میرے پیارے اللہ!
آج میں نے بابا کو پھر خواب میں ستارہ بنتے دیکھا۔ جیسے ترکی میں دیکھا تھا۔ تب میں نے انہیں ستارہ بنتے دیکھا تھا پھر وہ آگ کا گولہ بن گئے اور پھر وہ بہت دور چلے گئے۔ آج پھر میں نے انہیں دور جاتے دیکھا اور میری آنکھ کھل گئی۔ بابا کہیں بھی نہیں تھے۔ میں بہت اداس ہوں۔ بہت زیادہ۔
میں نے آپ کو اپنے بارے میں نہیں بتایا۔ پہلے اپنے بارے میں بتانا چاہیے تھا۔ میرا نام قلبِ مومن ہے۔ آپ کو یاد ہے، کئی مہینے پہلے میں آپ کو خط لکھا کرتا تھا۔ تب میں ترکی میں رہتا تھا، اب پاکستان میں رہتا ہوں۔
آپ نے میرے خطوں کے جواب میرے دادا کو بھیجے تھے مگر دادا نے وہ مجھے نہیں دیے۔ آپ کو میں یاد آگیا نا؟ مجھے پتا تھا میں آپ کو یاد آجاؤں گا کیوں کہ ممی کہتی ہیں، آپ کبھی کوئی چیز بھول ہی نہیں سکتے، خاص طور پر ان کو جو آپ سے پیار کرتے ہوں اور میں تو آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔ دیکھیں میں نے آپ کے لیےhearts بھی بنائے ہیں اور ہمیشہ کی طرح اس خط پر پھول اور ستارے بھی بنائے ہیں رنگین پینسلوں سے۔
آپ سوچتے ہوں گے اگر میں آپ سے اتنا پیار کرتا ہوں تو پھر آپ کو اتنے مہینوں سے خط کیوں نہیں لکھ رہا۔ میں آپ کو بھولا نہیں ہوں، بس پاکستان آگیا ہوں لیکن آپ سے روز باتیں کرتا ہوں، رات کو بستر پر لیٹ کر سونے سے پہلے۔ جب سپارہ پڑھتا ہوں تب بھی آپ کو یاد کرتا ہوں اور جب نماز پڑھتا ہوں تب بھی۔ نمازیں ساری نہیں پڑھتا اور روز بھی نہیں پڑھتا لیکن سیکھ رہا ہوں، آپ ناراض مت ہونا۔ مجھے پتا ہے آپ ناراض نہیں ہوں گے کیوں کہ میں بچہ ہوں اور آپ بچوںسے بہت پیار کرتے ہیں۔
ہم اب بہت بڑے گھر میں رہتے ہیں لیکن میں یہاں خوش نہیں ہوں۔۔۔ مجھے اپنا اسکول یاد آتا ہے ، اپنے دوست بھی۔۔۔ اور وہ جنگل بھی جہاں میں آپ کے لیے خط چھوڑ کر آتا تھا۔ میں نے یہاں بھی ایک جگہ ڈھونڈ لی ہے جہاں میں آپ کے لیے خط چھوڑ سکتا ہوں۔
میرے پیارے اللہ! میرا دل پاکستان میں نہیں لگتا۔۔۔ یہاں اب ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جو میں آپ سے مانگتا تھا۔ بڑا سا گھر، گاڑی اور وہ ساری چیزیں جو میں آپ سے مانگتا تھا، وہ ممی مجھے بازار سے لے دیتی ہیں۔ سب کچھ مل گیا ہے مجھے لیکن ممی کھو گئی ہیں۔۔۔ یہ میری والی ممی نہیں ہیں۔ وہ الگ کمرے میں رہتی ہیں اور میں الگ کمرے میں۔۔۔ اور کبھی کبھی وہ کئی کئی دن گھر بھی نہیں آتیں۔ مجھے لگتا ہے، انہیں اب میری اور بابا کی پروا نہیں ہے۔ وہ اب بابا کو مِس نہیں کرتیں۔ ان کے لیے پہلے کی طرح روتی بھی نہیں ہیں۔ اب بہت اچھے اور مہنگے کپڑے پہنتی ہیں۔ زیور بھی، میک اپ بھی اور وہ بہت ہنستی ہیں۔ بہت بہت زیادہ۔ کبھی کبھی وہ اتنا ہنستی ہیں کہ مجھے ان پر غصہ آتا ہے۔
مجھے ان کے بارے میں بہت ساری خراب باتوں کا بھی پتا چل گیا ہے لیکن وہ میری ممی ہیں اس لیے میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔ اس کے لیے سوری۔
مجھے اب بابا بہت یاد آتے ہیں اور دادا بھی۔
میرے پیارے اللہ! کیا آپ مجھے ان دونوں کے پاس ترکی نہیں بھیج سکتے؟ میرا دل ممی کے پاس نہیں لگتا۔۔۔ وہ مجھے ایک چڑیل لگتی ہیں۔ مجھے پتا ہے مجھے ممی کو یہ نہیں کہنا چاہیے لیکن مجھے ان پر غصہ آتا ہے۔ مجھے لگتا ہے انہوں نے میرے بابا کو جان بوجھ کر ناراض کیا ہے۔ اگر وہ ترکی میں رہتیں تو بابا مل جاتے۔ میں خود ڈھونڈ لیتا ان کو۔۔۔ مجھے ہر کھو جانے والی چیز کو ڈھونڈنا آتا ہے۔
میرے پیارے اللہ! میں نے آپ سے کہا تھا، آپ میری ممی اور بابا کی صلح کروا دیں اور ہم سب اکٹھے رہیں لیکن آپ نے مجھے جو جواب بھیجا تھا، وہ دادا نے مجھے نہیں دیا اور اب دادا بھی کہیں گم ہو گئے ہیں۔
میں بہت اداس ہوں یہاں پاکستان میں۔ آپ کو خط اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ آپ میرے لیے کچھ کریں۔
کیا آپ میرے پَر اُگا سکتے ہیں تاکہ میں اڑ کر ترکی چلا جاوؑں اور ممی مجھے ڈھونڈتی رہ جائیں؟ مجھے پتا ہے آپ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ کب مجھے اپنے بابا اور دادا سے ملوائیں گے؟ جلدی ملوا دیں۔۔۔ میں بڑا ہو گیا تو وہ مجھے نہیں پہچانیں گے۔ اب میں سونے لگا ہوں۔ آپ بھی سو جائیں۔
آپ کا قلبِ مومن
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بستر پر لیٹے رات کے اِس پچھلے پہر اس کاجسم کچھ دیر جھٹکے کھاتا رہا تھا یوں جیسے وہ نیند میں کسی چیز سے ڈر رہا تھا اور پھر یک دم اُس کی آنکھ کھلی تھی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ کانپ رہا تھا۔ کمرے میں نائٹ بلب کی روشنی تھی اور بہت دور سے کسی میوزک کی آواز آرہی تھی۔ کچھ عورتوں اور مردوں کے قہقہوں کی بھی۔
قلبِ مومن بستر سے نکل آیا۔ اس نے کمرے کی لائٹ آن کر لی تھی۔ باہر سے آنے والی موسیقی اور ان قہقہوں کی آوازوں کا اب وہ عادی ہو چکا تھا۔ وہ ان کی وجہ سے نہیں جاگا تھا اور نہ ہی وہ آوازیں کبھی اس کی نیند کو روک سکتی تھیں۔
وہ بہت بڑا اور آرام دہ کمرہ تھا جس میں وہ اس وقت موجود تھا۔ وہاں بہترین فرنیچر تھا اور کوئی بھی بچہ اس کمرے میں رہ کر خوش ہوتا۔ اپنے بستر سے اٹھ کر وہ کمرے میں دیوار کے ساتھ پڑی ایک اسٹڈی ٹیبل پر جا بیٹھا۔ دراز کھول کر اس نے ایک رائٹنگ پیڈ نکالا اور پھر لیمپ آن کر لیا۔ کاغذ پر وہ کچھ لکھنے لگا تھا۔ وہی سب کچھ جو وہ رات کے اس پہر اس طرح خواب میں ڈر جانے پر لکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نام ایک اور خط۔۔۔ وہ خط شاید اس کی روح میں کہیں بہت پہلے لکھے گئے تھے جو اب اس پر اتر رہے تھے۔ قلبِ مومن کو ہر بات پر صرف اللہ یاد آتا تھا۔۔۔ خوش ہونے پر بھی، خفا ہونے پر بھی، کوئی چیز مل جانے پر بھی اور کچھ کھو دینے پر بھی، کسی چیز کی طلب ہونے پر اور کسی چیز کو پا نہ سکنے پر بھی۔
اس کا خاندان کئی نسلوں سے اللہ کے ناموں کی خطاطی کرتا آیا تھا، پر قلبِ مومن کو خطاطی نہیں کرنا تھی، خط لکھنے تھے۔۔۔ اللہ کے ناموں اور اس کی آیات کی خوبصورتی نہیں بیان کرنا تھی۔ اس سے باتیں کرنا تھیں اور باتوں کا وہ سلسلہ ترکی سے پاکستان آکر رک گیا تھا۔ کئی مہینے رکا رہا تھا اور پھر دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔ وہ تنہا رہ گیا تھا اور اداس بھی اور ناخوش بھی اور ناراض بھی اور اس کے پاس اللہ کو لکھنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ پہلے اس کے خطوں میں شکوے اور شکایتیں نہیں ہوتی تھیں صرف ضرورتیں ہوتی تھیں۔ اب ضرورتیں پوری ہو گئی تھیں تو ان کی جگہ شکووں اور شکایتوں نے لے لی تھی۔ مگر مومن کو اللہ سے کوئی شکوہ نہیں تھا۔ اس کے سارے شکوے حسنِ جہاں سے تھے۔ اس کی ممی سے۔
٭…٭…٭
وہ بڑی احتیاط سے گھر کے مین دروازے سے عقبی لان میں نکلا تھا۔ وہاں ایک درخت پر اس نے وہ لیٹر باکس کچھ ہفتوں پہلے ہی اس طرح رات کو لٹکایا تھا تاکہ کسی کو اس کے بارے میں پتا نہ چل سکے۔ عقبی لان کی باڑھ کے پار سوئمنگ پول کے گرد اس وقت وہ پارٹی جاری تھی جس کا شور اس کے کمرے تک آرہا تھا اور باہر لان میں وہ شور بہت بڑھ گیا تھا۔
قلبِ مومن کو اس باڑھ کے سامنے سے گزر کر لان کے آخر میں آم کے اس درخت تک جانا تھا جس پر اس نے وہ لیٹرباکس لٹکایا ہوا تھا۔ اس قد آدم باڑھ کے سامنے سے گزرتے ہوئے مومن نے باڑھ کے درمیان جگہ جگہ چھوٹے بڑے سوراخوں سے پول کے اردگرد موجود مردوں اور عورتوں کو شراب کے گلاس پکڑے، جھومتے دیکھا وہ وہاں رکا نہیں۔
آم کے درخت کے نیچے اندھیرا تھا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا لفافہ اپنے دانتوں میں دبا لیا اور درخت پر چڑھنے لگا۔ اسے اس پر چڑھنے کی اچھی خاصی پریکٹس ہو گئی تھی۔ وہ چند ہی منٹوں میں درخت کی ایک اونچی والی شاخ پر تھا اور اس شاخ پر بیٹھ کر اس نے سوئمنگ پول کے دوسری جانب دیکھا۔ وہاں بہت سارے مرد اور عورتیں جھوم رہی تھیں لیکن ناچنے والی عورت صرف ایک تھی اور وہ حسنِ جہاں تھی۔ تیز بے ہنگم موسیقی کے ساتھ ناچتے ہوئے وہ مومن کو بہت بری لگی اور اس نے اس سے نظریں چرائیں اوراپنے سر پر موجود ایک دوسری شاخ کے ساتھ بندھے لیٹر باکس میں اپنے منہ میں دبا لفافہ نکال کر ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اس کا پاوؑں یک دم سلپ ہوا۔ اس نے شاخ پکڑ کر سنبھلنے کی کوشش کی۔ وہ ناکام ہوا اور پھر خوف کے عالم میں اس نے اپنے آپ کو اس اوپر کی شاخ سے نیچے گرتے پایا۔ اس نے بے اختیار ایک چیخ ماری تھی۔ زمین پر گرتے ہوئے اس نے ہوا میں اڑتے اس لفافے کو دیکھا جو ایک لمحہ کے لیے باہر گیٹ پر لگی روشنیوں میں آسمان سے نیچے گرتا نظر آیا تھا اور پھر قلبِ مومن کو ہوش نہیں رہا تھا۔
٭…٭…٭
اس کی آنکھ جب دوبارہ کھلی تو وہ اپنے بستر میں تھا اور اس کا بازو ایک پلاسٹر میں لپٹا ہوا تھا۔ درد کی ایک لہر اس کے بازو میں اٹھی تھی مگر اس سے زیادہ گہری وہ شرمندگی تھی جو اسے حسنِ جہاں کو اپنے اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے ان خطوں کو پڑھتے دیکھ کر ہوئی تھی۔
”آپ نے میرے لیٹرز کیوں پڑھے؟ یہ آپ کے لیے نہیں تھے۔” وہ بے اختیار ماں پر خفا ہوا تھا اور اس کی آواز پر کرسی پر بیٹھی حسنِ جہاں نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جس نے قلبِ مومن کے غصے اور خفگی کو پل بھر میں غائب کیا تھا۔
”تم دادا کے پاس جانا چاہتے ہو؟” وہ کرسی سے اٹھ کر اس کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔
”نہیں۔ میں بابا کے پاس جانا چاہتا ہوں۔” اس نے لیٹے لیٹے ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
وہ اسے دیکھتی رہی پھر اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ”تم ان کے پاس نہیں جا سکتے۔”
”وہ تو آسکتے ہیں۔” قلبِ مومن نے بے ساختہ کہا تھا۔
”وہ بھی نہیں آسکتے۔” اسے گمان ہوا اس نے حسنِ جہاں کی آنکھوں میں پانی دیکھا تھا۔ پانی ہی ہو سکتا تھا آنسو تو نہیں ہو سکتے تھے۔
”کیوں نہیں آسکتے؟” وہ بے چین ہوا۔
”اس لیے نہیں آسکتے کیوں کہ آپ سے ایک غلطی ہوئی ہے اور وہ آپ کو معاف نہیں کر سکتے۔” مومن کو جیسے کئی بار دہرائی بات یاد آئی۔
حسن جہاں نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تمہارے بابا اللہ کے پاس چلے گئے ہیں۔”
”مجھے پتا ہے اسی لیے میں نے اللہ کو لیٹرز لکھے ہیں۔” قلبِ مومن نے بھی اسی اطمینان سے کہا تھا۔
وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے مومن کا وہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تھا جو پلاسٹر میں جکڑا ہوا نہیں تھا۔
”تم بابا کو ستارہ بنتے دیکھتے تھے نا؟ تمہارے بابا واقعی ستارہ بن گئے ہیں۔ آنہیں سکتے وہ اب ہمارے پاس۔” قلبِ مومن نے اس کی آواز بڑی دقت سے سنی تھی۔ وہ بہت مدھم آواز میں بول رہی تھی یوں جیسے وہ یہ سب کہنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ دہرانا بھی نہیں چاہتی تھی۔
”ہم بھی نہیں جا سکتے؟” قلبِ مومن الجھا۔
”تم نہیں۔ شاید میں چلی جاوؑں۔” اس نے ماں کو کہتے سنا، وہ یک دم خوف کے عالم میں اٹھ کر ماں سے لپٹا تھا۔ حسنِ جہاں سے نفرت کرنے کے باوجود ناراض اور خفا ہونے کے باوجود۔
”میں آپ کو کبھی جانے نہیں دوں گا۔” وہ حسنِ جہاں سے لپٹ کر کہتا جا رہا تھا۔
”تم دادا کے پاس چلے جاؤ مومن۔” وہ اس سے کہہ رہی تھی۔ مومن اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا مگر اندازہ کر سکتا تھا۔ وہ اس بار آنسو بہا رہی تھی، پانی نہیں۔
”نہیں، میں دادا کے پاس نہیں جاؤں گا، آپ کے ساتھ رہوں گا۔” اس نے ماں سے وعدہ کیا تھا یا شاید اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا۔
٭…٭…٭
”کوئی جواب آیا؟”
”نہیں۔”
”میں نے پہلے ہی کہا تھا۔”
”تم کو یقین ہے وہ خط اللہ کو مل گئے ہوں گے؟”
”ہاں مل تو گئے ہوں گے اللہ کو سب مل جاتا ہے۔”
”کتنے خط بھیجے ہیں تم نے اللہ کو؟”
‘تیس۔”
”یہ تو بہت سارے ہیں۔”
”اللہ کو جواب تو دینا چاہیے۔”
”ہاں ٹیچر کہتے ہیں، اللہ سب کی سنتا ہے اور سب کو جواب بھی دیتا ہے۔” مومن نے اس بار بے حد یقین سے کہا تھا۔ وہ اس دن اسکول کے گراوؑنڈ میں اپنے دو قریبی دوستوں کے ساتھ بیٹھا اپنا یہ راز شیئر کر رہا تھا جو وہ عام طور پر نہیں کرتا تھا اور وہ دونوں بچے بے حد پرجوش اور متاثر ہوئے تھے ان خطوں کے بارے میں بات کر رہے تھے جو مومن نے اللہ کو بھیجے تھے۔
”تم لوگ کسی کو بتانا مت۔” ان سے بات کرتے کرتے مومن کو ہر بار کی طرح انہیں خبردار کرنا یاد تھا۔ دونوں نے بیک وقت نفی میں سرہلا کر اس سے راز نہ کھولنے کا وعدہ کیا تھا۔
”مومن اگر اللہ نے کبھی بھی جواب نہ دیا تو؟” ان دونوں بچوں میں سے ایک بچی ردا نے اس سے پوچھا تھا۔
”وہ ضرور دیں گے۔” مومن نے بے حد یقین اور اعتماد سے کہا تھا۔
”ہاں مومن! لیکن اگر جواب نہ آیا تو؟” اس بار دوسرے بچے بلال نے بھی جیسے اس بچی کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
”پھر میں اللہ سے خفا ہو جاوؑں گا۔” مومن نے یک دم اپنا پلاسٹر میں لپٹا بازو گود میں رکھتے ہئے کہا۔
”اور خفا ہو کر پھر تم کیا کرو گے؟” ردا کو پھر تجسس ہوا۔ قلبِ مومن ان کے لیے پراسرار چیز تھا۔
”میں دوبارہ اللہ کو کبھی خط نہیں لکھوں گا۔” اس نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔دونوں بچوں کو جیسے تسلی نہیں ہوئی۔
”بس؟” ردا نے دوبارہ پوچھا۔
”ہاں اور میں نماز بھی نہیں پڑھوں گا۔ دعا بھی نہیں کروں گا۔” مومن نے جیسے مزید بتایا۔
”بس؟” ان بچوں کی جیسے ابھی بھی تسلی نہیں ہو پا رہی تھی۔
”اور ہمیشہ جھوٹ بولوں گا اور برے کام کروں گا۔” مومن نے اس بار پہلے سے بھی زیادہ سنجیدگی سے کہا۔
ردا اور بلال نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر ردا نے بڑی ہمدردی سے اپنے لنچ باکس میں سے لنچ کھاتے ہوئے اس سے کہا۔
”میں دعا کروں گی، تمہارے لیٹر کا جواب ضرور ملے۔”
ردا نہ بھی کہتی تو بھی مومن کو یقین تھا، اسے اللہ تعالیٰ خط کا جواب ضرور دیں گے۔ وہ دیر کر سکتے ہیں ،لیکن اسے نظرانداز نہیں کرسکتے تھے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});