الف — قسط نمبر ۰۴

سفید چادر پر اپنے ہاتھ سے گرنے والی گٹھلیوں کو وہ کسی میکانکی انداز میں دیکھ رہی تھی۔ اپنے ایک گھٹنے کو نیچے رکھے اور دوسرے پر اپنی تھوڑی ٹکائے وہ ایک بازو اسی گھٹنے کے گرد لپیٹے بیٹھی تھی۔ اس کے گھر کے چھوٹے سے صحن میں بچھی سفیدچادر کے گرد عورتیں بیٹھی ہوئیں گپ شپ میں مصروف گٹھلیاں پھینکتی جا رہی تھیں۔ وہ آیت کریمہ کا آخری دور تھا اور اس کے بعد ختم دلوایا جاتا اور پھر کھانا بٹنا شروع ہوتا۔ آج جہانگیر کا سوئم تھا۔
سفید چادر کے درمیان گٹھلیوں کا ڈھیر غائب ہوتے ہی یک دم چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ محلے سے اب انہی عورتوں کے بچے بھی وہیں آنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کے برابر بیٹھی اقصیٰ نے چادر پر پڑے فون کی طرف اس کی توجہ مبذول کروائی جو بار بار تھرتھرا رہا تھا اس پر کاسٹنگ ایجنٹ کا نام چمک رہا تھا۔ مومنہ نے فون کو نہیں چھوا۔ آنکھیں بند کر لیں۔
”اندر عورتوں کو بھی بھیج دو کھانا۔ ارے شرفو! پانی کے دو جگ تو پکڑ۔ اب وہ بھی کیا جھومر ہی لائے گا۔” باہر گلی میں جھومر بلند آواز میں ختم کے بعد بول رہی تھی۔
جھومر باہر گلی سے پرات میں چاول ڈالے پھرتی سے بار بار اندر باہر آجا رہا تھا۔ سفید چادر اب چاولوں کی پلیٹوں سے باہر گرنے والے دانوں سے بھر رہی تھی۔ اس میں بے شمار سلوٹیں پڑ گئی تھیں۔ کچھ چھوٹے بچوں کے مٹی سے بھرے پیروں کے نشان بھی نظر آرہے تھے اور جگہ جگہ گلاسوں سے چھلکنے والا پانی بھی۔ مومنہ سلطان کا گھر اس وقت شور سے گونج رہا تھا۔ پرات میںبریانی کے اندر پڑی بوٹیوں کو چھیننے کے لیے ایک کھینچا تانی ہو رہی تھی۔ صرف مومنہ سلطان اور اقصیٰ تھیں جو چپ چاپ ایک طرف بیٹھی تھیں اور ثریا جو چادر کے دوسرے کنارے پر کچھ عورتوں کے بیچ بیٹھی تھی۔
”تو بھی کھانا کھا لے جھومر۔” کسی نے گزرتے ہوئے جھومر سے کہا تھا۔
”جھومر شادی والے گھر سے کھاتی ہے، ماتم والے گھر سے نہیں۔ بے شرم ہے جھومر، بے حس نہیں ہے۔” وہ کہہ کر اسی طرح گزر گئی تھی۔
”لو نخرا دیکھو ہیجڑے کا۔” کسی اور نے تبصرہ کیا تھا اور عورتوں نے چاول کے نوالے منہ میں ڈالتے ہوئے قہقہہ لگایا۔
آدھ گھنٹے بعد وہاں کوئی نہیں رہ گیا۔ بس وہی تین لوگ اس چادر پر بیٹھے ہوئے تھے اسی طرح گم صم اور سفید چادر جواب پوری طرح داغ دار اور برتنوں، ہڈیوں اور چاولوں سے اٹی ہوئی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

مومنہ نے اقصیٰ کے ساتھ مل کر وہ چادر اٹھائی پھر صحن کی صفائی کی۔ سلطان اب بھی کہیں باہر تھا۔ ثریا اندر کمرے میں۔
”کل سے شوٹ ہے میری۔ دو تین دن نہیں آپاوؑں گی پھر چکر لگاوؑں گی۔” اقصیٰ نے داوؑد کے آنے پر مومنہ سے کہا۔
”تم نے پہلے بھی بہت وقت دیا اب بھی۔”
اقصیٰ نے اس کی بات کاٹی۔ ”اب شکریہ ادا مت کرنا۔ یہ وقت نہیں ہے شکریہ کا۔”
”نہیں، شکریہ ادا نہیں کروں گی۔ کروں بھی تو کس کس چیز کے لیے کروں۔” مومنہ بڑبڑائی تھی۔ اقصیٰ نے بات بدل دی۔
”میں نکلتی ہوں پھر۔”
وہ اس سے گلے ملی اور پھر باہر نکل گئی۔ جھومر کھلے دروازے سے اسی وقت اندر آیا تھا اور اس نے مومنہ کو کرسی اٹھانے سے روکا۔
”چھوڑ دیں باجی! جھومر اٹھاتی ہے۔ آپ کا کام نہیں ہے۔” اس نے پھرتی سے اس کے ہاتھ سے کرسی پکڑی۔
”بڑی مشکل میں کام آئے ہمارے۔ کھانا لانا تمہاری ذمہ داری نہیں تھی جھومر۔” مومنہ نے اس سے کہا۔
”مجھے شرمندہ نہ کریں باجی۔ مجھے بس ایک فکر تھی کھانا لاتے ہوئے۔”
”کیا؟” مومنہ نے پوچھا۔ جھومر نے کچھ نادم انداز میں سرجھکا کر نظر ملائے بغیر کہا۔
”حرام کے پیسوں سے لائی تھی۔ قبول ہو جائے گی نا۔” مومنہ اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی تھی پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”پتا نہیں جھومر۔” جھومر کرسی اٹھا کر مزید کچھ کہے بغیر گھر سے نکل گیا۔
مومنہ صحن میں رکے بغیر جہانگیر کے کمرے میں آئی۔ ثریا وہاں نہیں تھی۔ جہانگیر کا کمرہ ویسا ہی تھا، اس کا بستر ویسے ہی سلوٹ زدہ تھا۔ بستر کے سرہانے پڑی ہوئی دوائیوں کا ڈھیر بھی وہیں کا وہیں تھا۔ اس کے سارے ایوارڈز، فریمڈ تصاویر، اخباری تراشے۔ سب کچھ وہیں کا وہیں تھا۔ صرف وہ نہیں تھا۔
وہ سیدھا اس کے بستر پر گئی اور چِت لیٹ گئی۔ اس کی چادر اس نے سر پر تان لی تھی۔ کسی نے اس کی چادر کھینچ کر کہا۔
”آپا۔ آپا۔”
وہ جھنجھلا کر بولی۔
”کیا ہے تمہیں، سونے بھی نہیں دیتے۔”
”میرے بستر پر کیوں سو رہی ہو؟” وہ خفا ہوا تھا۔
”سو رہی ہوں بس اور اب میرا دماغ مت کھانا۔ گھنٹے بعد آنا۔ بازار چلیں گے۔”
”جو چیز تمہارے پاس ہے ہی نہیں وہ کیسے کھاوؑں گا میں، البتہ میرے پاس ہے دماغ۔ جو اب اماں، ابا اور تم نے چاٹ لیا ہے۔” جہانگیر نے جواباً کہا تھا۔
”جہانگیر! اب اگر میں اٹھی نا تو سیدھا چپل ماروں گی تمہیں۔”
مومنہ نے چادر اسی طرح تانے اس سے کہا تھا۔
”چپل تو میں پہلے ہی پھینک آیا باہر۔ اتنا بے وقوف تو نہیں کہ چپل تمہارے پاس ہو تو میں پاس آوؑں اور ایسی باتیں کروں۔” مومنہ تب تک غنودگی میں جا چکی تھی۔ کسی نے اس کی چادر کو زور سے کھینچا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ وہ ثریا تھی جو اس کی چادر کھینچ رہی تھی۔
”کیا ہوا اماں؟” مومنہ نے پریشان ہو کر پوچھا۔
”ایسے مت لیٹ چادر لے کر۔” ثریا نے اتنے دنوں میں پہلی بار جہانگیر سے ہٹ کر کوئی جملہ کہا تھا اس سے اور پھر رکے بغیر چلی گئی تھی۔ مومنہ اس خواب سے باہر آگئی تھی جس میں جہانگیر بھی اس کے ساتھ تھا۔ فون پھر تھرانے لگا تھا اور مومنہ سلطان اس دنیا سے بھاگنا چاہتی تھی جو اس فون کے ذریعے اس تک آنا چاہتی تھی۔ کسی آکٹو پس کی طرح اس کو اپنے شکنجے میں لینا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
قلبِ مومن کو نیند میں کسی آواز نے جگایا تھا۔ بستر پر لیٹے لیٹے آنکھیں کھولے وہ نیم تاریکی میں آواز کے ماخذ کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ رات کا پچھلا پہر تھا اور اس کے کمرے میں مکمل خاموشی تھی اور اس خاموشی میں ہلکے ہلکے وقفے سے جیسے کوئی سسکی اُبھرتی پھر خاموشی چھا جاتی۔ غنودگی کے عالم میں وہ ان سسکیوں کو پہچاننے کی کوشش کرتا رہا اور پھر یک دم وہ پہچان گیا اور پہچاننے کے ساتھ ہی وہ جیسے کرنٹ کھا کر اٹھا تھا۔ وہ دادا کی آواز تھی۔
کمبل پھینکتے ہوئے بستر سے نکل کر ننگے پاؤں وہ اپنے کمرے سے نکلا تھا۔ تقریباً بھاگتے ہوئے اس نے دستک دیے بغیر دادا کے کمرے کا دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا۔ دروازہ کھلا تھا۔ کمرے میں صرف ایک بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن تھا اور اس زرد روشنی میں عبدالعلی کمرے کے فرش پر بچھے مصلّے پر سربسجود ہچکیوں سے رو رہے تھے۔ قلبِ مومن کا خیال تھا۔ ان کی طبیعت خراب تھی۔ مگر وہ ٹھیک تھے۔ صرف رو رہے تھے۔ باآواز، ہچکیوں سے۔ دیوار پر ٹنگے کلاک پر قلبِ مومن نے پہلی بار وقت دیکھا۔ وہاں پر تین بج کر پینتیس منٹ ہو رہے تھے۔ وہ یقینا تہجد پڑھنے کے لیے جاگے تھے اور اب تہجد پڑھنے کے دوران کسی بات پر روئے تھے۔ لحظے بھر کے لیے مومن کو خیال آیا وہ اسی خاموشی سے وہاں چلا جائے۔ وہ عبدالعلی اور ان کے رب کا معاملہ تھا۔ وہ اس راز داری میں شریک ہونا نہیں چاہتا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہناتا۔ اس نے دادا کی زبان پر اپنا نام سنا تھا۔ قلبِ مومن کو لگا اس نے غلط سنا۔ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے وہ انہیں دیکھتا رہا۔ وہ دوبارہ اسی کا نام لے رہے تھے کچھ کہہ رہے تھے اور جو کچھ کہہ رہے تھے۔ قلبِ مومن نے سن لیا تھا۔
”اے اللہ! میرے مومن کو سیدھا راستہ دکھا۔ اسے ہدایت دے۔” وہ روتے ہوئے بار بار یہ جملہ ادا کر رہے تھے۔ قلبِ مومن دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے پہلے پانی ہوا تھا پھر آگ۔ دادا پر ایسا غصہ اسے سالوں بعد آیا تھا۔ وہ اللہ سے اس کی شکایت کر رہے تھے، دعا نہیں۔ ان کو کیا حق تھا یہ کرنے کا۔ وہ وہیں کھڑا بے حد خفگی سے انہیں دیکھتا رہا۔ بے حد خفگی سے۔ پھر وہ پلٹ کر دیوار کے ساتھ پڑے اس صوفہ پر بیٹھ گیا تھا جو دادا کی پشت پر تھا۔
”میرے مومن کو صراطِ مستقیم پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن سے تو راضی ہوا نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تیرا عذاب نازل ہوا۔” وہ روتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
زمین پر سجدے میں ان کا وجود لرز رہا تھا اور قلبِ مومن کا سینہ جیسے ان کے الفاظ نے چیر دیا تھا۔ اس کی انا پر کاری ضرب لگی تھی۔ دادا کو یہ حق نہیں تھا۔ وہ اسے رات کے اس پہر اللہ کی عدالت میں کھڑا کر دیتے۔
ان کے سجدے میں گڑگڑاتے وجود کو دیکھ کر صوفے پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھے قلبِ مومن کو سگریٹ کی طلب ہو رہی تھی۔ شراب کی۔ یا کسی ڈرنک کی جو چند لمحوں کے اندر اسے اس احساس سے مبرّا کر دیتی جس کا شکار وہ اس وقت ہو رہا تھا۔
عبدالعلی بڑی دیر گڑگڑاتے رہے تھے اور پھر اٹھ کر بیٹھ گئے تھے۔ انہوں نے اس وقت کمرے میں قلبِ مومن کی موجودگی محسوس نہیں کی تھی۔ وہ دعا کر رہے تھے اور جب انہوں نے دعا ختم کی تو وہ قلبِ مومن کی بھاری آواز سے جیسے ہڑبڑا کر چونکے تھے۔
”دادا! آپ کے نزدیک سیدھا راستہ ہے کیا، جس پر میں نہیں ہوں؟”
اس کا لہجہ ٹھنڈا، آواز سنجیدہ تھی۔ عبدالعلی کچھ دیر وہیں چپ چاپ بیٹھے رہے پھر وہ اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور تب انہوں نے قلبِ مومن کو پہلی بار دیکھا۔ وہ اب صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا اور اس نے ان کے کھڑا ہونے پر صوفے کے ساتھ سائیڈ ٹیبل لیمپ کو آن کر دیا تھا۔ کمرے کی روشنی میں یک دم اضافہ ہوا۔
عبدالعلی نے اس روشنی میں قلبِ مومن کا چہرہ دیکھا۔ وہ مومن نہیں طہٰ تھا اور ان سے کہہ رہا تھا۔
”بابا۔ آپ کے نزدیک سیدھا راستہ ہے کیا؟” عبدالعلی بے اختیار آگے بڑھے تھے اور انہوں نے کسی معمول سحر زدہ انداز میں اس کا چہر چھوتے ہوئے کہا۔
”طہٰ” مومن نے حیرانی سے اپنے چہرے کو چھوا۔ ان کا ہاتھ اور اس کی انگلیاں دیکھیں اور پھر اس نے عبدالعلی سے کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۳

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!