الف — قسط نمبر ۰۴

رات کی تاریکی میں ترکی کے اس علاقے میں آس پاس کے گھنے سبزے کے درمیان وہ چھوٹا سا بے حد پرانا لکڑی کا دو منزلہ گھر کسی جگنو کی طرح چمک رہا تھا۔ وہ اس علاقے کے سب سے پرانے گھروں میں سے ایک تھا۔
عبدالعلی اس رات کینوس پر ایک نئی آیت پینٹ کرنے والے تھے اور اس وقت وہ وضو کر رہے تھے بے حد ٹھہر ٹھہر کر۔ یہ بھی ان کی ایک روٹین تھی۔ وہ خطاطی ہمیشہ باوضو حالت میں کرتے تھے۔ فون کی پہلی گھنٹی پر انہیں جیسے پتا چل گیا تھا۔ فون کرنے والا کون تھا۔
”السلام علیکم۔” قلبِ مومن کے لہجے میں عجیب سی ندامت تھی۔
”وعلیکم السلام۔” عبدالعلی نے بے حد محبت سے کہا۔
”میں نے آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا۔”
”بالکل بھی نہیں۔ کیسے ہو تم؟” انہوں نے مومن سے پوچھا۔
”ویسے کا ویسا ہوں یعنی بُرا۔ آپ کیسے ہیں؟” اس نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔
”الحمدللہ۔” عبدالعلی نے اس کے جملے پر تبصرہ نہیں کیا۔
”آپ ناراض تو نہیں؟” مومن نے فوراً ہی پوچھ لیا تھا۔
”نہیں۔” عبدالعلی مسکرائے۔
”جانے سے پہلے مل کر نہیں گئے۔” مومن نے گِلہ کیا۔
”تم مصروف تھے۔”
”آپ کے لیے تو نہیں تھا۔ مجھے لگا، آپ ناراض ہو کر گئے ہیں۔” وہ مدھم آواز میں کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”ناراض ہو کر کیوں جاتا۔” عبدالعلی کا لہجہ ویسا ہی ملائم تھا۔
”میرا اور آپ کا آرگومنٹ ہوا تھا۔ شاید میں نے کچھ ایسا بھی کہہ دیا تھا جو میرا مطلب نہیں تھا۔ اس لیے بس۔ بعد میں سوچا تو۔ خیر۔” قلبِ مومن اٹکتے ہوئے وضاحت کر رہا تھا۔ ساری زندگی اس نے کبھی کسی سے معذرت تو درکنار اپنے رویے کی وضاحت بھی نہیں کی تھی تو اٹکتا نہ تو کیا کرتا۔
”مجھے خوشی ہے، آپ ناراض نہیں ہیں۔” اس نے جیسے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا تھا۔
”تم نے ایسی کوئی بات نہیں کی کہ مجھے غصہ آتا۔ غصہ دلانے والی ساری باتیں تو میں نے کی تھیں۔”
عبدالعلی اپنے کمرے میں ایزل اور کینوس رکھتے ہوئے ساتھ اس سے بات بھی کر رہے تھے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ باتیں تو ساری غصہ دلانے والی ہی ہیں آپ کی۔ اور زندگی میں پہلی بار کی ہیں آپ نے ایسی باتیں۔” مومن نے فوراً ہی اتفاق کیا۔
”پھر تم نے سوچا ان باتوں کے بارے میں؟” انہوں نے پوچھا تھا۔
”بالکل بھی نہیں۔ سوچنے والی کوئی بات تھی ہی نہیں ان میں۔ دادا! میں کوئی غلط کام نہیں کر رہا۔ میں اپنی لائف پر، اپنے کام پر، اپنیachievements پر بہتproud feel کرتا ہوں۔” وہ یک دم سنجیدہ ہوا۔
”کام غلط نہیں ہے۔ سمت غلط ہے۔” اس نے عبدالعلی کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”دادا! میں آپ سے کہوں، آپ اپنا کام چھوڑدیں۔ آپ چھوڑیں گے؟ میں آپ سے کہوں آپ کا کام بُرا ہے۔ آپ مانیں گے؟ میرا اور آپ کا نظریاتی اختلاف ہے دادا۔ آپ زندگی کے بارے میں میرا نظریہ نہیں بدل سکتے۔” وہ کہہ رہا تھا دوٹوک انداز میں۔
”میں نہیں بدل سکتا مومن۔ اللہ تو بدل سکتا ہے۔” انہوں نے مدھم آواز میں کہہ کر جیسے اس کی طنابیں کھینچی تھیں۔
”آپ مجھے پریشان کر رہے ہیں دادا۔” وہ زچ ہوا، اکھڑا، خفگی کے عالم میں اس نے فون بند کر دیا تھا۔ عبدالعلی ایسے نہیں تھے جیسے اب ہو رہے تھے۔
”دادا کو کیا ہو گیا ہے۔” اس نے پریشانی سے سوچا تھا۔ مگر وہ ان کی کسی بات پر غور نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”انسان عمر کے اس حصے میں آکر ایسا ہی ہو جاتا ہے۔ مذہب، مذہب، نصیحتیں، نصیحتیں۔” اپنی آستینوں کے بٹن کھولتے ہوئے اس نے اُس بے قراری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جیسے خود سے کہا۔ جو دادا کے کچھ جملوں نے اُسے دی تھی۔
٭…٭…٭
”ماسٹر صاحب! میں ایک بات سوچ رہا ہوں۔” اس نوجوان لڑکے نے وہ ڈبہ کھولتے ہوئے ماسٹر ابراہیم سے کہا۔ وہ ان کے پاس آنے والے بہت سے لڑکے لڑکیوں میں سے تھا۔
”کیا؟” برآمدے میں بیٹھے اپنے کام میں مصروف ماسٹر ابراہیم نے کہا۔
”اگر یہ کام ہم نہ کر رہے ہوتے تو کیا ہوتا؟”
”تو پھر کوئی اور ہماری جگہ بیٹھا ہوتا یہ کام کرنے کے لیے۔ اللہ کا کام ہے اور اللہ کے پاس اپنے کام کروانے کے لیے بندے بہت۔” انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھے بغیر کہا۔
”یہ تو ٹھیک کہا آپ نے۔” اس لڑکے نے بے اختیار تائید کی۔ ”لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کو پتا کیسے چلتا ہے اس جگہ کا اور آپ کا؟” کہاں کہاں سے پرانے بوسیدہ قرآن پاک کے نسخے آرہے ہیں۔ آج جو ڈبہ آیا ہے، وہ چارسدہ سے آیا ہے۔” وہ اس کارٹن پر لگے ایڈریس کو دیکھتے ہوئے کہہ رہاتھا جسے اس نے ابھی کھولا تھا۔
”اللہ خبر دیتا ہے۔ اب لاکر بٹھایا ہے اس کام کے لیے تو کام بھی تو بھیجے گا نا۔” ماسٹر ابراہیم ہنسے تھے۔
”میں چلتا ہوں اب۔ آج ویزا کے لیے اپلائی کرنا تھا۔ دعا کریں ویزا لگ جائے۔” وہ لڑکا اپنا کام سمیٹ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ماسٹر ابراہیم نے اسے دیکھے بغیر کہا۔
”اس سال نہیں لگے گا۔ اس لیے پیسے ضائع نہ کرو۔ اگلے سال جانا۔ تب تک کوئی آجائے گا میرے پاس تمہاری جگہ۔”
لڑکا ان کی بات پر گڑبڑا کر ہنسا۔ ”چلیں آپ نے تو بات ہی ختم کر دی۔ خدا حافظ۔”
”خداحافظ۔” ماسٹر ابراہیم نے اسے جاتے ہوئے اور مومنہ کو آتے ہوئے دیکھا تو بے ساختہ بولے۔
”تم کہاں غائب ہو جاتی ہو مومنہ؟” مومنہ نے جواباً مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں سلام کیا۔
انہوں نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
”لاہور سے کب آئیں واپس؟”
وہ اب برآمدے میں بیٹھ رہی تھی۔
”بڑے دن ہو گئے۔” اس نے کہا پھر اٹھ کر شیلف سے اپنا قرآن اور کام نکال لائی۔
”سب ٹھیک رہا؟” ماسٹر ابراہیم کو وہ بہت کمزور لگی۔
”ہاں۔ مجھے فلم مل گئی۔” اس نے دوبارہ فرش پر بیٹھتے ہوئے قرآن پاک کے وہ صفحے نکال لیے جن کی وہ درستی کے لیے خطاطی کر رہی تھی۔
”بہت مبارک ہو۔ بڑی خوشی کی خبر ہے یہ تو۔” مومنہ نے جھک کر خالی کاغذ پر ایک لکیر کھینچی جیسے قلم کی نوک چیک کر رہی ہو۔
”پتا نہیں۔” وہ ایک لحظہ کے لیے رکی۔
”جہانگیر کیسا ہے؟” ماسٹر ابراہیم نے چند لمحوں بعد پوچھا۔
”وہ مر گیا۔” اس نے سرجھکائے جھکائے ان کا چہرہ دیکھے بغیر کہا۔
”تم نے بتایا ہی نہیں، میں اس کا جنازہ پڑھنے آتا۔ مجھے بڑا افسوس ہوا ہے مومنہ بیٹی۔” ماسٹر ابراہیم کو واقعی صدمہ ہوا تھا۔ وہ اسی طرح بے تاثر چہرے کے ساتھ سرجھکائے کام کر رہی تھی۔
”چپ کیوں ہو؟” انہوں نے اس سے پوچھا۔ اس کی خاموشی انہیں تکلیف دہ محسوس رہی تھی۔ وہ سرجھکائے بہت دیر کچھ لکھتی رہی پھر اس نے سر اٹھایا۔
”آپ سے آزمائش ختم ہونے کی دعا کی تھی۔ جہانگیر کے ختم ہونے کی خواہش تو نہیں کی تھی۔” اس کی آواز بھرائی۔ آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے۔ اس نے رگڑنے کی کوشش کی یوں جیسے انہیں چھپانا چاہتی ہو۔
”رو لو۔ روئی نہیں ہونا۔” ماسٹر ابراہیم نے مرہم جیسے لہجے میں اس سے کہا۔
”جہانگیر ختم ہو گیا۔ آزمائش ختم نہیں ہوئی۔ بال بال قرض میں جکڑا ہے میرا۔ میں نے کیا رونا ہے ماسٹر صاحب۔ درد میرے سارے آنسو پی گیا ہے۔”
اس نے گہرا سانس لیا یوں جیسے رکے ہوئے سانس کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔
”میں صبح اٹھتی ہوں تو لگتا ہے، مجھے اس کو ہاسپٹل لے کر جانا ہے۔ پھر یاد آتا ہے، وہ تو ہے ہی نہیں۔ ابا اور اماں کی کمر ٹوٹ گئی ہے، وہ ہر وقت روتے رہتے ہیں اور میں۔ میں ڈھیٹ ہو گئی ہوں۔ کھانا کھاتی ہوں۔ پانی پیتی ہوں۔ سوتی ہوں۔ سارے کام کرتی ہوں بس روتی نہیں۔ میں کتنی ڈھیٹ ہوں۔” اس نے عجیب انداز میں ماسٹر ابراہیم کو دیکھا۔ اس کے آنسو واقعی لمحوں میں خشک ہوئے تھے۔
”اللہ نے تمہیں صبر دیا ہے۔” ماسٹر ابراہیم نے کہا۔
”بہت زیادہ دے دیا ہے۔” مومن نے کہا۔ ”مومنین پر آزمائشیں آتی ہیں۔ اجر بھی بڑا ہے۔”
”میں گناہ گار ہوں۔ کہاں کی مومن۔ کہاں کا اجر؟”
”مومنہ نام ہے تمہارا۔ گناہ گار کیسے ہو سکتی ہو تم؟ اور اجر کا تو اللہ کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے۔ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں جاتا۔ زبان کا بڑا پکا ہے میرا رب۔” انہوں نے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی تھی۔
”میں نے آج تک کبھی کوئی کام اجر کے لیے کیا ہی نہیں۔ نیکی بھی کی ہے تو اپنے آپ کو گناہ گار سمجھ کر کی ہے۔” وہ جیسے ماسٹر ابراہیم سے متفق نہیں ہوئی تھی۔
”اجر کیا ہو گا اب میرے لیے ماسٹر صاحب۔ جہانگیر کے بعد۔ دنیا کی کوئی شے نہیں جو میرا دل آباد کر دے۔ میرے ماں باپ کا غم ختم کر دے۔ کوئی اجر تھا بھی نا میرے لیے تو میرے گناہ کھا گئے اسے۔” اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
”تم بہت اچھی روح والی لڑکی ہو مومنہ سلطان۔”
”اچھی روح؟” وہ نم آنکھوں کے ساتھ ہنسی۔ ”آپ مجھے نہیں جانتے ماسٹر صاحب۔ آپ شرمندہ کر رہے ہیں مجھے۔”
”ہم میں سے کوئی کسی کو نہیں جانتا مگر رب خوب جانتا ہے۔ آوؑ جہانگیر کے لیے دعا کریں۔” انہوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے تھے۔ مومنہ انہیں دیکھنے لگی۔
٭…٭…٭
ماسٹر ابراہیم کے گھر سے واپسی کے پورے راستے وہ ان کے جملوں کے بارے میں سوچتی رہی۔
”اجر تو اللہ کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں جاتا۔ زبان کا بڑا پکا ہے میرا رب۔”
ان کے جملے اس کے کانوں میں گونجتے رہے اور سفر کرتے ہوئے اس نے سوچا، وہ کون سی چیز تھی جو اسے ملتی تو وہ اسے اپنا اجر سمجھتی۔ اس کے ذہن کی اسکرین پر ایک ہی نام اور چہرہ آیا تھا اور اس نے اسے اپنے ذہن سے جھٹک دیا تھا۔ وہ ناممکنات پر یقین نہیں رکھتی تھی۔
اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہوئے اس نے اندر سے آتی ایک آواز سنی تھی اور اسے ناممکنات پر یقین آگیا تھا وہ جسے اپنا اجر سمجھتی، وہ اس کے گھر پر موجود تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۳

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!