”دادا جی! مومن بھائی کی شادی کر دیں اب۔”
شکور عبدالعلی کے کمرے میں ہی فرش پر کپڑا بچھائے ان کے کپڑے استری کر رہا تھا جب کپڑے استری کرتے کرتے اس نے یک دم عبدالعلی سے کہا۔ وہ چونک کر مسکرائے۔
”بیٹھے بٹھائے تمہیں اس کی شادی کا خیال کیسے آگیا؟”
”بس دادا جی! جب چوبیس گھنٹے پارٹیاں ہوں اور لڑکیاں آئیں تو پھر شادی کا مشورہ ہی دے گا نا کوئی بھی شریف آدمی۔” شکور قمیص کی کریز بناتے ہوئے بولا اور پھر اچانک اسے احساس ہوا، عبدالعلی چپ ہو گئے تھے۔ اسے اچانک احساس ہوا، وہ کچھ غلط بات کر گیا تھا۔
”ویسے مومن بھائی ہیں بڑے شریف آدمی۔ لیکن لڑکیاں نہیں نا اچھی آج کل کی۔” اس نے فوراً ہی کچھ گڑبڑائے ہوئے انداز میں تصحیح کی۔
”شریفوں کو بھی خراب کر دیتی ہیں۔ اب مومن بھائی کو نہ بتائیے گا یہ ساری باتیں۔ ان کو پہلے ہی شبہ رہتا ہے کہ میں ان کی باتیں لوگوں کو بتاتا ہوں حالاں کہ آپ خود دیکھ لیں، آپ کتنے دنوں سے یہاں ہیں، میں نے کوئی ایک بھی بات بتائی ہے آپ کو مومن بھائی کی۔”
شکور نے بڑے فخریہ انداز میں جیسے ان سے تصدیق چاہی تھی۔ عبدالعلی گنگ تھے۔
”نہیں، تم نے تو کچھ بھی نہیں بتایا۔” وہ کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑائے جیسے بہت پریشان ہوئے تھے۔ شکور اُن کے تصدیقی جملے پر بے اختیار خوش ہوا۔
”یہی باتیں تو اچھی لگتی ہیں مجھے آپ کی دادا جی۔ آپ بڑے سچے آدمی ہیں۔ ویسے آپ کو ایک بات بتاوؑں۔ مومن بھائی آپ سے ڈرتے بڑا ہیں۔” اس نے جیسے کوئی انکشاف کیا۔
”مجھ سے ڈرتا ہے؟” عبدالعلی حیران ہوئے۔
”وہ تو کبھی بچپن میں بھی مجھ سے نہیں ڈرا۔” انہیں پتا نہیں کیا یاد آیا تھا۔
”نہیں نہیں سچ میں۔ آپ سے بہت ڈرتے ہیں۔ اسی لیے تو ساری ایسی ویسی تصویریں اور مجسمے اسٹور میں رکھوا دیے ہیں انہوں نے بلکہ فریج میں سے اس چیز کی بوتلیں بھی ہٹوا دی ہیں انہوں نے اور کین بھی وہ ”اس چیز” کے دادا جی۔ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے نا دادا جی۔”
شکور نے شراب کا نام لیے بغیر اپنے لفظوں پر معنی خیز انداز میں زور دیتے ہوئے عبدالعلی کے جسم میں سے جیسے جان نکالی تھی۔ قلبِ مومن بھٹک رہا تھا اوروہ بے بس تھے، کس کو پکارتے۔ کس سے کہتے۔ قلبِ مومن کے سامنے بیٹھ کر سوال جواب کئے تو عرصہ ہو گیا تھا انہیں۔
”تم مومن کے لیے دعا کیا کرو شکور۔” عبدالعلی کے لہجے میں رنجیدگی تھی۔
”کیا دعا؟ سارا کچھ تو ہے ان کے پاس دادا جی۔” شکور نے حیرانی سے کا۔ عبدالعلی چاہتے ہوئے بھی زبان پر وہ دعا نہیں لاسکے جو وہ مومن کے لیے چاہتے تھے۔ قلبِ مومن کا پردہ کہاں کھولنے والے تھے وہ۔۔۔ کھولتے بھی تو بس ایک ہی شخص کے سامنے کھول سکتے تھے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ماسٹر ابراہیم کے ہاتھ جوتے مرمت کرنے والے لوہے کے اس اسٹینڈ پر دھرے ایک بے حد قیمتی نازک اور بے حد نفیس ہیل والے جوتے پر اپنے اوزار کے ساتھ مشینی انداز میں چل رہے تھے۔ وہ فرش پر بیٹھے تھے اور ان سے کچھ فاصلے پر ان کی جوتوں کی مرمت کی اس دکان میں دھرے ایک بینچ پر جینز میں ملبوس ایک نوجوان لڑکی اپنے مہندی رچے ہاتھوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور بے حد بے چین انداز میں بولتی جا رہی تھی۔ ماسٹرابراہیم اس کی باتیں خاموشی سے سنتے ہوئے اپنے کام میں مشغول تھے۔
”ہو جائے گا نا ٹھیک؟ جوتے کو کچھ ہو گیا نا تو میری ویڈنگ خراب ہو جانی ہے۔ اب دو دن میں ایسا جوتا کہاں سے ڈھونڈوں گی میں۔ کہا بھی تھا گیتی کو کہ میرے سائز کا مسئلہ نہ ہو جائے مگر وہ کہہ رہی تھی نہیں، پرفیکٹ ہے۔ ایسا جوتا لاوؑں گی کہ لوگ سنڈریلا کے سینڈلز کو بھول جائیں گے اور اب دیکھیں۔”
وہ شاید اسی رفتار سے بولتی جاتی مگر ماسٹرابراہیم نے اس کے جوتے کو اس کے پیروں کے پاس رکھ کر اپنے اوزار سمیٹتے ہوئے کہا۔
”ہو گیا۔ آپ دیکھ لیں۔”
لڑکی نے جیسے کچھ بے یقینی سے انہیں دیکھا اور پھر جوتے پہن کر وہ کھڑی ہو کر دو قدم چلی اور اس نے بے اختیار دونوں ہاتھ خوشی سے بے قابو ہوتے ہوئے اپنے منہ پر رکھے۔
”مائی گڈنیس، یہ تو بالکل فٹ ہو گیا۔ آپ نے کیسے کر دیا۔ یہ تو اٹلی سے آیا ہے۔ کوئی اسے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔ کہ بہت مہنگا ہے۔ ہم ذمہ داری لے کر نہیں کر سکتے۔” وہ لڑکی اب جوتا اتارتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”میں اس کمپنی میں کام کرتا تھا۔” ماسٹر ابراہیم نے سرجھکائے مدھم آواز میں کہا۔ وہ اب اس لڑکی کے پیروں سے اتارے ہوئے جوتے کو اس بیگ میں ڈال رہا تھا۔ جن میں ڈال کر وہ اے لائی تھی۔
”کس کمپنی میں؟” لڑکی جیسے سمجھ نہیں پائی۔
”جس کمپنی کے یہ سینڈلز ہیں۔ Sergio Rossi۔” ماسٹرابراہیم نے بے حد عام سے لہجے میں کہا تھا۔
”اٹلی میں؟” لڑکی کو جیسے کرنٹ لگا تھا سن کر۔
”میلان میں۔” ماسٹر ابراہیم نے جیسے مزید تصحیح کی۔
”I don’t believe it!” لڑکی کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”اٹھارہ سو روپے۔” ماسٹر ابراہیم نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”کس چیز کے۔” لڑکی نے بے ساختہ کہا۔
”اس کی مرمت کے۔ سائز ٹھیک کرنے کے۔”
”پانچ سو دوں گی۔” اس لڑکی نے پانچ سو کا نوٹ بیگ سے نکال کر ماسٹر ابراہیم کو تھمایا تھا اور وہ ہنس پڑے تھے۔ کچھ کہے بغیر انہوں نے خاموشی سے پانچ سو کا وہ نوٹ پکڑ لیا اور تب ہی اس لڑکی کے عقب میں کھڑے عبدالعلی کو انہوں نے دیکھا تھا۔
وہ بے اختیار پانچ سو کا نوٹ چھوڑ کر کھڑے ہوئے تھے۔
”عبدالعلی صاحب۔” ان کے منہ سے نکلا تھا۔ اس لڑکی نے فرش پر گرے پانچ سو کے نوٹ اور اس ترکش بوڑھے سے ملتے اس جوتے مرمت کرنے والے ماسٹر ابراہیم کو دیکھا جو چند لمحے پہلے میلان میں Sergio Rossi کی کمپنی میں کام کرنے کا دعویٰ کر رہا تھا اور جس نے اس کے لاکھوں مالیت کے اس جوتے کو واقعی کمال مہارت سے ٹھیک کیا تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ یہ ماننے پر تیار نہیں تھی کہ Sergio Rossi میں کام کر چکا ہو گا۔ دکان سے نکلتے ہوئے اس نے سوچا تھا، پوچھوں گی اس سے جس نے یہاں بھیجا تھا۔ اسے اپنی اس ماڈل دوست کا خیال آیا جس کے توسط سے وہ یہاں آئی تھی۔
٭…٭…٭
”آپ نے تو اس بار حیران ہی کر دیا مجھے۔ آنے سے پہلے بتایا ہی نہیں۔”
اپنی حویلی کا دروازہ کھول کر عبدالعلی کو اندر لاتے ہوئے ماسٹر ابراہیم نے ان سے کہا تھا۔ وہ اب ان کے ساتھ حویلی کے صحن میں دانہ چگتے ہوئے کبوتروں کے درمیان سے گزر رہے تھے اور وہ کبوتر ڈر کر اڑنے کے بجائے وہیں بیٹھے بیٹھے اِدھر اُدھر سرک رہے تھے۔
”میں نے سوچا، اس بار تمہیں اپنے پاس بلانے کے بجائے تمہارے گھر جا کر ملوں تم سے۔” عبدالعلی نے مسکراتے ہوئے حویلی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا۔ وہ اب برآمدے میں داخل ہو چکے تھے۔
”تو یہ ہے تمہارا ٹھکانا۔” ماسٹر ابراہیم نے ایک کرسی انہیں بیٹھنے کے لیے دیتے ہوئے کہا۔
”میری کٹیا، بیٹھیں آپ۔”
”بڑی مشکل سے ملی تمہاری دکان۔ کوئی تمہیں جانتا ہی نہیں۔” عبدالعلی بیٹھتے ہوئے بولے تھے۔
”آپ نے موچی نہیں کہا ہو گا ورنہ فوراً مل جاتا۔”
ماسٹر ابراہیم نے ہنس کر کہا تھا۔
”ہاں، یہ غلطی ہو گئی مجھ سے۔ میں ماسٹر ابراہیم کہہ کر اٹلی کا حوالہ دیتا رہا۔” انہوں نے پانی کا وہ گلاس پکڑا جو ماسٹر ابراہیم انہیں دے ہے تھے۔ ماسٹر ابراہیم ان کی بات پر مسکرائے تھے۔
”میں آپ کو اس لیے بار بار اس حویلی میں لانا چاہتا تھا تاکہ اسے بھی آپ کے قدموں کی سعادت نصیب ہو۔” ماسٹرابراہیم نے ان سے کہا۔ وہ اب برآمدے کی الماری کی ایک دراز کھول رہے تھے۔
”میرے آئے بغیر بھی یہ حویلی بے حد برکت اور سعادت والی ہے۔ یہاں مجھ سے بہتر لوگ رہتے ہیں۔ میرے کام سے بڑا کام ہو رہا ہے۔” عبدالعلی نے پانی کا ایک گھونٹ پیا پھر کہا۔
”گناہ گار نہ کریں عبدالعلی صاحب! آپ سے بہتر کیا ہوں گے ہم۔ ہاں کام شاید اللہ ہماری اوقات سے بڑھ کر ہم سے کروا رہا ہے مگر یہ بھی میری بیوی کا کمال تھا۔ میرا نہیں۔ اسی پر عنایت تھی اللہ کی۔ میں تو صرف وسیلہ بنا۔” ماسٹر ابراہیم عجیب سی کیفیت میں کہہ رہے تھے اور عبدالعلی کی آنکھوںمیں نمی جھلکی تھی۔
”یہ دیکھیں آپ کا تحفہ۔” عبدالعلی کے سامنے یک دم وہ کیس لے کر آئے جو انہوں نے اس الماری سے نکالا تھا۔ عبدالعلی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی۔ وہ اس کیس کو کھول کر اس میں اپنے ہاتھ سے خطاطی کیا ہوا وہ قرآن پاک دیکھ رہے تھے جو انہوں ے کئی دہائیوں پہلے ماسٹر ابراہیم کو دیا تھا۔
”ماشا اللہ۔ تم نے خوب سنبھال رکھا ہے۔” انہوں نے اس کے اوراق پلٹتے ہوئے کہا۔
”سنبھالتی تو اس کو میری بیوی تھی، وہ تلاوت کیا کرتی تھی روز اس سے۔ اب اس کے جانے کے بعد یہ ذمہ داری میں نے سنبھال لی اور ایک بچی آتی ہے میرے پاس مومنہ۔ وہ تلاوت کرتی ہے اس سے۔ جو چھوٹی موٹی مرمت ہے اسی نے کی ہے اس کی جلد پر۔”
وہ عبدالعلی کو چمڑے کی جلد پر کیے ہوئے وہ خطاطی کے نقش و نگار دکھا رہے تھے جو مومنہ سلطان کے ہاتھ کے بنائے ہوئے تھے۔ عبدالعلی کو پتا نہیں کیا یاد آیا تھا۔ انہوں نے جیب سے رومال نکال کر اپنے آنسو خشک کیے تھے۔
”آپ کے ہاتھ کے لکھے ہوئے اس نسخے نے زندگی بدل دی تھی میری۔ کیسے سنبھال کر نہ رکھتا اسے۔” ماسٹر ابراہیم اب اس قرآن پاک کو ان کے ہاتھوں سے واپس لیتے ہوئے اسے دیکھ کر جیسے خود ماضی میں جا رہے تھے۔
”پہلی بار جب کسی نے یہ نسخہ مجھے دے کر کہا تھا کہ ہاتھ سے لکھا ہوا ہے تو میں نے سوچا تھا۔ ماسٹر ابراہیم تُو نے ریمپ پر چلتی عورتوں کے جوتے بنا بنا کر ساری عمر گنوا دی۔ ملا کیا۔ پیسہ۔ بس۔ اور ایک یہ شخص ہے جس نے زندگی کے سال لگا کر جنت کما لی۔ بس دماغ ہی الٹ گیا میرا۔ آپ کو یاد ہے کیسے ڈھونڈتا ہوا پہنچتا تھا میں آپ کو ترکی میں۔” انہوں نے ایک گہرا سانس لیا تھا۔ اپنی بھرآئی ہوئی آواز کو ٹھیک کرنے کے لیے۔
”ہاں اور میرے لیے لائے تھے۔ اٹلی کے جوتے۔ پیرس کے پرفیومز اور میلان کے سوٹ۔” عبدالعلی جیسے کچھ یاد کر کے ہنسے۔
”جو میری اوقات تھی، میں تو وہی لا سکتا تھا نا۔ حیران ہو گیا تھا اس وقت آپ کو اُردو بولتے دیکھ کر۔”
”اپنے پوتے کے لیے سیکھ رہا تھا تب۔” وہ دونوں جیسے ماضی میں پہنچے ہوئے تھے۔
”قلبِ مومن کیسا ہے؟” ماسٹر ابراہیم نے یک دم پوچھا۔ عبدالعلی نے ایک نظر ماسٹر ابراہیم کو دیکھا پھر جیسے کوئی دُھند اُن کی آنکھوں میں آئی تھی۔
”جیسے کبھی تم تھے۔” ان کی آواز میں عجیب ندامت تھی۔ ماسٹر ابراہیم بے اختیار ہنسے۔
”یعنی منجدھار میں ہے۔ نکل آئے گا باہر۔”
”عبدالعلی بڑا گناہ گار انسان ہے ماسٹر ابراہیم۔ یہ آزمائشیں اسی لیے آتی ہیں مجھ پر۔ اللہ کا نام لکھتے ہوئے کوئی کوتاہی، کوئی بے ادبی ہو گئی ہو گی مجھ سے۔” ان کے گالوں پر آنسو بہنے لگے۔ ہر راستے سے گزرنا ہوتا ہے انسان نے۔ صرف سیدھے راستے سے چل کر کیسے پہنچے گا رب تک؟” وہ انہیں تسلی دے رہے تھے۔
”میں بہت بوڑھا ہو گیا ہوں اب۔ کام کرتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں میرے۔ یہ کام میرے ساتھ ختم ہو جائے گا۔ وہ خاندان جو اتنی نسلوں سے مسجدِ قرطبہ اور الحمرا میں خطاطی کرتے کرتے ترکی کی مسجدوں اور محلوں میں خطاطی کرتا آیا ہے، وہ میرے بعد محقق خطاطوں کا خاندان نہیں کہلائے گا۔ میرے خاندان میں کوئی اللہ کا نام لکھنے والا نہیں رہے گا۔ یہ غم بہت بڑا ہے میرے لیے۔ طہٰ کی موت سے بھی بڑا۔”
ماسٹر ابراہیم نے ان کا کندھا تھپکتے ہوئے انہیں تسلی دی۔
”چائے بناتا ہوں آپ کے لیے لیکن آپ روئیں نہیں۔ استاد کی آنکھوں میں آنسو برداشت نہیں ہوتے۔”
عبدالعلی نے رومال سے اپنی آنکھیں رگڑیں۔
”بس دل بھر آیا۔”
”وہ کہیں نہیں جاتا۔ ادھر ہی آئے گا۔ میرے ماں باپ بھی بڑے پریشان ہوئے تھے۔ سیدوں کا بیٹا جوتے بنانے لگ گیا، وہ بھی عورتوں کے فیشن شوز۔ ریمپ۔ وہ کیا سرکل تھا جس میں اٹھتا بیٹھتا تھا۔ نہ خاندان کی پروا تھی، نہ دین کی۔ بس دنیا کا ہی ہو کر رہ گیا تھا اور دیکھ لیں۔ اللہ نے کہاں سے کھینچ کر کہاں لا بٹھایا ہے مجھے۔ میلان، پیرس، نیویارک۔ کس کی نائٹ لائف روک سکی ہے مجھے۔” وہ ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے۔
”بس ایک وقت ہوتا ہے اور وقت سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ آپ دعا کریں۔ اللہ قلبِ مومن کا وہ وقت پہلے لے آئے۔ آنا تو اِدھر ہی ہے اس نے۔” وہ انہیں تسلی دیتے ہوئے گئے تھے اور عبدالعلی ان کا چہرہ دیکھتے رہ گئے تھے۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});