”تم گھر نہیں گئی ابھی تک؟“
وہ پچھلے ایک گھنٹہ سے گاڑی کے انتظار میں بیٹھی تھی ۔ مقیت اُسے تنہا بیٹھا دیکھ کر اُس کے پاس آگیا۔
”گاڑی نہیں آئی۔“
”تو فون کرکے پتا کرو کیوں نہیں آئی۔“ اس کے انداز میں فکر مندی در آئی۔
”کیا تھا فون جان محمد کسی کام سے شیرشاہ گیا تھا واپسی میں ٹریفک میں پھنس گیا ہے اور کہہ رہا ہے ابھی بھی ٹائم لگے گا۔“
”اچھا! اگر تمہیں برُا نہ لگے تو آجاو ¿ میں چھوڑ دوں تمہارا گھر میرے راستہ میں ہی آتا ہے۔“ مقیت نے کہا۔
”شکریہ مقیت تم جاو ¿ میں بیٹھی ہوں جان محمد آجائے تو چلی جاو ¿ں گی۔“
”ضد مت کرو حورعین تم اچھی طرح جانتی ہو میں تمہیں اس طرح تنہا بیٹھا چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔“
حورعین جانتی تھی کہ وہ ایسا ہی ہے، مخلص اور ہر وقت لوگوں کے کام آنے والا۔
”میں سعدی سے پوچھ لیتی ہوں اگر وہ فارغ ہے تو مجھے پک کرلے۔“
یہ کہہ کر حورعین نے جلدی سے اُس کا نمبر ملا لیا جب کہ مقیت بنا کوئی جواب دیے اُس کے قریب بینچ پر بیٹھ گیا۔ وہ شاید ابھی تک ناراض تھا یہی وجہ تھی جو حورعین کے کئی بار فون کرنے پر بھی اُس نے کال ریسیو نہ کی اور اب تو جان محمد بھی فون ریسیو نہیں کررہا تھا وہ بے زار ہوکر اُٹھ گئی۔
”تم مجھے گھر چھوڑ دو کیوں کہ اب تو میں انتظار کرکے بھی تھک گئی ہوں۔“ وہ جانتی تھی کہ اُس کا گھر جس پوش علاقے میں ہے وہاں کسی کو یہ فرق نہیں پڑتا کہ کوئی لڑکی کس کے ساتھ آتی ہے یا جاتی ہے بلکہ وہاں کے رہائشی تو آس پاس رہنے والوں سے بھی مکمل طور پر واقف نہ تھے اور جہاں تک اُس کے گھر کا معاملہ تھا تو اُس کی ممی اور دونوں بہنیں مقیت سے اچھی طرح واقف تھیں اور مقیت کی امی سے اُن کی ملاقات بھی ہوچکی تھی اس لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔
”آجاو ¿….“
اُس کے اُٹھتے ہی مقیت بھی اُٹھ گیا اور پھر اگلے پندرہ منٹ میں وہ سہولت سے اپنے گھر پہنچ گئی جب کہ جان محمد کو ٹریفک سے نکل کر گھر آنے میں رات کے نو بج گئے۔ اُس نے شکر ادا کیا جو اُسے مقیت جیسا پرخلوص دوست میسر تھا جو ہمیشہ وقت پڑنے پر اُس کے کام آیا کرتا تھا ورنہ وہ نو بجے تک یونیورسٹی میں ہی خوار ہوتی رہتی۔
٭….٭….٭
One Comment
ناولٹ نامکمل ہے اسے مکمل کردیں۔