وہ رات دیر سے گھر آیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ دادا سو چکے ہوں گے۔ شکور نے دروازہ کھولا۔
”کھانا دے دو مجھے۔’ذ وہ اتفاقاً اس رات کھانا نہیں کھا سکا تھا ورنہ اتنی رات کو ہمیشہ کھانا کھا کر گھر آتا تھا۔
”ہاہ۔ آپ کھانا کھائیں گے۔ وہ تو میں نے بنایا ہی نہیں۔” شکور نے بے اختیار منہ پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔
”کیوں دادا کو نہیں دیا؟” مومن نے پوچھا تھا۔
”دادا تو چلے گئے۔” شکور نے اسی سانس میں کہا۔ مومن اندر جاتے جاتے ٹھٹھک گیا۔
”کیا مطلب کہاں چلے گئے؟”
”واپس ترکی۔ ان کی فلائٹ تھی آج۔ آپ کہ یہ بھی نہیں پتا؟” شکور نے اس کے چہرے سے جیسے اندازہ لگایا۔
”تم نے مجھے نہیں بتایا۔” مومن کو اس کے سوا کوئی جواب نہیں سوجھ پایا تھا۔ ایک عجیب سی پشیمانی نے اسے آن گھیرا تھا۔
”مجھے لگا، آپ کو خود پتا ہو گا۔ مجھے کہا ٹیکسی منگوا دو۔ میں نے فٹ سے کریم منگوائی ایپ ڈاوؑن لوڈ کر رکھی تھی۔ کرولا پر بھیجا ہے دادا جی کو۔” شکور نے فخریہ مومن کو بتایا۔ مومن کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر کچھ کہے بغیر اپنے کمرے کی طرف مڑ گیا۔
”اب بھی کھانا کھائیں گے؟” شکور نے پیچھے سے آواز دی۔
”نہیں۔” مومن نے کہا۔
”شکر ہے کھانے کے چکرمیں شورہ جانا تھا میرا۔” شکور کے سر سے جیسے بلا ٹلی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ اپنے کمرے میں جا کر بیٹھا رہا پھر اٹھ کر دادا کے کمرے میں آگیا۔ دروازہ بند کر کے اس نے لائٹ آن کی۔ کمرہ یک دم روشن ہوا۔ وہاں ایک عجیب سا سکون تھا۔ فرش پر وہ مصلیٰ ویسے ہی بچھا ہوا تھا بس اس کا ایک کونہ مڑا ہوا تھا۔ اس کی سالگرہ پر دی جانے والی کیلی گرافی دیوار پر لٹکی ہوئی تھی۔
وَاَنّ اللّٰہ مَعَ المومِنِین۔
وہ پچھلے چھے سالوں سے ہر سالگرہ پر اسے کوئی نہ کوئی آیت خطاطی کر کے دے رہے تھے۔ وہ انہیں ایک نظر دیکھ کر رکھ دیتا تھا۔ سوائے اس پہلی کیلی گرافی کے جو اس نے لاوؑنج میں لگا رکھی تھی۔ بہت دیر وہاں کھڑا وہ اس آیت کو دیکھتا ہا پھر اس کی آنکھوں کے سامنے وہی سین چلنے لگا تھا۔ رات کے اس پچھلے پہر دادا کا اس مصلّے پر سجدے میں رونا۔
”اے اللہ! میرے مومن کو سیدھا راستہ دکھا۔ اسے صراط مستقیم پر چلا۔”
قلبِ مومن دیوار پر لگے اُس فریم کے سامنے سے ہٹا یوں جیسے یہ سب وہ سر سے جھٹک دینا چاہتا تھا۔ کان بند کر لینا چاہتا تھا۔ مگر اس کمرے میں آتے ہی دادا کی ساری باتیں گونج بنج کر اس کے گرد پھرنے لگی تھیں۔
”تم خوش ہو؟”
”بہت بہت زیادہ۔ بے تحاشا۔”
”لگتے کیوں نہیں۔”
قلبِ مومن نے لائٹ آف کر دی۔ وہ اس آواز کی بازگشت سے فرار چاہتا تھا۔
٭…٭…٭
وہ اُس رات ٹھیک سے سو نہیں سکا۔ وہ زندگی میں پہلی بار اس سے ناراض ہو کر گئے تھے یا شاید پہلی بار اس نے ان سے اتنے سخت لفظ بولے تھے۔
ناشتہ کی میز پر بھی اس کا دھیان بار بار ان کی طرف جاتا رہا۔ وہ اخبار دیکھ رہا تھا اور شکور اسٹور روم سے وہ سارے مجسمے نکال نکال کر دوبارہ لاوؑنج میں انہیں ان کی جگہوں پر رکھتے ہوئے جھاڑ پونچھ کر رہا تھا۔
”دادا جی تھے تو صفائی کا کام کتنا کم ہو گیا تھا۔ ساری چیزیں اسٹور میں پڑی رہتی تھیں۔ اب پھر جھاڑ پونچھ ہو گی۔” شکور ایک مجسمہ کنسول پر رکھتے ہوئے کچھ بے زاری سے بڑبڑایا اور پھر اسی بڑبڑاہٹ میں مومن نے اسے کہتے سنا۔
”پتا نہیں کیا پڑھ پڑھ کر پھونکتے رہتے تھے۔”
مومن متوجہ ہوا۔ ”کون؟”
”دادا جی۔ کونوں دیواروں میں۔ اور آپ پر بھی تو پھونکتے تھے۔” شکور نے فوراً بتایا۔
”مجھ پر؟” مومن چونکا۔
”ہاں۔ دوبار تو میں نے خود انہیں دیکھا۔آپ کو جگانے جاتے تھے اور جگائے بغیر آجاتے تھے۔ دادا جی بڑا پیار کرتے تھے آپ سے۔ مومن ہیں بالکل۔ مطلب اصلی والے۔ آپ کا تو صرف نام ہے۔”
شکور نے روانی میں جو کہا تھا۔ اسے شاید خود بھی اپنے جملے کی گہرائی اور اثر کا اندازہ نہیں تھا مگر مومن کو اس کے آخری جملے نے جیسے کچھ چبھو یا تھا مگر شکور سے وہ کیا بحث کرتا۔
”تم سے میرے بارے میں کچھ پوچھتے تھے؟”
”کیا؟” مومن کے سوال پر شکور چونکا۔
”کچھ بھی؟” مومن خود بھی نہیں جان پایا وہ کس چیز کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا تھا۔
”ہاں، پوچھتے تھے کہ آپ کب آئیں گے جب آپ رات کو لیٹ ہوتے تھے تو۔” شکور نے روانی سے کہا۔ مومن کو جیسے تسلی نہیں ہوئی۔
”کسی اور چیز کی بات کر رہا ہوں میں۔ میرے بارے میں کچھ اور پوچھتے تھے؟ لڑکیوں سے دوستی وغیرہ کے بارے میں؟ یا میرے دوستوں کے بارے میں؟” مومن نے بالآخر کھل کر کہا۔
”نہیں جی۔ دادا جی کو تو سوال کرنے کی عادت ہی نہیں تھی۔ یہ سب سے اچھی عادت ہے ان کی۔ بس میری ہی باتیں سنتے رہتے تھے ہر وقت اور آپ کو تو پتا ہے آپ کے بارے میں کبھی بات ہی نہیں کرتا۔” شکور نے بے حد محتاط انداز میں اس سے کہا تھا، وہ اس کے سوالوں سے کچھ ڈرا تھا۔
مومن نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وہ چپ چاپ کے اُس کپ کو دیکھتا رہا جس میں وہ چائے پی رہا تھا اور جو ابھی آدھا بھرا ہوا تھا۔ پھر وہ اسی طرح اٹھ کر چلا گیا۔ اسے جاتے دیکھ کر شکور نے معنی خیز انداز میں تبصرہ کیا۔
”لگتا ہے پچھتا رہے ہیں۔”
٭…٭…٭
”ہیلو ٹینا!” نیہا اُس وقت ضوفی کے ساتھ اس کی گاڑی میں تھی جب ضوفی کے فون پر ٹینا کا نام چمکا تھا۔
”ہائے ضوفی۔ آپ کا انویٹیشن کارڈ تھا میرے پاس۔ قلبِ مومن کی اگلی فلم کی اناوؑنسمنٹ کی تقریب ہے۔” ضوفی نے دھڑکتے دل کے ساتھ ٹینا کو اسپیکر پر لیا تاکہ نیہا بھی اس کی بات سن کے۔
”اچھا تو کاسٹ فائنل ہو گئی؟ کیا کاسٹ ہے؟” ضوفی نے لہجہ بے حد نارمل رکھتے ہوئے پوچھا۔
”آپ کے لیے سرپرائز ہے۔ مومن خود ہی آپ سے بات کریں گے لیکن آپ کا آنا لازمی ہے۔” ٹینا نے ہنستے ہوئے کہا۔ ضوفی نے بے یقینی سے نیہا کو دیکھا۔ اس نے مکا ہوا میں جوش میں لہرایا تھا۔
”Sure…Sure۔ آپ واٹس ایپ بھی کر دیںI will be there۔”
”میں ابھی کر رہی ہوں۔ کنفرم کر کے اوکے کر دیں۔” ٹینا نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
”Ohh my God۔ اس نے مجھے شامل کیا ہے۔”
اس نے بے اختیار نیہا سے کہا تھا۔
”میں نے کیا کہا تھا تم سے۔” نیہا نے فخریہ انداز میں اس سے کہا۔ ”وہ مجھے انکار نہیں کر سکتا۔” وہ ہنس رہی تھی۔ ”میں بہت ایکسائیٹڈ ہو رہی ہوں۔ تم اسٹار بننے جارہے ہو۔ تمہاری وارڈ روب میں کروں گی۔” نیہا نے اسے ہلکے سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
”بالکلmy love۔ یہ سب تمہاری ہی وجہ سے ہے۔ اپنا پہلا ایوارڈ تمہارے نام کروں گا میں۔” ضوفی نے بھی جواباً اس کے گال پر بوسہ ثبت کیا تھا۔
”اور دوسرا؟” نیہا نے بڑے ناز سے پوچھا۔ ”دوسرا تیسرا۔ سارے۔” ضوفی نے ڈرائیو کرتے ہوئے کہا۔
”اب ٹینا مجھے کال کر رہی ہے انوائٹ کرنے کے لیے۔ اور مجھے اتنے دنوں سے ٹینشن تھی کہ پتا نہیں کیا ہو گا کہیں بغیر مجھے انوائٹ کیے ہی اناوؑنسمنٹ نہ ہو جائے۔”
اس نے ضوفی سے بات کرتے ہوئے ٹینا کی کال لی تھی اور بڑے میٹھے لہجے میں اس سے کہا تھا۔ ”ہائے ٹینا۔”
٭…٭…٭
قلبِ مومن کہیں جانے کے لیے اپنے بیڈروم میں تیار ہو رہا تھا۔ جب اس کا سیل فون بجا۔ نیہا کا نام دیکھ کر اس نے کال ریسیو کی۔ ”ہیلو۔”
اُس کی ‘ہیلو’ کا جواب نیہا نے بے حد رومانٹک انداز میں دیا۔
”I love you Janu” وہ جواباً مسکرایا۔
”I love you too”
”You are the best” نیہا نے اپنی آواز کو مزید میٹھا کرتے ہوئے کہا۔
”Yes I know.” مومن نے جواباً اسی انداز میں کہا تھا۔ نیہا ہنسی۔
”مجھے پتا تھا، تم میرے لیے کچھ بھی کر سکتے ہو۔”
”تمہاری expectation پر پورا اترنا میرے لیے اعزاز ہے۔” مومن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اوہ مومن!ٰI love you” نیہا نے اٹھلاتے ہوئے کہا۔
”تم آرہی ہو نا کل؟” مومن نے اس بار موضوع بدلا۔
”ظاہر ہے اپنی جان کا ایونٹ کیسے مِس کر سکتی ہوں۔”
”کون جان؟” مومن نے عجیب معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”تم اور کون؟” نیہا نے اس کے انداز کو مذاق سمجھا۔
”تمہارے بغیر تو یہ ایونٹ ہو ہی نہیں سکتا نیہا نہ تمہارے بغیر نہ ضوفی کے بغیر۔”مومن کچھ سنجیدہ ہوا تھا۔
”مجھے پتا ہے سرپرائز دینا چاہتے ہو مگر۔ آئی لو سرپرائز۔ ضوفی تمہیں مایوس نہیں کرے گا۔”
”اور میں تم دونوں کو مایوس نہیں کروں گا۔” مومن نے جواباً کہا۔
”ملتے ہیں؟” نیہا نے اس بار بڑے رومانٹک انداز میں اس سے کہا۔ ”اتنے دن ہو گئے، تم کو مِس کر رہی ہوں۔”
مومن نے جواباً اسی انداز میں کہا۔ ”کل ہی مل لیتے ہیں۔ آج میں کہیں جا رہا ہوں۔”
نیہاچونکی۔ ”کہاں؟”
”ایک نئی گرل فرینڈ کے ساتھ۔”
نیہا نے قہقہہ لگایا۔ ”ہو ہی نہیں سکتا۔”
”مومن پر اتنا اعتماد اچھا نہیں۔” مومن نے عجیب سے لہجے میں کہا تھا۔
”اعتماد نہیں پیار ہے۔” اس نے بہت لاڈ سے کہا۔
”وہ بھی ناقابل اعتبار ہے۔”
”اچھا آج جو چاہے کہہ لو۔ سب معاف ہے تمہیں۔ تم نے اتنی بڑی خوش خبری دی ہے مجھے۔” نیہا نے اس سے کہا تھا۔
”کل اس سے بھی بڑی دوں گا۔ بائے۔”
یہ پہلی بار تھا کہ فون مومن نے رکھا تھا اس طرح بات کرتے ہوئے۔ نیہا کو کچھ کھٹکا تھا۔ ناراض ہے۔ میں منا لوں گی۔ اب اتنا نخرا تو بنتا ہے اس کا۔ اس نے مطمئن انداز میں سوچا تھا۔ وہ مومن کو اچھی طرح جانتی تھی اور یہی اس کی سب سے بڑی غلط فہمی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});