”آپ نے پہلے کبھی میری برتھ ڈے اس طرح سیلیبریٹ نہیں کی۔” غبارے پکڑے مومن ہنستا کھلکھلاتا حسنِ جہاں کے پاس آیا تھا جو پول سائیڈ پر ہونے والی مومن کی اس برتھ ڈے پارٹی کے سارے انتظامات کو خود دیکھ رہی تھی اور مومن حیران تھا لیکن حیران سے زیادہ خوش تھا۔
درخت سے گرنے والے حادثے کے بعد اچانک ہی حسنِ جہاں اسے زیادہ توجہ دینے لگی تھی اور مومن کو لگتا تھا جیسے اس کی ممی واپس مل گئی ہیں۔ وہی والی ممی جو ترکی میں تھیں۔
”ہاں، بس اس بار دل چاہا، تمہاری برتھ ڈے بڑی دھوم دھام سے مناوؑں تاکہ تمہاری مجھ سے ناراضی ختم ہو جائے۔” حسنِ جہاں نے اسے اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا تھا۔ مومن نے پرفیوم کی تیز خوشبو محسوس کی۔ اس کا دل چاہا وہ حسنِ جہاں سے کہے اسے اپنی ماں کی خوشبو چاہیے۔ جب وہ ترکی میں پرفیوم نہیں لگاتی تھی اور وہ اس کو اپنے ساتھ لپٹاتی تھی تو مومن کو حسنِ جہاں کے وجود سے اٹھنے والی خوشبو عجیب انداز میں محسوس ہوتی تھی۔ اس کے نرم گرم وجود سے پھوٹتی ہوئی حسنِ جہاں کی اپنی خوشبو جسے مومن لاکھوں خوشبووؑں میں بھی پہچان سکتا تھا۔
”تمہارے دوست کب آرہے ہیں؟” حسنِ جہاں نے اسے ساتھ لپٹاتے ہوئے پوچھا۔
”پتا نہیں، میں ویٹ کر رہا ہوں۔” مومن نے اسی طرح اس سے لپٹے لپٹے کہا۔ بڑے عرصہ کے بعد وہ اس طرح اس کے ساتھ تھی اور کوئی نہیں تھا، سلطان بھی نہیں جو ہر وقت حسنِ جہاں کا سایہ بنا رہتا تھا۔
”سنو مومن!” وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی۔ ”اپنے دوستوں کے سامنے میرا نام۔” مومن نے روانی میں اس کی بات کاٹی۔
”جی نام لوں گا، آپ کو حسنِ جہاں کہوں گا ممی نہیں کہوں گا مجھے یاد ہے، نانی نے جو بھی کہا تھا۔” اس نے ممتاز کا پڑھایا ہوا سبق دہرایا تھا۔
”نہیں مومن! میرا نام مت لینا، مجھے ممی کہنا۔” مومن نے یک دم حیران ہو کر اس سے لپٹے لپٹے سراٹھا کر حسن جہاں کو دیکھا تھا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ پہلی بار مومن کو اس کا میک اپ بھی اچھا لگا تھا۔ وہ اس میک اپ زدہ چہرے میں بھی اپنی ماں کو پہچان رہا تھا۔
”مومن۔” وہ ردا کی آواز پر یک دم پلٹا تھا۔ وہ اپنے پیرنٹس کے ساتھ پول کی دوسری سائیڈ پر کھڑی ہاتھ ہلا رہی تھی۔ مومن نے یک دم حسنِ جہاں کا بازو کھینچتے ہوئے کہا۔
”میرے دوست آگئے۔ آئیں میں آپ کو ملواوؑں۔” وہ حسن جہاں کو جیسے بے حد خوشی اور جوش کے عالم میں کھینچتے ہوئے پول کی دوسری سائیڈ پر لے گیا تھا جہاں ردا اپنے ماں باپ کے ساتھ کھڑی تھی اور اس کے ماں باپ کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ حسن جہاں کو دیکھتے ہی غائب ہو ئی تھی۔
”ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ قلبِ مومن آپ کا بیٹا ہے۔” انہوں نے ابتدائی علیک سلیک کے بعد کھڑے کھڑے حسنِ جہاں سے کہا۔
”مومن کے پاپا سے بھی ملوائیں۔” مومن نے ردا کی ممی کو کہتے سنا اور اس نے حسن جہاں کا چہرہ دیکھا جس پر بادل آئے تھے۔ گہرے، کالے بادل اور ان بادلوں نے اس خوشی اور حسن جہاں کی مسکراہٹ کو سب سے پہلے نگلا تھا۔ مومن نے پلٹ کر ردا کی ممی اور بابا کو دیکھا، وہ انہیں اپنے بابا کے بارے میں بتانا چاہتا تھا سب کچھ۔ ان کی کیلی گرافی کے بارے میں ان کے رقص کے بارے میں اور اس محبت کے بارے میں جو وہ مومن سے کرتے تھے اور مومن کی ممی سے بھی۔ لیکن وہ بتا نہیں سکا۔ ردا کی ممی اور بابا اس کی طرف متوجہ نہیں تھے۔ وہ بچہ تھا۔ ان کو بڑوں سے جواب چاہیے تھا اور بڑوں کے پاس اس وقت جو بھی جواب تھا، وہ انہیں جھوٹ لگا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ مومن کی زندگی کی سب سے یادگار سالگرہ تھی۔ اس سالگرہ پر اس کے سب دوست آئے تھے اور اسے بہت سارے تحفے ملے تھے۔ اتنے تحفے کہ اس کا کمرہ بھر گیا تھا اور ان میں سے بہت سارے تحفے وہ تھے جو حسنِ جہاں نے اسے دیے تھے اور ممی اس شام سارا وقت مومن کے ساتھ رہی تھیں۔ اس کے دوستوں کے ساتھ کھیلتی رہی تھیں۔ وہ قلبِ مومن کے لیے ایک خوابوں جیسا دن تھا۔ خوبصورت خوابوں جیسا۔ وہ زندگی ویسی ہی گزارنا چاہتا تھا جیسی وہ ایک شام تھی۔
اگلا دن اس کی زندگی کے بھیانک دنوں میں سے ایک تھا۔ اسکول میں اسے اپنے کلاس فیلوز اور دوستوں کے رویے میں کچھ عجیب تبدیلی محسوس ہوئی تھی۔ ان کے انداز میں ایک عجیب سی ٹھنڈک تھی یا شاید حقارت۔ وہ بچہ تھا، لہجے پہچان سکتا تھا۔ لیبل نہیں لگا سکتا تھا کیوں کہ اس کے پاس اس عمر میں وہ لیبل نہیں تھے جو صرف بڑوں کو تجربہ اور زندگی دیتی ہے اور جس کے بل بوتے پر وہ کسی کی زندگی بھی داغ دار کر سکتے تھے۔
”میں کب سے تم دونوں کو ڈھونڈ رہا ہوں، مجھے چھوڑ کر یہاں لنچ کرنے آگئے تم۔” وہ لنچ بریک میں ردا اور بلال دونوں کو ڈھونڈتا رہا تھا اور بالآخر اس نے انہیں گراوؑنڈ کی ایک بینچ پر دیکھ ہی لیا تھا۔ وہ ان دونوں کے درمیان بینچ پر بڑے گھمنڈ سے آکر بیٹھا تھا اور اس نے اپنا لنچ باکس کھولا تھا اور تبھی اس نے دائیں بائیں بیٹھے بلال اور ردا کو بینچ سے کھڑے ہوتے دیکھا۔ مومن نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔
”اب ہم کبھی تمہارے ساتھ لنچ نہیں کریں گے۔” ردا نے کچھ خفگی سے اس سے کہا تھا۔ ”کیوں؟” وہ حیران ہوا۔
”بلکہ بات بھی نہیں کریں گے۔”
”ساتھ بھی نہیں بیٹھیں گے۔”
اس کے سوال کا جواب نہیں ملا تھا البتہ ان دونوں نے کسی میکانکی انداز میں جملے دہرانے شروع کیے تھے۔ وہ ان کا منہ دیکھنے لگا تھا۔ لنچ کرنا وہ بھول گیا تھا۔ ”کیوں؟”
”کیوں کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ تمہارے کوئی بابا نہیں ہیں۔” ردا نے اسی انداز میں کہا تھا۔
”And your mom is a bad woman”
بلال نے بے حد حقارت سے کہا۔ مومن کا چہرہ سرخ ہوا۔
”No she is not….”
”Yes she is…”بلال نے اسی انداز میں کہا۔
”میری ممی نے بتایا کہ تمہاری ممی ڈانسر ہے اور بُری عورت ہے۔”
ردا نے اس کے سامنے کھڑے کھڑے ہاتھ کے اشارے سے اسے بے حد غصے سے بتایا تھا۔ قلبِ مومن کو یک دم لگا وہ ان دونوں کے سامنے چیونٹی بن گیا تھا۔ کل شام کا ہاتھی نہیں رہا تھا۔ حقیر، معمولی ہو گیا تھا۔ اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ اس کے حلق سے آواز نہیں نکلی۔
”اللہ تو کبھی تمہارے خطوں کے جواب نہیں دے گا کیوں کہ تمہاری ممی ایک بُری عورت ہے۔” ردا نے جاتے جاتے اس سے کہا تھا۔
قلبِ مومن کانپنے لگا تھا یوں جیسے اسے بخار ہو گیا تھا یا اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا تھا۔ اس کے دوست اب اسے چھوڑکر جا رہے تھے اور اسے لگ رہا تھا، اسے ساری دنیا نے چھوڑ دیا تھا اور یہ سب اس کی ممی کی وجہ سے ہوا تھا۔ حسن جہاں کی وجہ سے۔اس کے ڈانس کرنے کی وجہ سے۔ اسے حسنِ جہاں سے شدید نفرت محسوس ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
”مجھے دادا کے پاس جانا ہے، مجھے آپ کے پاس نہیں رہنا۔ مجھے آپ کے گفٹس بھی نہیں چاہئیں۔ آپ بھی نہیں چاہئیں۔”
”I hate you Mummy! You are a bad woman.”
اس دن گھر آکر وہ بلک بلک کر رو رہا تھا۔ اس نے کمرے میں پڑا ہوا اپنا ہر تحفہ ہر کھلونا توڑ دیا تھا۔ حسنِ جہاں نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔ وہ مکے اور لاتیں چلانے لگا تھا یوں جیسے وہ اپنا سارا غصہ، سارا زہر ماں کو دے دینا چاہتا تھا۔ حسنِ جہاں نے بالآخر اسے چھوڑ دیا تھا۔ وہ عدالت میں کھڑی کسی مجرم کی طرح قلبِ مومن کی عدالت میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔
”Mummy! I hate you”
”Mummy! I hate you”
وہ روتا بلکتا کہتا جا رہا تھا۔
”مجھے دادا کے پاس جانا ہے مجھے ترکی جانا ہے۔”
حسنِ جہاں نے اس کے سامنے سرجھکا لیا تھا۔ پیار اس کی قسمت میں ہی نہیں تھا، نہ ہی اس کے ہاتھ کی لکیروں میں، طہٰ کا تھا تو کیسے مل جاتا، قلبِ مومن کا تھا تو کیسے رہ جاتا۔
٭…٭…٭
کیا غم گسار آواز تھی! کیا مہربان وجود تھا! کیا وہم و گمان سے پرے کا معجزہ تھا۔ فیصل تھا وہ جو ثریا سے اندر کمرے میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا اور اس کی آواز تھی جس کو سچ ماننے پر وہ تیار نہیں تھی اور اب دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی اسے ہونقوں کی طرح دیکھتی وہ جیسے اسی کالج گراوؑنڈ میں آن کھڑی ہوئی تھی جہاں وہ دونوں روز ملتے تھے اور اس کے آنے پر وہ روز اسی طرح کھڑا ہوتا تھا جس طرح اس وقت کھڑا ہو گیا تھا۔
”السلام علیکم۔” اس نے کہا۔
مومنہ کو اچانک یاد آیا، یہ فیصل کے بجائے اسے کہنا چاہیے تھا۔ باہر سے وہ اندر آئی تھی۔
”وعلیکم السلام۔” مدھم آواز میں اس پر نظریں جمائے وہ بولی تھی۔
”میں نے کہا تھا نا مومنہ تمہیں دیکھ کر خوش ہو جائے گی۔ بیٹا بیٹھو ذرا میں فیصل کے لیے چائے لے آؤں۔”
ثریا نے اس کا چہرہ دیکھا پھر فیصل کا اور پھر وہ اس سین میں سے نکل گئی تھی اسٹیج کی ایک سمجھدار اداکارہ کی طرح۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو خاموشی کے عالم میں اور بے وقوفی کی کیفیت میں دیکھتے رہے۔ جذباتی ہوئے بغیر۔۔۔ پرانے دوستوں کی طرح۔۔۔ جو لفظوں سے زیادہ خاموشی کو پڑھتے ہیں اور لفظوں کے درمیان آنے والے خاموشی کے وقتوں کا انتظار کرتے ہیں کیوں کہ جو اُن میں کہا جاتا ہے وہ لفظوں میں کہنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
”اقصیٰ سے پتا چلا مجھے جہانگیر کے بارے میں۔۔۔ اتفاقاً بات ہوئی تو۔۔۔ بڑا افسوس ہوا مجھے۔ ۔۔میں سمجھتا تھا وہ ٹھیک ہو رہا تھا۔” وہ بالآخر بولا تھا۔ ٹراؤزر کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے۔۔۔ نظریں اس پر جمائے۔
”ہاں۔ ہم بھی یہی سمجھ رہے تھے۔ ۔۔بیٹھو۔” مومنہ کو یقین نہیں آیا وہ اس سے جذباتی ہوئے بغیر کیسے بات کر پا رہی تھی۔ وہ واپس مڑ کر اسی کرسی پر بیٹھ گیا تھا جہاں پہلے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ آگے بڑھ کر اس کرسی پر بیٹھ گئی تھی جہاں ثریا بیٹھی ہوئی تھی۔
خاموشی کا ایک اور لمبا وقفہ آیا پھر اس نے کہا۔ ”مجھے یقین نہیں تھا، تم آؤ گے۔”
”اتنا کمزور تعلق تو نہیں تھا ہمارا کہ دکھ سکھ میں بھی نہ مل پاتے۔” اس نے تامل کیے بغیر کہا تھا۔ مومنہ نے سرجھکا لیا۔
اس کی آواز کی حلاوٹ اسے توڑنے لگی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اور مہربانی اسے پگھلانے لگی تھی۔
اس کا دل چاہا تھا وہ اس کے وجود میں چھپ جائے۔ ہمیشہ، ہمیشہ کے لیے۔
”بہت بدل گئی ہو تم۔ چار ساڑھے چار سال بعد دیکھ رہا ہوں تمہیں۔”
وہ پتا نہیں کیا پڑھ رہا تھا اس کے چہرے پر۔ آنکھیں تو اس نے جھکا لی تھیں۔
”ہاں، بہت بدل گئی ہوں۔۔۔ کیوں کہ زندگی بدل گئی ہے تم سناوؑ۔” مومنہ نے ہنسنے کی کوشش کی پھر ترک کر دی۔ اسے یاد آیا وہ اس کا چہرہ پڑھ لیتا تھا اور اس کے ماسک کے پیچھے بھی جو دکھتا تھا وہ بھی۔
”امریکا سے آگیا ہوں میں۔ ڈگری مکمل ہو گئی ہے۔ اب یہاں بابا کے ساتھ ان کی فیکٹری سنبھالنا شروع کی ہے۔ اور تم؟ آنٹی نے بتایا، تم ایکٹنگ چھوڑ رہی ہو۔”
وہ اس کی باتیں سنتے ہوئے آخری جملے پر چونکی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی۔ ایک ٹرے میں چائے کے کپ رکھے ثریا اندر آئی تھی۔
”ہاں بیٹا! پہلے تو جہانگیر کی وجہ سے مجبوری تھی لیکن اب تو کوئی مجبوری نہیں ہے۔ اب اسے اپنے گھر کا کریں گے اور کام ختم۔ تم چائے پیو۔” ثریا نے اسے کچھ کہنے نہیں دیا۔ فیصل کی بات کا جواب خود ہی دیا تھا اور ساتھ چائے کا کپ بھی اس کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ مومنہ الجھی نظروں سے ماں کا چہرہ دیکھتی رہی۔ پتا نہیں وہ کیا تھا جو وہ چھپانا چاہ رہی تھیں اور کیا تھا جو وہ اسے جتا رہی تھیں۔ وہ پہلی بار ان کے گھر آیا تھا مگر وہ غائبانہ طور پر اس گھر میں کئی سالوں سے موجود تھا اور مومنہ اور فیصل کے تعلق کی نوعیت بھی اس گھر کے سب لوگوں کو پتا تھی۔
وہ چائے پیتے ہوئے فیصل کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ یوں ثریا سے باتوں میں مشغول تھا جیسے ہمیشہ سے ان سے ملتا رہا ہو۔ وہ اسے جہانگیر کے قصے سنا رہی تھی اور وہ بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔ مومنہ سلطان اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس سے وہ سوال کرنا چاہتی تھی جو کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس کی منگنی ہو چکی تھی اور وہ اس سے اس کی منگیتر کا حال پوچھنا چاہتی تھی۔
”میں اب چلتا ہوں، کافی دیر ہو گئی۔” فیصل نے یک دم اپنی رسٹ واچ دیکھتے ہوئے جیسے چونک کر کہا تھا۔
”بیٹا! دوبارہ ضرور آنا۔” ثریا نے کھڑے ہوتے ہوئے اس سے کہا۔
”دوبارہ آوؑں گا اور جلدی آوؑں گا۔” اس نے ثریا کے اصرار کا جواب مومنہ کو دیکھتے ہوئے دیا تھا۔ مومنہ مسکرا دی تھی۔ اسے اب انتظار کرنے کی عادت نہیں رہی تھی اور وہ یہ عادت دوبارہ سیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ نہ انتظار، نہ خوش فہم امیدیں، نہ جھوٹے خواب۔ وہ ان میں سے کسی کا بوجھ اٹھانے میں اب دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});