الف — قسط نمبر ۰۵

”فیصل نے مجھے آپ کے آنے کا بتایا ہی نہیں۔” مومنہ نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا۔
”اچھا۔ کیوں فیصل؟” فیصل کی والدہ کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا لیکن انہوں نے یہی ظاہر کیا تھا کہ انہیں یقین آگیا تھا۔
”بس میں نے سرپرائز دینا تھا تمہیں۔” فیصل نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ مسکرا کر دیکھا۔
”میں بوتلیں لے کر آتا ہوں۔ اتنی دیر کر دی جھومر نے۔” سلطان کو یک دم خیال آیا تھا مہمان ابھی تک پانی کے بغیر بیٹھے تھے۔
”کولڈڈرنکس کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ انہیں منع کر دیں۔” فیصل کی امی نے جاتے ہوئے سلطان کو دیکھ کر ثریا سے کہا اور ساتھ ساتھ اپنے دوپٹے کے پلو سے خود کو ہوا دینے لگی تھیں۔
”نہیں نہیں، لانے دیں انہیں۔ اتنی گرمی میں آئے بیٹھے ہیں آپ لوگ۔ بس یہ بیڑا غرق ہو، کے الیکٹرک والوں کا۔ وقت بے وقت بجلی غائب کر دیتے ہیں۔” ثریا نے سلطان کو نہیں روکا تھا۔
”عادت ہی نہیں رہی اب ائرکنڈیشنز کے بغیر کہیں بیٹھنے کی۔”
فیصل کی امی کے انداز میں نخوت نہیں تھی۔ وہ کچھ جتا بھی نہیں رہی تھیں اور مومنہ کو کوئی توہین بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ وہ ان کے گھر اپنی مرضی سے آئے تھے۔ مومنہ سلطان کو کوئی طلب تھی نہ توقع وہ جیسے عجیب سکون میں تھی۔ زندگی میں ایسی قناعت کبھی کبھی عطا ہوتی ہے۔
”تم کیا کر رہی ہو آج کل۔” انہیں اچانک مومنہ سے پوچھنا یاد آیا۔ مومنہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا مگر اس سے پہلے ثریا بول اٹھی۔
”آج کل تو کچھ بھی نہیں۔ فلم کی آفر تھی مگر چھوڑ دی اس نے۔” ثریا جیسے کسی مجرم کی صفائیاں دے رہی تھی، مومنہ نے حیران ہو کر ماں کو دیکھا۔
”فلمیں تو ہوتی ہی واہیات ہیں یہاں۔ اچھا کیا چھوڑ دیا۔ ان میں کام کر کے کیا کرنا۔” فیصل کی امی نے بے اختیار کہا۔
”ہالی وڈ کی فلم تھی۔” ثریا چھپاتے چھپاتے بھی بیٹی کی achievementجتا گئی۔
”پھر تو اور واہیات ہو گی۔” فیصل کی والدہ کے جواب نے سب پر جیسے خاموشی طاری کر دی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ممی! یہ دیکھیں، یہ خطاطی مومنہ کی ہے۔” فیصل نے دیوار پر لگی ایک خطاطی دیکھ کر ماں کو اس کی طرف متوجہ کیا۔
”اچھا۔ یہ بھی کر لیتی ہے۔” اس کی ماں کو جیسے پہلی اچھی چیز نظر آئی مومنہ سلطان کے فائن آرٹس کے پروفائل میں۔
”جب چھوٹی تھی نا تو اپنے ابا کا میک اپ باکس کھول کر لپ اسٹک نکال کر گھر کی ساری دیواروں پر یہی بناتی رہتی تھی۔ اسے بڑا شوق تھا آرٹسٹ بننے کا۔” ثریا نے فخریہ انداز میں مومنہ سلطان کی ایک اور خصوصیت گنوائی۔ فیصل کی والدہ اسی طرح دوپٹے کے پلو سے اپنے آپ کو ہوا دیتی رہیں۔ کراچی کی گرمی نے ان کے سارے سوال و جواب بھلا کر رکھ دیے تھے۔
باہر گلی میں دروازے پر کھڑے سلطان نے بڑی خفگی سے جھومر سے وہ پلاسٹک کا شاپر پکڑا تھا جس میں وہ چار کولڈڈرنکس ڈالے شاپر جھلاتا ہلاتا تیزی سے آیا تھا۔
”کب سے بھیجا ہوا ہے تجھے جھومر! اور تو گھنٹہ لگا کر آئی ہے۔” سلطان کہے بغیر نہیں رہ سکا۔
”گھنٹہ کہاں۔ پینتالیس منٹ ہوئے ہوں گے زیادہ سے زیادہ۔”جھومر کو اس دروغ گوئی پر غصہ آیا تھا۔
”وہ کریم کریانے والا تو دے ہی نہیں رہا تھا کیوں کہ تیرا لمبا ادھار ہے وہاں پر جب میں نے مومنہ باجی کے رشتے کا بتایا تو دے دیں اس نے بوتلیں مگر گرم آگ۔ فریزر خراب تھا اس کا۔ میں آگے برف پکڑنے چلی گئی کہ تو نے اگلا کام یہ بتانا تھا اور تو میرا گھنٹہ گن رہا ہے۔” جھومر نے کلائی میں چڑھایا برف والا دوسرا شرپ بھی سلطان کو تھمایا۔
”چل بڑی مہربانی تیری۔” سلطان نے شاپر پکڑتے تیزی سے اندر جاتے ہوئے کہا۔ ”فنکشن میں نے ہی کرنا ہے مومنہ باجی کا۔ ابھی سے بتا رہی ہوں اور ولیمہ پر بھی جاوؑں گی لڑکے والوں کے گھر تمہارے ساتھ۔” جھومر نے جاتے جاتے بالوں اور دوپٹے کو جھٹک کر آواز دی تھی۔
”ہاں ہاں۔ تجھے کیسے پیچھے چھوڑ کر جائیں گے۔” سلطان نے ہنستے ہوئے کہا تھا اور سلطان اور جھومر کے درمیان ہونے والی یہ ساری گفتگو اندر کمرے میں بیٹھی فیصل کی امی نے پنکھا جھلتے ہوئے اپنے پسینہ خشک کرنے کی کوششوں کے دوران سنی تھی۔
”میں بس ذرا رسم کرنا چاہ رہی تھی۔ اگلی بار انگوٹھی لائیں گے تو ساتھ ہی طے کر لیں گے شادی کی تاریخ۔” انہوں نے پرس کھول کر اس کے اندر کچھ ڈھونڈنا شروع کیا۔
وہ بازار کی برف کے ساتھ اس کولڈ ڈرنک کو پینے کا رسک نہیں لے سکتی تھیں جو شاید وہاں جعلی ہی ہوتی۔ بیٹے کی شادی وہاں طے کر کے جتنا بڑا رسک انہوں نے لینا تھا لے لیا تھا اب دوسرا رسک لینے پر وہ تیار نہیں تھیں۔ سلطان تب تک ٹرے میں بوتلیں اور گلاسوں میں برف ڈالے لنگڑاتا ہوا اندر آگیا تھا۔ ٹرے اس کے ہاتھ سے فیصل نے پکڑ کر میز پر رکھی تھی اور اس سے پہلے کہ سلطان یا ثریا، فیصل اور اس کی ماں کو بوتلیں آفر کرتے فیصل کی امی نے پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ مومنہ کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے اس کی ہتھیلی بند کی تھی۔
”یہ لو بیٹا! بہت مبارک ہو۔ اکلوتا بیٹا ہے میرا فیصل۔ اسے انکار نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے میں ہی جھک گئی، اب اللہ کرے سب اچھا رہے۔” انہوں نے مومنہ کے ماتھے پر پیار کیا اور ساتھ ہی اپنے رنج اور افسوس کا اظہار بھی۔
”آپ کو مبارک ہو بہت بہت۔ سب اچھا ہی رہے گا ان شا اللہ۔” اپنی آنکھوں میں آئی نمی دوپٹے سے گڑتے ہوئے ثریا نے کہا۔ وہ ضرورت مند تھے۔ ضرورت مند لفظ اور لہجے نہیں پکڑتے۔
”ارے منہ تو میٹھا کرواوؑں میں سب کا ذرا باہر سے مٹھا لا کر۔ میں بھی کیسی بے وقوف ہوں، آرام سے بیٹھی ہوں۔” ثریا یک دم اٹھ کر باہر گئی تھی اور مومنہ ہونقوں کے انداز میں وہ دس ہزار ہاتھ میں پکڑے بیٹھی رہی۔
٭…٭…٭
برآمدے میں آکر ثریا رکی تھی۔ دوپٹہ آنکھوں پر رکھ کر اس نے جیسے ایک سسکی بھری اور بڑبڑائی۔
”جہانگیر کچھ دن اور ٹھہر جاتا۔” آنسو بے قابو ہو کر اس کی آنکھوں سے چھلکے مگر اس نے دوپٹے سے آنکھیں رگڑتے ہوئے مٹھائی کا ٹوکرا کھولنا شروع کر دیا۔ جہانگیر کے لیے بہت رو چکی تھی۔ وہ اب مومنہ کے لیے ہنسنا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
پیاز چھیلتی مومنہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور زندگی میں پہلی بار اسے پیاز کی قدروقیمت معلوم ہوئی تھی۔ وہ اس کی آنکھوں کے سوکھے چشموں کو نم کر گئے تھے۔
”کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ میں پیاز چھیلنے بیٹھنے کی۔ بس بند کر یہ ہانڈی چولہا۔ میں خود کر لوں گی آج سے سب کچھ۔” ثریا نے آکر اس سے سبزی کاٹنے کی چھری اور برتن لیا تھا۔ فیصل اور اس کی والدہ کو گھر سے نکلے کچھ دیر ہی ہوئی تھی اور وہ کھانا بنانے کے لیے باورچی خانہ نما اس چھوٹی سی جگہ میں آگئی تھی جو انہوں نے برآمدے کے ایک کونے میں ہی چولہا رکھ کر بنائی ہوئی تھی۔
”اماں! ابھی سے مایوں بٹھائیں گی کیا۔ ابھی تو ‘ہاں’ کر کے گئے ہیں وہ لوگ۔” اس نے ماں کا مذاق اڑایا تھا۔
”ہاں ہاں، ابھی سے مایوں بٹھاوؑں گی۔ جا کر آنکھیں صاف کر۔ کیسے سرخ ہو رہی ہیں۔”
ثریا سے اس کی آنکھوں کا پانی جیسے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ مومنہ نے چوکی پر بیٹھے بیٹھے دوپٹے سے آنکھیں رگڑیں۔ جو کچھ ابھی کچھ دیر پہلے ہوا تھا وہ اب بھی اسے کسی خواب کی مانند ہی لگ رہا تھا۔ مٹھائی کا ادھ کھلا ٹوکرا جو آدھا تقریباً خالی تھا اور اس کے قریب پڑی وہ مٹھائی کی پلیٹ جس میں سے فیصل کی امی نے اس کو مٹھائی کھلائی تھی۔ وہ سب کچھ برآمدے میں ہی باورچی خانہ کے چولہے کے پاس پڑے تھے۔ کولڈڈرنکس بھی اسی ٹرے میں رکھی ہوئی تھیں اور گلاسوں میں پڑی ہوئی برف اب پانی میں تبدیل ہو چکی تھی اور ان سب چیزوں کے بیچوں بیچ مومنہ سلطان اس چوکی پر اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے یوں بیٹھی ہوئی تھی جیسے وہ ابھی ابھی ان سب چیزوں کے ساتھ پتھر سے گوشت پوست کے جیتے جاگتے وجود میں تبدیل ہوئی ہو۔ وہ سناٹا جو جہانگیر نے اس گھر پر طاری کیا تھا۔ وہ فیصل نے جیسے توڑ دیا تھا۔
”معجزے صرف پیار میں ہوتے ہیں۔” مومنہ کو اقصیٰ کی بات یاد آئی اور وہ بات سے بھی زیادہ۔
”اقصیٰ کو تو بتا دے فون پر۔” ثریا کو بھی اقصیٰ اسی لمحے یاد آئی تھی جیسے کوئی ٹیلی پیتھی ہوئی تھی۔
”فون بند تھا اس کا اماں۔ شوٹ پر ہے وہ۔” مومنہ نے جواباً کہا۔ تب ہی سلطان ایک خالی ٹرے پکڑے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوا تھا۔
”یہ پکڑ، پورے محلے میں بانٹ آیا مٹھائی۔ مبارکیں دے رہے تھے سب۔” مومنہ نے سلطان کے کھلے ہوئے چہرے کو دیکھا۔
”خیر مبارک۔” ثریا نے ہنستے ہوئے جواباً کہا تھا۔
”وہ جھومر کے لیے رس گلے اور گلاب جامن الگ سے نکال دینا۔ لڈو لینے سے صاف انکار کر دیا اس نے۔ شام کو آئے گی وہ اپنا حصہ لینے۔” سلطان نے اسی طرح ہنستے ہنستے بتایا۔
”ہاں ہاں لے لے سارے رس گلے۔ اس سے رس گلے اچھے ہیں کیا؟” ثریا ہنسی تھی۔
”اتنی لمبی گاڑی تھی ان لوگوں کی۔ محلے والوں کو تو پہلے ہی کرید لگ گئی تھی۔ پہلے تو سمجھ رہے تھے، کوئی پروڈیوسر آیا ہے۔” سلطان کرسی کھینچ کر برآمدے میں بیٹھتے ہوئے بولا۔
”ماشا اللہ، اللہ نے کیسا نصیب کھولا ہے میری مومنہ کا۔ شہزادہ بیاہ لے جائے گا یہ لمبی گاڑی میں۔ بڑے سے گھر میں رہے گی۔ نظر نہ لگے۔” ثریا نے اس کی بلائیں لیں۔ مومنہ مسکرا دی تھی۔ اس کے خوابوں کی ریل گاڑی اتنی لمبی نہیں تھی جتنی سلطان اور ثریا کی تھی۔ اس نے انہیں ٹوکا نہیں تھا۔ اس گھر میں اتنے عرصہ بعد ایسی خوشی آئی تھی۔
”بیگم صاحبہ بن کر آیا کرے گی اب تو اپنی گاڑی میں ہم سے ملنے۔” سلطان نے بھی بڑے فخریہ انداز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ابا میں بس سے ہی آجایا کروں گی۔” مومنہ نے یک دم کہا۔
”نہ نہ، گاڑی میں ہی آنا۔ بہت کھا لیے بسوں اور ویگنوں کے دھکے۔ اب اللہ دے رہا ہے تو ناقدری کیوں کرے گی؟” ثریا نے فوراً اسے ٹوکا تھا۔
”اور پیدل آئے گی۔ کوئی پرس چھین کر بھاگ گیا تو۔ اور دیکھ زیور وغیرہ پہن کر بالکل مت آنا یہاں۔” سلطان کو ایک اور خدشہ ہوا۔ مومنہ بے اختیار ہنسی۔
”کیا خیالی پلاوؑ چل رہے ہیں ابا۔ میں مومنہ سلطان ہوں۔ ساری عمر گزاری ہے اس محلے میں۔ کون چھینے گا میرا پرس؟”
”مومنہ سلطان سے نہیں چھینتے تھے۔ مومنہ فیصلسے چھین لیں گے۔ بتا رہا ہوں تجھے، اپنی برادری کا پتا ہے مجھے۔” سلطان نے اسی سنجیدگی سے کہا اور تب ہی مومنہ کا فون بجنے لگا تھا۔
”فیصل کا فون آرہا ہے۔” وہ فون لے کر یک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔
”ہاں ہاں جا سن لے۔” ثریا نے فوراً کہا۔ مومنہ فون لیے اندر کمرے میں چلی گئی۔
”کیسے چہرہ کھل گیا ہے پل بھر میں۔” ثریا مسکرائی۔
”ماشا اللہ بول۔” سلطان نے ٹوکا۔”دل میں بولا ہے میں نے۔” ثریا نے بے ساختہ کہا۔
”دن بھرنے لگے ہمارے ثریا۔ دیکھ۔” سلطان نے اوپر چھت کو دیکھتے ہوئے آہ بھری تھی۔
”اس کے انتظار میں ہی عمر گزاری تھی ہم نے۔ اچھا وقت آگیا ہے۔”
سلطان بڑبڑایا مگر جو اس کے لبوں پر نہیں آیا تھا۔ وہ ثریا کے کانوں تک پہنچ گیا تھا۔ اس نے بھی جہانگیر کو یاد کیا تھا۔
٭…٭…٭
”تم سے کہا تھا نا، میں پھر آوؑں گا۔” فیصل نے اس کی آواز سنتے ہی کہا تھا۔ مومنہ ہنس پڑی۔
”یہ سب کیسے ہوا؟” اس کے پاس آج سوال کے لیے بھی صحیح لفظ نہیں تھے۔
”بس دیکھو ہو گیا۔ میری محبت کی صداقت۔” وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ”یقین آیا؟”
”کر رہی ہوں۔”
”کل ملیں؟ لنچ یا ڈنر؟” اس نے فوراً کہا تھا۔
”لنچ۔”
”چلو ٹھیک ہے۔ بس پھر کل ہی ملتے ہیں۔ تم سے کچھ بہت ضروری باتیں بھی کرنی ہیں اور تمہاری رِنگ کا سائز بھی چاہیے مجھے۔ ممی آج بھول گئی تھیں۔” فیصل ایسا ہی تھا۔ اسے بہت کچھ اکٹھا یاد آرہا تھا۔
”چڑیل کمینی۔ بیٹھے بٹھائے اتنا بڑا کارنامہ اور مجھ سے رازداریاں۔” اس نے فون ابھی بند ہی کیا تھا۔ جب اقصیٰ اسی طرح شورمچاتی اندر داخل ہوئی تھی اور آکر اس سے لپٹی تھی۔
”تمہیں پتا کیسے چلا؟” مومنہ ہنسنے لگی تھی۔
”انکل کا فون آیا تھا مجھے۔ شوٹ چھوڑ کر آگئی ہوں۔I am so happy for you۔” وہ پرجوش انداز میں اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”ذرا دیکھو اپنا چہرہ کیسے چمک رہا ہے۔” وہ اسے کھینچتے ہوئے کمرے میں لگے آئینے کے سامنے لے گئی تھی۔ ”دیکھو دیکھو، کیا یہ تم ہو؟” وہ اسے چھیڑتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
مومنہ نے اس سے بازو چھڑایا اور ہنستے ہوئے آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی
”بس کر دو اب۔” وہ اب بلش ہو رہی تھی۔
”شادی وغیرہ کا کیا سلسلہ ہے؟” اقصیٰ نے فوراً پوچھا تھا۔
”جلد ہی کرنا چاہتے ہیں وہ شاید ایک آدھ مہینے میں۔” اس نے جواباً بتایا۔
”مگر ابھی تو تمہیں امریکا جا کر اپنی فلم کی شوٹنگ مکمل کروانی ہے۔” اقصیٰ کو فوراً یاد آیا۔
”ہاں ظاہر ہے فلم کے تو بعد ہی ہو گا۔ میں ویسے بھی مل رہی ہوں فیصل سے کل۔ تو پتا چل جائے گا کہ کب شیڈول ہو گی۔” مومنہ نے بتایا۔
”اوہو ملاقاتیں بھی شروع۔” اقصیٰ نے چھیڑا۔
”اچھا اچھا تنگ مت کرو مجھے۔ داوؑد کیسا ہے؟ اس کو بتایا؟” مومنہ نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
”وہ تو ترکی چلا گیا ہے مومن کی فلم کی ریکی کرنے۔ رات کو فون کروں گی تو بتاوؑں گی۔” اقصیٰ نے فوراً کہا۔
”آج مومن کا نام مت لو میرے سامنے۔” مومنہ نے بے اختیار کہا۔ ”میں داوؑد کا برا نہیں چاہتی مگر تم دیکھ لینا، اقصیٰ! یہ فلم نہیں بنے گی۔ بنے گی تو فلاپ ہو گی۔ اسے اتنا نقصان ہو گا کہ اس نے جو کمایا سب گنوائے گا۔ میں نے زندگی میں کسی کو بددعا نہیں دی لیکن قلبِ مومن کے لیے میرے دل سے آج بھی بددعاوؑں کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔”
اقصیٰ اس کے سامنے کچھ کہہ نہیں سکی۔ وہ خوشی کے اس لمحے میں کیا سوچ کر آتش فشاں بنی تھی۔ وہ جانتی تھی۔
”سب بھول جاوؑ۔ سب پیچھے رہ گیا۔” اقصیٰ نے اسے بہلایا تھا۔
”یہ ایک فلم میں وقت پر سائن کر لیتی تو آج جہانگیر۔” وہ کہتے کہتے رکی تھی۔ آگے کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ خاندان جہانگیر کو مکمل بھول جانے میں ابھی کئی دہائیاں لیتا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۴

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!