الف — قسط نمبر ۰۴

”جی اسلم بھائی۔ میں آجاتی ہوں وہاں۔” اس نے جواباً کہتے ہوئے فون بند کیا اور کانٹیکٹ لسٹ میں سے اگلا نمبر ڈھونڈتے ہوئے بڑبڑانے لگی۔
”اب کس کو کال کروں۔ کس کو کروں۔” اقصیٰ کا دل کٹنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا کہے۔ وہ اب داؤد کو اس لوکیشن کا پتا بتا رہی تھی جہاں اسلم بھائی شوٹ پر تھے۔
”تم قلبِ مومن سے بات کرو، وہ اگر کچھ کر دے۔” اقصیٰ کو یک دم دوبارہ خیال آیا۔
”کل بھی سارا دن اُن سے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں لیکن وہ مصروف تھے آج بھی کتنی دفعہ کال کر چکا ہوں فون نہیں اٹھا رہے۔” داوؑد نے گاڑی کو اس سڑک پر ڈالتے ہوئے کہا جس کا پتا مومنہ نے بتایا تھا۔
”ان کی کوئی پارٹی چل رہی ہو گی۔ وہ ایسے ہی ہیں مرضی سے بات کرتے ہیں۔” داؤد بڑبڑایا تھا۔ ”اور میں نے تو پہلے ہی کچھ قرضہ لیا ہوا ہے۔ ان سے اب پتا نہیں اس بار وہ کچھ دیتے بھی یا نہیں۔” اقصیٰ خاموش رہی۔
اس ایڈریس پر پہنچتے ہی مومنہ میکانکی انداز میں گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر کر چلی گئی تھی۔
”یہ رو کیوں نہیں رہی۔” داؤد نے دور جاتی مومنہ کو دیکھ کر مضطرب انداز میں اقصیٰ سے کہا تھا۔
”حوصلہ دکھا رہی ہے۔” اقصیٰ نے ناک ٹشو سے رگڑتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”اتنے حوصلے کا کیا کرنا ہے اس نے۔ اس سے کہو کہ روئے۔” داؤد نے جواباً اس سے کہا تھا۔
وہ دس منٹ بعد دوبارہ نمودار ہوئی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے ہاتھ میں پکڑا لفافہ اقصیٰ کو دیتے ہوئے کہا تھا۔
”یہ دس ہزار ہیں۔ سات ہزار جبار بھائی بھی دیں گے ان کا گھر اسی لین میں ہے۔” اس نے ہاتھ سے داؤد کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اقصیٰ نے یک دم اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مومنہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تم رو لو مومنہ۔” وہ اقصیٰ کو چند لمحے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”پیسے پورے ہو جائیں پھر رو لوں گی۔” اقصیٰ سے اس نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”اللہ ناس مارے ان ہسپتال والوں کا۔ دیکھنا کیسے کیڑے پڑیں گے انہیں۔” جھومر نے اپنے دوپٹے سے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے سلطان سے کہا۔ سلطان رات کے اس پہر اپنی گلی سے پیسے اکٹھے کرنے آیا تھا۔
”لاکھ کیڑے پڑ جائیں جھومر۔ میرا جہانگیر تو نہیں آئے گا۔”
سلطان نے روتے ہوئے اس سے کہا تھا۔ جھومر نے دوپٹے کے پلّو سے بندھے پیسے کھول کر نکالتے ہوئے سلطان کو تسلی دی۔
”بس کر سلطان بھائی! یہ پندرہ سو رکھ لے۔ میں نکلتی ہوں پھر رات کو۔ جو کمائی ہوتی ہے وہ بھی لاکر دیتی ہوں تجھے۔ ہسپتال میں ہی آکے دے جاتی ہوں۔ تو اب وہیں رہ۔” جھومر نے سوسو کے خستہ حال نوٹ اس کی مٹھی میں دباتے ہوئے کہا۔
”تیرا شکریہ کیسے ادا کروں جھومر۔” سلطان نے سسکیاں لیتے ہوئے اس سے کہا تھا اتنے سالوں میں جھومر اور اس کے درمیان کبھی شکریہ کی نوبت نہیں آئی تھی۔ ہمیشہ توتڑاخ اور گالم گلوچ میں ہی بات ختم ہوتی تھی۔ وہ اکثر اُس سے میک اپ کراتا اور بغیر پیسے دیے نقص نکالتا چلا جاتا یا سلطان اس کا مذاق اڑاتا تو وہ گلی میں کھڑا ہو کر اس کے پورے خاندان کو کوستا، مومنہ باجی کے علاوہ جس کا وہ فین تھا اور آج جہانگیر چلا گیا تھا تو جیسے سب کی طرح وہ بھی مرہم رکھنے چلا آیا تھا۔
”چھوڑ سلطان بھائی۔ میرا تو جنازہ بھی جائز نہیں۔ پرجن کا جائز ہے، ان کا تو جنازہ ہو۔ میں آتی ہوں پھر۔”
وہ کہتے ہوئے اسی طرح مٹکتا ہوا چلا گیا تھا۔ سلطان کو اس لمحے جھومر کے سامنے وہ پورا معاشرہ ہیجڑا لگا جس کا وہ حصہ تھا۔
٭…٭…٭
مومنہ نے ثریا کو چونک کر دیکھا۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے یک دم کچھ گنگنا رہی تھی۔ مومنہ اور اقصیٰ ابھی کچھ دیر پہلے ہی واپس ہاسپٹل آئی تھیں اور داوؑد پونے تین لاکھ میں سے باقی رہ جانے والے پچاس ہزار کسی سے مانگنے گیا تھا۔ سلطان وہاں نہیں تھا اور وہ اقصیٰ برآمدے کی زمین پر بیٹھے اکٹھے ہونے والے سارے لفافوں اور نوٹوں کو ایک آخری بار دوبارہ گن رہی تھیں، یوں جیسے کوئی سلامی کے لفافوں سے نوٹ نکال نکال کر گنتا ہے۔
ثریا اسی طرح ان سے بے نیاز برآمدے کی دیوار کے ساتھ سرٹکائے گنگنا رہی تھی۔ وہ ایک لوری تھی۔ مومنہ اور اقصیٰ نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر مومنہ اپنی گود میں رکھے ہوئے سارے نوٹ اقصیٰ کی گود میں ڈال کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
”اماں! کیا گا رہی ہیں آپ۔” ثریا کے پاس بیٹھ کر اس نے ثریا کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تھا۔
ثریا کے بال لٹوں کی شکل میں اس کی چٹیا سے نکل کر بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ اس نے مومنہ کو دیکھا۔
”جب چھوٹا تھا نا تو دوسرے بچے لوری سن کر سوتے تھے، یہ اٹھ جاتا تھا۔ شاید اب بھی۔” وہ بات ادھوری چھوڑ کر پھر لوری گانے لگی تھی۔
”للّا للّا لوری۔ دودھ کی کٹوری۔”
مومنہ، ثریا کا چہرہ پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتی رہی۔ اس کے ماں باپ ہمیشہ جہانگیر کے عشق میں مبتلا رہے تھے۔ جہانگیر کے سامنے ان کے لیے مومنہ کچھ بھی نہیں تھی اور مومنہ نے ساری زندگی اس تفریق کو برا مانے بغیر سہا۔ جہانگیر چاہے جانے کے قابل تھا وہ شاید نہیں تھی یا وہ یاد رہ جانے والوں میں سے تھا، وہ نہیں تھی۔ وہ دلوں کو مٹھی میں کر لینا جانتا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی۔ اگر زندگی جہانگیر سلطان کو موقع دیتی تو وہ لاکھوں کروڑوں دلوں پر ہیرو بن کر حکمرانی کرتا یہ صرف سلطان اور ثریا کا یقین نہیں تھا۔ مومنہ سلطان بھی یہ ماننے والوں میں سے تھی اور اگر سب کچھ ویسا ہوتا تو وہ بڑی خوشی سے جہانگیر کے سائے میں زندگی گزار لیتی۔ اس کے لیے تالیاں بجاتے ہوئے اس کی کامیابیوں اور فتوحات کو اپنا مانتے ہوئے، اس کی ناموری پر راضی۔ مگر یہ سب کچھ زندگی نے ہونے نہیں دیا تھا یا شاید موت نے۔
ثریا کا چہرہ دیکھتے ہوئے، وہ وہ الفاظ ڈھونڈتی رہی جن سے وہ ثریا کو یہ سمجھا سکتی کہ وہ، یہ لوری نہ گائے۔ جہانگیر اب کبھی نہیں اٹھے گا۔
”جھولا جھلاؤں گی
تجھے جھولا جھلاؤں گی
تجھے جھولا جھلاؤں گی۔”
”مومنہ۔” ایک ہی مصرعے کو بار بار گاتی ثریا کو دیکھتے ہوئے مومنہ کو اقصیٰ نے پکارا تھا۔ داؤد آگیا تھا اور اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ مومنہ کو دکھاتے ہوئے اس نے کہا۔
”پورے ہو گئے پیسے۔ مجھے لگتا ہے۔”
وہ تینوں زمین پر آلتی پالتی مارے ایک بار پھر ان پیسوں کو گن رہے تھے جب فجر کی اذان ہونے لگی۔
”دولاکھ ستاسی ہزار۔” داؤد نے بالآخر آخری نوٹ گنتے ہوئے کہا۔ مومنہ کو لگا وہ جیسے وہ شہزادی تھی جن کے جسم میں گاڑی ہوئی سوئیاں وہ سارے نوٹ نکال رہے تھے اور آخری سوئی اس آخری رقم سے نکلی تھی۔ وہ اب جہانگیر کو گھر لے جا سکتی تھی تاکہ ثریا وہ لوری نہ گائے۔
داؤد پیسے لے کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ مومنہ برآمدے کے ٹھنڈے فرش پر چِت لیٹ گئی تھی۔ یوں جیسے بہت لمبی ریس میں دوڑنے والا اختتامی لائن کو پار کرنے کے بعد زمین پر گرتا ہے، وہ بھی تب جب ریس کوئی اور جیت چکا ہو۔
”مومنہ! تم رو لو۔”اقصیٰ نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تھا۔
وہ بہت دیر خاموش رہنے کے بعد بڑبڑائی۔
”اب کس بات پر رونا ہے۔” اقصیٰ بول نہیں سکی۔
٭…٭…٭
قلبِ مومن نے نیہا کو اپنے کسی کلائنٹ کے ساتھ اپنے بوتیک اسٹوڈیو میں بیٹھے دیکھا۔ وہ اس کے ساتھ اس کا برائیڈل ڈسکس کر رہی تھی۔ قلبِ مومن ٹہلتے ہوئے ڈسپلے پر لگے برائیڈلز دیکھنے لگا۔ نیہا نے اسے دیکھ لیا تھا لیکن وہ مکمل طور پر اسے نظرانداز کرتے ہوئے اپنے کام میں مصروف رہی۔ اس کے بوتیک اسٹوڈیو کا وہ حصہ جو آفس کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔ گلاس پارٹیشن سے بوتیک کے باقی حصہ سے الگ کیا گیا تھا۔ مومن وہاں ہونے والی گفتگو نہیں سن سکتا تھا لیکن اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ نیہا کو کلائنٹ کو فارغ کر دینے کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ وہ تقریباً دس منٹ وہاں ٹہلتا رہا اور بالآخر جب وہ کلائنٹ باہر نکلی تو وہ آفس میں داخل ہوا۔ اس نے مسکراتے ہوئے نیہا کو دیکھا، اس نے جواباً بے تاثر چہرے کے ساتھ اس سے کہا۔ ”میں کلائنٹ کے ساتھ میٹنگ میں تھی۔”
”میں نے تمہیں انٹرپٹ تو نہیں کیا۔” مومن نے جواباً کہا۔ وہ اب ایک کرسی سنبھال کر بیٹھ چکا تھا۔ ”Wait کرنا چاہیے تھا تمہیں، میں بلاتی تب اندر آنا چاہیے تھا۔” نیہا کا لہجہ ویسے کا ویسا ہی تھا۔ مومن بے اختیار ہنسا اور میز پر دونوں بازو پھیلا کر، کچھ آگے جھکتے ہوئے بولا۔
”ناراضی ختم کر دو اب۔”
”نہیں، میں کیوں ناراض ہوں گی تم سے اور ہوں گی بھی تو تمہیں کیا پروا؟” نیہا نے جواباً اسی نروٹھے انداز میں کہا۔
”پروا ہے تو یہاں بیٹھا ہوں نیہا! تم نے ضوفی کا میری فلم میں کام کرنا ضد کیوں بنا لی ہے اپنی۔” وہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”ضد؟ خواہش ہے میری۔ تم ضد سجھ رہے ہو تو ایسا ہی سہی۔” نیہا نے اُسی تیکھے لہجے میں کہا۔
”تمہارے اور میرے تعلق میں ضوفی نہیں آنا چاہیے۔” مومن کی خفگی بڑھی۔
”تمہارے اور میرے تعلق میں ضوفی نہیں ہے مومن۔ تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم اپنے علاوہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتے۔ تمہاری ”میں” بہت بڑی ہے۔ تمہاری ناک اس سے بھی زیادہ۔” اس نے بڑی تلخی سے مومن کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ وہ بچھنے آیا تھا۔ وہ رگیدنے لگی تھی۔
”میں ایسا ہی ہوں نیہا۔ میں ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ آج ایسا نہیں ہوا۔” مومن نے شہد کی طرح اس کے زہریلے جملوں کا گھونٹ بھرا تھا۔
”میں نے تمہیں سمجھنے میں غلطی کی۔” اس کے جملے نے مومن کو تکلیف پہنچائی۔
”تم مجھے ہرٹ کر رہی ہو۔” اس نے نیہا سے کہا۔ وہ جواباً استہزائیہ انداز میں ہنسی۔
”نہیں یہ کام تو تمہارا ہے۔ کوئی دوسرا کیسے کر سکتا ہے؟”
”میں تمہیں منانے آیا تھا ،argueکرنے نہیں۔” مومن اٹھ کھڑا ہو گیا۔ اس کی ہمت جیسے جواب دے گئی تھی۔
”ضوفی تمہاری فلم میں لیڈرول کرے گا تو تمہارے اور میرے درمیان سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ورنہ…Its all over۔”
مومن نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”تمہارے نزدیک ضوفی ہمارے رشتے سے زیادہ اہم ہے؟”
”نہیں، مجھے یہ دیکھنا ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ضد اہم ہے یا میں۔”
وہ اس کے بعد وہاں رکا نہیں تھا۔ وہ لہجہ، وہ انداز، جملے اس نے پہلی بار نیہا کے منہ سے سنے تھے اور اگر قلبِ مومن کو شاک لگا تھا تو یہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ وہ کسی دوسرے مرد کے لیے اس سے لڑ رہی تھی۔ اسے چھوڑ دینے پر تیار تھی۔ قلبِ مومن کے لیے یہ ہتک آمیز تھا اور ہتک کو برداشت کرنا مومن کی گھٹی میں نہیں تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۳

Read Next

الف — قسط نمبر ۰۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!