اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

”آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔“دانیہ کی جانب سے آنے والے اس پیغام کو پڑھ کر مقیت تھوڑا سا ٹھٹھک گیا۔
”اچھا….“
اُس نے سادہ سا جواب ٹائپ کرکے بھیج دیا۔
”آپ مجھ سے دوستی کرلیں۔“
”تم پہلے بھی میری دوست ہو۔“وہ دانیہ کی بات نہ سمجھا۔
”میں اُس والی دوستی کی بات نہیں کررہی۔“
”تو پھر….“اُسے احساس ہوا دانیہ کچھ غلط سوچ رہی ہے۔
”اُفوہ! آپ میری بات سمجھ کیوں نہیں رہے میرا مطلب ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے۔“
راشیل نے ٹھیک کہا تھا کہ دانیہ اس قابل نہیں کہ اُس سے زیادہ بات کی جائے اب مقیت کو افسوس ہوا کہ کیوں اُس نے پہلے ہی دانیہ کو اپنی دوستوں کی فہرست سے خارج نہ کردیا کیوں بلاوجہ میں اتنے ٹائم سے مروت و پاس داری نبھا رہا تھا۔ کیا ضرورت تھی جب راشیل نے منع کردیا تھا پھر کیوں فوراً اس کی ہدایت پر عمل نہیں کیا۔
”کیا ہوا ناراض ہوگئے؟“جواب دینے سے پہلے ہی ایک پیغام اور آگیا۔
”میرا خیال ہے تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے جو اس طرح کی فضول باتیں کررہی ہو۔“
”اس میں فضول بات کون سی ہے۔“دانیہ خاصی ڈھیٹ لڑکی تھی۔
”میں تمہیں بچی سمجھتا ہوں کیوں کہ تم کم از کم مجھ سے آٹھ سال چھوٹی ہوگی۔“
”لیکن میں بچی نہیں ہوں یقین نہ آئے تو آپ مجھ سے مل کر خود دیکھ لیں۔“
مقیت کا دل چاہا اس لمحہ یہ لڑکی اگر سامنے ہو تو گولی مار دے۔ اتنی بے باک اور کھلی لڑکی! اُسے حیرت ہوئی۔
”ہا ہا ہا ناراض ہوگئے، ارے میں تو مذاق کررہی تھی، آپ شاید بھول گئے آج فرسٹ اپریل ہے۔“
مقیت کے جواب دینے سے قبل ہی دانیہ کے آنے والے نئے پیغام نے اس کے غصہ کی شدت کو خاصا کم کر دیا اُس نے تاریخ دیکھی واقعی آج فرسٹ اپریل تھی۔
”بہرحال میرے ساتھ دوبارہ ایسا فضول مذاق مت کرنا۔“ مقیت نے تنبیہہ کی۔
”اچھا آپ دونوں اس تصویر میں ایک ساتھ بہت اچھے لگ رہے ہیں زبردست جوڑی ہے۔“
”شکریہ….“
مختصر جواب دے کر مقیت نے دیکھا تصویر اُس کی اور حورعین کی تھی جو پچھلے ہفتے یونی ورسٹی میں ہونے والے ایک فنکشن کے موقع پر لی گئی تھی۔ وہ دونوں بلیک کلر کے ڈریس میں بہت خوب صورت لگ رہے تھے۔ ایک ساتھ بیٹھے ہنس رہے تھے کہ جب کسی فوٹو گرافر نے وہ تصویر کھینچ کر اپنے پیج پر ڈال دی جہاں سے مقیت نے لے لی تھی اور اب وہی تصویر دانیہ دیکھ کر تعریف کررہی تھی اور اُس نے تصویر کے نیچے ایک دل بھی بنا دیا جسے مقیت نے لائک کیا۔
٭….٭….٭
جویریہ آنٹی کے گھر محفل میلاد کی تقریب تھی اور ظاہر ہے کوئی اور جائے یا نہ جائے حورعین کا وہاں جانا اور اس محفل میں شریک ہونا ضروری تھا جس کی خاص ہدایت اُسے آنٹی نے فون کرکے دے دی تھی ۔ اسی لیے اس نے آج چھٹی کی تھی حالاں کہ آج اُسے اپنی ایک ضروری اسائنمنٹ بھی جمع کروانی تھی جب وہ تیار ہوکر گھر سے نکل رہی تھی کہ مقیت کا فون آگیا۔
”کہاں ہو آج تم؟“
”میں، سعدی کے گھر جارہی ہوں۔“فون کان سے لگائے وہ گاڑی کی جانب بڑھی۔
”چلو جی! اسائنمنٹ کہاں ہے تمہاری؟ سر باقر رضوی بلا رہے ہیں فوراً یونیورسٹی آکر اپنی اسائنمنٹ جمع کرواﺅ۔“
مقیت کا جملہ سنتے ہی اُس کے بڑھتے قدم وہیں رک گئے۔
”افوہ میں تو بھول ہی گئی۔“
ممی گاڑی کا دروازہ کھولے اُس کے اندر بیٹھنے کی منتظر تھیں جب کہ اُسے اسائنمنٹ یاد آتے ہی باقی سب کچھ بھول گیا۔
”دراصل آج سعدی کے گھر میلاد تھا اور جویریہ آنٹی کے بہ قول اُس میں میری شرکت زیادہ ضروری تھی بانسبت اسائنمنٹ جمع کروانے کے۔“ لہجہ میں ہلکا سا شکوہ لیے اُس نے جیسے اپنی ممی کو سنایا۔ اس کی امی نہیں چاہتی تھیں کہ آج حورعین یونیورسٹی جائے۔ انہیں شاید یہ خدشہ لاحق تھا کہ کہیں کسی کام میں الجھ کر اُسے گھر آنے میں دیر نہ ہوجائے جس کے باعث وہ جویریہ کے گھر جانے سے معذرت کرلے یہ سوچ کر انہوں نے حورعین کو آج چھٹی کرنے پر مجبور کیا تھا۔
ایسا کرو تم اپنی فائل نکالو میں آرہا ہوں۔“
”مطلب میری اسائنمنٹ تم جمع کروا دو گے؟“
”ظاہر ہے یار اب اور کیا ہوسکتا ہے میں سر باقر سے بات کرلیتا ہوں کہ تمہاری طبیعت بہت خراب ہے اور تم نہیں آسکتیں۔“
”تھینک یو مقیت تھینک یو سو مچ شکر ہے جو مجھے تمہارے جیسا دوست ملا۔ تم میرے بہت کام آتے ہو میں ہمیشہ تمہاری قرض دار رہتی ہوں۔“ مارے تشکر کے اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں ایک اِتنا خیال کرنے والا دوست، جو مخلص اور بے لوث ہو، بنا کسی فائدے کے آپ کے کام آئے اس زمانے میں کم از کم ملنا نہایت مشکل ہے اور سعدی کہتا ہے کہ میں صرف اُس کی ضد میں اپنی دوستی قربان کردوں جب کہ خود کبھی میرے فون کرنے پر نہیں آیا چاہیے کتنا ضروری کام ہی کیوں نہ ہو۔
ایسے میں جہاں اُسے مقیت کا اپنے لیے یہ احساس اچھا لگا وہاں سعدی کی بے جا ضد یاد کرکے اُس کا دل مزید خراب ہوگیا۔
”جلدی کرو حورعین جویریہ بار بار فون کررہی ہے۔“
ممی نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اُسے پکارا۔
”سوری ممی آپ کو کچھ دیر رکنا پڑے گا میں اندر سے اپنی اسائنمنٹ لے آو ¿ں مقیت آرہا ہے وہ جمع کروا دے گا ورنہ بلاوجہ میرے بیس نمبروں کا حرج ہوگا۔“
ماں کو جواب دے کر وہ جلدی سے گھر میں داخل ہوئی اور پھر اپنی فائل لئے وہ روڈ پر ہی کھڑی رہی تقریباً پندرہ منٹ میں ہی مقیت آگیا۔ حورعین فائل کے ساتھ اندر سے ایک چاکلیٹ اور کولڈڈرنک بھی لے آئی تھی جو اُس نے مقیت کے حوالے کردی اور مسکراتے ہوئے بولی۔
”میری مدد کرنے کا انعام“
”شکریہ لیکن میں تمہاری مدد کسی انعام کی لالچ میں نہیں کرتا۔“
” اچھا تو پھر کیوں کرتے ہو؟“
گاڑی اسٹارٹ کرتا ہوا مقیت رُک گیا۔
”بس میرا دل چاہتا ہے ہر دم تمہارے کام کروں“ وہ ذرا سا مسکرایا۔
”صرف میرے کام….“وہ ہلکا سا ہنسی۔
”ڈفر تم تو سب کے کام آتے ہو۔“
جانتی تھی مقیت ایسا ہی ہے ہمیشہ سب کے کام آنے والا۔
”اور میرا سب صرف تم ہو“
یہ جملہ کہہ کر وہ تیزی سے گاڑی آگے بڑھاتا ہوا نکل گیا۔ مقیت نے یہ کیا کہا ، بہتدیر تک حورعین کی سمجھ میں ہی نہ آیا۔ وہ اپنی جگہ کھڑی راستہ دیکھتی رہی جس طرف مقیت گاڑی لے کر گیا تھا اور جانے کب تک کھڑی رہتی اگر ممی ہارن بجا کر اُسے اپنی جانب متوجہ نہ کرتیں اور پھر وہ تیزی سے بھاگ کر گاڑی میں جا بیٹھی مبادا زیادہ لیٹ ہوجائے اور جب وہاں پہنچی تو گیٹ پر کھڑے سعدی کو دیکھ کر سب کچھ بھول گئی۔ اونچا لمبا سعدی کلف والی شلوار قمیص میں کہنیوں تک آستینیں فولڈ کیے دل میں اتر جانے کی حد تک خوب صورت لگ رہا تھا۔ دل ہی دل میں ماشاءاللہ کہتی جیسے ہی وہ گیٹ کے قریب پہنچی تو وہ جلدی سے آگے بڑھا۔
”السلام علیکم آنٹی۔“
مخاطب ممی تھیں مگر نظریں اُس پر تھیں جنہیں محسوس کرکے وہ تھوڑی سی کنفیوز ہوگئی۔
”وعلیکم السلام بیٹا جیتے رہو۔“
ممی نے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے دعا دی۔ سیدھا ہوتے ہی وہ حورعین کی جانب پلٹا۔
”تمہیں کسی نے بڑوں کو سلام کرنا نہیں سکھایا۔“
حورعین نے دیکھا وہ مسکرا رہا تھا جب کہ ممی ان دونوں کو باتیں کرتا چھوڑ کر آگے بڑھ گئیں تھیں۔
”نہیں!“روٹھے انداز میں کہتی وہ آگے بڑھی تھی کہ سعدی یک دم سامنے آگیا۔
” اچھی لگ رہی ہو۔“بڑے نارمل انداز میں کی گئی سعدی کی یہ تعریف حورعین کو ساتویں آسمان پر لے گئی اور وہ پچھلی ساری باتیں بھول گئی۔
”تم مجھ سے زیادہ اچھے لگ رہے ہو۔“اس کی بات سن کر سعدی ہنس دیا۔
”چلو آج یہ تو ثابت ہوگیا کہ عورت ہمیشہ اپنی تعریف کی بھوکی ہوتی ہے جیسے تم، اب دیکھو میں نے ذرا سی تمہاری تعریف کیا کی تم تو ساری ناراضی بھول گئیں۔
”میں ناراض تھی ہی نہیں۔“
وہ مسکراتے ہوئے بولی اور سعدی کی سنگت میں چلتی اوپر چھت پر آگئی جہاں آج کی اس بابرکت محفل کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایسے میں اسے احساس ہوا کہ اچھا کیا جو آج یونیورسٹی نہیں گئی ورنہ بیس نمبروں کے چکر میں شاید سعدی کا یہ خوب صورت ساتھ نصیب نہ ہوتا اور اس سوچ نے اس کو مکمل طور پر مطمئن کردیا۔ وہ پرانی کیفیتیں بھلا بیٹھی۔ سچ کہتے ہیں عورت محبت کے دوبول سنتے ہی سب کچھ بھول جاتی ہے جب کہ مرد کی طبیعت اس کے برخلاف ہے وہ بھولتا ضرور ہے مگر شاید وقتی طور پر اور سعدی بھی یقینا ایک ایسا ہی مرد تھا۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کوزہ گر ۔ افسانہ

Read Next

کلپٹومینیا ۔ ناولٹ

One Comment

  • ناولٹ نامکمل ہے اسے مکمل کردیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!