”دادامیں قلبِ مومن ہوں۔”عبدالعلی یک دم ہڑبڑائے یوں جیسے کسی طلسم سے باہر آئے تھے۔
”کیا ہوتا ہے سیدھا راستہ؟” مومن نے دوبارہ ان سے پوچھا تھا۔ وہ اسے دیکھتے رہے پھر مدھم آواز میں بولے۔
”فلاح کا راستہ۔”
قلبِ مومن یک دم اٹھ کر کھڑا ہوا۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”کیا ہوتی ہے فلاح؟ کامیابی نا؟ میں آپ کو دکھاتا ہوں۔ کیا ہوتی ہے فلاح۔ کیا ہوتی ہے کامیابی۔”
اس نے یک دم ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں ساتھ لیے لاوؑنج میں آگیا۔
دیوار پر لگی اپنی ٹرافیوں اور ایوارڈز سے بھرے ریکس کے سامنے کھڑے ہ کر اس نے دادا سے کہا۔ ”یہ ہے فلاح۔”
پھر وہ سینٹر ٹیبل پر پڑے ان میگزینز اور نیوزپیپرز کو باری باری انہیں دکھاتے ہوئے پھینکنے لگا۔ ”یہ ہے فلاح دادا۔” آخری میگزین ٹیبل پر واپس پھینکتے ہوئے اس نے دادا سے کہا۔
”یہ گھر دیکھ رہے ہیں۔ گلاس پینٹ ہاوؑس۔ شہر کا مہنگا ترین علاقہ ہے یہ۔ چند سالوں میں بنایا ہے میں نے۔ چند سالوں میں۔ یہ پورا ملک مجھے جانتا اور پہچانتا ہے۔ ایکٹرز، ایکٹریسز میرے ساتھ کام کرنے کے لیے منتیں کرتی ہیں۔ برانڈز میرے ایک اشارے پر آنکھیں بند کر کے میرے پراجیکٹس پر پیسہ پھینک دیتے ہیں۔ یہ فلاح ہے۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔”
وہ دیوار پر لگے سپراسٹارز کے ساتھ فریم تصویروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ یوں جیسے اس پر پاگل پن کا دورہ پڑا تھا اور دادا وہاں کھڑے یوں اسے دیکھ رہے تھے جیسے سرکس میں مداری اس سدھائے ہوئے جانور کو دیکھ رہا ہو جو یک دم ہتھے سے اکھڑ گیا ہو۔
”جو تم کر رہے ہو۔ وہ بے حیائی ہے۔ بے حیائی میں سب ملتا ہے۔ سب۔ ایسے ہی گھر۔ وہی گاڑیاں جو تم چلاتے ہو۔” وہ مدھم آواز میں کوڑے برسا رہے تھے۔ ٹھنڈی، میٹھی آواز قلبِ مومن کے نظریہ کامیابی کے پرخچے اڑا رہی تھی۔
”وہ برانڈز جو تم پر پیسہ لگا رہے ہیں۔ وہ تم پر پیسہ نہیں لگا رہے۔ اس بے حیائی پر لگا رہے ہیں جسے تم پروموٹ کرتے ہو۔ تم جسم دکھاتے ہو اور جسم کی پرستش کرواتے ہو۔ دنیا تمہارا طواف کیوں نہ کرے مومن۔ کیوں نہ سر پر بٹھائے تمہیں۔”
قلبِ مومن کا چہرہ کس رنگ کا ہوا تھا وہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا۔ سرخ۔ زرد۔ سفید۔ وہ جو بھی رنگت تھی۔ نارمل رنگت نہیں رہی تھی۔
”آپ بہت زیادتی کر رہے ہیں دادا۔ میرے کام کو حقیر اور چھوٹا کہہ کر۔ آپ دراصل مجھ سے حسد کرتے ہیں۔ آپ نے آخر کیا کمایا کیلی گرافی کو اپنی زندگی کے ستر سال دے کر۔ میں آپ سے آدھی عمر کا بھی نہیں ہوں مگر میری کامیابی کا اسکیل دیکھیں۔ دنیا کی ہر آسائش میرے پاس۔ ناموری ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ فین ہیں میرے۔ جان قربان کرنے والے دوست ہیں۔ آپ کے پاس کیا ہے؟”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ بدتمیزی کی حد تک صاف گوئی پر اترا ہوا تھا۔ وہ اپنا رخ اور رنگ دکھا رہا تھا۔ عبدالعلی کو جو اس سے پہلے صرف دنیا نے دیکھا تھا۔
”میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ تم یہی سننا چاہتے ہو نا مجھ سے؟ میرے پاس تمہاری طرح کریڈٹ کارڈز سے بھرا ہوا والٹ نہیں ہے۔ یہ اسمارٹ فون بھی نہیں ہے جو تمہارے پاس ہے۔ دنیاوی اثاثے صفر ہیں۔ کروڑوں لوگوں کی چاہت بھی نہیں ہے میرے پاس۔ نہ مجھے تمہاری دنیا کے نامور لوگ جانتے ہیں مگر قلبِ مومن! مجھے اللہ جانتا اور پہچانتا ہے۔ کیا تمہیں جانتا ہے اللہ۔” قلبِ مومن کو بت بنا دیا تھا انہوں نے آگ کے گولے سے۔ وہ ساکت کھڑا ان کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”یہ آپ کا غرور ہے۔”
”یہ میرا ایمان ہے۔” انہوں نے جواباً کہا۔
”سولہ سولہ گھنٹے اللہ کا نام لکھوں اور یہ خوش گمانی بھی نہ رکھوں کہ وہ مجھے پہچانتا ہے۔ تم کو غرور لگتا ہے، غرور ہی سہی۔” انہوں نے جیسے اسے چیلنج کرتے ہوئے چِت کیا تھا۔
”میں آپ سے بات نہیں کر سکتا۔ آپ واپس چلے جائیں۔ میں اپنی زندگی، اپنی دنیا سے خوش ہوں۔ میں کبھی آپ کی دنیا میں نہیں آوؑں گا۔” وہ بڑی خفگی سے کہتے ہوئے کمرے سے نکل گیا تھا۔
عبدالعلی کھڑے رہے تھے۔ انہیں طہٰ ضد کی تھی ان سے۔ بس ایک ہی بار اور ایسے ہی پلٹ کر گیا تھا پھر دوبارہ نہیں آیا تھا۔
٭…٭…٭
برآمدے میں پڑا سلطان کا وینٹی باکس زندگی میں پہلی بار گرد آلود دیکھا تھا مومنہ نے۔ اس نے دوپٹے کے پلو سے اس مٹی کو پونچھنے کی کوشش کی پھر اسے اٹھا کر اندر کمرے میں لے آئی۔ سلطان اپنے بستر میں منہ سر لپیٹے پڑا تھا۔
”ابا۔ ابا۔” اس کے پاس کھڑے ہو کر وینٹی باکس ہاتھ میں لیے مومنہ نے اسے پکارا تھا۔ سلطان نے چادر ہٹا کر اسے دیکھا۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی۔ بال بے ہنگم۔ آنکھیں سرخ۔ وہ مٹی جو اس وینٹی باکس پر پڑی ہوئی تھی، مومنہ کو اپنے باپ کے چہرے پر بھی دکھی۔ وہ دونوں میں بوڑھا ہوا تھا۔
”آپ کا وینٹی باکس لائی ہوں۔” اس نے لہجہ حتیٰ الامکان رکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب گھر کے باقی دونوں وجودوں کو جیسے فرسٹ ایڈ دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ سلطان نے اس کے ہاتھ سے وینٹی باکس چپ چاپ لے لیا۔
”مٹی پڑی ہوئی تھی ابا۔” مومنہ نے جیسے اس سے باتیں کرنے کی کوشش کی۔
”مٹی تو پتا نہیں کس کس چیز پر پڑ گئی ہے۔” وہ بڑبڑایا تھا اور اس کی بڑبڑاہٹ نے مومنہ کو چپ کرا دیا۔
”اتنے دن ہو گئے، آپ نے حسنِ جہاں کی بات نہیں کی۔” اس کو یک دم وہ موضوع یاد آیا جس پر وہ باپ سے بات کر سکتی تھی۔
”حسنِ جہاں۔” وہ بڑبڑایا۔
”حسنِ جہاں بھی تو مر گئی تھی۔” وہ یک دم کہہ کر رونے لگا، مومنہ کی ساری کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے۔ وہ وہاں رک نہیں پائی۔ باپ کو اس طرح روتے دیکھنا بڑا مشکل کام تھا۔
باہر برآمدے میں ثریا اپنے کندھے کو ہاتھ سے دباتی، تھکی ہوئی چلی آرہی تھی۔
”کندھے کو کیا ہوا اماں؟” مومنہ کو تشویش ہوئی۔
”دُکھ رہاہے۔” ثریا نے کہا۔
”میں دبا دوں، ڈاکٹر کے پاس لے جاوؑں؟” مومنہ نے اس کے کندھے کو ہلکا سا دباتے ہوئے کہا۔
”نہیں، خود ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ ٹھیک ہو جائے گا تو کچھ اور دکھنا شروع ہو جائے گا۔ کس کس چیز کو دبواتی پھروں۔” اس نے عجیب سی بے زاری سے کہا پھر اسی سانس میں اس سے پھر مخاطب ہوئی۔
”میں سوچ رہی تھی تم امریکا نہ جاوؑ۔” اس کا اشارہ فلم کی طرف تھا۔
”کیوں اماں؟” اس نے پوچھا۔
”بس دل گھبراتا ہے۔”
”ایک مہینے کی تو بات ہے۔” مومنہ نے تسلی دی۔ ”فلم رہنے دیتیں۔ اب تو ضرورت بھی نہیں۔ دال، روٹی تو ٹی وی سے بھی چل جاتی۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”ہاں۔ پر۔ پتا نہیں۔ کوئی کام ڈھونڈتی ہوں میں۔ جہانگیر کے ابا سے کہتی ہوں میں۔” اس نے گڑبڑائے ہوئے انداز میں کہا اور پھر یک دم جیسے اندر سے سلطان کے رونے کی آواز سنی۔
”ان کو کیا ہوا؟” وہ بے چین ہوئی۔
”ایک ہی تو وجہ ہے اماں۔” مومنہ نے مدھم آواز میں کہا۔
ثریا نے اس کا چہرہ دیکھا پھر پانی اس کی آنکھوں میں امڈا۔ دوپٹے سے چہرہ ڈھانپتے ہوئے اس نے کہا۔
”میں دیکھوں ذرا۔” وہ کہہ کر اندر چلی گئی تھی۔ مومنہ وہیں کھڑی رہی۔
”پتا نہیں میں اتنی بے حس کیسے ہو گئی ہوں۔ میرے حصے کے آنسو بھی اماں اور ابا ہی بہائیں گے۔” باہر صحن میں پڑے اُس کے فون نے جیسے اس کو چونکایا۔
”یار! فون تو اٹینڈ کر لو اس ایجنٹ کا۔ داوؑد کو پریشان کرنا شروع کر دیا ہے اس نے کالز کر کر کے۔” فون پر اقصیٰ تھی اور اس نے اس کی آواز سنتے ہی کہا تھا۔
”ہاں بس لے رہی ہوں کال۔” اس نے اقصیٰ کو ٹالا۔
”پاسپورٹ چاہیے انہیں تمہارا فوراً۔ ویزہ اپلائی کرنا ہے۔” اقصیٰ نے اس سے کہا۔
”وہ بنوانا ہے ابھی۔” مومنہ نے جواباً کہا۔
”کل چلو میرے ساتھ یہ کام تو نپٹاتے ہیں۔” اقصیٰ نے حل پیش کیا پھر یک دم کہا۔ ”تم فلم چھوڑنے کا تو نہیں سوچ رہیں نا؟”
”یہ آپشن نہیں ہے میرے پاس، چاہوں بھی تو۔ ایڈوانس کی رقم استعمال ہو گئی ہے۔” مومنہ نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔
”ایسے مت کہو یار۔ لائف ٹائمopportunityہے۔ تمہیں یاد ہے کتنی خواہش تھی تمہاری کہ یہ فلم تمہیں مل جائے۔” اقصیٰ نے جیسے اسے جوش دلانے کی کوشش کی۔
”جہانگیر وجہ تھی۔ ”تب” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”تمہیں کیا ہو گیا ہے مومنہ؟” اقصیٰ نے تشویش سے کہا تھا۔
”میں سو نہیں پا رہی۔ دل چاہتا ہے کئی دن کے لیے سو جاوؑں مگر جب سونے کے لیے لیٹتی ہوں تو ان سب کے چہرے آنکھوں کے سامنے آنے شروع ہو جاتے ہیں جن سے قرض لیا ہے۔” اس نے بالآخر جیسے اس سے دل کی بات شیئر کی۔
”اس گلی کے ہر گھر سے قرض لے رکھا ہے ہم نے۔ کچھ پہلے لیا تھا۔ کچھ اب۔ اور پھر جہانگیر کو ہاسپٹل سے لانے کے لیے۔ وہ جو کہتے ہیں نا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ مجھے آج پتا چلا ہے وہ کیسے ہوتا ہے۔” وہ رنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔
”دماغ پر مت سوار کرو یہ سب کچھ۔ اتر جائے گا سارا قرض۔ کون سا ابھی کوئی مانگ رہا ہے۔” اقصیٰ نے تسلی دی۔
”مانگ رہے ہیں۔ یہ غریبوں کا محلہ ہے اقصیٰ! ان سب کو ضرورت ہے اپنے پیسوں کی۔ ابھی ہمدردی میں نرمی سے تقاضا کر رہے ہیں اور پھر سختی سے کریں گے۔” مومنہ نے کہا۔
”تم اتنی حساس مت ہو مومنہ! رولو۔ غبار نکالو اپنے اندر سے۔” وہ اسے اس کے علاوہ اور کوئی حل پیش نہیں کر سکی تھی۔ جانتی تھی مومنہ ٹھیک کہہ رہی۔
”مجھے رونا نہیں آتا اقصیٰ۔ میرے گھر میں دو لوگ پہلے ہی دن رات روتے ہیں۔ میں کیسے رووؑں۔ میرے سامنے ضرورتوں کا پہاڑ کھڑا ہے اور میرے ہاتھ پیر کام نہیں کر رہے۔ اس کو سر کروں تو کیسے کروں۔” وہ اس سے کہہ رہی تھی۔ صرف اسی سے یہ سب کہہ سکتی تھی۔
”یہ فلم کر لو مومنہ! بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔” اقصیٰ نے اسے جواباً کہا۔ وہ چپ چاپ اس کی باتیں سنتی رہی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});