اعتبار، وفا اور تم ۔ ناولٹ

”وقت گزر چکا ہے حور عین میں پہلے شاید تمہاری کوئی بات سن لیتا اور یقین بھی کرلیتا مگر اب نہیں۔“
حورعین نے حیرت سے اپنے سامنے کھڑے اُس شخص کو دیکھا جس کے ساتھ وہ پچھلے چار سالوں سے منسوب تھی مگر اب اُسے دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی اجنبی ہو۔
”ان چار سالوں میں صرف میں نے تم سے محبت کی جوابی طور پر تم نے کبھی مجھے یہ احساس نہ دلایا کہ تمہیں بھی مجھ سے محبت ہے۔“ سعدی نے خفگی سے کہا۔
حورعین کم گو لڑکی تھی اور یہ بات سعدی نہ صرف جانتا تھا بلکہ اسے حورعین کی خوبی بھی گردانتا تھا مگر آج اُس کی یہ عادت اس کی برائی بن کر سامنے آگئی تھی۔ سچ ہے اگر آپ کا دل کسی کو اچھا سمجھے تو ہر برُا شخص بھی اچھا اور اگر دل نہ مانے تو اچھا بھی برُا۔ اس بات کا درست اندازہ آج حورعین کو بھی ہوگیا۔
”تم اچھی طرح جانتے ہو سعدی میں محبت میں اظہار کی قائل نہیں کیوں کہ یہ تو وہ خوب صورت جذبہ ہے جو آپ اپنے دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں۔ محبت ایک احساس ہے سعدی صرف احساس جسے ہر وہ شخص محسوس کرسکتا ہے جو یہ جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہے۔“
”ٹھیک ہے محبت ایک احساس ہے مگر تم نے مجھے کبھی یہ احساس تو نہیں دلایا۔“
سعدی کے لہجہ میں شکوہ ضرور تھا مگر اس کا چہرہ بالکل پرُ سکون تھا۔
”اورمقیت وہ خوش نصیب شخص ہے جو تمہارے اس احساس کو نہ صرف محسوس کرچکا ہے بلکہ شاید وہاں تو تم نے اظہار بھی کردیا ہوگا۔“
اُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سارے الفاظ اس کے سامنے کھڑے سعدی کے منہ سے ادا ہورہے ہیں۔ وہ ہکا بکا کھڑی اس کی شکل تکتی رہی اور وہ بڑے سفاک الفاظ میں اپنا تجزیہ پیش کرتا رہا۔
”تمہارے پاس میرے لیے کبھی ٹائم ہی نہ تھا حور عین، جب کہ مقیت کے ساتھ تم یونیورسٹی آف ہونے کے بعد بھی دیر تک مصروف رہتی تھی ۔تمہیں کبھی میرے فون یا میسج کا جواب دینے کی فرصت بھی نہ ملی۔ مجھے چھوڑ کر تم مقیت کے ساتھ باہر گھومنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتی تھیں اور میں بے وقوفوں کی طرح اِسے تمہاری شرم و حیا سمجھ کر خوش ہوتا رہا کہ تمہیں شاید شادی سے قبل اپنے منگیتر کے ساتھ گھومنا پھرنا پسند نہیں۔“
وہ سانس لینے کے لیے رکا۔ حورعین چاہتی تو اُسے ٹوک سکتی تھی مگر وہ خاموشی سے سنتی رہی ۔
” تمہاری بے اعتنائی نے مجھے ہمیشہ بہت تکلیف دی ہے مگر اب ان شاءاللہ ایسا نہ ہوگا کیوں کہ مجھے تمہارا نعم البدل مل گیا ہے۔“
”محبت میں نعم البدل؟“
”پہلے میں تم سے محبت کرتا تھا یک طرفہ، سپاٹ اور بے رنگ محبت مگر اب کوئی اور ہے جو مجھ سے بھی محبت کرتا ہے اور اتنی محبت کہ اگر میں اس سے ایک منٹ بات نہ کروں تو شاید وہ مر جائے۔ اُسی نے مجھے احساس دلایا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ بنا اظہار کی جانے والی محبت بے کار ہے کیوں کہ ہر فرد آپ کے احساس کو نہیں سمجھ سکتا۔“
سعدی کی آج کی گفت گو ہمیشہ سے مختلف تھی اس کی باتیں حورعین کو حیران کررہی تھیں۔
”اب تم کس کے ساتھ پھرتی ہو، یونیورسٹی کے بعد کیا کیا کرتی ہو، یقین جانو مجھے اس سے کوئی دل چسپی نہیں رہی، کیوں کہ میری دل چسپی کا محور تبدیل ہوچکا ہے۔ بہتر ہے کہ تم بھی اپنے لیے وہ راستہ چن لُو جو تمہیں سکون دے۔ بلاوجہ دوسروں کی خوشی کے لیے یہاں وہاں مت بھٹکو۔“
سعدی کو جو کہنا تھا کہہ دیا حورعین نے اُس کی جانب دیکھ کر ایک گہری سانس لی۔
”دیکھو سعدی اگر تم یہ سمجھ رہے ہو کہ تمہاری اس طرح کی باتیں میرے اندر کسی انجان لڑکی کے لیے حسد اور جلن بھر دیں گی تو یقینا تمہاری سوچ غلط ہے۔ کیوں کہ تم اچھی طرح جانتے ہو میں اس طرح کی لڑکی نہیں اس لیے پلیز اب یہ مذاق ختم کرو جو ہوگیا اُسے بھول جاو ¿۔ میرے اور مقیت کے بارے میں تمہارے دل میں جو کچھ بھی ہے وہ محض غلط فہمی ہے اور کچھ نہیں۔“
”میں مذاق نہیں کررہا حورعین اب تم جاو ¿ یہاں سے اور سمجھنا کہ ہمارے درمیان کبھی کچھ نہیں تھا۔“
حورعین نے دیکھا وہ بہت زیادہ سنجیدہ تھا۔
”مجھے اتنے سالوں بعد آج پتا چلا کہ محبت کا تعلق شکل و صورت سے نہیں ہوتا بلکہ کسی کا اچھا اخلاق، آپ کو چاہا جانا اور اس کا اظہار آپ کے لیے سب کچھ ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اب مجھے مل گیا ہے۔“
اب حورعین کے پاس مزید کچھ کہنے کے لیے نہ بچا تھا۔ سعدی کے ان آخری لفظوںنے اُس سے شاید حق ملکیت کا دعویٰ چھین کر سعدی کو ایک اجنبی شخص بنا دیا تھا اور کسی اجنبی کے آگے اپنے دلی احساسات کو بیان کرنا محض اپنی بے عزتی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ اس سوچ نے اُسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا اور وہ اپنا ہینڈ بیگ اُٹھا کر سعدی کے کمرے سے باہر نکل آئی۔ اُسے جویریہ آنٹی سیڑھیوں پر ہی مل گئیں۔
”ارے تم کہاں جارہی ہو؟ میں تمہارے لیے بریانی بنا رہی ہوں کھا کر جانا۔“
” سوری آنٹی میرا اس وقت کچھ بھی کھانے کو دل نہیں کررہا۔“
اُس کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔
”کیا ہوا حورعین، سعدی نے کچھ کہا ہے؟“آنٹی نے بازو سے تھام کر اُسے روکا۔
اُس نے خاموشی سے جویریہ آنٹی کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور تیزی سے سیڑھیاں اتر گئی اور پھر اگلے چند دنوں میں جویریہ آنٹی کے آنے والے فون نے بتا دیا کہ فی الحال سعدی شادی نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرنے باہر جارہا ہے۔ یہ خبر دوسروں کے لیے حیران کُن ضرور تھی مگر حورعین کے لیے نہیں کیوں کہ وہ ذہنی طور پر سعدی کو خود سے جدا کرچکی تھی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

کوزہ گر ۔ افسانہ

Read Next

کلپٹومینیا ۔ ناولٹ

One Comment

  • ناولٹ نامکمل ہے اسے مکمل کردیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!