”آپ نے اس سے یہ کیوں کہا کہ میں ایکٹنگ چھوڑ رہی ہوں۔” فیصل کے گھر سے نکلتے ہی اس نے دروازہ بند کر کے ثریا سے پوچھا تھا، اس کا جھوٹ جیسے اس کے ذہن میں اٹکا ہوا تھا۔
”تمہارا دل تو کبھی بھی نہیں تھا ایکٹنگ میں، ہمیشہ تو کہتی تھیں کہ نہیں کرنا چاہتیں یہ کام اور اب تو جہانگیر بھی نہیں ہے تو مجبوری بھی نہیں ہے۔” ثریا نے ایسے عجیب سے انداز میں اپنے جھوٹ کی توجیہہ دی تھی کہ وہ ان کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
”اماں قرضہ ہے ہمارے سر پر اور مجھے کوئی اور کام نہیں آتا۔” اس نے جیسے ماں کو یاد دلایا، وہ اس کے پیچھے چلتی ہوئی برآمدے میں آئی تھی اور ثریا کمرے میں داخل ہونے سے پہلے یک دم پلٹی تھی۔
”شاید فیصل رشتہ لے آئے۔” ثریا کے لہجے کی آس مومنہ کو کانچ کی طرح چبھی۔
”اماں۔” وہ اس آس کو توڑنے کے لیے کچھ کہنا چاہتی تھی مگر ثریا نے اس سے پہلے ہی کہا۔
”میں نے بات کی ہے اس سے۔” مومنہ دنگ رہ گئی۔
”آپ نے کیا بات کی ہے اس سے؟ وہ کیا سمجھ رہا ہو گا،اماں اس کی منگنی ہو چکی ہے۔”
بہت سی کیفیات سے وہ بیک وقت گزری تھی۔۔۔ شرم، افسوس، خفگی اور اپنے دیر سے گھر پہنچنے کا پچھتاوا۔ وقت پر آتی تو ثریا کے فیصل کے ساتھ یہ سوال و جواب روک لیتی۔
”منگنی ٹوٹ گئی ہے اس کی۔ ۔۔لڑکی امریکا سے پاکستان سیٹل ہونا نہیں چاہتی۔ اس نے بتایا تھا مجھے۔ ماں کو تو تب بھی بھیجا تھا اس نے۔۔۔ لیکن ہم خودغرض بن گئے تھے جہانگیر کی وجہ سے، ورنہ تم اپنے گھر کی ہوتیں۔” ثریا کو چند سال پہلے فیصل کی ماں کا گھر آنا یاد آیا تھا۔
”ہاں لایا تھا ماں کو لیکن انہوں نے ہمارے خاندان کے بارے میں جان کر انکار کر دیا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان جہانگیر اور آپ کی خودغرضی نہیں آئی تھی، نصیب آیا تھا اماں۔” مومنہ کو چھے سال پہلے فیصل کی ماں کا ان کے گھر آنا یاد آیا تھا۔ تب وہ اسی محلے کے ایک دوسرے گھر میں رہتے تھے لیکن اس سے بہتر گھر میں اور تب فیصل صرف اپنی ماں کو دروازے پر چھوڑ کر چلا گیا تھا، اندر نہیں آیا تھا اور اس کی ماں نے ایک گھنٹہ میں صرف مومنہ نہیں ثریا اور سلطان کے خاندان کی جڑیں تک کھنگال لی تھیں۔ وہ بہت اچھی، ملنسار، خوش گفتار اور خوش اخلاق خاتون تھیں مگر ”خاندانی” تھیں اور خاندانی ہونے ہی کو اہمیت دیتی تھیں۔ وہ اچھی طرح سے ان سے مل کر گئی تھیں اور ان کے جانے کے بعد ثریا اور سلطان کو بیک وقت فکرلاحق ہوئی تھی کہ یہ رشتہ اگر ہو گیا تو پھر جہانگیر کے علاج کا کیا ہو گا اور انہوں نے مومنہ کو یہ بتا بھی دیا تھا کہ جہانگیر کو اس حالت میں چھوڑ کر وہ اگر اپنا گھر بسانے کا سوچے گی تو یہ خودغرضی ہو گی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مومنہ ان سے یہ نہیں کہہ سکی کہ رشتہ بھیجنا فیصل کی خواہش تھی اس کی نہیں۔ وہ اسے جہانگیر کا یاد نہ بھی دلاتے تو بھی وہ اسے یاد تھا۔ وہ اسے چھوڑ کر اپنی زندگی کا مر کے بھی نہیں سوچتی۔ مگر فیصل کی والدہ کے آنے نے جیسے سب کچھ خود ہی آسان کر دیا تھا۔ فیصل نے ہچکچاتے ہوئے اسے اپنی ماں کے اعتراضات بتائے تھے اور مومنہ نے اس کی بات کاٹ کر بڑی ہمت سے اسے اپنے ماں باپ کا انکار سنا دیا تھا۔
محبت کا پردہ رکھنے سے زیادہ اس پر پردہ ڈالنا ضروری تھا اور وہ اس نے ڈال دیا تھا۔ دونوں اس کے بعد کبھی نہیں ملے تھے اور آج اتنے سالوں بعد ملے تھے تو ثریا جیسے اس کہانی کو وہیں سے شروع کرنا چاہتی تھی اور مومنہ ماں کو بتانا چاہتی تھی کہ زندگی میں فلیش بیک آبھی جائے تو کہانی وہیں سے شروع نہیں ہوتی جہاں فلم میں چھوڑی جاتی ہے۔ زندگی میں وقت ہوتا ہے جس کو کوئی ڈائریکٹر باندھ نہیں سکتا۔
”نصیب کا کیا ہے مومنہ! وہ تو بدلا جا سکتا ہے۔” ثریا نے اسے آہ بھر کر کے کہا تھا۔ اس نے فلم میں یہ لائن بولی ہوتی تو سینما میں تالیاں ملتیں اسے۔ مومنہ نے اعتراف کیا تھا دل میں۔
”میں نے بات کی ہے اس سے۔ تم بھی بات کرو اس سے۔” ثریا نے اس سے کہا تھا۔
”نہیں اماں میں بات نہیں کروں گی اس سے۔ آپ کو بھی نہیں کرنی چاہیے تھی۔”
”وہ تجھ سے محبت کرتا ہے۔ محبت میں تو انا نہیں ہوتی۔”ثریا نے اس سے کہا تھا۔
”محبت میں انا نہیں ہوتی لیکن خودداری ہوتی ہے۔ میرے اور اس کے درمیان سات سمندر ہیں۔ میں وہ سوہنی ہوں جس کا گھڑا کچا نہیں ٹوٹا ہوا ہے۔ وہ وہ مہینوال ہے جو مجھے بچانے کے لیے خود کو نہیں ڈبوئے گا۔ ہمارا پیار بس اتنا ہی ہے۔ داستان کبھی نہیں بنے گا۔”
مومنہ سلطان نے ثریا سے کہا تھا اور پھر آنکھیں چراتی دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی۔ ثریا کے سامنے روتی تو وہ پھر جھوٹی آس دلاتی اور مومنہ سلطان کو اب پیار کی آس بھی نہیں رکھنی تھی بس اپنی زندگی کا کچھ کرنا تھا۔
٭…٭…٭
”تمہیں یقین ہے نا وہ مجھے لیڈ میں کاسٹ کرنے والا ہے؟”
مومن کے اسٹوڈیو میں ہونے والی پریس کانفرنس میں شرکت سے چند منٹ پہلے اپنی گاڑی سے اتر کر اسٹوڈیو کے ہال کی طرف جاتے ہوئے ضوفی نے نیہا سے پوچھا تھا۔ وہ جیسے کسی عجیب سے خدشے کا شکار ہو گیا تھا۔
”سو فی صد یقین ہے۔” نیہا نے اپنے ایوننگ گاوؑن پر نمایاں ہونے والی ایک سلوٹ کو جیسے ہاتھ سے سیدھا کیا۔ وہ دونوں چلتے ہوئے ہال کے دروازے تک آئے تھے جہاں کھڑے ایک ملازم نے بڑی مستعدی سے دروازہ کھولا تھا۔
ہال میں موجود تمام نشستیں بھر چکی تھیں۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگ اور اس ایونٹ کو کور کرنے والی میڈیا ٹیمز اپنے اپنے cameramen اور فوٹوگرافرز کے ساتھ اندر ٹولیوں میں کھڑی تھیں اور جرنلسٹس وہاں نظر آنے والے اسٹارز سے گپ شپ میں مصروف تھے۔ وہ تقریباً سو کے قریب لوگوں کا اجتماع تھا اور قلبِ مومن فی الحال وہاں موجود نہیں تھا۔ ہال کے ایک سرے پر ایک کم اونچائی کے اسٹیج پر ایک لمبا کاوؑنٹر اور اس کے پیچھے دس بارہ کرسیاں تھیں جو اس وقت خالی تھیں اور اس کاوؑنٹر نما میز پر رکھے کچھ مائیکس کو چند ٹیکنیشن سیٹ کرنے میں مصروف تھے۔
نیہا بے حد انداز اور ادا سے ضوفی کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی اور اندر داخل ہوتے ہی ٹینا اور داوؑد نے اسے دیکھ لیا تھا جو بیک وقت ان دونوں کی طرف لپکے تھے اور ان کے اس انداز پر نیہا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی اور اس نے جتانے والے انداز میں ضوفی کے کانوں میں سرگوشی کی۔
”دیکھ لو۔” ضوفی کا چہرہ بھی چمک اٹھا تھا۔ وہ چند ہی لمحوں میں اس تقریب کا ”دولہا” بننے والا تھا۔ اس نے اپنے خون کو جیسے پارہ بنتے محسوس کیا تھا۔
”آپ لوگوں کی فرنٹ سیٹس ہیں۔ ہم انتظار کر رہے تھے آپ دونوں کا۔”
ٹینا نے پاس آتے ہی رسمی ہیلو ہائے کے بعد نیہا سے کہا تھا اور پھر وہ ان دونوں کو ساتھ لیتے ہوئے فرنٹ سیٹ کی طرف جانے لگے تھے اور بالکل اسی وقت نیہا نے ہال کے ایک کونے میں کھڑی صوفیہ درانی کو دیکھا اور اسے جیسے کرنٹ لگا تھا۔ وہ سگریٹ پیتے ہوئے ایک جرنلسٹ کے ساتھ گپ شپ کر رہی تھی۔ نیہا نے ہال میں نظر دوڑائی۔ اسے قلبِ مومن نظر نہیں آیا۔
”مومن کہاں ہے؟” اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے اس نے ٹینا سے پوچھا۔ ”وہ بس آنے والے ہیں۔ برانڈز کے کچھ لوگوں کے ساتھ اندر آفس میں ہیں۔”
ٹینا اور داوؑد ان دونوں کو بٹھا کر سیکنڈز میں غائب ہوئے تھے۔
”تمہارا موڈ کیوں آف ہو گیا ہے؟” ضوفی نے نیہا کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات کو دیکھ لیا تھا۔
”اس نے صوفیہ درانی کو کیوں بلا رکھا ہے یہاں؟” نیہا مدھم آواز میں کاٹ کھانے والے انداز میں بولی تھی۔ ضوفی نے چونک کر اس طرف دیکھا جہاں وہ دیکھ رہی تھی۔ وہ صوفیہ کے لیے اس کی ناپسندیدگی سے واقف تھا۔
”کر لیا ہو گا انوائٹ دوسروں کے ساتھ!” ضوفی نے کسی خاص تاثر کے بغیر کہا تھا۔
”اس کو پتا ہے مجھے زہر لگتی ہے وہ پھر بھی انوائٹ کر لیا اسے۔”
نیہا کی خفگی عروج پر تھی اور وہ اب متلاشی نظروں سے مومن کو ڈھونڈ رہی تھی اور ضوفی بار بار اس کوٹ کو ٹھیک کرنے میں مصروف تھا جسے پہن کر وہ آیا ہوا تھا۔ وہ نروس تھا ایکسائیٹڈ ہونے کے ساتھ اور اس کے انداز میں وہnervousness جھلک رہی تھی۔ اس کی توجہ اس وقت برابر بیٹھی نیہا کے گلے شکووؑں پر نہیں تھی۔
”بعد میں برا بھلا کہہ لینا یار اسے۔ ابھی تو انجوائے کرو اس ایونٹ کو۔” ضوفی نے اس کے کان میں سرگوشی کی اور تب ہی ان دونوں نے ہال کے عقب میں یک دم سرگوشیوں کا ایک طوفان سا امڈتا سنا۔ قلبِ مومن اب اندر داخل ہو رہا تھا اور اس کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف سے کیمروں کی لائٹس چمکنے لگی تھیں۔ وہ چلتا ہوا ہال کے اگلے حصے میں فرنٹ سیٹس کے سامنے سے گزرنے لگا اور گزرتے ہوئے اس نے نیہا اور ضوفی کو دیکھا اور بالکل ان کے سامنے آکر مسکراتے ہوئے رکا۔ وہ دونوں کھڑے ہو کر اس سے ملے تھے۔ نیہا نے اس سے گلے لگتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
”Thank you and congratulations” مومن نے بھی جواباً سرگوشی کی۔
”Pleasure is always mine.”اس سے الگ ہوتے ہوئے وہ ضوفی سے ملا اور اس سے کہا۔
”You are star of today’s show” ضوفی کا چہرہ چمک اٹھا اور کیمروں کے کچھ شٹر اس پر فوکس ہوئے۔ مومن دونوں سے ہاتھ ملاتا اوپر اسٹیج پر چلا گیا تھا اور وہاں جا کر اس نے اپنی سیٹ سنبھال لی اور اس کے سیٹ سنبھالتے ہی سب نے اپنی سیٹس سنبھال لی تھیں۔
”آپ سب کا آج یہاں آنے کے لیے بہت شکریہ۔” اس نے مائیک سنبھالتے ہی کہنا شروع کیا۔ ”صنم میری چوتھی فلم ہے جسے میں اگلے دو مہینوں میں شوٹ پر لے جاوؑں گا۔ اپنی پچھلی فلمز کی طرح اس بار بھی میں نے صرف ایک چینج کیا ہے پچھلی فلم کی کاسٹ میں۔” وہ کہتے ہوئے رکا اور اس نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی نیہا اور ضوفی کو دیکھا جن کے دلوں کی دھڑکن بے اختیار تیز ہوئی تھی۔ضوفی نے اپنا کوٹ ایک آخری بار ٹھیک کیا۔ عقبی نشستوں میں سے کسی جرنلسٹ نے کہا تھا۔
”ہمیشہ کی طرح ہیروئن بدلیں گے اس بار بھی۔” مومن اس جملے پر مسکرایا اور اس نے کہا۔ ”نہیں وارڈ روب ڈیزائنر۔ اس بار میری فلم کی وارڈروب صوفیہ دُرانی کریں گی اور کاسٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ میں اب کاسٹ کو اسٹیج پر بلا رہا ہوں۔” نیہا اور ضوفی نے بے یقینی سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ وہ ویسے وہاں بیٹھے بیٹھے برف بنے تھے۔ وہ کمرہ اب تالیوں سے گونج رہا تھا اور اسٹیج کے پیچھے سے باری باری فلم کی کاسٹ آکر اسٹیج پر رکھی کرسیوں پر بیٹھ رہی تھی۔ نیہا نے مومن کو دیکھا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ یوں جیسے وہ اس کے لیے کوئی وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔ وہ قلبِ مومن تھا، معاف نہیں کرتا تھا۔ لیکن بھول جاتا تھا۔ وہ اسے بھول گیا تھا۔
٭…٭…٭
”تمہارا صاحب گھر پر ہے؟” بیل بجنے پر شکور نے دروازہ کھولا تھا اور نیہا نے بڑی بدتمیزی سے اس سے پوچھا تھا۔ شکور کو اس کے انداز پر جیسے دھچکا لگا تھا۔
”مومن بھائی کا پوچھ رہی ہیں؟” شکور کو ایک لمحہ کے لیے لگا وہ دادا کا پوچھ رہی تھی کیوں کہ مومن کو ”صاحب” کہتے تو اس نے نیہا کو کبھی نہیں سنا تھا۔
”اور کس کا پوچھوں گی؟” وہ کچھ اور بگڑی تھی۔
”جی۔ جی۔ وہ تو ہیں۔” شکور نے بے ساختہ کہا اور دروازے سے ہٹ گیا۔ نیہا بجلی کی تیزی سے اندر آگئی تھی۔ شکور کو بے اختیار گدگدی ہوئی۔ وہ اس گھر میں اسی چیز کو مِس کرتا تھا جو اب ہونے جا رہی تھی۔ لڑائی۔
مومن لاوؑنج میں ٹہلتے ہوئے فون پر کسی سے ہنستے ہوئے بات کر رہا تھا۔ جب اس نے نیہا کو اس انداز میں اندر آتے دیکھا تھا۔
”میں تمہیں دس منٹ تک کال کرتا ہوں۔” اس نے فون پر اپنے مخاطب سے کہا اور پھر دوسری طرف کی بات سننے کے بعد کہا۔
”نہیں دس منٹ ہی لگیں گے۔ ایک مہمان ہے۔ دس منٹ میں چلا جائے گا۔ اوکے بائے۔”
اس نے فون پر کسی دوسرے سے بات کرتے ہوئے بھی نیہا کو جیسے اس کی اوقات جتائی تھی۔
”تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟” اس کے فون بند کرتے ہی وہ اس پر دھاڑی تھی۔ وہ جواباً چڑانے والے انداز میں مسکرایا تھا۔
”مومن۔”
”کیا بگاڑ لیا تم نے مجھے فلم کے کریو سے نکال کر میرا۔ مجھے فرق نہیں پڑا۔” اس نے مومن کی مسکراہٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا تھا۔
”پھر تو بہت اچھا ہے اس کا مطلب ہے ہماری دوستی اسی طرح قائم رہے گی۔” مومن نے جیسے اسے اور تپایا تھا۔
”تم ضوفی سے جیلس ہوئے ہو۔ تم سے برداشت نہیں ہوا کہ میں اس کے اتنا قریب ہوں۔ اس کے لیے یہ سب کر رہی ہوں۔ تم بے حد mean اور insecure انسان ہو۔” وہ اب الزام تراشی پر اتر آئی تھی۔
”کچھ اور؟” مومن اسی طرح برف بنا ہوا تھا۔
”بڑا غرور ہے نا تمہیں اپنے آپ پر۔ میں تمہارے زوال میں تمہیں دیکھنے آوؑں گی۔” اس نے تلخی سے کہا۔ مومن ہنسا۔
”بڑے لمبے انتظار کے بعد ملاقات ہو گی پھر تو۔”
”میں کوشش کروں گی اتنا لمبا انتظار نہ کرنا پڑے۔” نیہا نے اسے پتا نہیں کیا جتایا تھا۔ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اس نے انگوٹھی نکالی اور اسے پوری قوت سے اس کے منہ پر دے مارا۔ مومن بے اختیار پیچھے ہٹا تھا۔ انگوٹھی فرش کے ٹائلز پر گری۔ اچھلی پھر گری اور پھر چکر کاٹنے لگی۔ مومن نے باہر جاتی ہوئی نیہا کو دیکھا جس کا وجود بھی اس وقت اسی طرح بھنور بنا ہوا تھا مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ بھنور قلبِ مومن کے لیے گرداب بننے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});