اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

اس کا سمسٹر ختم ہونے والا تھا۔ آج کل امتحانات کا زمانہ چل رہا تھا اس لیے تقریباً تمام ہی طلباءو طالبات اپنا زیادہ وقت لائبریری میں گزارتے جن میں ایک وہ بھی تھی ۔اُس دن بھی وہ سب مل کر پڑھ رہے تھے جب اس کے فون پر سعدی کی کال آگئی، حور عین پڑھنے میں اتنی مصروف تھی کہ اُسے پتا بھی نہ چلا اور فون وائبریٹ کرکرکے بند ہوگیا ویسے بھی جب مقیت پڑھاتا تو وہ ہمیشہ سب سے یہی کہتا کہ اپنے فون کی آواز بند کرکے بیگ میں رکھ لو تاکہ اس کی آواز کسی دوسرے کو ڈسٹرب نہ کرے۔ دو گھنٹہ پڑھنے کے بعد وہ اپنے اگلے پرچہ سے خاصی مطمئن ہوکر جب اُٹھی تو بیگ میں ہاتھ ڈال کر فون چیک کیا اور یہ دیکھتے ہی اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی کہ فون پر آنے والی دس مِس کالز صرف اور صرف سعدی کی تھیں اور ساتھ ہی دو عدد میسج بھی، حور عین نے جلدی سے اپنا اِن باکس کھولا اور پہلا پیغام پڑھا۔
”میں باہر کھڑا ہوں جلدی سے آجاو ¿۔“
اُسے حیرت ہوئی سعدی کے ساتھ اُس کی کوئی ایسی میٹنگ طے نہ تھی جس کے تحت وہ یونیورسٹی کے باہر آن کھڑا ہو جب کہ رات بارہ بجے تک ان دونوں کی آپس میں بات ہوئی تھی اس حیرت کے پیش نظر اس نے جلدی سے دوسرا پیغام پڑھا۔
”میرا خیال ہے کہ تم ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت مصروف ہو اور کلاس ختم ہونے کے بعد بھی نہ میرا فون ریسیو کررہی ہو اور نہ ہی میسج کا جواب دے رہی ہو، بہرحال اب میں واپس جارہا ہوں۔“
صاف لگ رہا تھا کہ وہ ناراض ہوگیا ہے حورعین نے جلدی سے جوابی کال ملائی دوسری طرف پہلی بیل جاتے ہی سعدی نے لائن کاٹ دی اور پھر اُس کی ہر کوشش کے جواب میں وہ لائن کاٹتا رہا اور کچھ دیر بعد اس نے اپنا سیل بھی آف کردیا وہ روہانسی ہوگئی۔
”کیا بات ہے حورعین سب خیریت تو ہے؟“اپنا بیگ سمیٹ کر مقیت اُس کی جانب آیا تو اُسے پریشان کھڑا دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
”پتا نہیں….“وہ اس قدر روہانسی ہوگئی کہ اُس کے حلق سے آواز بھی نہ نکل پائی۔
” آو ¿ میں تمہیں پارکنگ تک چھوڑ دوں ڈرائیور آگیا ہے تمہارا؟“
اُسے دیکھتے ہی مقیت کو ڈرائیور یاد آگیا۔
” نہیں میں نے ممی سے کہا تھا جب میسج کروں تب گاڑی بھیجیں۔“
”اچھا پھر چھوڑ دو، میں گاڑی لایا ہوں آجاو ¿ تمہیں بھی چھوڑ دوں گا۔“
”مگر۔“وہ کہتے کہتے رک گئی ایک طرف مقیت کے حوالے سے سعدی کا رویہ اور دوسری جانب سب کچھ جانتے ہوئے بھی مقیت کا طرز عمل جس نے کبھی بھی اس کے سامنے آج تک سعدی کی برائی نہ کی۔
”آجاو ¿ رک کیوں گئیں۔“
آگے بڑھتے ہوئے مقیت نے پلٹ کر اُسے دیکھا۔
”میں سوچ رہی ہوں کہیں سعدی ناراض نہ ہوجائے۔“
”چلو پھر جیسے تمہاری مرضی میں چلتا ہوں اللہ حافظ“
مقیت نے بنا برُا مانے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور آگے کی جانب چل دیا جب وہ تیز تیز چلتی اس کے پیچھے آگئی۔
”میرا خیال ہے تم مجھے چھوڑ دو کیوں کہ میں بہت تھک گئی ہوں اور اب مزید آدھ گھنٹہ گاڑی کے انتظار میں یہاں نہیں رک سکتی۔“
ایک تو حساب پڑھنا اوپر سے سعدی کے بچگانہ رویہ نے اُسے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح تھکا دیا تھا۔ وہ چڑ کر مقیت کے ساتھ گھر آگئی تھی یا شاید سعدی نے ایک بار پھر اُس کی ضد کو جلا بخشی تھی۔
٭….٭….٭
دانیہ کا عمران سے جھگڑا ہوگیا جس کی بنا پر وہ آج کل بہت ڈسٹرب تھی کبھی کبھی تو راشیل کو اُسے دیکھ کر حیرت ہوتی کہ یہ کیسی لڑکی تھی جسے ہر دو ماہ بعد کسی نئے لڑکے سے محبت ہوجاتی یا پھر جس سے وہ محبت کرتی وہ لڑکا کسی اور لڑکی کو اپنا دل دے بیٹھتا اُسے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ عجب گورکھ دھندہ تھا۔ ان کے نزدیک محبت کی کوئی حیثیت نہ تھی سوائے ٹائم پاس کے۔ ابھی بھی راشیل کو دانیہ کی زبانی یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ عمران، دانیہ کی کسی اور دوست کو پسند کرنے لگا تھا جس کی بنا پر وہ دانیہ سے بریک اپ چاہتا تھا بہ قول دانیہ وہ عمران کے بنا مر جائے گی اور راشیل یہ جانتی تھی کہ ایسا کچھ نہ ہوگا یہ صرف وقتی رونا دھونا تھا چند دن بعد سب ٹھیک ہوجاتا۔ وہی عمران ہوگا اور وہی دانیہ فرق صرف اتنا آنا تھا کہ دونوں کے درمیان موجود رشتہ تبدیل ہوجاتا۔ دو سالوں میں راشیل اتنا سب کچھ تو دانیہ کے متعلق جان ہی چکی تھی اس لیے اُسے دانیہ کے اس وقتی ڈسٹرب ہونے سے کوئی فرق نہ پڑا سوائے اس کے کہ وہ سارا دن فون کرکے راشیل کا دماغ کھاتی رہتی۔ فون پر تو واقعی اُسے ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ بہت پریشان ہے مگر جب وہ اپنے پریکٹیکل کے لیے کالج آئی تو راشیل اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی کیوں کہ وہ ہمیشہ کی طرح کافی فریش لگ رہی تھی۔ یونی فارم میں سالونی رنگت پر شوکنگ پنک لپ اسٹک کے ساتھ اُسے دیکھ کر راشیل کے ذہن میں ایک دم گولا گنڈا کا خیال آیا اور اس خیال کے آتے ہی وہ خود بہ خود ہنس دی۔
”کیا بات ہے آج بڑی خوش نظر آرہی ہو؟“
اپنی چھوٹی سی پونی ہلاتی وہ اچھل کر راشیل کے قریب رکھے اسٹول پر بیٹھ گئی۔
”ویسے ہی کچھ یاد آگیا۔“
جواب دے کر راشیل نے دیکھا وہ اپنے موبائل پر اس برُی طرح مصروف تھی کہ اُسے آس پاس کا بھی ہوش نہ تھا۔
”تم فون بند کرکے بیگ کے اندر رکھ دو مسز عمزہ نے دیکھ لیا تو چھین لیں گی۔“ اُس نے فوراً ہی دانیہ کا کندھا ہلا کر اُسے خبر دار کیا۔
”یہ تصویر دیکھو۔“
اس کی بات کا جواب دیے بغیر دانیہ نے اپنا سیل راشیل کے سامنے کردیا جہاں اسکرین پر مقیت اور اس کی دوست حور عین کی تصویر تھی۔
”تم نے یہ تصویر کہاں سے لی؟“
اُسے دانیہ کے سیل میں مقیت کی یہ تصویر کچھ عجیب سی لگی۔
”ارے مقیت کی اپنی آئی ڈی سے اور کہاں سے لیتی۔“
”اچھی ہے نا۔“
”وہ تم سے بہت بڑے ہیں اس لیے مقیت بھائی کہا کرو۔“
دانیہ کا اس طرح مقیت کہنا، راشیل کو بالکل اچھا نہ لگا۔
” میں کسی کو بھائی نہیں کہتی سوائے اپنے بھائی کے۔“
کھٹاک سے جواب دے کر اُس نے اپنا سیل بیگ میں ڈال لیا۔
”تم نے یہ تصویر کیوں نکالی ہے؟“
دانیہ کے جواب سے زیادہ راشیل کا دھیان ابھی تک اُس تصویر میں اٹکا ہوا تھا جو چند لمحے قبل وہ اُس کے سیل میں دیکھ چکی تھی۔
”بس ایسے ہی۔“
وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی۔
”ایڈٹ کررہی تھی کیوں کہ میں آج کل ایڈیٹنگ کا کام سیکھ رہی ہوں پھر اپنی طرف سے مقیت کو گفٹ کروں گی اور مجھے یقین ہے وہ یہ تصویر دیکھ کر بہت خوش ہوگا۔“
اپنی طرف سے اُسے مطمئن کرکے وہ اسٹول سے نیچے اتر گئی کیوں کہ پریکٹیکل شروع ہوگیا تھا اور لیب اسسٹنٹ نے کاپیاں بانٹنی شروع کردی تھیں۔ پریکٹیکل میں مصروف ہونے کے باعثچند ہی لمحوں میں راشیل کے دماغ سے وہ تصویر نکل گئی جس نے اسے بہت دیر سے ذہنی طور پر اُلجھا رکھا تھا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کوزہ گر ۔ افسانہ

Read Next

کلپٹومینیا ۔ ناولٹ

One Comment

  • ناولٹ نامکمل ہے اسے مکمل کردیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!