ریلوے اسٹیشن پر انہیں دادا چھوڑنے آئے تھے۔ وہ اس شہر سے دوسرے شہر ریل سے جاتے پھر وہاں سے ہوائی جہاز پر پاکستان چلے جاتے۔ مومن کو یہ سب یاد تھا کیوں کہ یہ اُسے دادا نے بتایا تھا۔
”آپ ہمارے گھر میں رہیں گے؟” اُس نے دادا سے پوچھا تھا۔
”نہیں مومن میں واپس چلا جاؤں گا۔” عبدالعلی نے جواباً اُسے بتایا۔
”واپس کہاں؟” مومن نے کریدا۔
”جہاں سے میں آیا ہوں۔” اُس نے دادا کو مدھم آواز میں کہتے سنا۔ وہ اُن کا سامان گھر سے باہر رکھ کر گھر کو تالا لگا رہے تھے۔ مومن نے حسن جہاں کو دیکھا۔ وہ اس گھر کو نہیں دیکھ رہی تھی، بس اس ٹیکسی کی طرف جا رہی تھی جو اُن کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔ قلبِ مومن نے اُس گھر کو چھوڑتے ہوئے عجیب اداسی محسوس کی۔ اسے رونا بھی آیا مگر دادا نے اسے اپنے سینے میں چھپا لیا تھا۔
اور اب ریلوے اسٹیشن پر دادا کو خداحافظ کہتے ہوئے قلبِ مومن کو پھر رونا آیا تھا۔ دادا اُسے اچھے لگنے لگے تھے۔
”دادا! آپ ہمارے ساتھ چلیں۔” اُس نے عبدالعلی کا ہاتھ تھامے اُن سے کہا۔
”ابھی نہیں جا سکتا۔ پھر کبھی آؤں گا۔” اس نے دادا کو کہتے سنا۔
”آپ بابا کو ڈھونڈ لینا اور ان کو ساتھ لے کر آنا۔” ان کے گلے لگتے ہوئے قلبِ مومن نے ان کے کان میں سرگوشی کی۔ اتنے ہفتوں کے بعد آج پہلی بار اس نے باپ کا ذکر کیا تھا مگر وہ سمجھ دار تھا اس نے ماں کو اس کی خبر نہیں ہونے دی تھی۔ عبدالعلی نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا بس اس کا سر اور ماتھا چوما تھا۔ قلب مومن نے اپنے ماتھے پر ان کے آنسوؤں کی نمی محسوس کی تو اسے ہاتھ سے چھوا۔ ٹرین چلنے والی تھی۔ حسنِ جہاں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے دادا نے انہیں رخصت کیا تھا۔ قلب مومن نے ان دونوں کے درمیان کسی اور جملے کا تبادلہ نہیں سنا تھا۔ ماں کی انگلی پکڑے ٹرین کے دروازے تک پہنچتے قلب مومن نے پلٹ کر دیکھا۔ اس کے دادا وہیں کھڑے رو رہے تھے جہاں وہ ان سے الگ ہوئے تھے۔ اس نے گردن موڑ کر حسن جہاں کو دیکھا، وہ بھی بے آواز رو رہی تھی۔ قلب مومن کا دل دکھا۔ اسے یقین تھا وہ دونوں بابا کے لیے رو رہے تھے اگر بابا مل جاتے تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا مگر وہ انہیں ڈھونڈ نہیں سکے تھے۔ اس نے مایوسی سے سوچا۔
”بابا مل جاتے تو کوئی بھی ایسے نہ روتا۔” اسے پاکستان میں ایک بار پھر سے کوئی ایسی جگہ ڈھونڈنا تھی جہاں وہ لیٹرباکس رکھتا اور پھر اس میں وہ خط ڈالتا جس میں اللہ سے کئے گئے سوال اور فرمائشیں ہوتیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”یہ ہمارا گھر ہے؟”
قلبِ مومن نے بے یقینی کے عالم میں اس وسیع و عریض شان دار بنگلے کے دروازے کو دیکھتے ہوئے ماں سے پوچھا تھا جس کے باہر وہ ٹیکسی سے اتر کر کھڑے تھے اپنے سامان کے ساتھ۔ حسن جہاں نے اسے دیکھے بغیر سرہلایا تھا۔ وہ جیسے کسی سوچ میں گم تھی، کوئی اُدھیڑ بن کرتے ہوئے۔ قلبِ مومن اپنی خوشی پر قابو پانے سے قاصر تھا۔ اتنا بڑا گھر۔ وہ تو ولا تھا۔ ترکی سے پاکستان آجانے کا غم یک دم غائب ہو گیا تھا۔ وہ سر اٹھا کر گیٹ سے پرے نظر آنے والی اس دو منزلہ شان دار عمارت کو دیکھتا رہا۔ جس کا گیٹ کسی مرد نے کھولا تھا۔
”کون؟” وہ کوئی ملازم تھا مگر اپنا جملہ پورا نہیں کر سکا تھا۔ حسن جہاں کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اس نے بے اختیار گیٹ کھول دیا تھا۔ حسنِ جہاں سامان چھوڑ کر قلبِ مومن کا ہاتھ پکڑے کھلے دروازے سے اندر آئی تھی۔
”ممی ہمrichہو گئے ہیں؟” قلبِ مومن نے بے پناہ خوشی کے عالم میں گھر کے اندر کھڑی گاڑیوں اور لان کو دیکھتے ہوئے ماں کے ساتھ چلتے ہوئے اس سے پوچھا۔ وہ جواب دیے بغیر اس کی انگلی پکڑے چپ چاپ چلتی رہی۔
”ہم گاڑی میں بیٹھا کریں گے اب؟” قلبِ مومن کو پروا نہیں تھی کہ اس کے پچھلے سوال کا جواب آیا تھا یا نہیں۔ وہ ان چمکتی دمکتی گاڑیوں سے مرعوب ہو رہا تھا جن کو اس نے ٹی وی پر یا ترکی کی سڑکوں پر دیکھا تھا۔
حسنِ جہاں اب اس کا ہاتھ پکڑے اسے گھر کے اندر لے آئی تھی اور قلبِ مومن نے پہلی بار اس گھر کی دیواروں پر جگہ جگہ حسنِ جہاں کی تصویریں لگی دیکھی تھیں۔ بے حد بھڑکیلے کپڑوں میں میک اپ سے لتھڑے ہوئے چہرے کے ساتھ عجیب عجیب پوز اورpostures میں۔ ایک لمحہ کے لیے اسے لگا وہ اس کی ممی نہیں۔ اس کی ممی تو کبھی بھی ایسے کپڑے نہیں پہنتی تھیں اور ڈانس تو کبھی نہیں کر سکتیں اس طرح۔
”ممی! یہ آپ کی تصویریں ہیں؟”وہ حسنِ جہاں سے جیسے تصدیق چاہتا تھا۔ حسنِ جہاں نے اُس کے سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔ وہ ان بہت سارے لوگوں کی طرف متوجہ تھی جو لاؤنج میں بیٹھے تھے اور انہیں دیکھ کر جیسے وہ سب ہکا بکا ہو گئے تھے۔
”اماں۔۔۔ میں آگئی۔” قلبِ مومن نے حسنِ جہاں کو ان پانچ چھے لوگوں میں شامل ایک عورت کو مخاطب کرتے دیکھا۔ مومن نے اُلجھی نظروں سے ماں کو دیکھا۔ وہ جیسے ماں کا وہاں موجود لوگوں سے رشتہ سمجھنا چاہتا تھا۔
ایک تخت نما کاؤچ پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے وہ ادھیڑ عمر عورت بیٹھی ہوئی تھی جسے حسنِ جہاں نے ماں کہہ کر پکارا تھا اور جس کے سامنے وہ اب قلبِ مومن کے ساتھ مجرمانہ انداز میں سرجھکائے کھڑی تھی۔
”آنا ہی تھا تُو نے حسنِ جہاں۔۔۔ آنا ہی تھا۔۔۔ تُو مجھے اعلان کر کے کیا بتا رہی ہے۔” اس عورت نے آلتی پالتی مارے بیٹھے بیٹھے اپنے گاؤتکیہ سیدھا کیا۔ اس کی کاٹ دار نظریں قلبِ مومن پر ایک لمحہ کے لیے ٹکی تھیں پھر دوبارہ حسنِ جہاں پر چلی گئی تھیں۔
”اب آگئی ہے تو بیٹھ جا۔ پانی پلا اسے۔” اسی عورت نے حسنِ جہاں سے کہتے کہتے کسی ملازم سے بات کی تھی۔ حسنِ جہاں میکانکی انداز میں ایک صوفہ پر بیٹھ گئی۔ قلبِ مومن کو اُس نے اُسی صوفہ پر ساتھ بٹھا لیا تھا۔ قلبِ مومن نے باری باری اُن سب لوگوں کو دیکھنا شروع کیا جو وہاں کھڑے تھے۔ اُن سب کی خاموشی اور آنکھوں میں اس نے اپنی ماں کے لیے ایک ہی تاثر دیکھا تھا۔ قلبِ مومن کا دل یک دم گھبرایا تھا۔ وہ شان دار گھر اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا نہ ہی وہاں موجود لوگ۔ اُن میں سے کسی کی توجہ قلبِ مومن پر نہیں تھی۔
”ممتاز نے حسنِ جہاں بنایا اور تُو چلی تھی حُسنہ بننے۔” قلبِ مومن نے اسی عورت کو تیز تلخ انداز میں عجیب ہنسی کے ساتھی اپنی ماں سے کہتے سنا۔ اس نے ماں کا چہرہ دیکھا۔ وہ سرجھکائے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر کچھ بھی نہیں تھا۔
”خودغرضی دیکھیں اماں اس کی۔ ہمارا نہیں سوچا اس نے۔” اس بار قلبِ مومن نے ایک مرد کو بلند آواز میں کہتے سنا تھا۔
”ہم مرتے یا جیتے، اس نے پروا نہیں کی۔” وہ وہاں کھڑی ایک اور لڑکی تھی جس کی شکل اس کی ماں سے ملتی تھی۔ قلبِ مومن نے اس کی بات سنتے ہوئے غور کیا۔
”پروا کیوں کرتی یہ۔۔۔؟ یہ تو پیار کر رہی تھی۔ پیار بڑا ہوتا ہے۔ ماں باپ بہن بھائی سے بھی بڑا۔ وہ تو مسیحا بن کر آیا تھا اس کے لیے شیطان تو ہم تھے۔ کیوں حسن جہاں۔”
قلبِ مومن نے ایک بار پھر اُسی ادھیڑ عمر کی عورت کو کہتے سنا۔ وہ اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر کچھ رکھ کر دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی سے اسے مسلتے ہوئے منہ میں ڈال رہی تھی۔ اس کی موٹی موٹی آنکھیں سیاہ کاجل کے ساتھ اس وقت بے حد خوف ناک لگی تھیں مومن کو اور اس کے ہونٹوں اور دانتوں دونوں پر عجیب سا لال رنگ لگا ہوا تھا۔ قلب مومن اسے بغور دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کی نانی تھی۔ حسنِ جہاں نے ایک بار اسے بتایا تھا کہ چاند کی بڑھیا کی طرح اس کی بھی ایک نانی تھی۔ جو دوردیس میں رہتی تھی مگر قلبِ مومن نے جو تصور اپنی اس نانی کا بنایا تھا وہ ممتاز جہاں جیسا نہیں تھا۔
”ایسے تو کوئی سوتیلے رشتوں کے ساتھ نہیں کرتا جس طرح اس نے سگے رشتوں کے ساتھ کیا۔ کاروبار شروع کیا تھا میں نے اور یہ اس وقت بھاگ گئی۔ میرا کاروبار ڈبو گئی۔”
قلبِ مومن نے اسی مرد کو دوبارہ بلند آواز میں کہتے سنا جس نے پہلے اس کی ماں کو ملامت کی تھی۔ عجیب بے چینی کے ساتھ اس نے حسن جہاں کو دیکھا تھا۔ وہ ویسے ہی بیٹھی تھی خاموش سرجھکائے، خشک آنکھوں کے ساتھ۔ مومن بے قرار ہوا۔ اس کی ماں کو بولنا چاہیے تھا، کچھ کہنا چاہیے تھا۔ اس طرح کیوں اسے برا بھلا کہہ رہے تھے وہ سب لوگ۔ وہ ماں کو جھنجھوڑنا چاہتا تھا۔
”مجھے فلم میں کام دلوانا تھا پر نہیں۔ باجی کو کیا؟ بس خود نمبر ون رہتی۔۔۔ اپنا سکہ چلتا رہتا۔۔۔ بہن جائے بھاڑ میں۔” اب وہ لڑکی تلخی سے کہہ رہی تھی۔ قلبِ مومن نے حسن جہاں کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا وہ ماں کو ان سب کی باتوں سے بچانے کے لیے فی الحال صرف یہی کر سکتا تھا۔
”کیسی کیسی منتیں کی تھیں میں نے۔ ماں کی سالوں کی محنت کو پیار کی بھٹی میں نہ جھونک۔ نمبر ایک ہیروئن بنا کر راج کروا رہی تھی ممتاز، کروڑوں مردوں کے دلوں اور دماغوں پر… پر اس کو چاہیے تھا ایک مرد کے نام کا پٹا۔۔۔ اور یہ بچہ۔۔۔ اب ممتاز کیا کرے تیرا۔۔۔ اچار ڈالے۔۔۔ اماں میں آگئی۔” ممتاز اب بالآخر اپنے کاؤچ سے اتر آئی تھی اور اپنی پاٹ دار آواز میں حسنِ جہاں کو لعنت ملامت کرتے ہوئے اس نے اس کی نقل اتاری اور پھر لاؤنج سے نکل گئی۔ اس کے پیچھے باری باری وہ سارے لوگ بھی وہاں سے چلے گئے۔ جو حسنِ جہاں کو ممتاز کی طرح وقفے وقفے سے برا بھلا کہہ رہے تھے۔
عجیب خاموشی تھی جو ان سب کے جانے کے بعد وہاں در آئی تھی اور اسی خاموشی میں قلبِ مومن نے پہلی بار وہاں اُس شخص کو نمودار ہوتے دیکھا جو ان کے ترکی والے گھر آیا تھا تو ان کی زندگی تباہ کر کے چلا گیا تھا۔ قلب ِمومن کی آنکھوں میں اس کا چہرہ نقش تھا۔ وہ اتنے عرصہ بعد بھی اسے پہلی نظر میں پہچان گیا تھا۔ کسی تعارف کے بغیر۔
وہ شخص بلی کی طرح دبے قدموں اندر آیا تھا اور اندر آتے ہوئے اس کی نظریں صرف حسنِ جہاں پر تھیں۔ وہ سیدھا اس کے سامنے آیا تھا۔ پھر مومن نے اسے اپنے سامنے کھڑے ہوتے دیکھا۔ وہ حسنِ جہاں کی ٹھوڑی کو اپنے ہاتھ سے اوپر اٹھا رہا تھا۔ حسنِ جہاں اور اس کی نظریں ملی تھیں۔ مومن کا دل چاہا وہ اپنی ماں کی ٹھوڑی کے نیچے ٹکے اس کے ہاتھ کو جھٹکے۔ مگر اس کی ماں اس شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی تھی۔
”کیا کر کے آئی ہیں؟” اس شخص نے عجیب دل گرفتی کے عالم میں حسنِ جہاں سے کہا تھا۔ پانی سیلاب کی طرح حسن جہاں کی آنکھوں میں امڈا تھا۔
”پیار کر کے آئی ہوں۔” قلبِ مومن نے حسنِ جہاں کو کہتے سنا۔
اس نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنی ماں کو ہنستے دیکھا۔ وہ اب اس شخص سے لپٹی رو رہی تھی۔ وہ شخص بھی رو رہا تھا۔ صرف قلبِ مومن تھا جس کا دل اس وقت ببول کا کانٹا بن گیا تھا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});