اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

”ارے یہ ہینڈسم کون ہے؟“
راشیل نے پلٹ کر اُس سمت دیکھا جہاں دانیہ نے اشارہ کیا تھا۔
”میرا کزن ہے اچھا اب تم جاو ¿ کل کالج میں ملاقات ہوگی اور ہاں پلیز میرا سوٹ یاد سے لے آنا کیوں کہ مجھے پہننا ہے۔“ صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس لمحے دانیہ سے جان چھڑوانا چاہ رہی ہے۔
”لے آو ¿ں گی سوٹ، میں کون سا کھانے لگی ہوں۔“
جواب وہ راشیل کو دے رہی تھی مگر اس کی ساری توجہ کا مرکز گیٹ کے باہر کھڑا راشیل کا کزن تھا اور اس کی یہ دل چسپی چوں کہ راشیل محسوس کرچکی تھی اس لیے اُسے دانیہ کا اُس طرح سے تاڑنا سخت ناگوار محسوس ہورہا تھا۔
”پلیز دانیہ اب تم جاو ¿ اگر کسی کو پتا لگ گیا نا کہ تم کو چنگ بَنک کرکے یہاں آئی ہو تو سچ جانو میری ماں نے مجھے ہی جان سے مار دینا ہے کہ یہ کیسی لڑکیاں تم نے دوست بنا رکھی ہیں۔“
”اوکم آن یار تم تو بہت ہی ڈرپوک ہو میں نے عبداللہ کو میسج کیا ہے وہ ٹریفک میں پھنس گیا ہے بس پندرہ منٹ میں پہنچ جائے گا تو میں نکلتی ہوں۔“
عبداللہ اس کا نیا بوائے فرینڈ تھا جس سے وہ چار ماہ قبل ملی تھی اور آج کل وہ اپنے وڈیرے باپ کی کمائی دونوں ہاتھوں سے دانیہ پر لٹا رہا تھا جب کہ دانیہ کا تو یہ معمول تھا۔ وہ اس طرح کے لڑکوں کو بے وقوف بناتے ہوئے ذرا نہ ڈرتی تھی۔
”ویسے راشیل تم بڑی لکی ہو جس کا اتنا خوبصورت اور اسمارٹ کزن ہے۔ مجھے اب سمجھ آیا کہ تم لڑکوں سے دوستی کیوں نہیں کرتی، صحیح بات ہے یار جب گھر میں ایسا مال موجود ہو تو باہر کون منہ مارتا ہے۔“
”بکواس نہیں کرو، میرے لیے بھائیوں جیسا ہے۔“ راشیل نے غصے سے جواب دیا۔
راشیل نے کھڑکی سے باہر جھانکا اب وہ جگہ خالی تھی جہاں کچھ دیر قبل مقیت کھڑا تھا اُس کے حلق سے ایک گہری سانس خارج ہوئی ایسے جیسے وہ مطمئن ہوگئی ہو۔
”چلو عبداللہ آگیا میں چلتی ہوں۔“
باہر سے سنائی دینے والے ہارن کی آواز سنتے ہی دانیہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”کوئی اچھا سا پرفیوم تو دو ایسا جس کی خوشبو عبداللہ کو مزید میرا دیوانہ بنا دے“ وہ ایک گہرا سانس خارج کرتے ہوئے بولی۔ کچھ دیر قبل مقیت کی پرسنیلٹی میں گم دانیہ نے ایک دم ہی اپنا زاویہ تبدیل کرلیا اور اُس کی اس تبدیلی پر بھی راشیل کو کوئی حیرت نہ ہوئی، اُس نے خاموشی سے اُٹھ کر اپنے ڈریسنگ ٹیبل پر موجود پرفیوم کی بوتل دانیہ کی جانب بڑھا دی جسے بڑی فراخ دلی سے خود پر انڈیلنے کے بعد اُس نے بوتل بند کرکے اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ لی۔
”بہت اچھی خوشبو ہے میں کل تمہیں کالج میں ہی واپس کردوں گی تمہیں برُا تو نہیں لگا۔“
”نہیں….“
راشیل نے مختصر جواب دیا کیوں کہ اب وہ جلد از جلد اس بلا سے جان چھڑوانا چاہتی تھی۔
”اوکے بائے….“
سامنے لگے بڑے سے آئینہ میں اچھی طرح جائزہ لیتے ہوئے وہ راشیل سے مخاطب ہوئی اور پھر اس کا جواب سنے بغیر ہیل کی ٹھک ٹھک کرتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے باہر نکلتے ہی جیسے راشیل نے سکھ کا سانس لیا، دانیہ سے اُس کی دوستی زیادہ پرانی نہ تھی۔ ویسے تو وہ دونوں ایک ہی اسکول میں زیر تعلیم تھیں جہاں دانیہ کی امی کینٹین میں کام کرتی تھی اور پھر اتفاق کی بات کہ دونوں کا داخلہ بھی ایک ہی گورنمنٹ کالج میں ہوگیا۔ اسکول میں تو راشیل نے کبھی دانیہ سے اتنی بات نہیں کی تھی کیوں کہ دونوں الگ الگ سیکشن میں پڑھتی تھیں مگر کالج میں چوں کہ ایک ہی کلاس تھی اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی اُن دونوں کی دوستی ہوگئی جس میں زیادہ ہاتھ دانیہ کا تھا اور پھر وہ بنا ظاہر کیے راشیل کو اپنے مختلف مقاصد میں استعمال کرنے لگی اُس سے کپڑے مانگ کرلے جانا، لپ اسٹک اور دیگر میک اپ کا سامان ایسے ہتھیانا کہ اُسے علم بھی نہ ہوتا۔ پیسے اُدھار مانگنا تو جیسے اُس کا روز کا معمول تھا سب سے زیادہ حیرت تو راشیل کو اُس وقت ہوتی جب وہ گھر سے کالج آتی مگر راستے میں ہی غائب ہوجاتی۔ اُس کی سہیلیوں کا ایک مخصوص گروپ تھا جن کا کام امیر لڑکوں سے دوستی کرنا اور پھر ان کے ساتھ مختلف ریسٹورنٹ میں جاکر موج مستی کرنا تھا یہاں تک کہ اکثر وہ گھروالوں کے علم میں لائے بغیر اپنے دوستوں کے ساتھ فارم ہاو ¿س اور ساحلِ سمندر جاتی جس سے اُس کے گھر والے قطعی لاعلم تھے۔ اس کی بیوہ ماں کو کبھی پتا نہ چلا کہ اُس کی بیٹی تعلیم حاصل کرنے کہاں جاتی ہے؟ گھر سے وہ یونی فارم میں آتی، اُس کے بیگ میں ہر وقت ایک اضافی شرٹ موجود ہوتی۔ جسے وہ کالج کے باتھ روم میں تبدیل کرتی اور پھر باہر نکل جاتی۔ کئی بار تو وہ اس وقت صبح صبح راشیل کے گھر پہنچ جاتی جب کبھی اُس نے کالج سے آف کیا ہوتا اور پھر وہاں وہ اپنا یونیفارم تبدیل کرتی اور راشیل کے کپڑے پہن لیتی۔
جب بھی دانیہ راشیل کو فون کرتی تو وہ ہمیشہ گھر کے گیٹ کے باہر ہوتی یہ وجہ تھی جو راشیل اُسے اندر آنے سے منع نہ کرسکتی تھی۔ وہ روزانہ ہی دوسروں کی کمائی سے ناشتا اور لنچ اُڑاتی اور پھر چار بجے جب گھر واپس جاتی تو بے چاری ماں یہ سمجھتی کہ بیٹی پڑھ کر آئی ہے۔ دانیہ کی چند ماہ کی دوستی نے راشیل کو دنیا کے بارے میں اتنا کچھ سمجھا دیا تھا جو وہ اپنی اٹھارہ سالہ زندگی میں نہ جان پائی تھی۔ اُسے حیرت ہوتی کس طرح اولاد اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خود کو جلتے ہوئے کوئلوں کی بھٹی میں گرا دیتی ہے خاص طور پر دانیہ جیسی لڑکیاں جو صرف تفریح کی خاطر اپنی عزت اتنی بے مول کردیتی ہیں کہ کوئی بھی راہ چلتا لفنگا اس سے فائدہ اُٹھائے۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کوزہ گر ۔ افسانہ

Read Next

کلپٹومینیا ۔ ناولٹ

One Comment

  • ناولٹ نامکمل ہے اسے مکمل کردیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!