مومنہ کو لگا جیسے کسی چیز نے اس کے پیٹ میں مکا مارا اور وہ داؤد اور اقصیٰ سے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اسے وہاں کیوں لائے تھے مگر اس کی زبان پر وہ سوال نہیں آرہا تھا۔ وہ بدترین خدشات کے درمیان جھولنے کی اس کیفیت سے جیسے باہر نکل آنے کی جرأت نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے جہانگیر کا چہرہ آرہا تھا۔ درد اب پیٹ سے پسلیوں کی طرف چلا گیا تھا۔ اس نے یاد ہونے کے باوجود انگلیوں کی پوروں پر وہ دن گنے جتنے دنوں سے اس نے جہانگیر کی آواز نہیں سنی تھی۔ چار دن اور ان چار دنوں میں اسے اگر کچھ ہوا تھا تو اسے پتا کیوں نہیں چلا تھا۔ اس کی سانس کیوں نہیں رکی تھی، اس کا دل کیوں نہیں رکا تھا؟
”مومنہ۔” برابر بیٹھی اقصیٰ نے اس کا نام پکارا۔ اس نے میکانکی انداز میں گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اقصیٰ یک دم اس سے لپٹ کر رونے لگی تھی۔
”جہانگیر۔” اس نے بس ایک لفظ ہا تھا۔ مومنہ نے ایک بھی نہیں۔ سارے اندازے، قیافے اس کی پوروں پر تھے۔ وہ جہانگیر کا نام نہ بھی لیتی وت بھی وہ جان گئی تھی، وہ کہاں تھا۔
گاڑی کی پچھلی سیٹ پر وہ کسی بت کی طرح بیٹھی رہی۔ اقصیٰ اس سے لپٹی روتی رہی اور مومنہ سلطان اسے دیکھتی رہی۔ اسے رونا نہیں آرہا تھا۔ آنسوؤں کو کچھ ہو گیا تھا۔ وہ خشک نہیں ہوئے تھے، بہنا بھول گئے تھے۔
داؤد نے اس کی طرف کا دروازہ کھول دیا تھا۔ اقصیٰ اس سے الگ ہو گئی۔ مومنہ میکانکی انداز میں کھلے دروازے سے باہر آئی تھی اور اسی انداز میں ہی اس نے مردہ خانہ کی طرف چلنا شروع کر دیا۔
اقصیٰ نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا، اس نے پکڑنے دیا۔ داؤد اس کے پیچھے آیا تھا۔
مردہ خانہ کے دروازے سے باہر برآمدے کی سیڑھیوں میں اس نے دیوار سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھے ثریا اور سلطان کو دور سے دیکھ لیا تھا۔
”تمہارے جانے کے بعد اگلے دن طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی اس کی لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ تمہیں نہ بتائیں۔ آنٹی نے مجھے فون کیا تھا۔ ہم بڑی جگہ لے کر پھرتے رہے اسے لیکن اس کی حالت خراب ہوتی گئی۔ دونوں گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ کل وہ۔” اقصیٰ نے بات مکمل نہیں کی۔ اس سے آگے جو کہنا تھا، وہ مومنہ جانتی تھی۔ مگر اب جیسے وہ یہ سننا ہی نہیں چاہتی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ثریا اور سلطان نے اسے دور سے دیکھ لیا تھا۔ سلطان اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ بلند آواز میں رو رہا تھا یوں جیسے کوئی بچہ کسی بڑے کو دیکھ کر تسلی چاہنے والے انداز میں روتا ہے۔ مومنہ نے ثریا کو دیکھا، وہ وہیں بیٹھی تھی دیوار کے ساتھ، گم صم۔ مومنہ کو دیکھ کر بھی نہیں اٹھی تھی۔
”لاش نہیں دے رہے۔ کہتے ہیں پہلے ہسپتال کے بل کلیئر کرو۔” اپنی آنکھیں رگڑتے، روتے ہوئے اس سے لپٹے سلطان نے کہا تھا۔ مومنہ سلطان کئی سالوں سے اس گھر کا کمانے والا مرد تھی۔ اور زندگی میں کبھی اسے اپنے اس کردار پر رنج نہیں ہوا۔ اس وقت وہاں کھڑے اس نے زندگی میں پہلی دفعہ خواہش کی تھی یہ کمانے والی ذمہ داری کاش کبھی اس کے کندھوں پر نہ ہوتی، کوئی اور ہوتا اسے نباہنے والا۔ کوئی اور۔ جیسے جہانگیر۔ اس کی سوچوں کو جیسے بریک لگا تھا۔ جہانگیر کا نام جیسے اسے ایک بار پھر ہوش میں لے آیا تھا۔
”انکل! میں مل چکا ہوں اندر فائنانس والوں سے، آپ پریشان نہ ہوں۔ ہو جائے گا کچھ نہ کچھ۔” داؤدینے سلطان کو تسلی دی تھی۔ مومنہ باپ سے الگ ہو گئی۔ رونے سے زیادہ بڑے کام کرنے تھے اسے۔ رونے کے لیے تو زندگی پڑی تھی۔
”ابا! میں کرتی ہوں کچھ۔” مومنہ نے مدھم آواز میں باپ سے نظریں ملائے بغیر کہا۔ روتے بلکتے سلطان کو عجیب قرار ملا۔ مومنہ جب بھی یہ جملہ بولتی تھی، کچھ نہ کچھ کر ہی لیتی تھی۔ وہ ثریا کے پاس نہیں گئی صرف اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ ثریا نے بھی اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔
”کتنا بل ہے؟” مومنہ نے پلٹ کر داؤد سے پوچھا۔
٭…٭…٭
”پونے تین لاکھ۔ کیسے بنا دیا آپ نے اتنا بل؟” وہ بل کی رقم سن کر کراہ کر رہ گئی تھی۔ وہ اقصیٰ اور داؤد کے ساتھ اس وقت بلز لیے ایڈمن آفس میں تھے اور وہاں موجود ڈاکٹر ان سے بحث کر رہا تھا۔
”دیکھیں، یہ پرائیویٹ ہاسپٹل ہے۔ اس شہر کا سب سے بہترین ہاسپٹل۔ آئی سی یو میں رکھا آپ کے پیشنٹ کو، ڈائیلاسس ہوتا رہا۔ میڈیسنز اور انجکشنز دیے جاتے رہے۔ آپ کو سارا بریک ڈاؤن اس بل میں مل جائے گا۔” وہ بڑے مشینی انداز میں انہیں تفصیلات بتا رہا تھا۔
”میں کلیئر کر دوں گی سارا بل۔۔۔ لیکن ابھی نہیں کر سکتی۔ آپ اسے لے جانے دیں۔ میں یہ سارا بل کلیئر کر دوں گی۔” مومنہ نے منت سے کہا تھا۔
”مجھے آپ سے ہمدردی ہے لیکن یہ میرا ہاسپٹل نہیں ہے۔ میں بھی ملازم ہوں یہاں۔ بل کلیئر ہوئے بغیر میں لاش آپ کے حوالے نہیں کر سکتا۔” ڈاکٹر نے بڑی نرمی لیکن بڑی صاف گوئی سے اس سے کہا تھا۔ جہانگیر کے نام کی جگہ لاش کا لفظ سن کر مومنہ کچھ دیر کے لیے عجیب سکتے میں آئی تھی۔
”آپ ہمیں زیادہ نہیں بس تین چار دن کی مہلت دے دیں۔ میں گارنٹی کے طور پر اپنی گاڑی رکھوا جاتا ہوں یہاں۔” اس بار داؤد نے مداخلت کرتے ہوئے ڈاکٹر سے کہا تھا۔
”دیکھیں آپ میری پوزیشن سمجھیں۔ یہ ہاسپٹل اس طرح کی ڈیلنگز نہیں کرتا اور گارنٹیز نہیں لیتا۔ آپ لوگ کسی سے لون لے لیں ہم اور ٹائم دے دیتے ہیں آپ کو۔” ڈاکٹر نے اپنے سامنے رکھی ایک فائل کو بند کرتے ہوئے کہا تھا۔
”اور ٹائم دیں گے لیکن اسے لے جانے نہیں دیں گے؟” اس بار اقصیٰ نے کہا تھا۔ ڈاکٹر چپ رہا۔ مومنہ کو یک دم ہوش آیا تھا۔ اپنا بیگ کھول کر اس نے وہ لفافہ ڈھونڈنا شروع کیا جس میں اس کی فلم کا ایڈوانس کا چیک تھا۔ لفافہ مل گیا تھا۔
”یہ۔۔۔ یہ ایک لاکھ کا چیک ہے۔۔۔ آپ اس وقت یہ لے لیں۔ باقی بھی کل پرسوں تک دے دیتی ہوں۔” اس نے لفافے سے وہ چیک نکال کر ڈاکٹر کی میز پر رکھا تھا۔
”یہ چیک آپ کے نام ہے۔ ہاسپٹل اس کا کیا کرے گا اور ہم لوگ ویسے بھی چیک میں نہیں کیش میں پے منٹ لیتے ہیں۔” اس ڈاکٹر نے چیک پیچھے کھسکاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”آپ افورڈ نہیں کر سکتے تھے یہ ہاسپٹل۔ آپ کو لانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ یہ چند لاکھ تو بہت معمولی رقم ہے۔ یہاں تو اس سے بھی زیادہ رقم کے بلز لوگ ایک بھی سوال کئے بغیر پے کر کے جاتے ہیں۔” اس ڈاکٹر نے جیسے ان کو ان کی حیثیت کا احساس دلایا تھا۔
”زندگی بچانے کے لیے لائے تھے۔ کسی بھی قیمت پر مل جاتی۔ وہ آپ نے بچائی ہی نہیں۔ مرنے کے لیے تھوڑی لائے تھے۔” مومنہ کی آواز پہلی بار بھرائی تھی۔ اسے پہلی بار لگا وہ رو دے گی مگر آنسو صرف اس کی آواز کو ہلا گئے تھے۔ اس کی آنکھوں کو چھونے کی کوشش نہیں کی انہوں نے۔
”تم دیکھنا، میں یہ سب میڈیا پر دوں گی۔ سوشل میڈیا پر کمپین چلاؤں گی تمہارے ہاسپٹل کے خلاف۔۔۔ تم لوگ گھٹیا اور کمینے ہو۔”
اقصیٰ یک دم آپے سے باہر ہو کر اس ڈاکٹر اور اس کے ساتھ فائنانس کے لوگوں پر چلائی تھی۔ مومنہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دبایا یوں جیسے اسے روکنا چاہتی ہو۔
”اس سے کیا ہو گا میڈم۔ زیادہ سے زیادہ ہماری بدنامی۔ بدنامی سے بزنس تو ختم نہیں ہوتا بل تو پھر بھی ہاسپٹل والے لیں گے آپ سے۔ وہ تو مجھ سے بھی لے لیتے اگر آپ کی جگہ میں ہوتا۔” اس ڈاکٹر نے جیسے نرم لفظوں میں اسے اپنی حیثیت اور اوقات کا بھی احساس ڈھکے چھپے لفظوں میں کروایا۔
”میں ایکٹریس ہوں۔ اپنے کام کو حلال بنانے کے لیے مر رہی ہوں پر آپ کو تو حلال کو بھی حرام بناتے ہوئے کوئی تکلیف، کوئی شرمندگی نہیں ہو رہی۔”
اقصیٰ کا ہاتھ پکڑے اس نے ڈاکٹر سے کہا تھا۔ اس آفس سے نکلتے ہوئے زندگی میں پہلی بار مومنہ سلطان کو اپنا پروفیشن اتنا حرام نہیں لگا تھا جتنا ہمیشہ لگتا تھا۔
٭…٭…٭
پتا نہیں اس رات وہ کہاں کہاں پونے تین لاکھ کی رقم اکٹھا کرنے اقصیٰ اور داؤد کے ساتھ گئی تھی۔ جہانگیر کے پچھلے کئی سالوں سے ہونے والے علاج نے انہیں پہلے ہی بہت سے لوگوں کا مقروض کر رکھا تھا اور وہ کوشش کے باوجود بھی پرانا قرض ادا نہیں کر پائے تھے اور اب اس اچانک آجانے والے پونے تین لاکھ کی رقم کے بل نے جیسے مومنہ سلطان کا سارا دم خم نکال دیا تھا۔ اس کے پاس کچھ دنوں کا وقت ہوتا تو وہ اس رقم کو اقصیٰ اور داؤد کے ساتھ مل کر کسی نہ کسی طرح پورا کر لیتی۔ مگر اسے دو دن سے اس مردہ خانہ میں پڑے ہوئے جہانگیر کو اب گھر لانا تھا۔ اسے اپنے آخری گھر بھیجنا تھا تاکہ اس کے ماں باپ کو کچھ سکون مل جاتا۔ مومنہ سلطان کے ہاتھ میں بس اب اتنا ہی سکون دینا رہ گیا تھا ان کو۔
داؤد کی پرانے ماڈل کی اس سوزوکی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی مومنہ سلطان نے شہر کی سڑکوں پر رات کودربدر پھرتے پتا نہیں کس کس کو فون کیا تھا۔ بڑی بڑی رقموں کے لیے نہیں۔ چھوٹی چھوٹی رقموں کے لیے۔ تین۔ پانچ۔ سات۔ اس کا حلقہ احباب اتنی ہی رقم قرض میں دے سکتا تھا۔ کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھی جانے والی ہر رقم اس کی زندگی کے گلاس کو پانی کے قطروں کی طرح بھر رہی تھی۔ عزت نفس اور خودداری کو وہ مردہ خانہ کے باہر بیٹھے ہوئے سلطان اور ثریا کے پاس چھوڑ آئی تھی۔ تاکہ وہ کم از کم اس رات مومنہ سلطان کے پیروں کی زنجیر نہ بنیں جنہوں نے ہمیشہ اسے جہانگیر کی زندگی اور علاج کے لیے اس طرح پیسے جمع کرنے سے روکے رکھا تھا۔
”دیکھو مومنہ! ابھی تمہیں ایک لاکھ دیا گیا ہے ایڈوانس میں اور اب تم چاہ رہی ہو کہ مزید رقم دی جائے، یہ سب ممکن نہیں ہے اور میری تمہیں ایڈوائس ہے کہ اس اسٹیج پر اس طرح کے مطالبے نہ کرو ورنہ پروڈکشن کمپنی تمہیں نکال دے گی اس فلم سے۔ یہ بڑے پروفیشنل لوگ ہیں۔ پاکستانی بہانے اور جھوٹ نہیں مانتے یہ۔”
اس نے اس فلم کے کاسٹنگ ایجنٹ کو فون کیا تھا۔ جو فلم وہ سائن کر کے آئی تھی اور اس نے فون پر ہی اس کی پوری بات سنے بغیر فون یہ کہتے ہوئے بند کر دیا تھا۔ ”میں کچھ گیسٹس کے ساتھ ہوں تم سے کل بات کروں گا۔”
مومنہ کو کچھ محسوس نہیں ہوا۔ نہ کوئی ہتک، نہ کوئی ذلت۔ جس کرب میں وہ تھی، وہ اس کے باقی سب احساس کھا گیا تھا۔
”ہو جائیں گے اکٹھے مومنہ! ہو جائیں گے۔ تم پریشان نہ ہو۔ ہم کر رہے ہیں کوشش۔ فوری طور پر کچھ بن نہیں پا رہا ورنہ داؤد اپنی گاڑی بیچنے کی بات کر چکا ہے کتنے لوگوں سے کل سے۔ تم دعا کرو کوئی فوری پے منٹ پر تیار ہو تو گاڑی ہی بیچ دیں۔ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔”اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوئی اقصیٰ اپنے فون سے کالز کرتے ہوئے مسلسل اسے تسلیاں دے رہی تھی۔
”اسلم بھائی سے بھی بات کرتی ہوں اگر اُن سے کچھ مل جائیں۔”
مومنہ نے جواباً فون پر ایک اور نام ڈائل کرنا شروع کر دیا یوں جیسے وہ تسلی اس نے سنی ہی نہ ہو۔ اقصیٰ نے کال کرتے کرتے اس کا چہرہ دیکھا۔ مومنہ کے چہرے پر کچھ نہیں تھا۔ کچھ بھی۔ وہ صرف کال ملا کر فون کان سے لگائے اب اسلم بھائی سے بات کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”اسلم بھائی کچھ قرض چاہیے۔” دوسری طرف اسلم بھائی کی آواز سنتے ہی اس نے چھوٹتے ہی کہا تھا۔
”ایک تو میرے ہر آرٹسٹ کو میرے ہی سوپ میں قرض کی ضرورت پڑتی ہے۔ بینک سمجھ لیا ہے تم لوگوں نے مجھے۔ اب تم بتاؤ، کون سا پلاٹ خریدا ہے جس کی قسط دینی ہے۔” انہوں نے دوسری طرف سے جھلا کر کہا تھا۔
”جہانگیر مرگیا اسلم بھائی۔ اس کی لاش لینی ہے ہاسپٹل سے۔ بلز کلیئر کرنے ہیں۔”
مومنہ نے چند گھنٹوں میں درجنوں بار دہرایا ہوا جملہ اُسی میکانکی انداز میں ایک بار پھر دہرایا تھا۔
دوسری طرف اسلم بھائی کچھ دیر بول ہی نہیں سکے تھے پھر انہوں نے کچھ گڑبڑائے ہوئے انداز میں کہا۔
”اوہ! یہ تو بڑے دُکھ کی خبر ہے۔ کتنے پیسے چاہئیں؟”
”آپ جتنے بھی دے سکیں۔” مومنہ نے اُسی انداز میں کہا۔
”میں اس وقت شوٹ پر ہوں۔ نکل نہیں سکتا ابھی یہاں سے۔ مگر تم آجاؤ۔ کرتا ہوں کچھ۔ شوٹنگ لوکیشن کا تو پتا ہے نا؟”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});