہیں کرو گی اسی لیے تو میں اپنے پیرنٹس کو منا پایا۔ آنٹی نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اور انکل بھی اس فیلڈ کو چھوڑ دیں گے۔” فیصل نے سنجیدگی سے کہا تھا۔ مومنہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”انہوں نے کہا تھا کہ وہ اپنا کام چھوڑ دیں گے؟” اسے یقین نہیں آیا۔
”ہاں۔ کیا تم سے بات نہیں ہوئی اُن کی؟”
”نہیں۔” مومنہ نے جواباً کہا۔
”کوئی بات نہیں، اب کرلیتے ہیں آج میں اسی مسئلے پر بات کرنا چاہتا تھا تم سے تاکہclarity ہو جائے سب باتوں پر۔” فیصل نے اطمینان سے کہا تھا۔
”آنٹی نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اب گانا گانا چھوڑنا چاہتی ہیں اور انکل بھی اب میک اپ آرٹسٹ کے طور پر فلمز میں کام نہیں کریں گے۔”
مومنہ کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا تو اس کے ماں باپ نے اپنا فن پہلی بار بیچ دیا تھا اس کے مستقبل کے لیے۔ اسے تکلیف ہوئی۔
”اور پھر وہ کیا کریں گے؟ کہاں سے کھائیں گے؟” اس نے فیصل سے پوچھا۔
”میں سپورٹ کروں گا انہیں۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ کام چھوڑیں گے تو انہیں مشکلات آئیں گی جہانگیر کے علاج کی بات اور تھی لیکن گھر کا خرچ تو میں چلا سکتا ہوں، ان دونوں کا۔” اسے فیصل کی اعلیٰ ظرفی اور نیت پر شبہ نہیں تھا پھر بھی وہ شرم سار ہوئی تھی۔
”فیصل یہ سب آسان نہیں ہے۔” اس نے اسے ٹوکا۔
”میں بنا دوں گا۔” وہ جواباً بولا۔
”تمہیں اندازہ نہیں ہے، پچھلے کئی سالوں سے جہانگیر کی وجہ سے ہم پر کتنا قرضہ جمع ہو گیا ہے۔”
”کتنا قرضہ ہے؟” فیصل نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”آٹھ دس لاکھ شاید اس سے بھی زیادہ۔ چھوٹی چھوٹی رقمیں ہیں مگر بہت لوگوں کو پیسے واپس کرنے ہیں ہم نے۔”
”میں ادا کروں گا وہ سارا قرضہ۔ آٹھ لاکھ۔ دس لاکھ جتنا بھی ہے۔ تم بس یہ کام چھوڑ دو۔” فیصل نے دوٹوک انداز میں اس سے کہا۔
”تم کیوں دو فیصل؟ آخر تم کیوں دو؟” وہ جذباتی ہوئی تھی۔ ”میرا بھائی تھا وہ، میں نے لوگوں کے سامنے اس کے لیے ہاتھ پھیلا تھا۔ پھر اب دوسروں کا احسان اور خیرات لے کر اس کا قرض کیوں اتاروں میں؟”
فیصل اس کے جملے پر جیسے ہرٹ ہوا۔ ”میں تمہیں خیرات دوں گا؟”
”مجھے خیرات ہی لگ رہی ہے۔”
”نہیں ہے خیرات۔ نہ ہی احسان ہے۔”
”میرے ہاتھ دیکھو۔ کیا تمہیں لگتا ہے، یہ ہاتھ کما نہیں سکتے؟ قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے؟ پھر میں تم سے کیوں لوں؟”
مومنہ نے اسے اپنے ہاتھ دکھائے تھے۔ اس نے ایک نظر اس کے ہاتھوں پر ڈالی پھر بے ساختہ کہا۔
”لیکن تم ہاتھوں سے نہیں کماتیں مومنہ۔” مومنہ کو جھٹکا لگا۔
”پھر کیسے کماتی ہوں میں؟”
”چہرہ اور جسم دکھا کر۔” فیصل نے روانی میں کہا اور بات کہنے کے بعد اسے جیسے پچھتاوا ہوا، مومنہ کا رنگ فق ہو گیا تھا۔ فیصل نے یک دم اپنی آواز کو نرم کیا۔
”ابھی تم ٹی وی کر رہی ہو پھر تم فلم کرو گی۔ مرد کیسے دیکھتا ہے اسکرین پر نظر آنے والی ایکٹریس کو تمہیں مجھ سے بہتر پتا ہے۔ میں اتنا لبرل نہیں ہوں کہ کبوتر بن کر آنکھیں بند کر لوں۔ میں تمہاری اور تمہارے ماں باپ کی ذمہ داری اٹھا سکتا ہوں۔ دل و جان سے اٹھاؤں گا۔ پیار میں احسان نہیں ہوتا۔ حق ہوتا ہے۔ مومنہ! کچھ تو بولو۔” اس نے بات کرتے کرتے مومنہ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر جیسے اسے متوجہ کیا تھا۔
”کیا بولوں؟ تم نے کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا مجھے۔”اس نے ہتھ کھینچتے ہوئے رنج سے کہا تھا۔
”میں تمہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ سب کچھ صرف میں نہیں ساری دنیا کہتی ہے اور کہتی رہے گی۔ تمہیں یاد نہیں، تم تو خود ایکٹنگ کو حرام سمجھتی تھیں، خود کہتی تھیں کہ مجبوری میں کر رہی ہو۔ اب تو کوئی مجبوری نہیں ہے۔”
”تمہارے پاوؑں میرے جوتے میں نہیں ہیں اس لیے تمہیں میرے حالات کا اندازہ اور احساس نہیں ہے۔” وہ رنجیدگی سے بولی تھی۔
”لیکن مجھے ایک موقع دو۔ میں یہ سارا قرض ادا کر دوں گی۔ تمہارے پاس آجاوؑں گی پھر اس کے بعد۔”
”فلم نہیں مومنہ! میں تمہارا فلم میں کام کرنا قبول نہیں کر سکتا۔” فیصل نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”اور ٹی وی میں کئی سال چھوٹے موٹے رول کر کے بھی یہ قرض ادا نہیں کر پاوؑں گی۔ یہ ایک فلم میرا سارا قرض اتار دے گی۔”
فیصل کچھ جھنجھلایا۔ ”جب میں تیار ہوں تمہارے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تو تم کیوں نہیں مان رہیں میری بات؟ یا میں یہ سمجھ لوں کہ تمہیں بھی شہرت کا چسکہ لگ گیا ہے۔ میرے پیرنٹس پہلے ہی کہتے ہیں کہ ایک بار ٹی وی پر آجانے والی گھر میں بیٹھ کر گھرداری نہیں کرے گی۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ فیری ٹیلز کا شہزادہ اتنی زہرآلود باتیں تو نہیں کرتا۔ اس نے سوچا تھا اور شہرت کا چسکہ کا تھا جس کا طعنہ وہ اسے دے رہا تھا۔ اس نے سوچا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۴

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!