”مجھے بھی لے جائیں ساتھ۔ ترکی ہی گھوم آتا۔” شکور کی حسرت اپنے عروج پر تھی۔ وہ مومن کا بیگ پیک کر رہا تھا اور مومن وارڈ روب سے اپنے کپڑے نکال نکال کر اسے دے رہا تھا۔
”تم سے تو کہا تھا میں نے، مستقل چلے جاوؑ دادا کے پاس۔ انہیں بھی سہولت ہو جائے گی۔ تمہارا بھی شوق پورا ہو جائے گا۔” مومن نے ایک بلیزر ہینگر سے اتارتے ہوئے بیڈ پر رکھا۔
”مستقل جانے کو تو نہیں کہا میں نے۔ آپ کے پاس تو دل لگا رہتا ہے میرا۔ دادا جی کے پاس دل کہاں لگتا ہے میرا۔ وہاں نہ پارٹیاں، نہ لڑکیاں، نہ چغلیاں۔” اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر کے کہا پھر مومن کو اپنے آپ کو گھورتے دیکھ کرجلدی سے بولا۔
”سامان پیک کر دیا، وزن کر لوں ذرا۔” وہ اس کا بیگ گھسیٹتے ہوئے باہر لے گیا۔ مومن نے وارڈروب بند کی ہی تھی کہ اس کاسیل فون بجنے لگا، وہ ایک جرنلسٹ تھی۔
”اوہ ہائے مومن! تم مل گئے ورنہ ٹینا تو کہہ رہی تھی۔ تم ترکی کے لیے نکل رہے ہو فلم کی ریکی کے لیے آج رات۔” کال ریسیو کرتے ہی صدف نے تیزی سے کہا۔
”ہاں بس دو گھنٹے کے بعد نکل جاوؑں گا۔”
”بس پھر زیادہ وقت نہیں لوں گی تمہارا۔ کمنٹس دے دو اپنے۔” اس جرنلسٹ نے جلدی سے کہا۔
”کس چیز پر؟” وہ الجھا۔
”نیہا نے ضوفی کے ساتھ اپنی منگنی اناوؑنس کی ہے۔ پکچرز شیئر کی ہیں فیس بک پر کچھ دیر پہلے تو بس اسی کے بارے میں۔”
”Best of luck to them, they deserved each other.”
ایک لمحہ کے تامل کے بغیر مومن نے کہا تھا۔
”یہی لکھ دوں؟” جرنلسٹ نے کُریدا۔
”ہاں۔”
”تمہارے ساتھ بھی تو کوئی چکر تھا نیہا کا۔ اس کا کیا ہوا؟” جرنلسٹ بالآخر اس سوال پر آگئی جس کے لیے وہ کال کر رہی تھی۔
”وہ بس چکر ہی تھا اور میں اب چکروں سے الرجک ہو گیا ہوں۔”
اس نے بے ساختہ کہا تھا۔ جرنلسٹ ہنسی۔
”Ok have a safe flight” اس نے فون بند کر دیا۔ مومن چند لمحے بند فون کو دیکھتا رہا، وہ اگر محبت تھی تو اسے کچھ ہوا کیوں نہیں تھا، دکھ نہ ہوتا، غصہ ہی آتا۔ لیکن اس سردمہری کی کیفیت کو وہ بوجھ نہیں پایا تھا۔ قلبِ مومن کو اپنے دل سے خوف آیا تھا اس لمحہ۔ وہ واقعی بڑا ظالم تھا، کسی کو نکالتا تھا تو ٹھوکر مار کر ہی نکال دیتا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”کب جا رہی ہو امریکا؟” اقصیٰ نے کھانا کھاتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔ مومنہ ایک ہفتہ لاہور میں فلم کی شوٹنگ کا پہلا اسپیل کروا کر ایک دن ہی پہلے واپس آئی تھی۔ اور اب دونوں اس ریسٹورنٹ میں بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں۔
”چھے تاریخ کو۔” مومنہ نے کھانا کھاتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اسے یاد دلایا۔ ”بل میں دوں گی آج۔”
اقصیٰ بے اختیار مسکرائی۔ ”میرے پاس تھے بھی نہیں پیسے۔ تم ویسے بھی اب ہالی ووڈ اسٹار ہو۔ تمہیں ہی دینے چاہئیں۔”
اس نے مومنہ کو چھیڑا تھا۔ وہ مسکرا دی۔
”چند سینز ہی ہیں میرے فلم میں۔ وہ کسی کو یاد بھی نہیں رہنے، ہاں مگر فلم کے معاوضہ سے میرا بہت سا قرضہ اتر جائے گا۔” اس نے اقصیٰ سے کہا تھا۔ اقصیٰ نے تبصرہ نہیں کیا۔
”فیصل کہاں سے یاد آگیا تمہیں؟”
”بس آگیا یاد۔ دوبارہ نہیں آیا؟ کوئی فون۔ کوئی بات چیت۔ آنٹی نے بتایا تھا، اس کی منگنی ختم ہو گئی۔” مومنہ نے اس کی زبان کی چلتی ہوئی ٹرین کو روکا۔
”نہیں، دوبارہ نہیں آیا۔ کوئی فون نہیں۔ کوئی بات نہیں۔ ایک منگنی ٹوٹی ہے پھر ہو جائے گی۔”
اقصیٰ نے معنی خیز انداز میں کہا۔ ”شاید تمہارے ساتھ۔”
مومنہ نے اسے دیکھا پھر مسکرائی۔ ”مجھے معجزوں پر یقین نہیں رہا اور پیار میں تو بالکل بھی نہیں۔” ”حالاں کہ معجزے صرف پیار ہی میں ہوتے ہیں۔” اس نے اقصیٰ کو کہتے سنا تھا۔
”جہانگیر کی قبر پر جاوؑں گی آج۔ اتنے دن سے موقع ہی نہیں ملا، آگے بھی مصروف ہوں۔” اس نے بات بدل دی تھی جیسے اقصیٰ کو بتایا تھا کہ اسے اس موضوع پر بات نہیں کرنی۔
٭…٭…٭
اس نے سوندھی ہوا میں گہری سانس لیتے ہوئے جیسے اس ہوا کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کی۔ وہاں کچھ دیر پہلے جیسے بارش ہوئی تھی جو اب تھم گئی تھی لیکن راستے کی مٹی نم تھی اور اس پر پڑے پتے بھی اور لکڑی کا وہ کاٹیج بھی جس کی طرف وہ جا رہا تھا۔
اس خالی راستے پر اپنا ٹرالی بیگ کھینچتے ہوئے، دوسرے ہاتھ سے اپنی جیکٹ بازو پر ڈالے، وہ جیسے اپنے ماضی کو یاد کر رہا تھا۔ وہاں گزارے ہوئے کئی سال۔
وہ اس بار وہاں لمبے عرصے کے بعد آیا تھا۔ لکڑی کے اس کاٹیج کے سامنے جا کر وہ رکا تھا جو اس ڈھلوانی راستہ کے ایک کونے میں ہمیشہ کی طرح خاموش اور اکیلا کھڑا تھا۔ بارش کے قطرے اب بھی کاٹیج کی چھتوں کے کونوں سے پھسلتے نیچے ٹپک رہے تھے۔ اپنا بیگ اٹھائے وہ برآمدے کی لکڑی کی سیڑھیوں پر چڑھا تھا جو اس کے قدموں کے بوجھ کے نیچے چُرمرائی تھیں۔ بالکل سامنے لکڑی کے دروازے پر لوہے کا وہ کنڈا اب بھی ویسے ہی موجود تھا جسے بچانے پر دروازہ کھلتا تھا مگر قلبِ مومن جانتا تھا وہ دروازہ ویسے ہی کھلا ہوا تھا۔ عبدالعلی کو عادت نہیں تھی دروازہ بند کرنے کی۔ دروازے پر ہاتھ رکھے وہ دروازے کو دھکیلتے دھکیلتے رکا۔ پھر دروازہ دھکیلتے ہوئے اپنا بیگ لے کر اندر آگیا۔
اندر سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا شاید کئی دہائیوں سے تھا۔ خطاطی کے شہ پاروں سے بھرے ہوئے درودیوار، جگہ جگہ پڑے ہوئے چھوٹے بڑے ایزل۔ وہ شاید وہ کمرہ تھا جہاں پر عبدالعلی اپنے پاس آنے والے نوجوان طلبہ کو خطاطی سکھاتے تھے۔ محقق اسٹائل آف کیلی گرافی اور وہیں ایک دیوار پر لگی بہت ساری کیلی گرافیز اس نے پہچانی تھیں وہ اس کے ہاتھ کی بنی ہوئی تھیں۔ اس کے بچپن کی ناپختہ خطاطی کے نمونے اور پھر نوجوانی کی پختہ لکیریں۔ قلبِ مومن نے بے اختیار اس دیوار سے نظریں چرائیں۔ وہ دیوار ہمیشہ اسی طرح اسے اپنے طرف کھینچتی تھی اور وہ اسی طرح اپنے آپ کو اس سے دور کرتا تھا۔
کمروں سے ہوتا ہوا دبے قدموں وہ گھر کے عقبی حصہ میں آگیا تھا۔ وہاں لان میں اس نے عبدالعلی کو کیاریوں سے جڑی بوٹیاں نکالتے دیکھا۔ وہ پنجوں کے بل بیٹھے کام کر رہے تھے اور وہ برآمدہ جہاں مومن کھڑا تھا اس طرف ان کی پشت تھی۔ مومن اسی بے آواز طریقے سے چلتے ہوئے ان کے عقب میں آیا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اس نے عبدالعلی کو کہتے سنا۔
”سوچا تمہارے آنے سے پہلے یہ کام بھی نپٹا لوں ورنہ تم کہو گے مجھے تمہارے لیے وقت نہیں ملتا۔”
وہ کہتے ہوئے کھڑے ہو کر پلٹے تھے اور مومن ہنس پڑا تھا۔ عبدالعلی کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے کہا۔
”آپ کو ہر بار میرے آنے کا پتا کیسے چل جاتا ہے؟” اس نے گلے لگتے ہوئے ان سے پوچھا۔
”تمہاری خوشبو سے۔” اسے ساتھ لگاتے اسے چومتے ہوئے انہوں نے کہا تھا۔
”یہ پرفیوم کی خوشبو ہے دادا۔” اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
”تمہارے وجود کی بھی ہے۔ خیریت سے پہنچ گئے؟” عبدالعلی کہتے ہوئے اس سے الگ ہوئے۔
”ہاں پہنچ گیا، ٹیم تو کل استنبول پہنچے گی۔ میں نے سوچا میں ایک دودن آپ کے ساتھ گزار آوؑں۔ بہت عرصہ ہو گیا یہاں آئے۔” مومن نے ان کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔ وہ اب اندر برآمدے کی طرف جا رہے تھے۔
”سامان رکھ لو پھر کھانا کھاتے ہیں۔ بھوک لگی ہو گی تمہیں۔” انہوں نے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”آپ کو انتظار تھا میرا؟” مومن کُریدے بغیر نہیں رہ سکا۔
”وہ تو ہمیشہ ہی رہتا ہے۔” وہ مسکرائے اور اندر چلے گئے وہ ان کے پیچھے گیا۔
وہ اس کا کمرہ تھا اب بھی ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ ایک دیوار پر اس کے باپ کی ایک بہت بڑی تصویر جس میں وہ وجد کے عالم میںWhirling Darvesh کے سفید لباس میں رقص کے انداز میں بازو پھیلائے ہوئے تھے۔ کمرے کی دیواروں پر اس کی اور طہٰ کی اور بھی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ چھوٹے بڑے پرانے فریمز ہیں۔
”بالکل تمہارا چہرہ ہے۔” عبدالعلی نے کمرے میں داخل ہو کر طہٰ کی تصویر دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ ایک ہلکی بڑبڑاہٹ میں پھر پلٹ کر مومن سے تائید چاہی۔ ”ہے نا؟”
وہ ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے دیوا رپر اس تصویر کے برابر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا۔ ”آپ بتائیں۔”
عبدالعلی آگے بڑھے اور اس کا چہرہ اپنی نرم انگلیوں سے ٹٹولتے ہوئے بڑبڑانے لگے۔ ”ہاں سب کچھ ویسا ہی ہے۔”
”سب کچھ کیا؟” مومن نے کُریدا۔
”آنکھیں، ناک، ہونٹ اور ضد۔” وہ ان کی بات پر بے اختیار ہنسا۔ ”اچھا ان میں بھی تھی ضد؟” اس نے دلچسپی سے پوچھا تھا۔ عبدالعلی نے مسکراتے ہوئے زمین پر پڑا اس کا بیگ اٹھایا اور اسے باتھ روم کے دروازے کے پاس پڑی ایک میز پر رکھتے ہوئے بولے۔ ”مجھ میں بھی تھی ضد۔”
”آپ میں۔ میں نہیں مانتا دادا۔” مومن نے بے اختیار کہا۔ وہ اب کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ عبدالعلی نے اسے دیکھا، انہیں اس پر طہٰ کا شائبہ ہوا۔ انہوں نے نظریں چرائیں۔ ”تمہارا باپ بھی بڑے سوال کیا کرتا تھا مجھ سے۔” پتا نہیں کیا یاد آیا تھا عبدالعلی کو۔
”اچھا کیا پوچھتے تھے؟” مومن نے دلچسپی سے پوچھا۔ ”وہی سوال کرتا تھا جو تمہارے تھے۔” عبدالعلی نے مسکرا کر اس سے کہا تھا۔
”آپ انہیں ڈانس سے منع کرتے ہوں گے یہ نہیں چاہتے ہوں گے کہ whirling درویش بنیں اور وہ ضد کرتے ہوں گے۔” مومن نے خود ہی اندازہ لگایا۔
”نہیں، اس رقص سے تو منع کیا ہی نہیں تھا میں نے اسے۔ وہ کیلی گرافی کرتا تھا، ہاتھ سے رنگ بکھیرتا تھا کینوس پر بھی تو اللہ کا نام لکھتا تھا۔ اس سے کیا روکتا میں۔ کیوں روکتا میں؟ روکا تو بس کسی اور چیز سے تھا میں نے۔” ان کی آنکھوں اور آواز میں اداسی جھلکی تھی۔
”کس چیز سے؟” مومن سوال کیے بغیر نہیں رہ سکا۔
”تم معاف نہیں کرو گے مجھے مومن۔ نہ سوال کرو یہ۔” اس نے جیسے عبدالعلی کا کوئی کھرنڈ کُریدا تھا۔
”وہاں رات کو کیلی گرافی کرتے کرتے جھومنے لگتا۔ پھر وہاں ناچتا رہتا۔ مولانا رومی کے مصرعے پڑھتا۔ کبھی اللہ کے ناموں کی تسبیح شروع کر دیتا۔ میں پوچھتا تمہیں کیا ہو رہا ہے۔ کہتا تھا پتا نہیں کیا ہو رہا ہے۔ کوئی مجھے بلا رہا ہے۔ کوئی ہے جسے میں بیان نہیں کر پاتا۔ لیکن اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا وجود جھومنے لگتا ہے۔”
وہ جیسے مومن سے بات کرتے ہوئے اس کمرے میں طہٰ کو ناچتے دیکھ رہے تھے۔ فرش پر چکر کاٹتے اس کے پیر۔ یہاں سے وہاں جاتے ہوئے۔ مومن کی سمجھ میں نہیں آیا وہ کیا کہہ رہے تھے، کس کی بات کر رہے تھے۔
”انسان کی محبت نچوا سکتی ہے دادا۔ اللہ کی محبت کیسے نچوا سکتی ہے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا۔” اس نے کہا تھا اور عبدالعلی ہنسنے لگے تھے۔ پھر ہنستے ہی چلے گئے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی تھی۔
”پھر تم انتظار کرو قلبِ مومن۔ یہ راز بھی کھلے گا تم پر۔” انہوں نے بڑے عجیب سے لہجے میں اس سے کہا تھا۔ وہ ان کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا دادا۔”
”کس سوال کا؟” عبدالعلی نے پوچھا تھا۔
”آپ نے انہیں کس کام سے روکا تھا؟” ایک لمبی خاموشی آئی تھی۔ قلبِ مومن اور عبدالعلی ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے پھر قلبِ مومن نے عبدالعلی کو بڑبڑاتے سنا۔
”حسنِ جہاں سے شادی سے۔” اس بار قلبِ مومن کے پاس کوئی سوال باقی نہیں بچا تھا۔
٭…٭…٭
”فیصل آیا ہے اپنی امی کے ساتھ۔” ثریا کی آواز میں ایسی خوشی اس نے جہانگیر کے بعد پہلی بار سنی تھی، وہ اس وقت فون پر اپنے ایجنٹ سے اپنے ٹکٹ کی بکنگ کی تفصیلات سنتے ہوئے کمرے میں ٹہل رہی تھی جب ثریا لپکتی جھپکتی کمرے میں آئی اور اسے یہ خبر سنا کر یہ کہہ کر چلی گئی تھی۔ ”جلدی سے کپڑے بدل کر آجانا۔ تمہارے ابا بھی ہیں۔ مجھے لگتا ہے خوش خبری لے کر آئے ہیں۔ مٹھائی لائے ہیں۔”
مومنہ کو نہ ان کی بات ٹھیک سے سمجھ میں آئی تھی نہ ہی دوسری طرف ایجنٹ کی بات۔
”آپ مجھے کچھ دیر میں کال کریں۔” مومنہ نے ایجنٹ سے معذرت کرتے ہوئے کال بند کی تھی اور پھر فون بند کر کے اس نے جیسے یاد کرنے کی کوشش کی کہ ثریا کیا کہہ کر گئی تھی۔
”بڑا افسوس ہوا مجھے بھی جہانگیر کا سن کر، اللہ اس کی مغفرت فرمائے اور آپ سب کو صبرعطا فرمائے۔ یہ موقع تو نہیں تھا کہ میں ایسی بات کروں لیکن فیصل کی بڑی خواہش تھی کہ ہم آپ سے مومنہ کے لیے بات کرتے۔” دروازے میں داخل ہونے سے پہلے مومنہ نے فیصل کی امی کی آواز سن لی تھی اور وہ عجیب بے یقینی کی کیفیت میں وہاں ٹھٹکی تھی۔
”ہماری بڑی خوش قسمتی ہو گی اگر ہمیں فیصل جیسا بیٹا مل جائے۔ یوں لگے گا جیسے جہانگیر کی کمی پوری ہو جائے گی۔” خوشی سے کھنکتی یہ آواز سلطان کی تھی۔
مومنہ عجیب سی کیفیت میں اندر آئی تھی۔ اندر کمرے میں فیصل کی والدہ پسینے میں شرابور بیٹھی تھیں اور ثریا انہیں پنکھا جھلنے میں مصروف تھی کیوں کہ لائٹ گئی ہوئی تھی۔ فیصل کی سفید ڈریس شرٹ بھی اس وقت پسینے سے نچڑی اس کے جسم سے چپکی ہوئی تھی۔
”یہ لیں، مومنہ بھی آگئی۔” ثریا نے اسے دیکھتے ہی چہکتے ہوئے کہا۔
”السلام علیکم۔” اس نے گڑبڑا کر سلام کیا تھا۔ فیصل کی امی اٹھ کر اس سے ملیں۔ اس کو گلے لگایا، گال پر پیار کیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});