”کہانی پہاڑوں پر رات کے ایک خوب صورت سین سے شروع ہوتی ہے۔ چاندنی رات ہے۔ درخت ٹھنڈی ہوا میں جھوم رہے ہیں اور۔” مومن نے اختر کو اسکرین پلے کی وضاحت کے درمیان ٹوکا تھا۔
”عباس نے چھے بجے آنے کو کہا تھا اور اب ساڑھے چھے ہو گئے ہیں۔” مومن نے دیوار پر لگے وال کلاک پر نظر دوڑائے ہوئے بلند آواز میں داوؑد سے کہا تھا۔ اختر صاحب جو اس فلم کے رائٹر تھے اور اس وقت جب وہ سب لوگ ریڈنگ سیشن میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ”سماں باندھنے” کی کوشش میں مصروف تھے اور اس کوشش کو مومن نے ضائع کر دیا تھا۔
”سگنل پر کہیں پھنسا ہوا ہے ٹریفک میں۔ میری کچھ دیر پہلے بات ہوئی ہے۔” ٹینا نے جلدی سے بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے، آپ کہانی سنانا شروع کریں۔ وہ آتا ہے تو اس کو دوبارہ وہ حصہ سنا دیں گے جو اس نے نہیں سنا۔” مومن نے اختر صاحب کو اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”جی بہتر تو میں دوبارہ وہیں سے شروع کرتا ہوں۔” اختر صاحب نے لمحہ بھی ضائع نہیں کیا تھا وہ چالیس پینتالیس سال کے تھے لیکن اپنی گفتگو اور رکھ رکھاوؑ سے ہمیشہ اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی بڑی عمر کا ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
”ہیروئن چاندنی رات میں ایک پہاڑ پر رقص کر رہی ہے۔ سفید گاوؑن میں پریوں کی طرح۔ آسمان پر چاند ستارے ہیں، اس پہاڑ پر پھیلا سبزہ چاند کی روشنی میں مخمل کی طرح چمک رہا ہے اور اس مخمل پر ہیروئن کے خوبصورت دودھیا رنگت کے پاوؑں تھرک رہے ہیں۔” اختر منظر کشی کرنے کی کوشش میں جیسے ایک ایک لفظ کی عکاسی اپنے ہاتھوں اور جسم کی حرکات سے کر رہے تھے اور انتہائی مضحکہ خیز نظر آرہے تھے اور ہر جملے کے بعد وہ دادو تحسین کے لیے مومن کی طرف دیکھتے تھے جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ خاموشی سے کہانی سن رہا تھا۔
”اُف کیا اوپننگ ہے اختر۔” تباہی سین ہے۔ میں تو ابھی سے وہ گاوؑن، رقص، رات اور اپنے پیروں کیmovements کوvisualizeکر رہی ہوں۔” قلبِ مومن سے کچھ فاصلے پر بیٹھی شیلی نے جیسے بے اختیار ہو کر اختر کو داد دی تھی اور اختر کا چہرہ چمک اٹھا تھا۔ اپنے چشمہ کو ٹھیک کرتے ہوئے اس نے ایک بار پھر مومن کو دیکھا اس کی طرف سے کسی ستائشی جملے کی توقع میں۔ وہ اب بھی ویسے ہی سنجیدہ بیٹھا ہوا تھا۔ شیلی کی داد پر بھی اس نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔
”یہاں ہمارا ٹائٹل سونگ آرہا ہو گا اور ساتھ کریڈٹس چل رہے ہوں گے۔ ہیروئن کے قدموں کی ہر حرکت پر اور ہر beat پر۔” اختر پھر اپنے کاغذات کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔
”میوزک کون کر رہا ہے اس بار؟” شیلی کو یک دم پوچھنے کا خیال آیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”شجاع حیدر سے ہی کروا ر ہے ہیں۔” مومن نے اسے جواب دیا اور پھر ساتھ ہی اختر سے پوچھا۔ ”تو یہ ہمارا opening sequence؟”
اختر نے خوشی سے سرہلاتے ہوئے کہا۔ ”جی مومن صاحب۔”
”بکواس ہے۔” دو لفظوں میں مومن نے جیسے اختر صاحب کی مہینوں کی محنت پر پانی پھیرا۔
”ہیں؟” اختر کو جیسے یقین نہیں آیا۔ اس نے اپنے چشمہ کو ایک بار پھر ٹھیک کیا اور اپنے رائٹنگ پیڈ پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”اچھا؟”
”Exactly، میرا بھی یہی پوائنٹ تھا کوئی نیا پن ہی نہیں ہے۔” شیلی نے گرگٹ بننے میں لمحہ بھی نہیں لگایا تھا۔ اختر صاحب کا درد کچھ اور بڑھا۔
”مجھے کہانی کو شہر میں کھولنا ہے۔ یہ پہاڑوں میں کہاں لے گئے آپ ہیروئن کو؟” مومن نے اختر سے کہا اور شیلی نے لقمہ دیا۔
”That’s the point۔ شہر تو relevant ہے پہاڑ توrelevant ہی نہیں اور پھر چاندنی رات گاوؑن، ڈانس۔ so cliched۔” شیلی کے جملوں نے اختر صاحب کی حالت کچھ اور غیر کی۔
”ڈانسر ہے ہیروئن تو میں نے بالکل فیری ٹیل والے انداز میں اوپننگ دی ہے۔” مومن نے اختر صاحب کی بات کاٹی۔
”اور مجھے فیری ٹیلز سے نفرت ہے۔”
”بالکل اختر صاحب فیری ٹیلز میں کہاں چلے گئے آپ۔ Youth کو دکھانی ہے فلم۔ بچوں کو تھوڑی دکھانی ہے۔” شیلی مومن کے ہر جملے کی تائید عادتاً کر رہی تھی۔ فلم انڈسٹری میں ڈائریکٹر ہمیشہ ”صحیح” ہوتا ہے اور رائٹر ہمیشہ کم عقل۔
”کلب میں کھولیں سین کو۔ روشنی ڈانس فلورپر دو لڑکوں کے ساتھ ڈانس کر رہی ہے اور اس میں سے ایک لڑ کاسے گلے لگانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا لڑکا پہلے کو تھپڑ مارتا ہے۔”مومن نے چند سیکنڈز میںopening sequence ان کے سامنے رکھ دیا تھا۔
”Fantastic, Brilliant۔ یہ ہوتی ہے اوپننگ اختر صاحب۔ تو مومن روشنی تو ڈانس کرتی رہے گی نا؟” شیلی نے ایک ہی سانس میں مومن کو داد دی اور پھر پوچھا۔
”ہاں۔ پہلا لڑکا دوسرے کو جواباً مکا مارے گا اور پھر یک دم پسٹل نکال لے گا۔” مومن نے اپنی بات جاری رکھی۔
شیلی نے اسے ایک بار پھر ٹوکا۔ ”اور دوسرے کو گولی مار دے گا؟” وہ اب داد طلب نظروں سے مومن کو دیکھ رہی تھی۔
”نہیں روشنی کو گولی مار دے گا۔” مومن نے اسی انداز میں کہا۔ شیلی بھونچکارہ گئی۔ وہ اوپننگ سین میں ہی ہیروئن کو گولی مروا رہا تھا اور بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ ہیروئن وہ خود تھی۔
”لائٹ آوؑٹ۔ کلب میں ہنگامہ۔ کریڈیٹس چلنا شروع۔ ٹائٹل سونگ۔” مومن نے ایک ہی جملے میں opening sequence نپٹایا۔ شیلی اب تک خود کو سنبھال چکی تھی۔
”Super, impressive۔ کمال کر دیا۔ پہلے ہی سین میں ایکشن، ایڈونچر، تھرل۔ مومن کیsignature opening۔” شیلی نے جھوم جھوم کر اس کو داد دی۔ مومن اب اسے سن بھی نہیں رہا تھا۔ وہ ہیروئنز اور ایکٹرز کی اس طرح کی لفاظی اور خوشامد کو پہچانتا تھا اور ان سے بہت کم متاثر ہوتا تھا۔
”سمجھ گیا میں۔” اختر نے کچھ بجھے بجھے انداز میں کہ۔
”روشنی کوئی اپسرا ٹائپ کی ڈانسر نہیں ہے اختر۔ کلب میں ماڈرن hip hop ڈانس کرنے والی لڑکی ہے تو دیوی مت بنائیں اسے۔ ڈانس کرواتے ہوئے اس کے ہر سین میں مجھے تھرل چاہیے۔ کلب ڈانسر والی تھرل وہ جب جب اسکرین پر آئے اسکرین کو آگ لگا دے۔ سیٹیاں بجوا دے۔” مومن روشنی کا کردار اور رول وضاحت سے پیش کر رہا تھا اور اختر رائٹنگ پیڈ پر نوٹس لینے میں مصروف تھا۔
”اب سمجھ گیا سر۔ میرے ذہن میں اپنی انڈسٹری کی پرانی ہیروئنز کی طرح کا امیج تھا روشنی کا۔ بالکل حسنِ جہاں کی طرح کا کردار بنانا چاہتا تھا میں۔ مگر اب بدلتا ہوں اسے۔” روانی سے بات کرتے ہوئے اختر کے اس ایک جملے میں لیے جانے والے نام پر قلبِ مومن جیسے کرنٹ کھا کر سیدھا ہوا تھا۔
”کون حسنِ جہاں؟” شیلی پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ وہاں کوئی بھی اس وقت قلبِ مومن کی طرف متوجہ نہیں تھا ورنہ اس کے چہرے کا پھیکا پڑتا رنگ ان سب کی نظروں میں آجاتا۔
”پاکستان فلم انڈسٹری کی سب سے بڑی ڈانسر ہیروئن۔” اختر نے اسی روانی میں جواب دیا۔
”میں نے کبھی نام نہیں سنا۔” شیلی نے کچھ سوچ کر کہا۔ اس سے پہلے کہ اختر کچھ کہتا قلبِ مومن یک دم صوفہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے تقریباً چلاتے ہوئے اختر سے کہا۔
”حسنِ جہاں نہیں دکھانی مجھے اپنی فلم اور اس رول میں!! سمجھے؟”
کمرے میں یک دم خاموشی چھائی تھی۔ مومن نے میز پر پڑا سگریٹ لائٹر اور سگریٹ کی ڈبیا اٹھائی اور وہ باتھ روم میں چلا گیا۔
اس کے وہاں سے جاتے ہی سب سے پہلے جیسے شیلی کے حواس بحال ہوئے تھے۔ آواز کو حتیٰ المقدور ہلکی رکھتے ہوئے اس نے ٹینا اور داوؑد سے کہا ”اسے کیا ہوا ہے؟”
”میرا خیال ہے، عباس نہیں پہنچا ابھی تک تو اسی کی وجہ سے اپ سیٹ ہو رہے ہیں۔” ٹینا نے جیسے صورت حال سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔
اندر باتھ روم میں قلبِ مومن اب لائٹر سے سگریٹ جلا رہا تھا۔ سگریٹ جلاتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ دیکھی۔ وہ غصہ کے اثرات تھے جو اب بھی اس کے وجود کے اندر کسی جوار بھاٹا کی طرح اٹھ رہے تھے۔ سنک کا پانی کھولے اس کے شور میں اپنے اندر کے شور کو دبانے کی کوشش میں بے حال وہ اب بھی اندر کمرے میں ہونے والی گفتگو سن پا رہا تھا۔
”اختر صاحب! یہ حسنِ جہاں ہے کون؟ ذرا دکھائیں تو مجھے۔” اس نے شیلی کو کہتے سنا اور مومن کا غصہ بڑھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا، ان میں سے کوئی بھی حسنِ جہاں کا نام لیتا۔ کوئی بھی حسنِ جہاں کو دیکھتا۔
”داوؑد ذرا گوگل پر سرچ کر کے دکھاوؑ انہیں۔ Divaتھی وہ Divaپاکستان فلم انڈسٹری پر حکومت کرنے والی دیوا۔”اس نے اختر کو کہتے سنا۔
مومن نے ہونٹوں میں پھنسے سگریٹ کو انگلیوں سے پکڑ کر اضطراب کے عالم میں تین چار گہرے گہرے کش لیے۔ دھواں اندر گیا مگر غم باہر نہیں نکلا۔ نہ ہی غصہ۔ دونوں اندر کہیں چھپ کر بیٹھ گئے تھے یوں جیسے اس کے سامنے آنے سے ڈرتے ہوں۔
”Ohh my God! What a beauty” اس نے شیلی کی حیرت زدہ تحسین آمیز آواز سنی۔ ”کہاں ہوتی ہیں یہ آج کل؟” وہ یقینا داوؑد یا ٹینا کے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر حسنِ جہاں کو دیکھ رہی تھی اور پوچھ رہی تھی اور مومن جل رہا تھا، ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کی طرح۔ وہ حسنِ جہاں کو ان کی آنکھوں سے دور کر دینا چاہتا تھا۔
”ان کے ساتھ ٹریجڈی ہو گئی تھی، ایک بہت بڑی۔” اس نے اختر کو ایک آہ بھر کے کہتے سنا۔ قلبِ مومن کی کنپٹیاں اب تھرتھرانے لگی تھیں۔ اس کی ساری نسیں جیسے اس کے وجود سے باہر آنا چاہ رہی تھیں۔ سگریٹ اب انگلیوں کی پوروں کو جلا رہا تھا۔
”کیا ٹریجڈی؟” شیلی نے کہا تھا اور قلبِ مومن دھڑام سے باتھ روم کا دروازہ کھول کر واپس کمرے میں آیا تھا۔
”یہ عباس ابھی تک نہیں آیا۔ یہprofessionalismہے اس کا۔ ایک فلم ہٹ ہو گئی تو خود کو اسٹار سمجھ بیٹھا ہے۔” وہ باہر آتے ہی دھاڑا تھا اور وہاں داوؑد کے لیپ ٹاپ کے گرد اکٹھے ہوئے لوگوں کو ایک بار پھر سانپ سونگھ گیا تھا۔
”باس! میں ابھی فون کرتا ہوں اسے۔” داوؑد نے گھبرا کر فون نکالتے ہوئے کہا تھا۔ باقی بھیڑ بھی بوکھلائے انداز میں چھٹی تھی۔
”اب وہ آئے تو بیٹھا رہے۔ میں اس کے باپ کا نوکر نہیں ہوں۔ جا رہا ہوں میں۔” مومن رکے بغیر اپنی میز سے اپنا لیپ ٹاپ اور فون اٹھاتے ہوئے کمرے سے نکل گیا تھا ان سب کو اسی ہکا بکا انداز میں چھوڑ کر۔
٭…٭…٭
”کھانا لگاوؑں؟” شکور نے مومن کو دیکھتے ہی کہا تھا۔
”نہیں۔” وہ بغیر رکے اندر آیا تھا۔
”کچھ اور چاہیے؟” شکور اس کے پیچھے لاوؑنج میں آیا۔
”کچھ نہیں چاہیے۔”اس نے اسی روکھے انداز میں کہا۔ وہ اس وقت صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ وہاں سے غائب ہو جائے اور شکور کو غائب ہونے کا موقع مل گیا تھا۔
قلبِ مومن اس کے جانے کے انتظار میں تھا۔ اس کے جاتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
اسٹور روم کی لائٹ آن کرتے ہوئے بھی وہ جانتا تھا، وہاں اسے کس چیز کی تلاش تھی۔ اسٹورروم میں دیواروں کے ساتھ ہر سال دادا کی اسے تحفے میں دی ہوئی خطاطی اسی طرح پیکڈ، ایک کے ساتھ ایک ٹکی پڑی تھیں۔ وہ چند لمحے وہاں پڑے سامان کو دیکھتا رہا پھراس نے وہاں پڑی میز کی سب سے اوپر والی دراز کھولی تھی اور اس میں سے وہ فائل نکالی تھی جو سب سے اوپر پڑی ہوئی تھی۔
واپس لاوؑنج کے صوفہ پر بیٹھ کر اس نے اس فائل کو سامنے میز پر رکھ لیا تھا۔ فائل کا کور کھولنے سے بھی پہلے اسے پتا تھا، وہ کیا دیکھنے جا رہا تھا۔ وہ رنگین اُردو اخبار کا تراشا جس میں حسنِ جہاں کی موت پر ایک فیچر تھا اور اس فیچر کی ہیڈلائن تھی۔
”قتل یا خودکشی؟ حسنِ جہاں کی موت کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ یا پھر حسنِ جہاں آج بھی زندہ ہے اور زندہ ہے تو کہاں ہے؟”
مومن ایک بار پھر اس اخباری تراشے کو لے کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس فائل میں وہ کئی سالوں سے حسنِ جہاں کے بارے میں ملنے والی ہر خبر اکٹھی کر رہا تھا اور کس کے لیے کر رہا تھا، وہ یہ نہیں جانتا تھا۔ پر ہر دفعہ درد سے بے حال ہونے پر کسی کسی رات کو وہ ان سب خباری تراشوں کو اپنے سامنے بچھا کر بیٹھ جاتا تھا یوں جیسے ان خبروں کی بھول بھلیوں میں وہ کوئی راستہ، کوئی پتا ڈھونڈ رہا تھا۔ نہ راستہ نظر آرہا تھا۔ نہ کوئی پتا وہاں تھا۔
٭…٭…٭
”نہیں۔ پر نکالنے کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہیے، ایسے کیسے نکال سکتے ہیں وہ؟ کام سے مطمئن نہیں تو دس بار لکھ کر دینے کو تیار ہوں میں۔”
اختر صاحب کے طوطے، کبوتر سب اڑ چکے تھے اور وہ داؤد کے سامنے بیٹھے بے حد بے چارگی سے وضاحتیں کرتے اور مانگتے جا رہے تھے۔ داوؑد نے انہیں کچھ دیر پہلے فلم کے اسکرپٹ سے علیحدگی کا بتایا تھا اور اب ٹینا اور داوؑد دونوں کو ان پر ترس آرہا تھا کیوں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، وہ اختر صاحب کو قلبِ مومن کے اس فیصلے کی کیا توجیہہ پیش کرتے۔
”اختر بھائی! مومن بھائی سے ملاقات کرواتا ہوں میں آپ کی، وہ ترکی سے واپس آتے ہیں تو۔ ابھی تو ہم دونوں بھی کل ترکی جا رہے ہیں۔” داوؑد کی بات پر اختر کے غم میں جیسے اور اضافہ ہوا۔ ترکی تو اس نے بھی جانا تھا، ساتھ ریکی کرنے کے لیے۔
”آپ قسم کھا کر کہیں، کسی اور رائٹر کو تو نہیں لے جا رہے ساتھ۔” اختر نے روکھے انداز میں کہا اور داوؑد نے لمحہ برابر بھی انتظار کیے بغیر قسم کھائی۔ اختر صاحب کو جیسے کچھ قرار آیا تھا۔ وہ بمشکل آفس سے گئے تھے اور ان کے رخصت ہوتے ہی ٹینا نے داوؑد سے کہا۔ ”کیوں ہٹایا ان کو فلم سے؟ آخر ہوا کیا ہے؟ اختلافات تو پہلے بھی ہوتے رہتے ہیں اسکرپٹ وغیرہ پر۔ پھر اس بار مومن کو کیا ہوا؟” وہ ایک کے بعد ایک سوال کر رہی تھی۔
”مجھے صرف ایک چیز پریشان کر رہی ہے۔ اس بار فلم لکھے گا کون؟” داوؑد نے اپنی پریشانی بتائی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});